مدرسوں میں  کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟

میں صرف اپنے چشم دید کچھ واقعات اور ان سے مرتب ہونے والے خیالات بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ پہلے اپنے سائنسدانی سکولوں میں دینیات کا حال ۔

ہمارے سکول ۔ چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہمارے جو استاد تھے وہ دینی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ ایک لڑکے کو کہتے پڑھو ۔ وہ کھڑا ہو کر دوسرے پارہ کی بلند آواز سے تلاوت شروع کر دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد استاد کہیں چلے جاتے اور طلباء اپنی مرضی سے پڑھتے رہتے ۔ دو سال ہم صرف دوسرا پارہ پڑھتے رہے ۔ آٹھویں جماعت میں میں دوسرے سکول چلا گیا ۔ وہاں کے استاد بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ وہ کسی لڑکے کو پڑھنے کا کہہ کر خود کرسی پر دونوں پاؤں رکھ کر اکڑوں سو جاتے ۔ لڑکوں کے شور سے جاگ جاتے تو جو سامنے ہوتا اس کی پٹائی ہو جاتی ۔ ایک دن ایک لڑکا نیکر پہن کر آگیا ۔ استاد اسے شیطان کا بچہ شیطان کا بچہ کہتے گئے اور چھڑی سے پٹائی کرتے گئے ۔ اس کی ٹانگوں پر نیل پڑ گئے ۔ وہ کمشنر کا بیٹا تھا اس لئے استاد کی چھٹی ہو گئی ۔

پھر مولوی عبدالحکیم صاحب کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا ۔ وہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے اور راولپنڈی کی تین بڑی مساجد میں سے ایک کے خطیب تھے ۔ انہوں نے نویں جماعت میں سلیبس کے علاوہ ہمیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی قرآن اور سنّت کی روشنی میں بڑی اچھی طرح سمجھائے ۔ ایک دن پڑھانے کے دوران ایک لڑکا شرارتیں کر رہا تھا ۔ دو بار منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا تو مولوی صاحب نے اس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے دن کلاس میں مولوی صاحب نے اس لڑکے کے پاس جا کر کہا بیٹا غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے اسی لئے حرام ہے ۔ مجھے غصہ آگیا تھا اور میں نے آپ کی پٹائی کر دی مجھے معاف کر دو ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے سکول کے ایک خلاف اسلام فنکشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ ایک سال بعد ان کی چھٹی ہو گئی ۔

دسویں جماعت میں جو صاحب اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے ہمیں اسلامیات بالکل نہیں پڑھائی صرف شعر سناتے رہے اور کبھی کبھی افسانے ۔ موصوف شاعر تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی رکھی تھی شائد اسی لئے اسلامیات کے استاد بنا دیئے گئے ۔ ارباب اختیار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو بتایا گیا ۔ فکر کی ضرورت نہیں اسلامیات کا امتحان نہیں ہو گا ۔

 میں نے 1983 میں بوائے آرٹیزن کے لئے 1200 فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس امیدواروں کا انٹر ویو لیا ۔ ہر امیدوار سے انگریزی ۔ حساب اور اسلامیات کے سوال پوچھے ۔ سوائے دو تین کے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خلفائے راشدین کیا ہوتا ہے ۔ اکثر لڑکوں کو نماز کا صحیح طریقہ معلوم نہ تھا ۔ ایک امیدوار نے اسلامیات کے سوالوں کے فرفر جواب دیئے ۔ میں نے مزید سوال پوچھے اس نے صحیح جواب دیئے ۔ ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ یہ لڑکا عیسائی ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ عیسائی ہوتے ہوئے اسلامیات پڑھتے ہیں ؟  کہنے لگا بائبل کا کورس بہت زیادہ ہے ۔ اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب ہے اس لئے میں نے اسلامیات لی ۔ بارہ دن میں انٹرویو ختم ہوئے تو لیبر یونین کے صدر جو سیّد ۔۔۔ شاہ تھے میرے پاس آئے اور کہا سر آپ ظلم کر رہے ہیں اسلامیات نہ کوئی پڑھتا ہے نہ کوئی پڑھاتا ہے ۔ میٹرک میں اسلامیات میں فیل ہونے کے باوجود لڑکے پاس کئے جاتے ہیں ۔ کوئی سائنس وائنس کی بات کریں ۔

مدرسے ۔ میں پچھلے چالیس سالوں میں لاہور ۔ کراچی ۔ اکوڑہ خٹک ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی مدرسوں میں معلومات کی خاطر گیا ۔ سب مدرسوں میں زیادہ تر طلباء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا پیٹ پالنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی تعلیم کے علاوہ کھانے اور کپڑوں کا خرچ بھی مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ۔سب مدرسے لوگوں کی مالی امداد سے چلتے ہیں ۔ میں مدرسوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں ۔

اول ۔ رجسٹرڈ مدرسے جن میں سے کئی عرصہ دراز سے قائم ہیں ۔ ان مدرسوں میں تعلیم اور امتحانی نظام ہمارے سرکاری سکولوں اور بورڈوں سے بہتر ہے ۔ وہاں کوئی نقل نہیں ہوتی اور نہ کوئی سفارش یا رشوت سے پاس ہوتا ہے ۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ میں کم از کم دو ایسے اشخاص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنے باپوں کے مدرسوں سے گریجوایشن کی بنیاد پر برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان مدرسوں میں ہمیشہ سے غیر ملکی طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ مدرسوں میں دین کے علاوہ کچھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ کچھ مدرسے ایسے ہیں جہاں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی حساب سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ ۔ زیادہ تر رجسٹرڈ مدرسوں کے منتظم چندہ مانگنے نہیں جاتے لوگ از خود امداد کرتے رہتے ہیں ۔

دوم ۔ غیر رجسٹرڈ مدرسے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں اور عام طور پر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ زیادہ تر صرف قرآن شریف پڑھاتے ہیں اور کچھ مدرسے حفظ بھی کراتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں گرد و نواح کے بچوں کے علاوہ یتیم اور غریب بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے ارباب اختیار تنگ نظر ہیں ۔ ان مدرسون کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے مگر امریکی ایجنڈا کی بجائے پاکستانی ایجنڈا کے مطابق ۔

انگریزوں کی عیّاری ۔ گورداسپور اور جموں میں مسلمانوں کا قتل عام

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہء تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر بہت بڑا اور بہت اونچا پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے ۔          

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ لے آیا ہوں ۔ اس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا چنانچہ دودھ ابال کر رکھ دیا گیا ۔ بعد دوپہر دیکھا تو دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور مر گئی ۔ وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا ۔  

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور ان دنوں کشمیر کے کسی برفانی علاقہ میں تھے ۔ پتا چلا کہ ان کا خاندان ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہا ہے ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ ہم بچوں کو ساتھ لیجانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو کزن اور ایک سترہ سالہ پھوپھی ان کے ساتھ چلے گئے ۔ کچھ آٹا۔چاول۔دالیں۔تیل زیتون ایک لٹر اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے ۔

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو جے ہند اور ست سری اکال کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتا چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے کبھی وہاں سے گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے ۔ باقی انشاءاللہ آئیندہ

جاہل ملّا کہاں سے آئے

کہتے ہیں نیم حکیم خطرہء جان نیم مُلّا خطرہء ایمان ۔ صرف دو واقعات درج کروں گا ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اسی طرح دو ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی ۔

حکومت نے 1984 میں سکولوں میں مدرسوں سے سند یافتہ اسلامیات کے استاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں پانچ سو استاد بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے میں نے چھ اور تین ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا جناب اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پل رہے ہیں ان کو لے لیں ۔ فرمانے لگے محلہ میں جو بقیہ چار مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے ۔ میں نے حیرت سے کہا تو یہ امام کیسے بن گئے ۔ فرمایا لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے ۔

جاہل ملّا کہاں سے آئے ۔ ملّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا منبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جستجو جاری رہی ۔ آخر عقدہ کھلا ۔ ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد علم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علموم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دور دراز سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور علم حاصل کرتے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے ان مساجد کے ساتھ بڑی بڑی جاگیریں تھی ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے تھے ۔ 1857 میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انہوں نے ہنرمندوں کے ساتھ علماء بھی قتل کروا دیئے اور مساجد کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ پھر پسماندہ علاقوں سے لوگ چنے جو دینی علم نہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خود انگریزوں نے مقرر کئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل ملّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔    

فرقہ وارانہ تشدد ۔ موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

میں پاگل ہوں بیوقوف نہیں

دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب کیا پریشانی ہے ؟

ڈاکٹر ۔ کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے ۔ ڈھبری کو انگریزی میں نٹ کہتے ہیں ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں ۔

ڈاکٹر ۔ تم نے پاگل ہوتے ہو وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی ۔

مریض ۔ میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں ۔

ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔

آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32  کہانیوں میں سے عریاں سیکس کی شاہکار کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔

والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ  عریاں سیکس یا  پورنو  ہیں ۔ 

کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر پورنو ہیں ۔ لیکن انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور سیکس کی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ پورنو ہیں ۔

ایک اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟

جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی کچھ اس طرح سے سیٹ ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔  

ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔ سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔ سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ۔

آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔

اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اساسوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اساسے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اساسوں پر قبضہ کیا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔

(ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد  سب فتنہ کی قسمیں ہیں)

محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔

دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔   

جو ہم چھوڑیں اور غیر اپنائیں

تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی جو مشرقی ثقافت تھی اس کو ہم فرسودہ جان کر چھوڑ رہے ہیں اور غیر جو نہ صرف اسلام بلکہ ہر باعمل مسلمان کے دشمن ہیں وہ ہماری ثقافت کے اجزاء پر یکے بعد دیگرے تحقیق کر کے اسے انسانی صحت کے لئے مفید ثابت کر رہے ہیں ۔ اس وقت ذکر صرف معانقہ یعنی بغل گیر ہونے کا ۔ صرف چند دہایاں پہلے جب دو مسلمان عزیز یا دوست ملتے تو بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے معانقہ کرتے یعنی بغلگیر ہوتے اور ان کے چہرے بشاش ہو جاتے ۔ ہماری نام نہاد ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب دو عزیز یا دوست ملتے ہیں تو دور ہی سے صرف ایک ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے کے پچھلی طرف لگا کر کے سمجھتے ہیں معانقہ ہو گیا ۔ اگر صحیح طرح معانقہ کیا جائے تو جسم میں ایک تازگی آ جاتی ہے ۔ ہم نمعلوم کس وجہ سے یہ چھوٹی چھوٹی صحتمند عادتیں چھوڑتے جارہے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق بغل گیر ہونے سے صحت زیادہ بہتر رہتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنامیں کی جانے والی تحقیق میں 38 جوڑوں پر بغل گیری کی عادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خوشی یا گرم جوشی سے بغل گیر ہونے سے جسم میں ایک ایسے ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جس کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں پہلے مرحلے میں جوڑوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا اور ان کا بلڈ پریشر اور ہارمون کا لیول نوٹ کیا گیا ۔ بعد میں انہیں بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد ایسے ہارمون میں اضافہ دیکھا گیا جو دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ایسے جوڑے جن کے درمیان ایک خوشگوار اور پیار کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایسے ہارمون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بغل گیری سے خواتین میں مردوں کی نسبت ان ہارمونز کا لیول زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔