دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟
مدرسہ کے پڑھے ہوئے لوگ ہی نہیں دوسرے لوگ جو مولوی نہیں انہوں نے بھی چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کے حق میں تقاریر کی ہیں اور ممکن ہے کچھ نے حصہ بھی لیا ہو مگر طلباء کو عسکری تربیت دینے کا نہ مدرسوں میں انتظام ہے اور نہ ایسے انتظام سے مدرسوں کا تعلق ہے ۔ بغیر تربیت کے جنگی کاروائیوں میں حصہ لینا بعید از قیاس ہے ۔ کشمیر ۔ چیچنیا اور افغانستان کے جہاد میں حصہ لینے والوں میں انگریزی میڈیم سکولوں اور یورپ اور امریکہ میں پڑھے ہوئے جوان بھی شامل تھے جو کبھی پاکستانی مدرسہ نہیں گئے تھے اور بہت سے ایسے بھی جو پہلے کبھی پاکستان آئے ہی نہ تھے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کے دینی مدرسے جہادی یا دہشت گرد تیار کرتے ہیں بالکل غلط ہے ۔ دنیا کی واحد سپرپاور بننے کے لئے سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق مسلمانوں کو روس کے خلاف لڑانے کے لئے ان کی عسکری تربیت کا بندوبست امریکی حکومت نے کیا تھا جو دس سال چلتا رہا ۔ مقصد حاصل ہو جانے کے بعد امریکی حکومت نے انہیں آپس میں لڑنے کے لئے چھوڑ دیا ۔ وہی لوگ جن کو امریکی حکومت ہیرو کے طور پر اپنے ذرائع ابلاغ میں پیش کرتی تھی اب انہیں دہشت گرد قرار دے رہی ہے ۔
اسلم بیگ اس بارے کیا کہتے ہیں انتہاء پسندی کا لیبل بھی بغیر اس کی تشریح کرنے کے لگایا جا رہا ہے ۔ کیا دین اسلام پر مکمل عمل کرنے والا انتہاء پسند ہے ؟ مدرسوں کے نصاب میں پچھلے پچاس سال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ماضی قریب تک کسی نے مدرسوں پر فرقہ واریت یا انتہاء پسندی یا دہشت گردی کا الزام لگایا تھا ۔ مدرسوں کا تعلق اتنا ضرور ہے کہ یہ مدرسے پاکستانی ہیں اور وہاں تعلیم پانے والے مسلمان ہیں ۔ پاکستان میں انسانیت کی دلدادہ کہلانے والی عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر بزور نافذ کرنے والا انتہاء پسند ہوتا ہے ۔ تو کیا یہ نظریہ مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے اور مدرسوں میں پڑھنے والوں پر انتہاء پسندی کا لیبل لگانے والے اسلام دشمن ہیں اور ان کا ساتھ نام نہاد مسلمان ہیں جو ہر اخلاقی بندش سے آزادی کے خواہشمند ہیں ۔
انسانیت کے علمبرداروں کا دوہرا معیار
گرجا سے منسلک عورتیں جنہیں سسٹر اور نن کہا جاتا ہے اور کچھ کو مدر ۔ ہر وقت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھتی ہیں ۔ سر کے بال اور گردن ایک بڑے سے سکارف کے ساتھ ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کلائیاں اور ٹخنے بھی نظر نہیں آتے ۔ کئی سسٹرز تو ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں بھی پہنے رکھتی ہیں ۔ جو سکول گرجوں کے زیر انتظام ہیں ان میں سسٹرز اسی لباس میں جاتی ہیں ۔ پوپ پال کی آخری رسومات ٹیلیویژن پر ساری دنیا میں دکھائی گئیں ۔ تمام عیسائی عورتوں نے اپنے سروں کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا ۔ میں نے دیکھا امریکہ کے صدر جارج واکر بش کی بیوی لورا بش نے دوپٹہ کی طرح کے کپڑے سے اپنے سر کو پوری تقریب میں اچھی طرح ڈھانپے رکھا ۔مدرز ۔ سسٹرز اور ننز اپنے لباس میں مدبّر لگتی ہیں اور خواہ مخوا ان کی عزّت کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ مسلمان عورتیں اپنے جسموں اور سروں کو ڈھانپتی ہیں تو انہیں بنیاد پرست انتہاء پسند اور دہشت گرد تک کہا جاتا ہے ۔ امریکہ ۔ کینیڈا اور یورپ کے کئی ممالک میں طالبات اور معلّمات کے لئے سر کو ڈھانپنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور سر ڈھانپنے کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی جا رہی ہے ۔ یہ دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے ؟ جو اپنے لئے میٹھا وہ دوسرے کے لئے کڑوا کیوں ؟
عورت کے ان نام نہاد حمائتیوں نے آج تک کسی عورت کو پوپ تو کیا معمولی پادری تک نہیں بنایا حالانکہ ایسی عورتیں گذری ہیں جو اس منصب کے لئے موذوں تھیں ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی تاریخ سے ایسی با علم اور اونچے کردار کی خواتین کا پتہ چلتا ہے جن کو مفتی بھی مانا گیا ۔ اس کے باوجود پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو پسماندہ بناتا ہے اور پردے میں رہنے والی مسلمان عورتوں کو مردوں کا قیدی کہا جاتا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان جن میں نیلوفر بختیار ۔ جسٹس ماجدہ ۔ عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ وغیرہ اور بہت سے مرد بھی شامل ہیں صیہونیوں کے اس معاندانہ پراپیگنڈہ کا شکار ہو چکے ہیں ۔
باقی انشاء اللہ آئیندہ