بُلبُل اور جُگنُو

ایک سبق آموز نظم جو ہم نے چھٹی جماعت میں پڑھی تھی

ٹہنی پہ کسی شجر کی تَنہا

بُلبُل تھا کوئی اُداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اُڑنے چُگنے میں دن گزارا

پُہنچُوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

سُن کر بُلبُل کی آہ و زاری

جُگنُو کوئی پاس ہی سے بَولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کِیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مُجھ کو مَشعَل

چَمکا کے مجھے دِیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر

سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں جہاں کہیں بھی ہوں عیدالاضحٰے مبارک
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار يہ کہنا چاہیئے
البتہ عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر يہ ورد رکھنا چاہیئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا
اللّھم صلی علٰی سیّدنا محمد و علٰی آل سیّدنا محمد و علٰی اصحاب سیّدنا محمد و علٰی ازواج سیّدنا محمد و سلمو تسلیماً کثیراً کثیرا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے الله کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

سوچ

سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے

 سوچ پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے

سوچ درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے

سوچ بیمار  ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے

سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے

زندگی

ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز

دیکھ لو اس کا تماشہ چند روز
لاکھ دارا اور سکندر ہو گئے

آج بولو وہ کہاں سب کھو گئے

آئی ہچکی موت کی اور سو گئے

ہر کسی کا ہے بسیرا چند روز
کل تلک رنگیں بہاریں تھیں جہاں

آج کب روح کے وہاں دیکھے نشاں

رنگ بدلے ہر گھڑی یہ آسماں

عیش و غم جو کچھ بھی دیکھا چند روز
کیا ملے گا دل کسی کا توڑ کے

لے دعا ٹوٹے دلوں کو جوڑ کے

جا مگر کچھ یاد اپنی چھوڑ کے

ہو جائے تیرا چرچا چند روز
ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز

دیکھ لو اس کا تماشہ چند روز

منافقت (Hypocrisy) کیا ہے ؟

سطحی نظر انسان کو حقیقت سے روشناس نہیں ہونے دیتی اور اس کی سوچ کو اس طرح ڈھال دیتی ہے کہ اسے اپنی بولی یا زبان بھی ناقص لگنے لگتی ہے یعنی ایک لفظ اس کی اپنی زبان میں بولا جائے تو اس کو فحش یا غیر مہذّب محسوس ہوتا ہے خواہ وہ خود اسی لفظ کو انگریزی میں کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو ۔ یہ بھی منافقت کی ایک قسم ہے ۔ اسی طرح میں اگر کسی فعل کو منافقت کہوں تو کئی صاحبان مجھ سے ناراض ہو جائیں گے مگر ہِپوکریسی کہنے سے ناراض ہونے کا امکان بہت کم ہو گا

الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے انسان کا ذہن ایسے تخلیق کیا ہے کہ بنیادی طور پر وہ اپنا عمل اور عقیدہ یا سوچ ایک رکھنا چاہتا ہے یعنی منافقت سے دُور رہنا چاہتا ہے ۔ اسی وجہ سے بچوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سب بچے جنت میں جائیں گے    

الجبراء کے قاعدہ سے

اگر  سوچ = عمل    تو  منافقت = صفر

منافقت کی ایک شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو

 منافقت کی دوسری شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد وہ نہ ہوں جو کہ حقیقی دِلی عقائد ہیں

منافقت کی تیسری شکل یہ ہے کہ حقیقی دِلی عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو

جتنی عقائد اور عمل میں تفاوت ہو گی منافقت اتنی ہی زیادہ اور گہری ہو گی

علاج

اِنہماک کے ساتھ حقائق کا ادراک کرنا چاہیئے

خلوصِ نیّت سے سچ کو ڈھونڈنا اور سمجھنا چاہیئے

اخلاقیات اور فرائضِ انسانی کا حقیقی ادراک کرنا چاہیئے

کيا ہوتا ۔ ۔ ۔

18 سال قبل 12 اور 13 جنوری کی درمیانی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نيچے تھا سردی لگنے سے مجھے بخار ہو گيا ۔ ليٹے ليٹے ميرا دماغ چلنا شروع ہو گيا ۔ ذہن سے جو شعر نکلے تھے وہ نذرِ قارئين ہيں

ميں دنيا ميں ہوں تو کيا ہوا ۔ گر نہ ہوتا تو کيا ہوتا

بچايا گناہوں سے الله نے ۔ مجھ پہ ہوتا تو کيا ہوتا

اپنائی نہ زمانے کی روِش کھائی ٹھوکريں زمانہ کی

چلتا ڈگر پر زمانے کی تو ترقی کر کے بھی تباہ ہوتا

لمبی تقريريں کرتے ہيں اوروں کو سبق دينے والے

خود کرتے بھلائی دوسروں کی تو اُن کا بھی بھلا ہوتا

کرو اعتراض تو کہتے ہيں تجھے پرائی کيا اپنی نبيڑ تو

اپنا بھلا سوچنے والے سوچتے دوسروں کا تو کيا ہوتا

کر کے بُرائی اکڑ کے چلتے ہيں ذرا ان سے پوچھو 

نہ ہوتا اگر الله رحمٰن و رحيم و کريم تو کيا ہوتا

ياد رکھنا ميرے بچو ۔ ميرے مرنے کے بعد بھی

چلنے والا صراط المستقيم پر ہے کامياب ہوتا 

پھول کی فریاد

یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی

کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر  اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو

میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو

شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے

تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے

میری خُوشبُو سے  بسائے گا بچھونا رات بھر

صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر

پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی

رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی

تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے

کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے

دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے

پَتی پَتی ہو چلی  بے آب ۔ مر جانے کو ہے

جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی

حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی

تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی

غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی

دُودھ شبنم نے پلایا تھا ۔ ملا وہ خاک میں

کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں

مہر  کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی

ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی

دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ

شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ

میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں

اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں

شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے

دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لےکلام ۔ احمد علی شوق