تمام انسان برابر ہیں سوائے ۔ ۔ ۔

تمام انسان برابر ہیں سوائے اس کے کوئی تقوٰی کی وجہ سے اعلٰی ہو ۔

راشد کامران صاحب کے ایک تبصرہ “بر صغیر ۔ جہاں‌ ہر عمل اور ہر بات صرف اپنی یا اپنی ذات کی بڑائی دکھانے کے لیے کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ سلسہ تبھی تھمے گا جب ہم “تقوی”‌ کے عزت کا میعار بنائیں” نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مائل کیا ۔ ‌

تقوٰی کے متعلق محققین علماء نے کتابیں لکھی ہیں جن کا احاطہ کرنا مجھ جیسے دو جماعت پاس کے بس کی بات نہیں ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ تقوٰی کے معنی ہیں چھوڑ دینا اور دین اسلام کے تحت تقوٰی کا مطلب ہوا کہ ہر اس چیز اور عمل کو چھوڑ دینا جس کا تعلق اللہ کے ساتھ نہ ہو ۔ دوسرے طریقہ سے بیان کریں تو تقوٰی کا مطلب ہے کہ ہر وہ چیز اور عمل چھوڑ دینا جس کے چھوڑنے کا اللہ نے کہا ہے اور ہر اس چیز اور عمل کو اپنا لینا جس کا تعلق اللہ کی خوشنودی سے ہو ۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت کریں ۔ اطاعت اس طرح کی نہیں جیسی ہم بازاروں مں اور دفتروں میں کرتے ہیں کہ سامنے تو بہت اچھے اور پیچھے کسی کی پرواہ نہیں ۔ ہاں اگر ہم یہ یاد رکھیں اللہ ہر وقت دیکھ رہے ہیں اور فرشتے ہمارے عمل کی مکمل سند تیار کر رہے ہیں جس کیلئے ہماری پیشی ہو گی اور ہر غلط کام کی سزا بھُگتنا پڑے گی تو پھر ہم کبھی بھول کر بھی کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل نہ ہو ۔ ایسا کرنے والا آدمی ہی متقی ہے ۔ اور متقی بہادر اور مطمئن ہوتا ہے ۔

قرآن شریف سے پہلے کی الہامی کتب یعنی زبور ۔ تورات اور انجیل میں بہت تحریفات کی جا چکی ہیں لیکن ابھی بھی ان میں کچھ باتیں صحیح حالت میں موجود ہیں ۔ آج لوگوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ بمطابق انجیل “انہیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن وہ اپنی آنکھ کے شہتیر کو نہیں دیکھ سکتے”۔ تورات میں ہے “ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جس طرح کی وہ ہیں بلکہ اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح کے ہم ہیں”۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ عام استعمال ہوتا ہے “آئینہ میں اپنی ہی شکل نظر آتی ہے”۔

اگر دوسروں کے اندر عیب تلاش کرنا اور دوسروں کے عیب گننا چھوڑ کر اپنی اصلاح پر توجہ دی جائے تو انسان تقوٰی کی منزل کو پہنچ سکتا ہے ۔

لڑکے گھورتے ہیں

موضوع اس سے شروع ہوا کہ لڑکے اور مرد لڑکیوں اور خواتین کو گھورتے ہیں اور دیگر نازیبا حرکات کرتے ہیں ۔ یہ حرکات میں نے اپنی زندگی میں اس وقت پہلی بار دیکھی تھیں جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا یعنی 1951ء میں ۔ میں مندرجہ ذیل خواتین و حضرات کی تحاریر اس سلسلہ میں پڑھ چکا ہوں

راشد کامران صاحب نے 3 دسمبر 2007ء کو
فرحت صاحبہ نے 6 دسمبر 2007ء کو
عورت کی مجموعی مظلومیت پر لکھا جو کہ ایک الگ تحقیق طلب ہے
قدیر احمد صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
اپنے آپ کو بدتمیز کہنے والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
میرا پاکستان والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
ماوراء صاحبہ نے 9 دسمبر 2007ء کو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرا ذہن کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس میں جو بات گھُس جائے اس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ چنانچہ 1951ء سے میں نے دیکھنا شروع کر دیا کہ جب جوان لڑکی یا عورت گذر رہی ہوتی ہے تو کون کیا کرتا ہے ۔ اس کی عمر کتنی ہے اور بظاہر ماحول کیسا ہے ۔ ہم اس زمانہ میں راولپنڈی شہر کے وسطی علاقہ میں رہتے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ راولپنڈی اور گرد و نواح کے رہنے والے عورتوں پر جُملے کسنا شائد اپنا فرض سمجھتے تھے اور جملہ کسنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھ کر داد و تحسین وصول کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ عورت کے پاس سے ٹکراتے ہوئے گذرنا یا عورت کے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگانا یا چُٹکی لینا بھی ہوتا تھا ۔ یہ حرکات کرنے والوں میں نوجوان اور شادی شدہ دونوں شامل ہوتے لیکن ان میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوتے ۔ پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت ہی کم کو ایسی حرکت کرتے دیکھا گیا

میں گارڈن کالج میں داخل ہوا تو وہاں مخلوط تعلیم تھی مگر لڑکیوں کی ڈین ایک بڑی عمر کی عیسائی خاتون مس خان تھیں جو ہر وقت لڑکیوں کی تربیت اور حفاظت کرتی تھیں ۔ لڑکیاں کیا لڑکے بھی ان سے بہت ڈرتے تھے ۔ اسلئے کالج کے اندر تو ممکن تھا ہی نہیں کہ کوئی لڑکا کوئی نازیبا حرکت کرے ۔ کالج سے باہر بھی پروفیسر صاحبان خیال رکھتے تھے ۔ ہمارے ہمجماعت لڑکے کو ہمارے پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے کسی بس سٹاپ پر لڑکیوں کے پاس کھڑا دیکھا اور کالج میں اس کو اتنا شرمندہ کیا کہ دوبارہ اس نے ایسی حرکت نہ کی ۔ سنا ہے کہ دس بارہ سال بعد گارڈن کالج میں حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ معاشرہ ہی بگڑنا شروع ہو گیا تھا

میں مزید تعلیم کیلئے 1956ء میں لاہور چلاگیا ۔ وہاں انارکلی میں ایسی حرکات ہوتے دیکھیں مگر اس کے مرتکب بالخصوص اسی کام کیلئے آئے ہوتے تھے ۔ ان میں کالجوں کے طلباء بھی شامل ہوتے تھے ۔ دکاندار عزت و احترام کے ساتھ باجی یا خالہ جی کہہ کر پیش آتے ۔ اس کے برعکس راولپنڈی میں کچھ دکان دار بھی ان بُری حرکات میں شامل ہوتے تھے ۔

ایک بات جو کسی نے نہیں لکھی یہ ہے کہ کچھ لڑکیاں ایسی حرکات سے محظوظ ہوتے بھی دیکھیں ۔ کبھی کبھی ایسی لڑکی بھی دیکھی جو خود جان بوجھ کر نوجوان لڑکے کے قریب سے یا سامنے سے گذری

مندرجہ بالا مشاہدات 1962ء تک کے ہیں ۔ اسلام آباد ہو ۔ کراچی ہو یا لاہور ۔ اب تو یہ حال ہے کہ غریب سے لے کر امیر ترین والدین کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہے ۔ دولت کی فراوانی نے تو چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ کسی ریستوراں میں چلے جائیے یا کسی سیر و تفریح کی جگہ ۔ ہر جگہ فلمی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یومِ آزادی ہو یا نئے سال کی پچھلی رات ۔ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں وہ طوفانِ بد تمیزی ہوتا ہے کہ ایک بار دیکھنے کے بعد توبہ کی اور پھر کوئی ضروری کام بھی ہوا تو ایسی رات میں گھر میں دُبکے رہے

اسلام آباد کی منصوبہ بندی

بسلسلہ 9 دسمبر 2007ء

فیصلہ ہوا کہ راولپنڈی تحصیل کو مرکزی حکومت کا گھر بنا دیا جائے اور راولپنڈی کے ضلعی دفاتر گوجرخان منتقل کر دیئے جائیں ۔ ان دنوں ٹیکسلا تحصیل نہیں تھی اور ٹیکسلا راولپنڈی تحصیل میں شامل تھا اور واہ چھاونی بھی ۔ اس منصوبہ بندی کے تحت پرانے راولپنڈی شہر کی تعمیرِ نو کی جانا تھی ۔ انگریزوں سے تربیت یافتہ انڈین سول سروس اور ان کے پیروکار پاکستان سنٹرل سروسز [اب سی ایس ایس] کے افسران کو راولپنڈی جیسا شہر چھوڑ کر گوجرخان جانا منظور نہ تھا ۔ چنانچہ اس پر عمل درآمد پر لیت و لعل ہوتا رہا اور اس منصوبہ کے علمبردار فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے کرسی سے ہٹتے ہی اسلام آباد کو اس طرح سے سکیڑا گیا کہ مستقبل میں توسیع کا امکان بھی نہ رہا ۔

اسلام آباد کی منصوبہ بندی شہری منصوبہ بندی کی ایک مشہور یونانی کمپنی نے کی ۔تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر مربع کا ہر سیکٹر بنایا گیا ۔ ہر سیکٹر میں لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایک انٹر کالج جس میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک پڑھائی ہو اور ایک بڑی کمرشل مارکیٹ ۔ ہر چوتھائی سیکٹر میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے ایک ایک پرائمری سکول ۔ ایک چھوٹی مارکیٹ ۔ ایک مسجد اور ایک چلڈرن پارک ہونا تھا ۔ مری کی طرف پہاڑیوں کے دامن میں بہت بڑا علاقہ مکمل رہائشی یونیورسٹیوں کیلئے رکھا گیا جن میں ہر قسم کی تعلیم شامل تھی ۔ اس کے علاوہ سیکٹر جی 8 میں ایک بہت بڑا تعلیمی ہسپتال بننا تھا ۔

ڈویلوپمنٹ شروع کرنے سے پہلے اسلام آباد کے تمام درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر ان کی جڑیں بھی نکال دی گئیں ۔ جب سڑکیں بننا شروع ہو گئیں تو کسی کو خیال آیا کہ درختوں کا کیا ہو گا ۔ کسی غلامانہ ذہنیت کے لال بجھکڑ نے رائے دی کہ جنگلی توت کا بیج برطانیہ سے منگوا کر چھوٹے ہوائی جہاز سے چھڑکاؤ کر دیا جائے کیونکہ وہ بہت جلد اُگتا ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے ۔ اس توت کو پھل نہیں لگتا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اب اس جنگلی توت کی مہربانی سے پورے اسلام آباد کے باشندے ایک ایسی الرجی میں مبتلا ہو چکے ہیں جو انسان کو زکام اور سانس کی تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اور بڑھ کر دمہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ سات آٹھ سال قبل سی ڈی اے نے جنگلی توت کے سارے درخت تلف کرنے کا ٹھیکہ دیا ۔ دو تین سال میں درخت کاٹ دیئے گئے مگر جڑیں نہ نکالی جا سکیں جس کے نتیجہ میں میں جنگلی توت کے درخت اُگ گئے ہیں ۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی دور میں سوچا گیا کہ پاکستانی عوام کے بچے پڑھ کر کیا کریں گے اور یہ پارک تو زمین ضائع کرنے کے مترادف ہیں پھر اتنی ساری مساجد کیا کرنا ہیں ۔ اسلئے کئی سکولوں ۔ پارکوں اور مسجدوں کی زمینیں اپنے لوگوں کو مکان اور دکانیں بنانے کیلئے دے دی گئیں ۔ مشرقی طرز پر زیرِ تعمیر وزیر اعظم ہاؤس کو توڑ پھوڑ کر مغربی طرز کا قلعہ نما محل بنایا گیا ۔ شاہراہ قائد اعظم جو کہ ایف ۔ جی 5 سے ایف ۔ جی 17 تک بننا تھی کا نام بدل کر انگریزی نام جناح ایونیو رکھ کر اسے ایف ۔ جی 5 سے ایف ۔ جی 9 تک محدود کر دیا گیا مگر اس کی تعمیر جو ایف ۔ جی 7 تک ہو چکی تھی اس سے آگے نہ کی گئی ۔ ایف 10 میں شاہراہ قائد اعظم کی زمین قائدِ عوام کے چہیتوں میں بانٹ دی گئی ۔ اسلام آباد کی مزید ترقی روک دی گئی ۔ اسلام آباد کا بڑے ہسپتال کا منصوبہ روک دیا گیا ۔ نہ اسلام آباد کی ضلع کچہری بنی نہ دوسرے مرکزی دفاتر اور ان کو مختلف مارکیٹوں پر قبضہ کر کے ان میں بسا دیا گیا ۔ لاڑکانہ کو ترقی دینے کا منصوبہ بنا اور اس پر عمل شروع ہو گیا ۔ اس وقت تک ایف 6 سے 8 اور جی 6 سے 9 تک ڈویلوپ ہو کر بن رہے تھے ۔

اس کے علاوہ لبیا کے معمر قذافی کے نعرہ “بیت لِساکنہُ” یعنی مکان اس کا جو اس میں رہتا ہو کی نقل کرتے ہوئے جیالوں کو سرکاری زمینوں پر راتوں رات قبضہ کا اشارہ ملا جس کے نتجہ میں بہت سی سرکاری املاک انہیں کوڑیوں کے مول دے دی گئی ۔ اس کا ایک نمونہ سب سیکٹر ایف 8/1 میں ہماری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلہ پر ہے جہاں بچوں کے پارک کی زمین میں سے بہتر حصہ پر پانچ پانچ مرلے کے 10 پلاٹ جیالوں کو دئیے گئے ۔ ان میں سے 7 تو جلد ہی پلاٹ بیچ کر فارغ ہو گئے اور باقی 3 نے مکان بنائے ۔ اب معلوم نہیں وہ ان میں رہ رہے ہیں یا کرائے پر دیئے ہیں یا مکان بیچ کر جا چکے ہیں ۔

جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں ایف اور جی 10 اور ایف 11 کی ڈیویلوپمنٹ شروع ہوئی ۔ ایف 9 پارک ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائینسز بننا شروع ہوا ۔

بینظیر کی حکومت آئی تو سیکٹر آئی 8 جو ریلوے سٹیشن ۔ جنرل بس سٹینڈ اور دیگر مختلف عوامی ضروریات کیلئے مختص تھا رہائشی علاقہ قرار دے کر اپنے مداحوں میں بانٹ دیا اور سیکٹر جی 8 کے وہ خالی پلاٹ جہاں مسجد ۔ پارک یا سکول بننے تھے ان میں سے کچھ پر رہائشی پلاٹ بنا کر مزید لوگوں کو خوش کیا گیا ۔ جو وڈیرے بچ گئے تھے انہیں قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین کاٹ کر پلاٹ الاٹ کر دیئے گئے ۔ سیون سٹار سٹینڈرڈ کا وزیر اعظم سیکریٹیریٹ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں کسی سیکٹر کی ڈیویلوپمنٹ نہ ہو سکی ۔

نواز شریف کا دور آیا تو جناح ایونیو کو ایف ۔ جی 8 اور 9 کے علاقہ میں مکمل کیا گیا اور دوسری کئی سڑکیں تعمیر ہوئیں جس سے نہ صرف اسلام آباد سے دوسرے شہروں کو جانے میں سہولت ہوئی بلکہ اسلام آباد کے اندر بھی کافی سہولت ہو گئی ۔

موجودہ دور کی کارستانیاں لکھنے کیلئے بہت وقت اور جگہ چاہیئے جس کا میں اپنے آپ کو متحمل نہیں پاتا ۔ صرف تین مثالیں پیش کرتا ہوں ۔ مرگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے دامن میں نیشنل پارک کے علاقہ میں ایک سیکٹر پر نیوی نے بینظیر بھٹو کے زمانہ میں کالونی بنا لی ۔ اس کے بعد ایئر فورس نے ملحقہ سیکٹر میں کالونی بنا لی اور اب فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر اور جرنیلوں کی رہائش گاہیں بنانے کیلئے دو مزید سیکٹروں پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور ان کو پشاور ۔ راولپنڈی ۔ چکلالہ ۔ مری اور لاہور سے ملانے کیلئے سُپر ہائی ویز کی تعمیر شروع ہو چکی ہے ۔

اسلام آباد زیرو پوائنٹ پر شاہراہ کشمیر شاہراہ اسلام آباد کے اوپر سے گذرتی ہے اور شاہراہ سہروردی شاہراہ اسلام آباد کی سطح پر زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر آبپارہ کی طرف جاتی ہے ۔ یہاں پر انٹرسیکشن بنانا اولین منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ اس چوک کے ایک طرف شکرپڑیاں کی پہاڑی ہے ۔ دوسری طرف نالہ ۔ کھڈ اور قبرستان ۔ تیسری طرف بلند عمارت اور چوتھی طرف زمین ہے ۔ ایک سال قبل صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم سے شکرپڑیاں پہاڑی کی قریبی چوٹی پر کروڑوں روپے کے خرچ سے ایک مانومنٹ بنا دیا گیا ہے ۔ اب انٹر سیکشن بنایا جائے تو مانومنٹ گرانا پڑتا ہے یا پھر چوک کو پہاڑی سے دور ہٹایا جائے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ جگہ کی ہیئت کی بنا پر یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔ اگر ممکن ہو بھی تو چوک منتقل کرنے پر وہاں ملنے والی سب سڑکیں اور پل نئے سرے سے بنانے پڑیں گے جس پر دو سے تین گنا زیادہ خرچ ہو گا ۔

دوسری مثال متذکرہ بالا سُپر ہائی ویز میں سے ایک “ساتویں ایونیو [7th Avenue]” کی ہے جو حال ہی میں مکمل ہوئی ہے ۔ اگر یہ اصل جگہ پر بنائی جاتی تو چوک کے ایک کونے پر کھڑے کلثوم پلازہ کا کچھ حصہ گرانا پڑتا کیونکہ اس پلازہ کا کچھ حصہ مجوزہ سڑک کی زمین پر بنا ہوا ہے ۔ یہ پلازہ سلیم سیف اللہ کی ملکیت ہے جو وفاقی وزیر اور صدر جنرل پرویز مشرف کا خاص آدمی ہے ۔ اسلئے اس سڑک کی جگہ بدلی گئی جس کی وجہ سے اس کی تعمیر پر ساڑھے چوبیس کروڑ کی بجائے 50 کروڑ روپے خرچ آیا ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

ضمیر ۔ میرا مشاہدہ

میں نے اپنی ایک گذشتہ تحریر میں ضمیر کے متعلق اپنا مشاہدہ لکھنے کا وعدا کیا تھا ۔ ضمیر ایک ایسے احساسِ اچھائی و انصاف کا نام ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ہر انسان میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے رکھ دیا ہے ۔ ہر بچہ زندہ یا فعال ضمیر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے بچہ سمجھداری کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہر برائی اور گناہ سے پاک ہوتا ۔

میرا مشاہدہ ہے کہ اگر ایک بچہ جو ابھی کھڑا بھی نہ ہو سکتا ہو اسے زمین پر بٹھا کر دودھ کی بوتل اور مٹی کا چھوٹا سا ڈھیلا اس کے قریب اس طرح سے رکھ کر کمرے سے باہر چلے جائیں کہ اسے پتہ نہ چلے یہ چیزیں آپ نے رکھی ہیں ۔ پھر چھُپ کر دیکھتے رہیں کہ بچہ کیا کرتا ہے ۔ اگر بچہ دودھ کی بوتل پکڑ کر منہ سے لگانے لگے اور آپ آ جائیں تو بچے پر کچھ اثر نہیں ہو گا ۔ اگر بچہ مٹی کا ڈھیلا اُٹھا کر منہ میں ڈالنے لگے اور آپ کمرے میں آجائیں تو بچہ ایک دم سے کانپ اُٹھے گا ۔ یہ عمل زندہ یا فعال ضمیر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔

یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ 2 سے 8 سال کا بچہ جس کی غلط تربیت نہ کی گئی ہو ۔ اس سے آپ کوئی بات پوچھیں تو وہ بلا تأمل سچ بات بتا دے گا ۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ دس بارہ سال کا بچہ بھی سچ بول دیتا ہے خواہ وہ سچ اس کے اپنے یا اس کے والدین کے خلاف جاتا ہو ۔

بچے کا ضمیر غلط ماحول اور والدین کی عدم توجہی یا غلط تربیت کے زیرِ اثر مجروح ہوتا رہتا ہے اور اگر بروقت مداوا نہ کیا جائے تو ضمیر داغدار ہو جاتا ہے اور پھر اس کا صحتمند یا فعال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ بچوں کی نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچہ اگر ایک ماہ کا بھی ہو تو اس کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرنا چاہیئے جو کسی بڑے یا غیر کے سامنے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ بچہ اس کا اثر لیتا ہے ۔ کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عورت حاملہ ہو تو کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو وہ اپنے بڑے بچے کے سامنے کرنا پسند نہیں کرتی ۔ والدین کا آپس میں جھگڑنا تو کیا آپس میں بحث کرنا یا اُونچی آواز میں بولنا بچوں پر بُرا اثر ڈالتا ہے جس میں دو ماہ کا بچہ بھی شامل ہے ۔

ضروری نہیں ہوتا کہ کسی شخص کا ضمیر ہمیشہ غیر فعال رہے ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقہِ نے انسان کے ضمیر میں ایسی لچک رکھی ہے کہ انسان کی ذرا سی کوشش سے ضمیر فعال ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں نیکی کی رمق باقی ہو ۔ انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہوا تو سالِ اوّل میں مجھے بی ہوسٹل کے ایک بڑے کمرہ میں 2دو دوسرے لڑکوں کے ساتھ جگہ دی گئی ۔ وہ دونوں بھائی تھے جن کی عمر میں 5پانچ چھ سال کا فرق تھا ۔ چھوٹا بھائی میرا ہم عمر تھا ۔ جب ان سے دوستی پکی ہو گئی تو بڑے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ جب آٹھویں جماعت میں تھا اس کی غلط لڑکوں کے ساتھ دوستی ہو گئی ۔ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور ان کے ساتھ مل کر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیئے ۔ جب بھی وہ گاؤں کی مسجد کے پاس سے گذرتا ۔ امام صاحب کہتے “اوئے ۔ عمر حرام توپ میں نہ گذار کچھ اللہ کا نام لے اور مسجد میں آ کر اللہ کا کلام پڑھ لے” ۔ وہ سُنی اَن سُنی کر کے چلا جاتا مگر مولوی صاحب جب بھی اسے دیکھتے یہی کہتے ۔ ایک دن وہ ڈاکہ مار کر بھاگا تو پیچھے پولیس لگ گئی ۔ اس نے اپنی گھوڑی کو خوب بھگایا ۔ پولیس سے تو بچ گیا مگر گھوڑی مر گئی ۔ اُس نے بتایا “جب میں اگلےدن گاؤں پہنچا تو ابھی فجر کی اذان نہیں ہوئی تھی ۔ میں مسجد کر پاس سے چوروں کی طرح گذر جانا چاہتا تھا کہ اچانک امام صاحب کی آواز آئی ‘اوئے ۔ یہ تیرا جُسہ کس کام آئے گا ۔ مسجد کو بڑا کر رہے ہیں اس میں دو اینٹیں ہی لگا دے شائد یہ مسجد تیری سفارش کر دے ورنہ یہ جُسہ جہنم کا ایندھن ہی بنے گا’ میں رُک گیا اور مسجد کی دیوار بنانا شروع کر دی ۔ میرے دوست آ کر مجھے طعنے دیتے کہ مُلّا کی نوکری کر رہا ہے مگر مولوی صاحب میری ہمت بڑھاتے ۔ مسجد کی دیوار بنانے کے دوران پرانے سارے واقعات مجھے یاد آتے گئے اور مجھے اپنے کردار سے نفرت ہونے لگی ۔ دیوار مکمل ہوئی تو میں مولوی صاحب کا شاگرد بن گیا ۔ نماز سیکھی اور پڑھنا شروع کی اور ساتھ ہی میں نے آٹھویں پھر دسویں اور پھر بارہویں کا امتحان دیا اور اللہ نے انجنیئرنگ کالج کا داخلہ بھی دلوا دیا”۔ 1983ء میں اس نےبطور سپرنٹنڈنگ انجیئر راولپنڈی میں تقرری کے دوران ایم اے عربی کر لیا ۔ میں نے پوچھا “اس عمر میں آپ کو عربی کی کیا سوجھی؟” تو کہنے لگا “تاکہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے ساتھ مطلب بھی سمجھ آئے”۔

سال 1968ء میں دفتری رابطہ کی وجہ سے ایک میجر صاحب سے میرے دوستانہ تعلقات ہو گئے ۔ اس زمانہ میں میرے پاس کار نہ تھی ۔ کہیں جانا تھا تو میں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں ۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو میجر صاحب کہنے لگے ” اجمل ۔ تم نیک آدمی ہو جبکہ میں کھلنڈرا آدمی ہوں ۔ بُرا نہ منانا ۔ آج تم نے کہا تو میں نے انکار بُرا سمجھا ۔ آئیندہ تم میرے ساتھ صرف دفتر کا تعلق رکھو ۔ دفتر سے باہر میرے ساتھ پھرو گے تو مفت میں بدنام ہو جاؤ گے”۔ وہ میجر صاحب ناچتے بھی تھے اور پیتے بھی تھے ۔ 1970ء میں وہ کرنل ہو گئے اور ان کا تبادلہ کھاریاں ہو گیا ۔ اوائل 1972ء میں لاہور جاتے ہوئے ان سے ملنے کھاریاں رُکے تو پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھے ہیں ۔ انکے گھر پہنچے تو دیکھا داڑھی رکھی ہوئی اور ہاتھ میں تسبیح ۔ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا “میاں صاحب ۔ آپ تو کہا کرتے تھے ۔ چھوٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی ۔ یہ سب کیسے ہو گیا ؟” بولے “وہ بات کچھ اور تھی ۔ اب تو قیامت گذر گئی ہے ہماری قوم پر ہمارے کرتوتوں کی بدولت”۔ ان کا اشارہ پاکستان کا دو ٹکڑے ہونے کی طرف تھا ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنا کرم کرتے ہوئے ہماری افواج کے جرنیلوں کا ضمیر بھی زندہ کر دے ۔ آمین ثم آمین

حساب کی جادو گری

چھ دنوں کیلئے بہت مصروف ہوں ۔ اسلئے اپنی کالج کے زمانہ کی ڈائری سے کچھ نقل کر رہا ہوں ۔ میں نے 5 اگست 2006ء کو حساب کی جادو گری کے چند نمونے پیش کئے تھے ۔
اب کچھ اورمضروب 1 سے 9 کی طرف جاتا ہے اور حاصل ضرب 9 سے ایک کی طرف

1 x 8 + 1 = 9
12 x 8 + 2 = 98
123 x 8 + 3 = 987
1234 x 8 + 4 = 9876
12345 x 8 + 5 = 98765
123456 x 8 + 6 = 987654
1234567 x 8 + 7 = 9876543
12345678 x 8 + 8 = 98765432
123456789 x 8 + 9 = 987654321

مضروب 1 سے 9 کی طرف بڑھتا ہے مگر حاصل ضرب میں 1 بڑھتا جاتا ہے

1 x 9 + 2 = 11
12 x 9 + 3 = 111
123 x 9 + 4 = 1111
1234 x 9 + 5 = 11111
12345 x 9 + 6 = 111111
123456 x 9 + 7 = 1111111
1234567 x 9 + 8 = 11111111
12345678 x 9 + 9 = 111111111
123456789 x 9 +10= 1111111111

مضروب 9 سے 2 کی طرف لپکتا ہے مگر حاصل جمع میں 8 کا اضافہ ہوتا جاتا ہے

9 x 9 + 7 = 88
98 x 9 + 6 = 888
987 x 9 + 5 = 8888
9876 x 9 + 4 = 88888
98765 x 9 + 3 = 888888
987654 x 9 + 2 = 8888888
9876543 x 9 + 1 = 88888888
98765432 x 9 + 0 = 888888888

اب دیکھئے ایک نمونہ حاصل ضرب میں متناسب موزونیت کا جبکہ مضروب میں 1 کا اضافہ ہوتا ہے

1 x 1 = 1
11 x 11 = 121
111 x 111 = 12321
1111 x 1111 = 1234321
11111 x 11111 = 123454321
111111 x 111111 = 12345654321
1111111 x 1111111 = 1234567654321
11111111 x 11111111 = 123456787654321
111111111 x 111111111=12345678987654321

اسلام آباد سے پہلے

میں نے 30 اکتوبر کو جو وعدہ کیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اُسے پورا کرنے کیلئے قدم بڑھا رہا ہوں ۔ اللہ مجھے اس سلسلہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاخیر کی وجہ ملک کے حالات ہیں جو بہرحال سب سے اہم مسئلہ ہیں ۔ میں نہ تو صحافی ہوں نہ مصنف لیکن اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ پچھلی چار دہائیوں سے صحافی اور مصنف کہلانے والے مختلف حضرات مجھ سے مختلف موضوعات پر لکھنے کی فرمائش کرتے رہے ہیں ۔ بلاگ شروع کیا تو یہ فرمائشیں یہاں بھی شروع ہو گئیں جن میں سے کچھ پوری کر چکا ہوں اور کچھ ابھی باقی ہیں ۔ آج کی تحریر کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے میرے پاس بلاگرز کی طرف سے چوتھی فرمائش آ چکی ہے کہ اسلام آباد کی ترقی کے مدارج کے متعلق تاریخ کے جھروکے سے لکھوں ۔ اسلام آباد کے متعلق لکھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ میرا اس شہر سے کیسے واسطہ پڑا اور یہاں پہلے کیا تھا ؟

میں 14 ۔ 15 اور 16 اگست 2007ء کو لکھ چکا ہوں کہ کس طرح ہمارا خاندان 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچا اور میں اور میری دو بڑی بہنیں [ 12 اور 15 سال] اپنے گھر والوں کے تقریباً دو ماہ بعد پہنچے ۔ سیالکوٹ میں کسی کے ہاں قیام کیا اور 1948ء کے آخر یا 1949ء کے شروع میں راولپنڈی کے جھنگی محلہ میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ دوسال ہمیں راولپنڈی سے مانوس ہونے میں لگے ۔ 1951ء کی گرمیوں میں ہمیں جموں کی نہریں یاد آنے لگیں تو ہم راولپنڈی کے قریبی دریائے سواں پہنچے ۔ اس میں پانی گدلا تھا اور گہرائی اتنی کہ سارا جسم گیلا کرنے کیلئے ہمیں لیٹنا پڑا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ نور پور شاہاں کے پاس پہاڑی نالہ ہے ۔ سوچا کہ پکنک منائیں گے اور شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ بھی کہہ لیں گے ۔ نالہ تو قابلِ ذکر نہ پایا ۔ شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ ایک شخص نے روک کر کہا “خوردہ لے لو”۔ وہ جلے ہوئے اوپلوں کی راکھ ہمیں بیچنا چاہتا تھا کہ شاہ عبداللطیف کا تبرک ہے ۔ ہم نے نہ لی تو اس نے ہمیں بہت بددعائیں دیں ۔ اس زمانہ میں شاھ عبداللطیف کی قبر پتھروں سے بنی تھی اور اردگرد پتھروں کی دو فٹ سے کم اونچی دیوار کے سوا کچھ نہ تھا ۔

پھر کسی نے بتایا کہ سیدپور میں چشمے ہیں ۔ ہمیں کشمیر کے چشمے یاد آئے اور ہم سیدپور پہنچ گئے ۔ وہاں ایک چشمے کے پانی کے آگے کوئی 6 فٹ اونچائی پر ایک پائپ لگایا گیا تھا جس میں سے پانی نل کی طرح گر رہا تھا ۔ بڑے چشمہ کی طرف جانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کا پانی پینے کیلئے راولپنڈی کو مہیا کیا جاتا تھا ۔ وہاں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی تھا ۔ سید پور گاؤں میں ایک کُمہار [خاور صاحب نہیں] نے مٹی سے ریلوے انجن اور ڈبّے اور ریلوے لائین بنائی ہوئی تھی جو قابلِ دید تھی ۔ وہاں کے لوگوں سے پوچھ کر ہم نے ایک چٹان کے پیچھے پکنک منائی اور چشمے کا پانی پیا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ راول میں پہاڑی نالہ ہے اس میں بہت پانی ہوتا ہے ۔ وہاں پہنچے ۔ پانی سواں سے زیادہ تھا اور صاف بھی مگر پینے کے قابل نہ تھا ۔ پانی کے اندر نوکیلی چٹانیں تھیں جس سے ایک ساتھی کا پاؤں زخمی ہو گیا ۔ بہر حال ہم نے پکنک منا ہی لی ۔ اس کے بعد چھتر کا علم ہو تو وہاں پہنچے ۔ وہاں ایک پہاڑی نالہ بہہ رہا تھا جس میں پانی تیرنے کیلئے ناکافی تھا البتہ چٹانیں نہیں تھیں ۔ اس علاقہ میں لوکاٹ کے بہت پودے تھے ۔ چھتر کے لوکاٹ چھوٹے چھوٹے مگر میٹھے ہوتے تھے ۔ یہ پکنک کیلئے اچھی جگہ تھی ۔ اس کے بعد ہم شاہدرہ گاؤں گئے ۔ وہاں کافی بڑا پہاڑی نالہ تھا ۔ جس میں نہانے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہاں پکنک منانے کیلئے کوئی مناسب جگہ تھی ۔ شاہدرہ سے کچھ دُور ایک چھوٹا سا شفاف چشمہ کا نالہ بہہ رہا تھا جو کہ پینے کے قابل تھا ۔ وہاں پکنک منانے کی بہت اچھی جگہ تھی ۔ یہ جگہ اسلام آباد کی ڈویلوپمنٹ کی نظر ہو چکی ہے ۔

چھتر اور شاہدرہ اسلام آباد کے کنارے پر ہیں ۔ اسلام آباد کا اس وقت جو آباد علاقہ ہے اس میں سیدپور ۔ نورپور اور گولڑہ کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جہاں کیکر ۔ کہُو ۔ لوکاٹ ۔ تُوت اور بٹنّکیوں کے درخت اور پھلائی اور کوکن بیروں کی جھاڑیاں تھیں ۔ بٹنکی ناشپانی کی شکل کا چھوٹا سا پھل ہے جس کا زیادہ حصہ بیج ہوتے ہیں اور گودا بہت کم ہوتا ہے ۔ کوکن بیر اس قسم کے بیر ہوتے ہیں کہ گٹھلی کے اُوپر چھلکا ۔ ان دونوں کے کھانے سے گلا پکڑا جاتا ہے ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

پی سی او قانونی لطیفہ

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس افتخار حسین چودھری کی سربراہی میں سہ رکنی فل بنچ نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے جسٹس ایم اے شاہد صدیقی سے سرکاری رہائشگاہ خالی کرانے پر ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے میں ناکامی پر چیف سیکرٹری پنجاب، کیپٹل سٹی پولیس چیف اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ 5 نومبر کی رات بعض شریر عناصر ٹولٹن روڈ پر جمع ہوئے اور آدھی رات کے وقت نعرے لگائے جس سے علاقے کا سکون برباد ہوگیا۔ ان افراد نے ججوں کی گاڑیوں سمیت دیگر گاڑیوں کو روکا اور الیکٹرنک میڈیا علاقے میں ان کارروائیوں کی کوریج کرتا رہا حالانکہ میڈیا کو اس علاقہ میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

ادھر جمعرات کو رات گئے پولیس نے جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سرکاری رہائشگاہ پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے دو خواتین وکلاء سمیت دس افراد دس افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف خلاف ریس کورس تھانے میں اندیشۂ نقص امن اور پولیس کے کام میں بے جا مداخلت سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ وکلاء، طلبہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے ان گرفتاریوں کے خلاف پولیس سٹیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ اس سے قبل سابق ججوں کی بیگمات، وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان نے جمعرات کی دوپہر جسٹس صدیقی کی رہائشگاہ کے باہر بھی مظاہرہ کیا تھا ۔

جسٹس ایم اے شاہد صدیقی دل میں تکلیف کے باعث مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ وکلاء ، طلبہ اور سول سوسائٹی کے ارکان سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے نوٹس کے اجراء کے بعد سے جسٹس صدیقی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ان کے گھر باہر جمع ہوتے رہے ہیں۔