ہماری رہائش رياست جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی [صوبہ جموں] کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے دو اطراف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اُوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا
نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ گرمیوں میں بھی ہم 10 منٹ سے زیادہ نہر میں رہیں تو دانت بجنے لگتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔اگر پانی برتن میں نکال کر رکھ دیں تو ریت بیٹھنے کے بعد پانی شفاف ہو جاتا تھا
جموں میں بارشیں بہت ہوتیں تھیں اولے بھی پڑتے تھے مگر برف کئی کئی دہائياں نہیں پڑتی تھی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں
گرمیوں کا صدرمقام سرینگر تھا وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی تھی ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے سر سبز اور برف پوش پہاڑوں کی سیر کرتے ۔ سرینگر میں ہم کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں رہتے تھے جس میں 2 سونے کے کمرے مُلحق غُسلخانے اور ایک بڑا سا بيٹھنے اور کھانے کا کمرہ [Drawing cum Dining Room] ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک Cook Boat ہوتی تھی جس میں باورچی خانہ کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے
لوگ چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں وہ ساتھ نہیں لاتے تھے بلکہ مانگنے پر اُسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے
چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں
میرے والد صاحب کا کاروبار یورپ اور مشرق وسطہ میں تھا ۔ ان کا ہیڈکوارٹر طولکرم [فلسطین] میں تھا ۔ والد صاحب سال دو سال بعد ايک دو ماہ کے لئے جموں آتے تھے اور کبھی ہماری والدہ صاحبہ کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ 1946ء میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ اور 5 سالہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ فلسطین لے گئے اور میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس جموں ميں رہے
میں 10 سال کا تھا جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔ میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اواخر ستمبر 1947ء میں اپنے بزرگوں سے الگ ہو گئے اور پھر 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچنے پر ہماری اُن سے ملاقات ہوئی
پاکستان بننے سے پہلے کے 6 ماہ میں جو کچھ میں گلیوں اور بازاروں میں دیکھ چکا تھا اور بڑوں کے منہ سے سُن چکا تھا اور پھر جدائی کے ڈھائی تين ماہ کے دوران جس دور سے ہم گذرے اُس نے مجھے اتنی چھوٹی عمر میں غور و فکر کا عادی بنا دیا تھا ۔ میں ساری عمر اپنے وطن پاکستان کی بنتی اور بگڑتی صورت پر غور و فکر کر کے حقائق کا ہمیشہ متلاشی رہا
11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک غلام احمد کو گورنر جنرل بنایا گیا تو کچھ متفکر بزرگوں نے ایسا تاءثر دیا تھا کہ حقدار تو مولوی اے کے فضل الحق تھے جنہوں نے 23 مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان پیش کی تھی یا سردار عبدالرب نشتر تھے لیکن خاموشی رہی ۔ پھر جب ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی اور آزادانہ درست طریقہ سے منتخب ہونے والی اسمبلی توڑ دی تو مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ وفا کا جنازہ نکل گیا ہے ۔ اس کے بعد وقفہ وقفہ سے وفا کے جسم پر نشتر داغے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ ماحول ایسا بن گیا کے لوگ جفا کو ہی وفا سمجھنے لگے
ایسے ماحول نے مجھے زندگی میں کئی بار سوچنے پر مجبور کیا کہ “کیا میں اس دنیا کی بجائے کسی اور سیّارے کی مخلوق ہوں ؟” اگر میرا خالق و مالک جو رحمٰن و رحیم اور قادر ہونے کے ساتھ کریم بھی ہے میری رہنمائی نہ فرماتا اور میری حفاظت نہ کرتا تو میں کئی دہائیاں قبل ہی کہيں سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہوتا یا کسی کال کوٹھری کی زینت بن جاتا ۔ اس کیلئے میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے