انتہاء پسندی ۔ ۔ ۔ طالبانائزیشن یا ماڈرنائزئشن

میں ایک ماہ قبل اس سلسلہ میں ایک مقالہ لکھنا چاہ رہا تھا مگر تحریر طویل ہونے کے خدشہ سے وقت نکلتا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر کو آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑا کر سوچ ہی بدل کر رکھ دی ۔ اب شاہ فیصل صاحب نے دو سال دساور میں رہ کر وطن واپس آنے پر اپنے تجربہ کا اظہار کیا تو سوچا کہ صورتِ حال کی اپنے مطالعہ اور تجربہ کی بنیاد پر وضاحت کی کوشش کروں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری رہنمائی فرمائے ۔ آمین ۔

پہلے میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھ لیجئے
بتاریخ 20 اگست 2005ء
بتاریخ 24 اگست 2005ء
بتاریخ 2 ستمبر 2005ء

انتہاء پسندی طالبان کی ہو یا دین سے آزاد دنیا کی اس کا ٹکراؤ ازل سے جاری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی شیطانیت ۔ فساد اور ظُلم انتہاء کو پہنچا اس کے ردِعمل میں مذہبی انتہاء پسندی نے جنم لیا ۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پہل ہر دور میں شیطانیت کے ظُلم نے کی ۔ یہ سلسہ ہزاروں سال پرانا ہے ۔ آج اگر لونڈے بازی کو مغربی دنیا میں جائز قرار دیا گیا ہے تو سیّدنا لوط علیہ السلام کے زمانہ کی قوم نے بھی اسے جائز قرار دیا تھا ۔ ردِعمل کے طور پر سیّدنا لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ بالآخر اللہ تعالٰی نے قومِ لوط کا نام و نشان مٹا دیا ۔ آج اگر نام نہاد آزاد دنیا میں عورت کو شہوت رانی کا کھلونا بنا دیا گیا تو نمرود و فرعون آخر کیوں اپنی رعایا کے لڑکوں یا مردوں کو مار دیتے تھے اور ان کی لڑکیوں یا عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ؟ فرعون کیلئے سیّدنا موسٰی علیہ الاسلام مخالفت لے کر اُٹھے اور اللہ تعالٰی نے فراعین کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ کلوپیٹرا کے قصوں سے بھری کتابیں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہر زبان میں ملتی ہیں ۔ تاریخ کے ورق اُلٹیے تو اور بھی بہت سے واقعات نظر آئیں گے ۔ لیکن باقی وہی رہا جو حق پر تھا ۔ یہ اس دنیا کے پیدا کرنے اور چلانے والے کا دستور ہے ۔

اللہ تعالٰی نے اچھائی اور برائی کی تمیز ہر انسان میں رکھی ہے لیکن شیطان ہر وقت خودسری پر اُکساتا رہتا ہے پھر جو انسان شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے وہ اچھائی کو جانتے ہوئے برائی کی طرف قدم بڑھاتا ہے ۔ میں اپنی زندگی میں ایسے سینکڑوں انسانوں سے ملا ہوں جنہوں نے تخلیے میں برائی کا اقرار کیا لیکن بہت کم تھے جو برائی سے باز آئے ۔

ہم صبح شام سائنس کے گُن گاتے ہیں لیکن کبھی سائنس کے سادہ سے اصول کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہر عمل کا ردِ عمل اتنا ہی شدید ہوتا ہے جتنا کہ خود عمل ہو ۔ عصرِ حاضر میں بات زور شور پر تو چند سال پہلے پہنچی اور ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے لیکن یہ سلسلہ پاکستان میں چند سالوں کی بات نہیں ۔ 1970ء کی دہائی میں حکومتی سرپرستی میں روشن خیالی کو فروغ دینا شروع کیا گیا ۔ ثقافتی اداروں میں الحاد پرستوں کو تعینات کیا گیا ۔ ٹی وی کے ڈراموں کو خاص طور پر اس کیلئے استعمال کیا گیا ۔ ایسی کہانیاں دکھائی گئیں جن سے تأثر ملتا تھا کہ وڈیرے یا چوہدری کو حکمرانی کا حق ہے ۔ وہ جس زمین پر چاہے قبضہ کر لے ۔ جو لڑکی چاہے اُٹھا لے ۔ جس کو چاہے مروا دے یا قید کرا دے ۔ عام آدمی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ پھر ایک ڈرامہ ایسا بھی دکھایا گیا جس میں ایک شخص کے دوست نے اس کے گھر آنا تھا لیکن اسے دفتری کام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا ۔ اس نے گھر ٹیلیفون کر کے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ میرا پرانا دوست ہے اس کی اچھی خاطر مدارات کرنا ۔ بیوی نے جواب دیا “کر رہی ہوں”۔ دکھایا گیا کہ اس وقت اس کے دوست نے اس کی بیوی کا ایک کندھا اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے ۔ اسی زمانہ میں شراب خانے کھلنے شروع ہوئے اور رقص کی محفلیں جو اکّا دُکّا ہوتی تھیں عام جمنے لگیں ۔

اس ڈرامہ پر شدید ردِعمل ہوا ۔ اسی دور میں عام آدمی پر حکمرانی طاقت کا استعمال شروع ہوا تو مخالف جماعتیں بھی سخت ہوتی چلی گئیں ۔ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن نے حکومت کی پشت پناہی سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لاقانونیت شروع کی جس میں اسلحہ کا آزادانہ استعمال ہوا تو اسلامی جمیعت طلبا اور کچھ اور سٹوڈنٹ آرگنائزیشز کے لڑکوں نے بھی ہتھیار رکھنے شروع کر دیئے اور یہ امن پسند طلباء تنظیمیں شدت پسند بنتی گئیں ۔ نتیجہ ظاہر ہے ٹکراؤ کی صورت میں نمودار ہوا جو آج تک جاری ہے اور شدت اختیار کر چکا ہے ۔

پچھلے سات سال میں جو کچھ ہوا اور جس تیزی سے ہوا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ نجی ٹی وی چینل بنوا کر اُنہیں مادر پدر آزاد پالیسی دے دی گئی جس کے نتجہ میں لفنگ پنے اور فحاشی کا ایسا بازار گرم ہوا کہ میرے جیسے لاکھوں لوگوں نے ٹی دیکھنا ہی بند کر دیا اور کچھ سال بعد ٹی وی لائیسنس فیس دینا بند کردی جس کے نتیجہ میں حکومت نے پی ٹی وی کو بچانے کیلئے لائیسنس فیس بجلی کے بلوں میں زبردستی وصولی کی خاطر شامل کر دی ۔ شراب جسے ہماری قوم کے پڑھے لکھے جاہلوں نے بڑے پن کی نشانی سمجھا پہلے محدود تھی اور محدود مقامات پر ہی پی جاتی تھی ۔ اب یہ عام ہو چکی ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو گھر اور سودا سلف لانے تک محدود کر لیا ہوا ہے اس کے باوجود شراب کے نشے میں دھت کوئی مرد یا عورت سڑک پر یا بازار میں نظر آ جاتے ہیں ۔ سورج غروب ہونے کے بعد کراچی ۔ لاہور یا اسلام آباد میں کسی بڑے ہوٹل یا ریستوراں میں چلے جائیے یا کسی سیر و سیاحت کے مقام پر ۔ آپ کو یورپ یا امریکہ اور پاکستان میں کم ہی فرق نظر آئے گا ۔ بعض اوقات اچانک سامنے آ جانے والی عورت کا لباس دیکھ کر شریف النفس مرد پریشان ہو جاتے ہیں ۔ میں کسی غیر مسلم کی نہیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں اور والیوں کی بات کر رہا ہوں ۔

ہم 1994 سے جس درزی سے کپڑے سلواتے ہیں پانج چھ سال پہلے میں نے اس کی دکان پر ان رسالوں کا ڈھیر دیکھا جن میں فلمی اور ٹی وی اداکاراؤں اور ماڈل گرلز کی تصاویر ہوتی ہیں ۔ میں نے کہا “یہ کیا لے آئے ہو ؟” تو جواب میں کہنے لگا “بھائیجان کیا کروں ۔ خواتین کہتی ہیں ۔ فلاں ڈرامہ یا فلم میں فلاں اداکارہ نے فلاں وقت جو لباس پہنا تھا وہ بنا دیں ۔ میرے پاس تو نہ فلم دیکھنے کا وقت ہے نہ ڈرامہ دیکھنے کا ۔ میں یہ رسالے پرانی کتابوں کی دکان سے لے آیا ہوں ۔ تاکہ وہ ان میں سے پسند کرلیں”۔

ردِعمل کے طور پر پچھلے سات سالوں میں دینی مدارس میں طلباء و طالبات کی تعداد تیز رفتاری سے بڑھی اور ان میں دوسری یونیورسٹیوں کے گریجوئٹ طلباء و طالبات بھی شامل ہو گئے ۔ آج سے دس بارہ سال قبل اسلام آباد میں سوائے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طالبات کے پردہ کرنے والی لڑکیاں یا عورتیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اب اسلام آباد کے ہر علاقے ہر سڑک پر مکمل پردہ کرنے والی لڑکیاں اور عورتیں دیکھی جاتی ہیں اور ان میں غالب اکثریت پڑھی لکھی اور کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیوں اور خواتین کی ہے ۔

انشاء اللہ اگلی نشست میں ہمارے معاشرہ کے اُس رنگ پر بات ہو گی جس کے متعلق شاہ فیصل صاحب نے پریشانی کا اظہار کیا ہے یعنی “ہمارے اردگرد کا ماحول اور ہماری معاشرتی مجبوریاں”

بانانا ریپبلِک بھی کیا ہے ؟

بانانا ریپبلک [Banana Republic] کی بہت مشہوری سُنی تھی مگر ہمارا زِیرو کمانڈو جنرل پرویز مشرف تو سب حدیں پھلانگ گیا ہے ۔ پڑھیئے رؤف کلاسرہ کی رپورٹ ۔ بشکریہ جنگ اخبار

ایک سابق سینئر بیوروکریٹ اعجاز رحیم نے نگران وفاقی کابینہ میں وفاقی وزیر صحت کے طور پر حلف اٹھایا تھا لیکن انہوں نے ابھی تک پلاننگ ڈویژن کے رکن کی اپنی پرانی حیثیت کو ترک نہیں کیا ہے۔ پلاننگ ڈویژن کے سربراہ کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور یہ وفاقی سیکریٹری پلاننگ کے کنٹرول میں ہے پیر کو وفاقی وزیر نے اپنی ذمہ داریاں اس وقت وزیر مملکت کے جونیئر کے طور پر انجام دیں جب اسلام آباد میں سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کا اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ وزیر مملکت نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ وفاقی وزیر نے اجلاس کے شرکاء میں غور و خوض کے لئے دستاویزات تقسیم کیں۔ نئے وفاقی وزیر اپنی نچلے درجہ کی (جونیئر) پلاننگ کمیشن کی ملازمت بظاہر اس وجہ سے نہیں چھوڑنا چاہتے کہ یہ ملازمت بہت منفعت بخش ہے ان کی ماہانہ تنخواہ 4 لاکھ روپے ہے ۔

دوہری ذمہ داریوں کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بطور وزیر صحت اعجاز رحیم اربوں روپے کے سوشل سیکٹر سے متعلق منصوبے سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے سامنے منظوری کے لئے پیش کریں گے اور پلاننگ ڈویژن کے رکن کے طور پر وہ انہی منصوبوں کا تخمینہ لگارہے ہوں گے اور سی ڈی ڈبلیو پی سی سے ان منصوبوں کی کلیئرنس کی منظوری دے رہے ہوں گے۔

دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز رحیم نے تصدیق کی کہ انہوں نے کابینہ میں شمولیت سے قبل پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ ایک بار وزیر بننے کے بعد وہ پلاننگ ڈویژن کے رکن نہیں رہے جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے یا پھر وفاقی وزیر کی حیثیت سے تنخواہ لے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہوں نے دونوں ملازمتوں سے کوئی تنخواہ نہیں لی ہے تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ اب بھی ممبر پلاننگ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پلاننگ ڈویژن کے سیکریٹری غیاث الدین نے تصدیق کی کہ اعجاز رحیم نے ابھی تک پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ غیاث الدین نے یہ تصدیق بھی کی کہ اعجاز رحیم پیر کو سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں موجود تھے جہاں انہوں نے پلاننگ کمیشن کے رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔

اللہ تعالٰی اب بھی ہمکلام ہوتے ہیں

یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے چھٹیوں می ایک دینی مدرسے میں جانا شروع کیا ۔ ایک دن معلِم نے بتایا کہ الہام اب بھی ہوتا ہے یعنی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی انسانوں سے ہم کلام ہوتے ہیں بشرطیکہ انسان کی نیت نیک ہو ۔ نوجوان بہت حیران ہوا ۔ مدرسے سے گھر کو روانہ ہوا تو کار میں بیٹھتے ہوئے امتحان کی خاطر اس نے دعا کی “یا اللہ ۔ آپ میرے ساتھ بات کریں تو میں میں آپ کا تابعدار بن جاؤں گا”۔

وہ کار چلاتے جا رہا تھا کہ اس کے ذہن میں آیا “کیوں نہ میں اگلے چوک سے داہنی طرف طرف مُڑ جاؤں”۔ اس پر وہ ہنسا اور خود سے کہنے لگا “پاگل ہو گئے ہو کیا؟ یہ سڑک تو تمہیں نمعلوم کہاں لے جائے گی”۔ اور وہ چوک سے گذر گیا لیکن داہنی طرف مُڑنے کا خیال اُسے تنگ کرنے لگا ۔ آخر اس نے اگلے چوک سے کار کو واپس موڑا اور پہلے والے چوک پر پہنچ کر بائیں جانب مڑ گیا ۔

تھوڑی دیر بعد وہ ایک چھوٹے قصبے کی دکانوں کے سامنے سے گذر رہا تھا ۔ وہاں دکانوں پر دودھ کے بڑے پیکٹ دیکھ کر اس کے ذہن میں آیا کہ ایک بڑا پیکٹ دودھ کا خرید لوں تو اس نے کہا “یا اللہ ۔ کیا یہ آپ نے مجھے کہا ہے ؟”۔ کوئی جواب نہ آنے پر وہ کار چلاتا رہا ۔ لیکن پھر ایک اور دودھ کی دکان دیکھ کر اس کے ذہن میں وہی خیال آیا ۔ اس نے سوچا کہ دودھ کہیں نہ کہیں کام آ ہی جاتا ہے اور بُڑبڑایا “اللہ جی ۔ آپ کہتے ہیں تو دودھ لے لیتا ہوں” ۔ اس نے دودھ خریدا اور چل پڑا ۔

دکانیں ختم ہونے کے بعد ابھی تین بلاک فلیٹوں کے گذرے تھے کہ اس نے بے خیالی میں بریک لگا دی ۔ گاڑی کھڑی ہو گئی تو وہ خال ذہن سے بائیں طرف کے فلیٹوں کو دیکھنے لگا ۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر سے بہت دور نکل گیا ہے اور رات بھی کافی گذر چکی ہے ۔ اس نے گھڑی دیکھی تو گیا بجے تھے ۔ کار موڑنے لگا تو اس کی دودھ کے پیکٹ پر نظر پڑی ۔ اس کے ذہن میں آیا کہ “میں تو دودھ پیتا نہیں ۔ کیوں نا یہ دودھ سامنے والے فلیٹ میں دے دوں” پھر بڑبڑایا “یا اللہ ہے کیا آپ کا حکم ہے ؟ لیکن آدھی رات ہونے کو ہے اور لگتا ہے سب سوئے ہوئے ہیں اگر فلیٹ والا مجھ پر برس پڑا تو “۔ لیکن تحریک مظبوط تھی اور وہ بادلِ نخواستہ دودھ کا پیکٹ تھامے کار سے نکلا اور سامنے والے فلیٹ کی گھنٹی بجا دی ۔

دروازے پر لگا گھنٹی کا بٹن دبا کر وہ ڈر سے بھاگنے ہی والا تھا کہ اندر سے آواز آئی “تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو ؟” وہ رُک گیا اور جونہی ایک مرد دروازے میں نمودار ہوا اُس نے دودھ کا پیکٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ اندر سے آنے والا مرد اسے رُکنے کا کہہ کر اندر کی طرف بھاگا ۔ ایک منٹ بعد اس نے ایک عورت کو دودھ کا پیکٹ پکڑے باورچی خانہ کی طرف تیزی سے جاتے دیکھا اور وہ مرد اس عورت کے پیچھے ایک دو تین سالہ بچے کو اٹھائے آ رہا تھا ۔ اس نے عورت کی آواز سُنی “میں اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ بچہ کل سے بھوکا ہے تو رحیم ہے کریم ہے اور رازق بھی ۔ سب کچھ تیرے اختیار میں ہے ۔ ہم بھوکے رہ لیں گے لیکن اس بلکتے بچے پر اپنا کرم فرما ۔ انسانی وسیلے ہمارے ختم ہو چکے ہیں ۔ تو کسی فرشتے کو ہی اس بچے کی مدد کیلئے بھیج دے”۔ چند منٹ بعد مرد نے آ کر اُسے بتایا کہ اس کی تنخواہ اس ماہ یوٹیلیٹی بل زیادہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی اور وہ دو دن سے بھوکے ہیں مگر بچے کا بھوک سے بِلکنا اُن سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔

اُس نے اپنی جیبوں سے تمام نقدی نکال کر اُس مرد کے ہاتھ میں تھمائی اور تیزی سے اپنی کار میں بیٹھ کر سٹارٹ کر دی ۔ وہ جذبات سے مغلوب آنسو بہاتا ہوا اللہ سے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتا گھر پہنچا اور بغیر کچھ کھائے پئیے اُسی طرح پڑ کر سو گیا ۔ اگلے دن وہ اپنے آپ کو بہت سکون میں محسوس کر رہا تھا ۔

دھماکوں کی مزید تفصیل

راولپنڈی پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ دونوں دھماکوں میں تیس افراد مارے گئے ہیں۔ چشم دیدگواہوں کے مطابق حملے کا نشانے بننے والی بس جب کیمپ کے اندر داخل ہوئی تو ایک چھوٹی گاڑی بھی اس کے پیچھے اندر چلی گئی، پھر زوردار دھماکہ ہوا اور بس کو آگ لگ گئی۔ نشانہ بننے والی بس بری طرح جل چکی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جس وقت یہ دھماکہ ہوا تو اس وقت گاڑی میں 40 سے زائد افراد سوار تھے اور ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں قابل شناخت نہیں رہیں۔

دھماکے کے بعد جب مختلف ہسپتالوں کی ایمبولنس گاڑیاں وہاں پہنچیں تو موقع پر تعینات فوجی اہلکاروں نے انہیں کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور صرف فوج کی ایمبولنس گاڑیوں کو لاشیں اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔

پولیس ذرائع کے مطابق بیالیس تابوت اوجڑی کیمپ میں بھیجے گئے ہیں اور اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے کسی شخص کی لاش کو جی ایچ کیو نہیں بھیجا گیا۔

دوسرا دھماکہ جی ایچ کیو کے داخلی دروازے کے پاس ہوا جس میں ایک شدت پسند نے اپنی گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی جس سے شدت پسند سمت دو افراد ہلاک ہوگئے۔

ان دھماکوں کی کوریج کے لیے جب میڈیا کے لوگ وہاں پہنچے تو حساس اداروں کے اہلکاروں نے ان سے کیمرے چھین لیے۔

گزشتہ دو ماہ کے دوران راولپنڈی میں پاکستانی فوج پر پانچ خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ذیادہ تعداد فوجی اہلکاروں کی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ان حملوں کا سراغ نہیں لگا سکے۔