یاری پرویز مشرف کی

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے سیکورٹی مشیروں نےخفیہ ادارے سی آئی آے اور امریکی فوج کو پاکستان میں خفیہ آپریشن کرنے کا اختیار دینے کے معاملے پر غور شروع کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی، وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس سمیت سیکورٹی کے اعلی مشیروں نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں پاکستانی سرزمین پر سی آئی اے اور امریکی فوج کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشگردوں [غریب مسلمانوں] کے خلاف جارحانہ مگر خفیہ کارروائی کرنے پرغور کیا گیا۔

امریکی سیکورٹی مشیروں کی اس میٹنگ میں کئی مشیروں کا موقف تھا کہ اس وقت پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف انتہائی غیر مقبول ہو چکے ہیں اور انہیں امریکی فوج اور سی آئی اے کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کاررائیوں کی کھلی چھٹی دینے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی تحفظات پر زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھیں گے۔ امریکی مشیروں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں تک اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔

اس وقت 50 امریکی فوجی پاکستانی سر زمین پرموجود ہیں اور اگر سی آئی اے کو پاکستان میں آپریشنز کی اجازت دے دی گئی تو وہ امریکی فوج کی سپیشل آپریشن کمانڈ کی مدد حاصل کر سکے گی۔

ماضی میں عمومی طور پر امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے سے باز رہا ہے اور القاعدہ کے رہنماؤں پر اکا دکا حملوں کےعلاوہ اس نے پاکستانی علاقے میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے۔امریکی ذرائع مانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی ایجنسی باجوڑ کے ڈمہ ڈولا میں ایمن الظہوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ [وہاں ایمن الظواہری نہیں تھے ۔ امریکی میزائل کا نشانہ ایک دینی مدرسہ تھا جس میں تین درجن نابالغ بچوں اور تین اساتذہ سمیت 80 لوگ شہید ہوئے تھے]

قربانی اور واویلا

عیدالاضحٰے کی قربانی کے حوالے سے واویلا چند سالوں سے سُن اور اخبارات میں پڑھ رہا تھا ۔ اس سال میں نے سوچا کہ اس پر میں بھی اپنے خیالات اور تجربہ کا خلاصہ پیش کروں ۔ لیکن مجھے توقع نہیں تھی شگفتہ صاحبہ ہماری قوم کے ایک قبیح پہلو کو اُجاگر کرنے کی کوشش میں لکھیں گی “ہم قربانی کے نام پر پہلے دن دوسرے دن حتی کہ تیسرے دن بھی بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ہاں حساب لگا کے یہ نہیں کہنے کی ضرورت کہ کچھ حصہ ہی سہی تعلیم کے لیے خرچ کر لیں ان رقوم سے”

قربانی جو عام ہوئی وہ تو سنّتِ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام ہی ہے لیکن قربانی انسان کی ابتداء سے جاری ہے ۔ انسانوں کے باپ سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے بھی جانوروں کی قربانی دی ۔ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی ۔ شروع زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ کہیں سے آگ آتی اور جس کی قربانی کو کھا جاتی اس کی قربانی قبول سمجھی جاتی اور جس کی قربانی کو آگ نہ کھاتی وہ قبول نہ سمجھی جاتی ۔ یہ طریقہ کار اس وقت تک جاری رہا جب سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کی قربانی کیلئے تیار ہو جانے پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ان کی قربانی اس طرح قبول کر لی کہ بیٹے کو تو کچھ نہ ہوا اور اس کی جگہ دُنبے یا مینڈے ذبح ہوئے ۔ اس وقت سے آج تک دُنبے ۔ مینڈے ۔ بکرے ۔ گائے یا اُونٹ کی قربانی 10 ذوالحجہ کو کی جاتی ہے ۔

دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت واضح ہے لیکن سنّت سیّدنا ابراھیم علیہ السلام پر اُٹھنے والے خرچ کو تعلیم پر اُٹھنے والے خرچ سے کوئی واسطہ نہیں ۔ عجب بات تو یہ ہے کہ اس پر اعتراض کرنے والے کروڑوں روپیہ فضولیات پر خرچ کرتے ہیں جو دین سے تعلق ہونا تو کجا اُلٹا گناہ کا سبب ہوتا ہے مثال کے طور پر آتش بازی ۔ قبروں پر چڑھاوے ۔ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنروں ۔ وزراء اعلٰی اور دیگر وزراء کے لاحاصل دورے اور جشن جن پر قوم کا اربوں روپیہ خاک کی طرح اُڑایا جاتا ہے ۔ صدرِ پاکستان کے ایک چھوٹے سے پروٹوکال پر کروڑوں روپیہ برباد کر دیا جاتا ہے ۔ صدر ۔ وزیراعظم ۔ وزراء اعلٰی وغیرہ کی حفاظت پر مامور عملہ پر اربوں روپیہ ماہانہ خرچ اُٹھتا ہے ۔ ان تمام فضول اخراجات کا اگر آدھا بھی تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے تو تمام غریبوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور سب کو اپنے ہی شہر میں مناسب علاج کی سہولت مل سکتی ہے ۔

قربانی کے سلسلے میں یہ بات نہیں بھولنا چاہئیے کہ ایسے لاکھوں لوگوں کو سال میں ایک بار گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے جو سال بھر گوشت کو صرف حسرت سے دیکھتے ہیں ۔

آدمی کی چار قسميں

پہلا ۔ جس کے پاس عِلم اور دولت دونو ہوں اور وہ اپنے علم کو استعمال کر کے اللہ کے احکام کی حدود ميں اپنا مال خرچ کرے

دوسرا ۔ جس کے پاس عِلم ہو ليکن دولت نہ ہو اور وہ نيّت کرے کہ اگر اُس کے پاس دولت آئے تو وہ پہلے آدمی کی طرح خرچ کرے گا

تيسرا ۔ جس کے پاس علم نافع نہ ہو اور دولت ہو اور وہ اللہ کے احکام کی پروہ کئے بغير دولت خرچ کرے

چوتھا ۔ جس کے پاس نہ علم نافع ہو نہ دولت اور وہ تيسرے آدمی کے جاہ و جلال سے متأثر ہو اور نيّت کرے کہ دولت مل جائے تو وہ بھی تيسرے آدمی کی طرح رہے گا

مندرجہ بالا حديث ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی اور انہوں نے فرمايا کہ پہلے اور دوسرے آدمی کو برابر اجر ملے گا اور بہترين اجر ہو گا جبکہ تيسرے اور چوتھے آدميوں کيلئے تباہی ہے ۔

تشريح :۔ نیت محظ خيال یا سوچ کو نہيں کہتے ۔ نيّت فيصلے يا پکّے ارادے کو کہتے ہيں جس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے ۔

نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی

آج گرِیگورین یا عیسوی سال 2008 کی پہلی تاریخ ہے ۔ میں پچھلے سال یعنی 2007ء کے آخری دن سے اس سوچ میں گم ہوں کہ برس ہا برس بیت گئے ۔ لوگوں سے سنتے اور اخبارات میں پڑھتے رہے کہ لوگوں نے نئے سال سے پہلے رات بڑے جوش و خروش سے منائی ۔ کسی نے پٹاخے چلائے ۔ کوئی ناچا ۔ کوئی اُمِ الْخبائث کے مزے لوٹتا رہا ۔ گذشتہ رات کو بھی ایسا ہی ہوا ہو گا ۔ مجھ جیسے [آج کی دنیا کے مطابق] بے ذوق آدمی صرف اپنی غلطیوں کی معافی اپنے اللہ سے مانگتے رہے اور ہر سال اسی سوچ میں گم رہے کہ اس خوشیوں کے بے ہنگم اظہار کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ہم نے بہت ترقی کر لی ہے ؟ کیا ہم بہت پڑھ لکھ گئے ہیں ؟ کیا ہم خود کفیل ہو گئے ہیں ؟ کیا ہمارے تمام ہموطنوں کو دو وقت کا کھانا مل رہا ہے ؟

میری عمر 70 سال ہے ۔ دیکھتے ہیں پچھلے 50 سال میں ہم نے کتنی اور کیا ترقی کی ہے ۔ تب یعنی 50 سال قبل ہم تانبے یا پیتل کی تھالیوں میں کھانا کھاتے تھے ۔ شادی میں صرف پلاؤ ۔ زردہ اور ایک سالن ہوتا تھا اور کبھی ساتھ دہی بھی ۔ ہاتھ سے چاول کھاتے تھے ۔ پینے کو پانی ملتا تھا ۔ زمین پر دریاں بچھا کر بیٹھتے تھے ۔ شادی یا دوسری دعوت ہو تو کھا چکنے کے بعد کوئی تھالیوں میں کھانا یا گلاس میں پانی نہیں چھوڑتا تھا ۔ دعوت ختم ہونے پر زمین پر نہ کوئی ہڈی ہوتی تھی نہ چاول کا دانہ ۔

تب کوئی آپ کہہ کر مخاطب ہو تو بڑے ادب سے اور آپ کہہ کر ہی جواب دیتے تھے ۔ چاہے کوئی اپنے ماتحت یا کسی بہت کم عہدہ پر ہو لیکن عمر میں اپنے سے کافی بڑا ہو تو اسے ادب سے مخاطب کرتے تھے ۔ چھوٹے بیٹھے ہوں اور کوئی بڑا آ جائے تو بڑے کو جگہ دے دیتے ۔ بڑوں سے ملنے پر چھوٹے مؤدبانہ طریقہ سے سلام کرتے ۔ بڑوں کے سامنے چھوٹے ٹھٹھہ مذاق نہ کرتے ۔

اب چینی کی پلیٹوں میں کھاتے ہیں ۔ چمچے اور کانٹے سے کھاتے ہیں ۔ دس بارہ قسم کے کھانے ہوتے ہیں جس میں انگریزی ۔ اطالوی اور چینی کھانے شامل ہوتے ہیں ۔ کئی قسم کے مشروب ہوتے ہیں ۔ کرسی میزوں پر مزیّن ہوتے ہیں ۔ اگر کھانا علیحدہ میزوں پر سجا ہو تو کھانے کے گرد جمگھٹا کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے سے زبردستی آگے گھُس کر کھانا ڈالنے کی کوشش میں آگے کھڑے شخص کے کپڑے سالن آلود کر دیتے ہیں ۔ دعوتوں میں کئی لوگ پلیٹوں میں کھانا اور گلاسوں میں مشروب چھوڑنا تہذیب کی نشانی سمجھتے ہیں ۔ دعوت کے بعد عام طور پر زمین پر بلکہ قالین پر مرغی کی ہڈیاں بکھری ہوئی ہوتی ہیں ۔

اب نام سے مخاطب کیا جاتا ہے چاہے عمر میں مخاطب شخص والدین سے بھی بڑا ہو ۔ بزرگ سے بزرگ شخص بھی اگر عہدہ میں کمتر ہو تو اسے نام سے اور اکڑ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ چھوٹے بیٹھے ہوں اور کوئی بڑا آ جائے تو چھوٹے اسی طرح پڑے رہتے ہیں ۔ بڑے کے آنے پر چھوٹے سلام تو کُجا بعض اوقات ان کی طرف دیکھنا بھی گورا نہیں کرتے ۔ بڑوں کے سامنے چھوٹے ٹھٹھہ مذاق کرنا شاید اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

کیا خوب ترقی ہے یہ ۔ ۔ ۔

حکومت کا میں نہ مانوں

گاڑی کے سن روف کے لیور سے ٹکرا کر قاتل زخم والی بات تو زخم کی نوعیت نے ہی مسترد کر دی تھی ۔ 30 دسمبر کو آصف علی زرداری نے بتا کہ گاڑی کے سن روف کے لیور ربڑ کے ہیں ۔ ڈاکٹر مصدق اور ساتھیوں کی لکھی میڈیکل رپورٹ نامکمل ہے ۔ ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا تھا کہ آٹوپسی آصف زرداری نے نہیں کرنے دی جو کہ جھوٹ نکلا ۔ آٹوپسی راولپنڈی کے پولیس چیف نے نہیں کرنے دی تھی ۔ بینظیر کے قتل کی وڈیو کے متعلق ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا “یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ وڈیو بینظیر ہی کے قتل کی ہے ؟” نیچے ملاحظہ کیجئے مختلف کیمرہ مینوں کی لی ہوئی وڈیوز جن سے واضح ہے کہ بینظیر گولی لگنے کے بعد گاڑی کے اندر گر گئیں پھر دھماکہ ہوا ۔ چینل 4 کی وڈیو میں نظر آتا ہے کہ گولی چلنے کے بعد بینظیر کا دوپٹہ اور بال اُوپر کو اُچھلے اور وہ نیچے گاڑی میں گر گئی پھر دھماکہ ہوا ۔

ڈٹھا کھوتیوں غصہ کمیار تے

عنوان پوٹھوہاری زبان کی ضرب المثل ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک شخص کمہار سے گدھا مستعار لے کر اس پر سواری کر رہا تھا کہ گر گیا اور گالیاں کمہار کو دینے لگا ۔ اسی طرح اگر روٹی پکانے والا روٹی جلا دے یا ٹھیک نہ پکائے اور گالیاں گندم اُگانے والے کسان کو دی جائیں ۔ کوئی ریاضی کو سمجھے بغیر ہی کہے کہ ریاضی بہت بُرا مضمون ہے یا طب کی تعلیم تو حاصل نہ کرے اور کہے کہ سب طبیب یعنی ڈاکٹر جاہل ہیں یا ظالم ہیں کہ لوگوں کے پیٹ چاک کر دیتے ہیں ۔ یہ سب کہاں کی عقلمندی ہے ؟ اور ایسے شخص کو کون تعلیم یافتہ کہے گا ؟ لیکن دورِ حاضر میں انسانوں کی اکثریت کی یہی عادت ہے جو ستاروں پہ کمندیں تو ڈالنے لگ گئے ہیں لیکن اپنے ذہن کی تربیت کرنے میں معذور دکھائی دیتے ہیں ۔

دورِ حاضر کا انسان عقل کو حیران کرنے والی نئی نئی ایجادات سے اتنا محسور ہو گیا ہے کہ اس نے اپنی عقل سے سوچنا چھوڑ دیا ہے اور ذرائع ابلاغ پر تکیہ کر لیا ہے جو کہ ایک مخصوص طبقہ کے دستِ نگر ہیں اور یہ مخصوص طبقہ آج کی دنیا میں بسنے والوں کا خدا بن بیٹھا ہے ۔ جو خبر ٹی وی ۔ اخبار یا انٹرنیٹ پر آ جائے وہ حرفِ آخر بن جاتی ہے خواہ کتنی ہی غلط ہو اور انہی کچھ سچی کچھ جھوٹی اور کچھ من گھڑت خبروں میں حقائق گم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

بلاشبہ اسلام دشمنی محسوس اور غیر محسوس طور پر شیطان کے پیروکاروں کا اولین ہدف رہا ہے لیکن دنیا میں کمیونزم کا زور ٹوٹنے کے بعد اسلام دشمن قوتوں نے تماتر توجہ اسلام کی بیخ کنی پر لگا دی ۔ اسلام کے پروکاروں کو اصل راستہ سے ہٹانے کیلئے ان میں تفرقہ ڈالنے کی کوششین تو کئی صدیاں قبل ہی شروع کر دی گئی تھیں ۔ پچھلی صدی میں ان کوششوں کو نیا رنگ اور نیا جذبہ عطا کیا گیا ۔ راہ گم کردہ مسلمانوں کو پُرکشش نئے نعرے دیئے گئے جن میں انسانی حقوق ۔ عورتوں کی برابری سرِ فہرست ہیں ۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جو انسانی حقوق کو اولیں ترجیح دیتا ہے اور جس نے نہ صرف عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں بلکہ عورت کو ہر ایک کیلئے قابلِ احتران ٹھہرایا ہے ۔ کچھ دُور اُفتادہ علم حاصل کرنے کی دسترس نہ رکھنے والوں کی کچھ سچی اور زیادہ جھوٹی مثالیں بیان کر کے انہیں ہوا دی گئی اور ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر ہاہا کار مچ گئی ۔ دین اسلام کے علم سے عاری مسلمان پے در پے اس اشتہاربازی کا شکار ہونے لگے ۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمان کے فرائض و حقوق سے ناواقف مسلمان کہلانے والے خود اپنے ہی دین کے خلاف زبان درازی کرنے لگے ۔ کوئی بیٹا اپنی اس ماں جس کے بطن سے وہ پیدا ہوا تھا کو فاحشہ کہے تو اکثر لوگ اس پر لعنت بھیجیں گے لیکن کچھ اس پر تالیاں بجانے والے بھی ہوں گے ۔ صد افسوس کہ دین اسلام جس کا درجہ ۔ احترام اور اطاعت ماں سے بھی بہت بڑھ کر لازم ہے اس کے خلاف مسلمان زبان درازی کرنے پر اُتر آئے ۔ اور پھر انہیں دعوٰی مسلمانی کا ہے ۔

ایک بلاگر کا دماغ کسی ناگہانی صدمہ کو برداشت نہ کر سکا اور ماؤف ہو کر اپنی مسلمانی پر ہی دشنام طرازی کرنے لگا ۔ اسی پر بس نہیں چند اپنے آپ کو ارسطو اور سقراط سمجھنے والوں کو گویا اپنے حلق کی صفائی کرنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے اپنے دل کی حسرتیں جی بھر کر پوری کیں ۔

مثل مشہور ہے کہ کسی نے چاند پر تھوکا اور اپنا ہی منہ گندا ہوا ۔ ان عقلمندوں کو یہ بھی علم نہیں کہ اگر پانی کو آگ کہہ دیا جائے پھر بھی وہ پانی ہی رہے گا آگ نہیں بنے گا ۔

آج کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا کا تحقیقتی نتیجہ جو ہزاروں سال قبل الہامی کتاب میں موجود تھا یہ ہے کہ “ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جس طرح کی وہ ہیں بلکہ اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح کے ہم ہیں”

عقلمند اور تعلیم یافتہ انسانوں کو چاہیئے کہ اس اصول کو یاد رکھ کر اپنے باعلم ہونے کا ثبوت دیں ۔ اللہ ہمیں کفر اور شیطان کی پیروی سے بچائے ۔ آمین یا رب العالمین آمین ۔

قاتل کون ؟ ۔ ۔ ۔ مزید معلومات

میں نے کل لکھا تھا ۔ ۔ ۔

میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

میری بیوی نے خبر کا یہ حصہ دیکھا تھا ۔ اس نے رات گئے مجھے بتایا کہ دھماکے کی آواز نہیں بلکہ لوگوں کے نعروں کا شور سُن کر وہ سَن روف سے سر باہر نکال کر کھڑی ہو گئیں تو صحیح خبر یوں بنتی ہے ۔

امین فہیم نے کہا “شور سُن کر محترمہ سَن روف سے باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

میں نے مزید لکھا تھا ۔ ۔ ۔

ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں

کل رات گئے حکومتی جھوٹ در جھوٹ سے مجبور ہو کر ڈان نیوز ٹی وی نے یہ فلم دکھا دی اور اس میں قاتل اور خودکُش بمبار دونوں نظر آتے ہیں ۔ مزید تفصیل یہاں کلک کر کے آج کا ڈان پڑھئے