آدمی کی چار قسميں

پہلا ۔ جس کے پاس عِلم اور دولت دونو ہوں اور وہ اپنے علم کو استعمال کر کے اللہ کے احکام کی حدود ميں اپنا مال خرچ کرے

دوسرا ۔ جس کے پاس عِلم ہو ليکن دولت نہ ہو اور وہ نيّت کرے کہ اگر اُس کے پاس دولت آئے تو وہ پہلے آدمی کی طرح خرچ کرے گا

تيسرا ۔ جس کے پاس علم نافع نہ ہو اور دولت ہو اور وہ اللہ کے احکام کی پروہ کئے بغير دولت خرچ کرے

چوتھا ۔ جس کے پاس نہ علم نافع ہو نہ دولت اور وہ تيسرے آدمی کے جاہ و جلال سے متأثر ہو اور نيّت کرے کہ دولت مل جائے تو وہ بھی تيسرے آدمی کی طرح رہے گا

مندرجہ بالا حديث ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی اور انہوں نے فرمايا کہ پہلے اور دوسرے آدمی کو برابر اجر ملے گا اور بہترين اجر ہو گا جبکہ تيسرے اور چوتھے آدميوں کيلئے تباہی ہے ۔

تشريح :۔ نیت محظ خيال یا سوچ کو نہيں کہتے ۔ نيّت فيصلے يا پکّے ارادے کو کہتے ہيں جس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “آدمی کی چار قسميں

  1. دریچہ

    السلام علیکم انکل
    آپ کا آخری جملہ ‘نیت’ کا مکمل اور جامع مفہوم بیان کرتا ہے۔
    ہم لوگ اکثر ‘اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے’ کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر نیت اچھی ہونے کے باوجود بوقتِ عمل ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیت کے ‘اصل’ مفہوم کو سمجھنے اور پہلی دو مثالوں کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

  2. اجمل Post author

    اہلِ دریچہ صاحبہ
    آپ کا تبصرہ پڑھ کر میں بے اختیار مُسکرا دیا ۔ آپ پر نہیں ۔ مجھے اپنا کالج کا زمانہ یاد آ گیا ۔ میں ساتھی لڑکوں کو لڑکیوں کی طرف دیکھنے سے منع کیا کرتا تھا ۔ ایک بار ایک لڑکا کہنے لگا کہ بُری نیّت سے نہیں دیکھا ۔ میں نے اسے کہا تھا کہ پہلے نیّت کے معنی تو پڑھ لو کیا ہیں ۔

  3. shahidaakram

    محترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُميد ہے آپ اللہ کے فضل و کرم سے اب بالکُل صحتياب ہوں گے سب سے پہلے ميں اپنی کوتاہيوں اور سُستيوں کے لۓ معزرت خواہ ہُوں جس کے لۓ مُجھے پُوری اُميد ہے کہ ضرُور درگُزر کريں گے آپ نے عيد کے موقعے پر کارڈ بھی بھيج کر ياد رکھا اور مُجھ سی نالائق جو جواب دينے کو ٹائم بھی نہيں نکال پائ آپ کی طبيعت کی خرابی کا علم ہونے کے باوجُود ،وجُوہات ايک نہيں بہت سی ہيں جو انفرادی بھی ہيں اوراجتماعی بھی ليکن اُن سب وجُوہات نے مل کر جسم کو ادھ مُوا کرديا ہے پھر بھی اپنے پيارے ربّ سے اچھی اُمّيد ہی ہے ہم سب کو اپنی اپنی نيّتوں پر اعتبار ہے ہو سکتا ہے ہماری يہ نيّتيں صرف اس دُعا تک ہی محدُود نا ہوں جن کو ہم نے ابتدائ کلاسوں ميں رٹا تھا کہ „بے شک اعمال کا دارومدار نيّتوں پر ہے„ليکن آج ميں نے يہ سب اپنے بہت قريب ديکھا ہے کہ کہنے اور کرنے کا فرق اتنا زيادہ ہے کہ سواۓ دل مسوس کر رہ جانے کے اور کُچھ نہيں کر پاتی اور صرف اپنی ذات سے جو بھی بن پڑتا ہے وہ ضرُور کرتی ہُوں اپنی بيٹی کو بھی اسی کی تلقين کی ہے کہ صرف يہی کر سکتی ہُوں جس پر مُجھے يقين ہے وہ ضرُور عمل کرے گی اور کرتی بھی ہے صرف يہ سوچتي ہُوں کہ قول و فعل کے اس تضاد کے دور ميں ہم اپنے بچوں کو کيا سکھا رہے ہيں کُچھ سکھا بھی پا رہے ہيں يا نہيں دُعا ہے کہ آپ جيسے محترم بزُرگ ہميں ان نصيحتوں کے قابل سمجھتے رہيں اورآپ کا سايہ ہم پر تا دير قائم رہے اپنا خيال رکھيۓ گا عيد اور گۓ سال کی مُبارک کيا ديں کہ سال جاتے جاتے مُلک کی بھت سی املاک کو لے گيا مُشکل سے کُچھ بنتا ہے اور بگڑتا اُس سے ہزار گُنا ہے اور ان مواقع سے فائدہ اُٹھا کر مُلک کو نُقصان پہنچانے والے اپنا کام کر جاتے ہيں يہ سوچے بغير کہ تباہ کس کو کر رہے ہيں مُلک کو ، مُلکی معيشت کو يا مُلک کے نام کو
    اپنا خيال رکھيۓ گا اور دُعاؤں ميں ضرُور ياد رکيۓ گا کہ آج کل طبيعت اتنی زيادہ خراب رہتی ہے کہ کُچھ بھی اچھا نہيں لگتا ابھی بھی لائينيں گڈمڈ ہو رہی ہيں
    اللہ حافظ
    دُعاگو
    شاہدہ اکرم

  4. اجمل Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
    آپ کی نوازشات کا تہہ دل سے مشکور ہوں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا شکر بجا لاؤں کم ہے کہ آپ جیسے لوگ میرے لئے نیک تمنائیں رکھتے ہیں ۔ یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم آپ کی پریشانیاں دُور فرمائے اور آپ کو سدا صحتمند ۔ خوش اور خوشحال رکھے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.