میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا
جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں
جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے
پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی
ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی
پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے