قاتل کون ؟

نشر ہونے والے بیانات

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعرات 27 دسمبر کی شام کہا کہ موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی جو سانس کی نالی کو کاٹتے ہوئے نکل گئی ۔

بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر بابر اعوان نے جمعرات کی شام کو کہا کہ بینظیر پر نشانہ لیکر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجہ میں ہلاکت ہوئی ۔

نگران وزیرِ داخلہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حامد نواز نے کہا کہ بینظیر کی موت بم کا ٹکڑا کنپٹی پر لگنے سے ہوئی جو کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا ۔

جمعہ 28 دسمبر کی شام کو پریس کانفرنس میں وزارتِ داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ 3 گولیاں چلیں مگر بینظیر کو کوئی نہ لگی ۔ بینظیر ڈر کر ایکدم نیچے ہونے لگی تو اس کی کنپٹی گاڑی کے کھلے چھت کے لیور سے ٹکرائی جس سے اس کی موت واقع ہوئی ۔

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعہ 28 دسمبر کی شام کہا کہ موت کنپٹی لیور سے ٹکرانے کے باعث ہوئی ۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نے کہا “میں صرف چند فٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ محترمہ پر ایک نوجوان شخص نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی “۔

ایک اور عینی شاہد نے کہا ” محترمہ پر فارنگ پولیس کی گاڑی سےکی گئی”۔

ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ تھوڑا دور کسی اُونچی جگہ سے محترمہ پر فائرنگ کی گئی ۔ [یعنی زمین سے نہیں کی گئی]

پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے مستقل اُمیدوار سیّد نیّر بخاری جن کی گاڑی بینظیر کی گاڑی کے بالکل قریب تھی نے کہا کہ بینظیر پر تین گولیاں چلائی گئیں ۔

بینظیر کے قانونی مشیر فاروق نائیک نے جمعہ کی شام کو کہا “حکومت کا مسلک جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ ایک گولی محترمہ کے سر میں اور ایک پیٹ میں لگی ۔ خون بہہ رہا تھا جب اسے ہسپتال لے کر گئے ۔ محترمہ کی گاڑی میں ناہید خان اور اور امین فہیم تھے اور انہوں نے دیکھا کیا ہوا “۔

میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

تجزیہ

اُوپر لکھے گئے بیانات کے علاوہ میرے علم میں کچھ مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ بینظیر کے سر کا زخم جس سے خون بہتا رہا کسی کُند دھاتی ٹکڑے کا لگایا ہوا تھا جو سر سے اتنی قوت سے ٹکرایا کہ سطح 16 ملی میٹر اندر دھنس گئی ۔ انسان اگر اپنا سر کسی ساکن چیز سے ٹکرائے تو اس سے کھوپڑی کی ہڈی کا اتنا اندر دھنس جانا بعید از قیاس ہے ۔ چنانچہ سرکاری بیان غلط ہے ۔

خود کش بمبار اتنا اور اس طرح لدا ہوا ہوتا ہے کہ وہ صحیح نشانہ نہیں لے سکتا ۔ اسلئے گولی چلانے والا شخص کوئی اور تھا ۔

ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں جبکہ ایک عینی شاہد نے خودکار بندوق سے گولیاں چلتی دیکھیں ۔ اسی شاہد کے مطابق پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا جبکہ امین فہیم کے بیان کے مطابق بعد میں چلنے والی گولیوں سے بینظیر گر گئیں ۔

مختلف بیانات میں بظاہر تضاد لگتا ہے لیکن گولی چلانے والے دو مختلف اشخاص ہوں تو تضاد ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا اس کے بعد پھر گولیاں چلیں تو سوائے حکومتی بیان کے سب بیان صحیح لگتے ہیں ۔ تعجب خیز حکومت کا یہ عمل ہے کہ اول تو فلم پوری نہیں دکھائی گئی ۔ دوسرے اس فلم کی رفتار کم [Slow motion] کر کے کیوں نہیں دکھایا گیا ؟

بینظیر کو سکیورٹی اور حادثہ کی صورت میں فوری امداد حکومت کا فرض تھا اور وعدہ بھی مگر یا تو سکیورٹی تھی نہیں یا یہ کارستانی ہے ہی سکیورٹی والوں کی ۔ بینظیر کے بھائی مرتضٰی بھٹو کا قتل قارئین کو یاد ہو گا ۔ فوری طبی امداد کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا ۔

راولپنڈی میں حادثات سے نبٹنے کیلئے رسکیو 1122 پولیس ہے جو کہ ایک فعال ادارہ ہے ۔ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا ۔

لیاقت باغ کی ایک تہائی حدود کے ساتھ لیاقت روڈ ہے جسے سکیورٹی پروٹوکال کے تحت خالی رکھا گیا تھا ۔ حادثہ لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب ہوا ۔ لیاقت باغ کے گیٹ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کا فاصلہ جوکہ لیاقت روڈ کے دوسرے سرے پر ہے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے درمیان ہے ۔ حادثات کا بنیادی مرکز بھی یہی ہسپتال ہے ۔ اگر بینظیر کو اس ہسپتال لیجایا جاتا تو آدھے منٹ میں ہسپتال پہنچ جاتی اور اس کا علاج شروع ہو جاتا کیونکہ سڑک خالی تھی لیکن اسے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ۔ اسلام آباد لیجانے کی کوشش کی گئی جو کہ وہاں سے 16 کلومیٹر دور ہے ۔ پھر مری روڈ پر ٹریفک بھی بہت تھی اور جلوس بھی تھا ۔ مری روڈ پر راولپنڈی جنرل ہسپتال لیاقت باغ سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اس سے آگے گذرنے کے بعد یو ٹرن کر کے واپس آئے اور جنرل ہسپتال لے گئے ۔ اس طرح 35 قیمتی منٹ ضائع ہو گئے جس دوران بیشمار خون بہہ چکا تھا ۔

ان حقائق کی روشنی میں قارئین آسانی سے تعین کر سکتے ہیں کہ قاتل کون ہے ۔

ایک اچھا مشورہ

میں نے اک عمر گذاری ہے گردشِ دوراں کے ساتھ لیکن میرے خالق و مالک نے مجھے اس سَیلِ رواں کے ساتھ بہہ جانے سے ہمیشہ بچایا ۔ میں اپنے اللہ الرحمٰن الرحیم کا جتنا بھی شکر بجا لاؤں کم ہے ۔ میرے پرانے قارئین جانتے ہونگے کہ میں نے بینظیر کے جس مسلک کو غلط سمجھا اس کی کھُل کر مخالفت کی ۔ میں اس کا کبھی ووٹر بھی نہیں رہا ۔

میری تمام مسلمان قارئین سے درخواست ہے کہ صرف اپنی بہتری اور اپنی اچھی عاقبت کیلئے کسی بھی مرنے والے کے خلاف کوئی کلمہ لکھنا یا زبان پر لانا تو کیا سوچیں بھی نہیں کیونکہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتے ہی مرنے والے کا حساب کتاب اللہ کے ہاں شروع ہو جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس کی اچھائی بیان کرنا یا اس کیلئے مغفرت کی دعا کرنا نیک عمل ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو بیشک گنہگار ہو مگر اس کی برائی بیان کرنا اپنے گناہوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اسلئے اب جبکہ کہ بینظیر عالمِ برزخ میں پہنچ چکی ہے اس کی برائیاں بیان نہ کریں ۔

وما علینا الالبلاغ

میں ممنون ہوں

میں تمام قارئین کا ممنون ہوں جنہوں نے میری بیماری میں میرے لئے دعا کی اور ان کی دعاؤں اور اللہ کے کرم سے الحمدللہ اب میری طبیعت بہت بہتر ہے ۔ میں بالخصوص مندرجہ ذیل خواتین و حضرات کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ۔ اللہ آپ سب کو خوش و صحتمند رکھے ۔ آمین ۔ محمد شاکر عزیز صاحب ۔ طارق کمال صاحب ۔ الف نظامی ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ شگفتہ صاحبہ ۔ روسی شہری صاحب ۔ بوچھی صاحبہ ۔ وقار علی روغانی صاحب اور فیصل صاحب ۔

بیٹیاں اللہ کی نعمت ہوتی ہیں ۔ انہیں اللہ تعالٰی نے بہت محبت کرنے والا دل دیا ہوتا ہے ۔ اسی لئے شگفتہ صاحبہ اور بوچھی صاحبہ نے بار بار میری عیادت کی ۔

میں سوچتا ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے کتنا مالدار بنایا ہے ۔ زر و جواہر میرے پاس نہیں تو کیا ہوا ۔ ان کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ ایک محبت ساری دنیا کی دولت سے نہیں خریدی جا سکتی اور میں اتنی ساری محبتیں سمیٹ رہا ہوں ۔ سُبحان اللہ بعدد خلقِہِ ۔

مجھے کوئی خطرناک بیماری نہ تھی ۔ میرا جسم اللہ تعالٰی نے بہت حساس بنایا ہے اور اسلام آباد میں اب الرجی بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ مجھے نزلہ ۔ بخار اور کھانسی نے گھیر لیا ۔ کھانسی اس قدر شدید تھی کہ میں تین دن اور دو راتیں بالکل نہ سو سکا ۔ کسی وقت تو سانس لینا ہی دشوار ہو جاتا ۔ یہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہتا ہے ۔

جمہوریت کا قتل

اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
یہ سال جو 3 دن بعد ختم ہونے والا ہے ۔ ملک کی 60 سالہ زندگی کا بد ترین سال بن کر رہ گیا ہے ۔ ستم تو فوجی آمر ڈھاتے ہی ہیں مگر پرویز مشرف نے ظُلم میں پاکستان کے دُشمنوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس سال میں ظُلم کے چیدہ چیدہ واقعات یہ ہیں

باجوڑ کے دینی مدرسہ پر میزائل یا بم مار کر 80 سے زائد طلباء اور اساتذہ شہید کئے گئے جن میں 30 طلباء کی عمریں 9 اور 15 سال کے درمیان تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
جنوبی اور پھر شمالی وزیرستان پر فوج کشی اور بمباری جس میں بوڑھوں ۔ بچوں اور عورتوں سمیت سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی معطلی
کراچی میں 12 مئی کا قتلِ عام ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن جس میں سینکڑوں طلباء و طالبات ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر 4 سے 17 سال کی بچیاں تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
کراچی میں بینظیر کے جلوس میں دھماکے جس میں 150 بیگناہ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
سوات پر فوج کشی جس میں اب تک سینکڑوں شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
ایمرجنسی کے نام پر پرویز مشرف کا دوسرا مارشل لاء
پانچ درجن سے زائد سینئر ترین جج صاحبان کو سبکدوش کر کے قید کرنا
وکلاء اور صحافیوں پر بیہیمانہ پولیس تشدد
چارسدہ کی مسجد میں بم دھماکہ جس میں 60 نمازی شہید ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پورے ملک میں ڈکیتیوں میں بے پناہ اضافہ

اور کل یعنی جمعرات 27 دسمبر 2007ء کو

سہ پہر کے وقت مسلم لیگ نواز کا جلوس جب شاہراہ اسلام آباد پر کرال چوک کے قریب تھا تو سڑک کے کنارے اُونچی جگہ پر کیو لیگ کےرہنما نواز کھوکر کے گھر کی چھت سے جلوس پر گولیاں چلائی گئیں جس میں 11 آدمی ہلاک اور 3 درجن زخمی ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ پہلے خبر پھیلی کہ نواز شریف پر فائرنگ کی گئی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نواز شریف اس جلوس میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے راستہ بدل لیا تھا چنانہ یہ جلوس اس کے ساتھ شامل ہونے کیلئے جا رہا تھا ۔

پھر سورج غروب ہونے کے وقت یعنی 5 بج کر 5 اور 7 منٹ کے درمیان بینظیر بھٹو پر بالکل قریب سے گولیاں چلائی گئیں اور پھر زوردار دھماکہ ہوا ۔ بینظیر کو راولپنڈی جنرل ہسپتال ہسپتال لیجایا گیا جو وہاں سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جہاں ڈاکڑ پروفیسر مصدق اس کی جان بچانے میں ناکام رہے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ سرکاری مسلک ہے کہ بینظیر خودکُش حملہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوئیں جبکہ قُرب و جوار میں موجود لوگوں اور کچھ صحافیوں کے مطابق بینظیر گولیوں سے اور باقی 29 لوگ دھماکے کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ 100 کے قریب زخمی ہوئے جن میں ناہید خان کی حالت تشویشناک ہے ۔

بلاشبہ میں بینظیر کا حامی کبھی نہیں رہا اور اس کے کئی خیالات کی مخالفت بھی کرتا رہا لیکن بینظیر ہمارے ملک کے دو مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھیں ۔ ظُلم ظُلم ہوتا ہے اور اللہ نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور میری ہمدردیاں ان بچوں کے ساتھ ہیں جو ماں سے محروم ہو گئے ۔ بینظیر کا قتل بقول نواز شریف “جمہوریت کا قتل ہے ۔ عوام کی خواہشات کا قتل ہے ۔ عوام کا قتل ہے ۔ ملک کا قتل ہے “۔

جمرات 27 دسمبر کے دونوں واقعات پاکستان کے خلاف ایک گہری سازش معلوم ہوتے ہیں جسے روکنے میں موجودہ خودغرض حکومت بُری طرح ناکام رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ میری دعا ہے ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔ ہمیں ان نااہل اور خودغرض حکمرانوں سے نجات دلائے اور ان کی جگہ مُلک و ملت کا درد رکھنے والے حکمران عطا فرمائے”۔

معذرت

میں معذرت خواہ ہوں کہ عید الاضحٰے سے ایک دن پہلے شدید بیمار ہو جانے کی وجہ سے آج ہی کمپوٹر چلایا ہے اسلئے کسی کا بلاگ یا اپنے بلاگ پر تبصرہ نہ دیکھ سکا اور نہ کسی کی ای میل دیکھ کر جواب دے سکا ۔ اب میں انشاء اللہ آہستہ آہستہ سب کام کروں گا کیونکہ ابھی پوری طرح صحتیاب نہیں ہوا ۔

انوکھا اُستاذ

پاکستان بننے سے پہلے کے بھی مُجھے سارے اساتذہ ياد ہيں اور ميں اب تک اُن کو ياد کر کے دعائيں ديتا رہتا ہوں ۔ وہ تھے اُردو کے ہدائت حسين ۔ حساب کے بھگوان داس ۔ انگريزی کی مِسِز گُپتا ۔ تينوں بہت مُشفق اور محنت سے پڑھانے والے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسلاميہ مڈل سکول اور مُسلم ہائی سکول ميں جنہوں نے مُجھے پڑھايا ۔ انگريزی کے نبی بخش ۔ نذير احمد قريشی ۔ ظہور احمد ۔ رياضی کے نور حسين ۔ آُميد علی ۔ طفيل قريشی ۔ ہدائت اللہ ۔ سائنس کے ہدائت اللہ ۔ تاريخ جغرافيہ کے سبغت اللہ قريشی ۔ دينيات کے مولوی عبدالحکيم جو بعد ميں رُکن قومی اسمبلی مُنتخب ہوئے ۔ گارڈن کالج ميں رياضی کے خواجہ مسعود ۔ انگريزی کے وِکٹر کے مَل اور برک ۔ کيمياء کے نسيم اللہ اور ڈاکٹر ٹَيبی ۔ طبيعات کے مسعود انوراور ملِک محبوب الٰہی ۔ انجيئرنگ کالج کے ڈاکٹر احمد حسن قريشی ۔ ڈاکٹر اکرام اللہ ۔ ڈاکٹر مُبشّر حسن ۔ عنائت علی قريشی ۔ سلطان حسين ۔ عبدالرّحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشيد ۔ مختار احمد ۔ ايم ۔ ايچ قريشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ وليم آرتھر ميلرز ۔ غرضیکہ سب ہی بڑی محنت سے پڑھاتے تھے ۔ بعد ميں جب بھی کبھی ان ميں سے کسی سے ملاقات ہوئی بہت اچھی طرح پيش آئے ۔ اِن ميں سے سوائے ايک اُستاذ کے ميرے دل ميں اب بھی سب کيلئے بڑی عزت ہے ۔

انجنيئرنگ کالج لاہور سے بی ايس ای انجنيئرنگ پاس کرنے کے بعد ميں نے دسمبر 1962 ميں پولی ٹيکنِک انسٹيٹيوٹ راولپنڈی ميں ملازمت شروع کی اور اللہ کی مہربانی اور اپنی محنت سے دو تين ماہ ہی ميں سينِئر اساتذہ اور پرنسپل صاحب کا منظورِ نظر بن گيا ۔ انسٹيٹيوٹ ميں پہلے سے ايک صاحب جو ميرے اُستاذ رہ چُکے تھے عارضی بندوبست کے تحت ملازم تھے ميں اُن کا احترام اپنے ساتھی کی بجائے اپنے اُستاذ کے طور پر ہی کرتا تھا ۔

ايک دن صبح سويرے انسٹيٹيوٹ پہنچ کر ميں اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذرنے کے بعد راستہ ميں اپنے سابق اُستاذ سے ملاقات ہوئی ۔ ميں نے سلام و نياز پيش کئے ۔ چلتے وقت اُنہون نے مجھ سے پوچھا ۔ آپ پرنسِپل صاحب سے مل کر آ رہے ہيں ؟ ميں نے کہا ۔ نہيں ميں پرنسپل صاحب سے نہيں ملا ۔ ميری پہلی کلاس ہے اس لئے جلدی ميں ہوں ۔ ميں اپنے دفتر پہنچا اور نوٹس اور کتاب لے کر کلاس روم ميں چلا گيا ۔ 40 منٹ بعد کلاس ختم ہوئی تو ايک سينيئر اُستاذ ميرے دفتر ميں آئے اور پوچھا کہ آپ صبح دير سے آئے تھے ؟ ميرے نہيں کہنے پر وہ کہنے لگے کہ ميں پرنسپل صاحب کے پاس بيٹھا تھا کہ آدھا گھينٹہ قبل آپ کے سابق اُستاذ تشريف لائے اور بولے ” آپ نے اجمل بھوپال کو تو نہيں ديکھا ؟” اور ميرے جواب کا انتظار کئے بغير پرنسپل صاحب کی طرف رُخ کر کے کہا “سَر ۔ ميں صبح سے اجمل بھوپال کو ڈھونڈ رہا ہوں ليکن نہيں ملے ۔ وہ چھُٹی پر تو نہيں ؟”

ميں آج پہلی بار اس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قُدرت ديکھئے کہ وہ صاحب اپنی اس غَلَط حرکت سے ميرا تو کچھ نہ بگاڑ سکے البتہ خود وہ کم از کم ميری اور ايک اپنے سے سينئر اُستاذ کی نظروں ميں گِر گئے ۔ يہ حقيقت ہے کہ جو انسان حَسَد کا شکار ہو جائے اُس کا ضمير مر جاتا ہے ۔ اللہ ہميں حَسَد کرنے اور جھوٹ بولنے سے بچائے ۔ آمين

عیدالاضحٰے مبارک

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ جنہوں نے حج کیا ہے انہیں حج مبارک ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ان کا حج قبول فرمائے ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم سب کو اچھی صحت عطا فرمائے اور خوشی اور خوشحالی نصیب کرے ۔ برائیوں سے بچائے اور نیکی کی راہ پر ثابت قدم کرے ۔ بُرے حاکموں سے نجات دلائے اور باعمل مسلمان حاکم نصیب فرمائے جو اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے عوام کی خوشحالی کیلئے کوشاں ہوں اور اپنی کرسی مضبوط کرنے کی بجائے قوم اور ملک کو مضبوط کریں ۔ آمین یا رب العالمین ۔