جو ہم چھوڑیں اور غیر اپنائیں

تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی جو مشرقی ثقافت تھی اس کو ہم فرسودہ جان کر چھوڑ رہے ہیں اور غیر جو نہ صرف اسلام بلکہ ہر باعمل مسلمان کے دشمن ہیں وہ ہماری ثقافت کے اجزاء پر یکے بعد دیگرے تحقیق کر کے اسے انسانی صحت کے لئے مفید ثابت کر رہے ہیں ۔ اس وقت ذکر صرف معانقہ یعنی بغل گیر ہونے کا ۔ صرف چند دہایاں پہلے جب دو مسلمان عزیز یا دوست ملتے تو بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے معانقہ کرتے یعنی بغلگیر ہوتے اور ان کے چہرے بشاش ہو جاتے ۔ ہماری نام نہاد ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب دو عزیز یا دوست ملتے ہیں تو دور ہی سے صرف ایک ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے کے پچھلی طرف لگا کر کے سمجھتے ہیں معانقہ ہو گیا ۔ اگر صحیح طرح معانقہ کیا جائے تو جسم میں ایک تازگی آ جاتی ہے ۔ ہم نمعلوم کس وجہ سے یہ چھوٹی چھوٹی صحتمند عادتیں چھوڑتے جارہے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق بغل گیر ہونے سے صحت زیادہ بہتر رہتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنامیں کی جانے والی تحقیق میں 38 جوڑوں پر بغل گیری کی عادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خوشی یا گرم جوشی سے بغل گیر ہونے سے جسم میں ایک ایسے ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جس کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں پہلے مرحلے میں جوڑوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا اور ان کا بلڈ پریشر اور ہارمون کا لیول نوٹ کیا گیا ۔ بعد میں انہیں بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد ایسے ہارمون میں اضافہ دیکھا گیا جو دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ایسے جوڑے جن کے درمیان ایک خوشگوار اور پیار کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایسے ہارمون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بغل گیری سے خواتین میں مردوں کی نسبت ان ہارمونز کا لیول زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔

ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار  سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔ الله کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اُ گ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار  شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔

جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ

بچو کہانی پسند آئی ؟  اپنی رائے ضرور بھیجنا

اگر ایم ایس ونڈوز اردو میں ہوتی

Windows XP =     کھڑکیاں کاٹا پیٹی

File = مسل  – – – Save As = اسطرح بچاؤ

Save =بچاؤ   – – – Mailer = ڈاکیہ  

Help =  مدد  – – – Select All =  سب چنو      

Find = ڈھونڈو – – – Find Again = پھر ڈھونڈو     

Move = ہلاؤ   – – –  Mail = ڈاک           

Zoom in =  پھیلاؤ – – – Zoom out = سکڑاؤ  

Open = کھولو  – – – Close = بند کرو    

New = نیا   – – – – Replace = بدلو    

Run = بھگاؤ – – –    Print = چھاپو 

Cut = کاٹو – – – Print Preview =جائزہ چھپائی

Delete=کاٹو  – – – Copy = نقل مارو  

Paste =  چپکاؤ – – –  Insert  = گھساؤ

View = نظارہ – – – Database = معلومات بنیاد

Tools = اوزار – – –  Toolbar = اوزار ڈ نڈی

Mouse  =  چوہا – – – Click = ٹک کرو  

Spreadsheet=بچھاؤ چاور – – – Tree = درخت   

Compress  =  باؤ  – – – Exit = نکلو

Scrollbar  =  لپیٹن ڈ نڈی   

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔

میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی کئی مضامین یاد کئے سال میں ان گنت ٹیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ دس سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مشکل ہوتی گئی ۔ دس سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔

میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمشکل روزانہ ایک وقت کی سوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اسی رٹ میں جت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ چھ سال بعد بی ایس انجنئرنگ کا سرٹیفیکیث مل گیا ۔

پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔

سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سار دن محنت کی پھر بھی باس کم ہی خوش ہوۓ ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوۓ پورا دن نوکری کی ۔ جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کروں ۔ سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں ۔ ظلم کروں ۔ کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟

پاکستان کے سکولوں میں کئی عیسائی لڑکے اور لڑکیاں بائبل کی بجاۓ اسلامیات پڑھتے ہیں کیونکہ اسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں ۔ بائیس سال قبل بھرتی کے لئے انٹرویو لیتے ہوۓ مجھے چند عیسائی امیدواروں نے حیران کیا کیونکہ انہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان امیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ لیکن اس سے وہ مسلمان تو نہیں بن جاتے ۔ 

شائد 1981 کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل افیئرز تھا ۔ میں نے اسے تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ اس نے کہا اشہد ان لا الہ الاللہ محمدالرسول اللہ ۔ میری حیرانی پر اس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں نے لبنان میں مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں ۔

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّ اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔  اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اسلام ۔ دین یا مذہب ؟

یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے    لفظ religion   کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیہ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔ یہاں کلک کر نےکے بعد صفحہ 176 کھولیئے ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔ 

مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ”  تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔   

ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع  ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔

ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں  امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔

آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی

اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے

خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے

آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں

آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات

سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :

ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس

ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”

جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔

ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں

In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.

Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”

نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]

“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.

Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”

Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.

The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.

The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.

When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.

With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.