میں یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جو مضمون میں خود سے لکھتا ہوں وہ فی البدیع نہیں ہوتا بلکہ حتی الوسع کافی مطالعہ اور چھان بین کے بعد لکھتا ہوں ۔ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور علم حاصل کرنے کیلئے تَن دہی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں علم کے حصول کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے گھر بیٹھے بٹن دبایا اور مونیٹر کی سکرین پر دنیا جہاں کا علم حاصل کر لیا ۔ کہاں ہمارا زمانہ کہ استاذ نے کتاب بتا دی اور سارے شہر کے کتاب گھر چھان مارے ۔ لائبریریوں پر بھی دستک دی مگر کتاب نہ ملی ۔ پھر پانچ سات ہم جماعت مل کر پیشگی قیمت ادا کر کے مختلف کتابوں کی ایک ایک جلد آرڈر کرتے جو چھ سے آٹھ ہفتے بعد ملتیں ۔ باری باری ہر کتاب پڑھی جاتی اور امتحان کے قریبی دنوں کیلئے ہر لڑکا اپنے نوٹس تیار کر لیتا کہ ہر ایک کو ایک ہی وقت ایک ہی کتاب دستیاب نہ ہو سکتی تھی ۔ آج اتنی سہولیات کے باوجود جب کوئی میرے جیسا کم علم اپنی ادنٰی معلومات یا تجربات کو پیش کرنے کی جرأت کرتا ہے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ کوئی اتنی بھی کوشش نہیں کرتا کہ پہلے
متعلقہ کتاب یا کُتب کا مطالعہ کر لے ۔
قوموں کی ترقی کا راز کتابیں پڑھنا ہی ہے لیکن صرف فلمی کہانیوں کی نہیں ۔ میں نے اپنی تحریر بعنوان ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی ہمکلام ہوتے ہیں ” اس امید سے لکھی تھی کہ ترقی یافتہ جدید دور کے جواں دماغ میری رہنمائی کریں گے لیکن بغیر دین کی سب سے مستند کتاب ” قرآن شریف ” [جوکہ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ کا اپنا فرمان ہے] کا صحیح طور مطالعہ کئے ۔ فتاوٰی نازل ہونے شروع ہو گئے ۔ میں نے کچھ حوالے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کلام سے دیئے مگر صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہ آئی ۔
ہمکلام ہونا تین طرح کا ہے ۔ ایک ۔ جس کا نتیجہ مکالمہ ہو یعنی دونوں اطراف سے کلام ہو ۔ اس میں براہِ راست یا آمنے سامنے بات چیت یا آجکل ٹیلیفون پر بات کرنا شامل ہے ۔ دوسرا ۔ یکطرفہ یعنی پیغام کسی ذریعہ سے پہنچا دینا ۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ ایک جس میں صرف پیغام دینا مقصود تھا جواب کی ضرورت نہ تھی ۔ دوسرا ۔ جس کا پیغام وصول کرنے والے نے جواب نہ دیا ۔ اس آخری قسم کی بھی دو شاخیں ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغام وصول کرنے والے کو پیغام کی سمجھ ہی نہ آئی ۔ دوسرے یہ کہ سمجھ آئی مگر جواب دینا مناسب نہ تھا ۔ کچھ اور نہ سہی اگر ہم صرف قرآن شریف کا ہی صحیح طرح مطالعہ کر لیں تو یہ ساری صورتیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ نے ہمیں سب کچھ بتا یا ہے اور بار بار غور کرنے کی تلقین بھی کی ہے ۔
میں نے جان بوجھ کر لفظ ” وحی ” کی بجائے ” ہمکلام ” استعمال کیا تھا کہ ” وحی ” لکھنے سے ڈر تھا کہ کوئی طوفان نہ اُٹھ کھڑا ہو اور کہیں میری گردن زدنی کا فتوٰی نہ جاری ہو جائے ۔ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ [Urdu Encyclopedia of Islam] کے مطابق ” وحی ” کے معنی ہیں ۔ لطیف اور مخفی اشارہ ۔ پیغام [رسالت] ۔ دِل میں ڈالنا [الہام] ۔ چھُپا کر بات کرنا [کلامِ خفی] ۔ کتابت [لکھنا] ۔ کتاب یا مکتوب ۔ جو کچھ دوسرے کے دل یا ذہن میں ڈال دیا جائے ۔
اہلِ لغت کے نزدیک ” وحی ” کے معنی یہ ہیں کہ کسی سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کی جائیں کہ کوئی دوسرا سن نہ پائے
عام زبان میں ہم لوگ وحی سے صرف وہ کلام لیتے ہیں جو اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقِہِ سے انبیاء علیہم السلام کو پہنچا ۔
لیکن کیا کیا جائے ان الفاظ کا جو پیدا کرنے والے کے ہیں ۔ اپنے مطالعہ اور ہمت کے مطابق قرآن شریف کی چند آیات پیشِ خدمت ہیں [اور بھی کئی ہیں] ۔ ان آیات میں لفظ ” وحی ” لُغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ مذکورہ آیات میں اس کے مفہوم میں مخفی تلقین ۔ فطری تعلیم ۔ لطیف و خفیہ اشارے ۔ فطری حُکم ۔ دِل میں بات ڈالنا اور وَسوَسہ پیدا کرنا شامل ہیں ۔
سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 111 ۔ وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَی الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” أَوْحَيْتُ ” وحی سے بنا ہے]
اور جب میں نے حواریوں کے دل میں [یہ] ڈال دیا کہ تم مجھ پر اور میرے پیغمبر [عیسٰی علیہ السلام] پر ایمان لاؤ
سُورت ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیت ۔ 121 ۔ وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَإِنّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَی أَوْلِيَآئِہِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوھُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” لَيُوحُونَ ” وحی سے بنا ہے]
اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر [ذبح کے وقت] اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بیشک وہ [گوشت کھانا] گناہ ہے ۔ اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کے دِلوں میں [وَسوَسے] ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چل پڑے [تو] تم بھی مشرک ہو جاؤ گے
سُورت ۔ 16 ۔ النَّحْل ۔ آیت ۔ 68 ۔
وَأوْحَی رَبُّكَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” أوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور آپ کے رَب نے شہد کی مکھی کے دل میں [خیال] ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور انگور کی بیلوں میں
سُورت ۔ 28 ۔الْقَصَص ۔ آیت ۔ 7 ۔ وَ أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ ۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” أَوْحَيْنَا ” وحی سے بنا ہے]
اور ہم نے موسٰی [علیہ السلام] کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو
سُورت ۔ 41 ۔ فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَہ ۔ آیت ۔ 12 ۔ و اُوْحَی فِي كُلِّ سَمَاءٍ اَمْرَھَا ۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” اُوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اور اللہ نے ہر آسمان [کی مخلوق] کو اس کے حُکم بھیجے
سُورت ۔ 99 ۔ الزَّلْزَلَة / الزِّلْزَال ۔ آیات 4 ، 5 ۔ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَھَا ۔ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَی لَہَا ۔ ۔ ۔
[اس آیت میں ” أَوْحَی ” وحی سے بنا ہے]
اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرگذرے گی ۔ یہ اسلئے کہ آپ کے رَب نے اسے یہی حکم دیا ہے ۔
سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صَدَقَ اللہُ العَظِیم ۔ ۔ ۔
ترجمہ : تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے