کیا صرف پاکستانی گھورتے ہیں ؟

یہ میری 17 دسمبر 2007ء کی تحریر کا دوسرا باب سمجھ لیجئے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کو جتنی اپنے ہموطنوں سے شکائت رہتی ہے کسی اور قوم کو نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سب پاکستانی بُرے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے اور ایسے لوگوں کو غیر کے سامنے اچھا بننے کا ایک ہی طریقہ سمجھ آیا ہے کہ اپنوں کو بُرا کہیں ۔ اس طرح وہ دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو بُرا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہموطنوں میں قباحت یہ ہے کہ ٹکٹِکی لگا کر دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں جو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر لفظ گھورنا کی بجائے بُری نظر سے دیکھنا کہا جائے تو ایسا یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتا ہے حالانکہ ان ملکوں میں جنسی آزادی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں کسی لڑکی یا عورت کو گھورنے یا غلط نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے یعنی کسی عورت یا لڑکی میں کشش محسوس ہوئی تو موقع پا کر اس کا بھوسہ لے لیا ۔ یہ عمل زبردستی بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یورپ کے ایک شاپنگ سنٹر میں کچھ خریدنے کیلئے اس کی تلاش میں تھا ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور بہت کم لوگ موجود تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ایک مرد گاہک نے ایک سیلز وومن کا بھوسہ لینے کی کوشش کی وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی تو اس نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر بھوسہ لینے کی کوشش کی ۔ عورت نے اپنے آپ کو چھڑانے کی پوری کوشش کی ۔ اتنی دیر میں میں قریب پہنچ گیا ۔ جونہی مرد نے مجھے دیکھا وہ عورت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔

اطالوی چُٹکی لینے میں مشہور ہیں ۔ یہ میرا مشاہدہ بھی ہے ۔ کئی ملکوں میں مرد یا لڑکا گذرتے گذرتے کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ کچھ کر جاتا ہے جس پر عام طور پر لڑکی یا عورت مسکرا دیتی ہے لیکن کبھی کبھی لال پیلی ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پیرس ۔ فرانس میں ایک عورت نے پیچھے بھاگ کر مرد کو تھپڑ لگایا ۔ 1980ء یا اس کے آس پاس کا واقعہ ہے کہ طرابلس ۔ لبیا میں ایک سوڈانی عورت گوشت کی دکان پر کھڑی تھی کہ ایک یورپین مرد نے ناجانے کیا کیا کہ عورت نے تیزی سے پلٹ کر اُسے دو چار دوہتھڑ مارے ۔ قبل اس کے کہ کوئی یورپین کو پکڑنے کا سوچتا وہ بھاگ کر مارکیٹ سے باہر نکل گیا ۔

یورپ اور امریکہ میں لڑکیاں اور عورتیں بھی لڑکوں یا مردوں سے اس سلسلہ میں پیچھے نہیں ۔ میں امریکہ میں صرف 20 دن رہا اور اس دوران اس قسم کے 2 واقعات دیکھنے کو ملے ۔ البتہ یورپ میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ۔

چند تبصرے

پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس پر بی بی سی اُردو سے نقل کئے چند تبصرے

جيو اور باقی چينلزکی بندش کے بعدانٹرنيٹ ہی واحد معلوماتی ذريعہ بچا تھا۔ ٹی وی چينلز تو آج کل صرف بسکٹ اور صابن کی تعريف کرتے نظر آتے ہيں ليکن اب لگتا ہے کہ بی بی سی اردو کا اگلا موضوع ہوگا کہ بينگن کا بھرتاکس طرح بنتا ہے۔ کيوں کہ سائبرکرائمز ميں لفظ ’ناپسنديدہ‘ وہ تمام موضوعات اور الفاظ ہو سکتے ہيں جو لوگ اپنے تبصروں ميں صدر اور حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان سائبرکرائم آرڈيننس سے پہلے باقی اسلامی مالک کی طرح بيہودہ ويب سائيٹز بلاک کرے جو نوجوان نسل ميں بيہودگی کو فروغ دے رہی ہيں۔
مشوانی [تجویز کنندہ 11 لوگ]

اب سانس بھی آہستہ اور محتاط ہو کر لیں ورنہ گہری سانسوں پر بھی آرڈیننس جاری کر دیا جائے گا۔
محمد ریاض خان ۔ ٹو رانٹو ۔ کینیڈا [تجویز کنندہ 3 لوگ]

صدر صاحب تو منتخب پارلیمان کی موجودگی میں آرڈیننس جاری کرتے رہے ہیں۔ اس لیے منتخب پارلیمان کی غیر موجودگی میں پہلے سے ہی متنازعہ نیا قانون نافذ کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تاہم ان کی روشن خیالی کا بھانڈا بیچ چوراہے کے ضرور پھوٹ چکا ہے۔ یاد رکھیں کہ صدر پرویز مشرف ایسے تمام معلوماتی ذرائع پر پابندی لگائیں گے جس سے ان کے اقتدار اور ان کی چھتری تلے پرورش پانے والی ق لیگ کے لیے خطرہ ہو گا۔ کیونکہ بازی ہارے ہوئے لوگوں کا ہمیشہ سے یہی چلن رہا ہے۔
محمد نعیم فاروقی ۔ لاھور ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 3 لوگ]

ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بے ہودہ ۔ اس جملے ميں لفظ ناپسندیدہ کی تعريف متعين کی جائے ورنہ يہ ہر ايک کے گلے میں پھندہ فٹ کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ قطع نظر اس کے کتنے لوگوں کی انٹرنيٹ تک رسائی ہے پھر بھی قوانين تو ہمہ گير ہونا چاہیے۔ ويسے ايک اور قانون کی زيادہ ضرورت ہے جس کے تحت لفظ ’رٹائرمنٹ‘ کی تعريف متعين کر دی جائے۔
سیّد ضیاء [تجویز کنندہ 5 لوگ]

پاکستان جہاں انٹر نیٹ کی صنعت ابھی ترقی کے مراحل پر ہے اس قسم کے آرڈیننس کا مقصد ڈوبتی ہوئی کشتی میں ایک اور سوراخ کرنے کے مترادف ہے۔ لگتا یوں ہے کہ گورنمنٹ کو صرف کچھ موضوع چاہیے جس پر ارڈینینس نافذ کیا جائے۔ قوم کا کیا جاتا ہے ان کی بلا سے۔ یہ سب کچھ صرف الیکٹر ونک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک اور سازش ہے۔
عمر حیات کالس ۔ تھلہ متھرانی ۔ کوٹلی آزاد کشمیر [تجویز کنندہ 5 لوگ]

سائبر کرائمز کی روک تھام کے لۓ کوئی قانون تو ہونا چاہيے ليکن نگراں حکومت کو صرف انتخابات کے انعقاد پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہيے، قانون سازی اس کا مينڈيٹ نہيں ہے۔ ہاں اگر يہ کچھ کرنا ہی چاہے تو آٹے کی فراہمی اور قيمتوں پر کنٹرول کرنے جيسا بنيادی کام ہی کر لے تو بڑی بات ہوگی۔ آٹا ، بجلی اور گيس غائب ہے اور چلے انٹرنيٹ پر غور کرنے۔۔۔۔
محمد خالد جانگڈا ۔ کراچی ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 10 لوگ]

دو دفعہ ريٹائرڈ جنرل مشرف اپنے اقتدار پر مسلط رہنے کی ہر ہر تدبير کو پاکستانی مفاد قرار ديتے ہيں مگر 16 کروڑ عوام کے مفاد کا انکو بالکل خيال نہيں ہے۔ ان کا يہ قانون انکی اپنے اقتدار سے چمٹے رہنے کے خونی کھيل ميں کسی تصويری ثبوت سے بچنے کی تدبير کے علاوہ کچھ نہيں۔ آجکی دنيا ميں اليکٹرونک کی ہيجان خيز ترقی کو روکنا کسی مشرف کے بس کام نہيں۔ آمر کا اس طرح اليکٹرونک صحافت کو باندھنا تو نظر آتا ہے مگر اب عوام کو الو بنانا آسان نہيں۔ ايسا کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
چاند بٹ جرمنی [تجویز کنندہ 4 لوگ]

اس سے ڈکٹیٹرشپ کے نقصانات مزید اجاگر ہو رہے ہیں۔ عوامی رائے کو نظر انداز کر کر کے ان حضرات نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کاش! یہ ابھی بھی ہوش کے ناخن لیں، بصورت دیگر جتنا نقصان پہلے سے ہوسکتا ہے اللہ نہ کرے کہ ہم اس سے بڑے نقصان سے دوچار ہو جائیں۔
ریاض شاہد ۔ لاہور ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 2]

جس ملک ميں خواندگی کی شرح چالیس فیصد سے کم ھو، جہاں چالیس فیصد سے زيادہ لوگ خط افلاس سے نيچے زندگی گزار رھے ھوں، جہاں انٹرنٹ تک رسائی ہی بہت محدود تعداد لوگوں کی ھو، وھاں ايسی باتيں کرنا بےوقوفی سے زيادہ کچھ نہيں۔ انٹرنیٹ پر وھی جائيگا جو آٹا نہ ڈھونڈ رھا ھو اور يہ بھی ياد رکھنے کی بات ھے کہ انٹرنیٹ بجلی سے چلتا ھے۔
ظھور ۔ رياض ۔ سعودی عرب [تجویز کنندہ 2]

بد ترین آمریت کا نفاذ

پرویز مشرف کی حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس [Prevention of Electronic Crime Ordinance] کے نام سے ایک متنازعہ قانون غیر اعلانیہ طور پر نافذ کر دیا ہے جس کا اطلاق 31 دسمبر 2007 ء سے ہو چکا ہے ۔ آرڈیننس کے نفاذ کا انکشاف جمعرات کو اس وقت ہوا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وفاقی وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس 31 دسمبر 2007ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کے ایک مقامی اردو اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ صدر پرویز مشرف نے سائبر کرائم کے خلاف آرڈیننس جاری کردیا ہے تاہم وفاقی حکومت کے محکمہ اطلاعات یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ عام طور پر صدر جب کوئی آرڈیننس جاری کرتا ہے تو وفاقی حکومت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے میڈیا کو اس کی نقول جاری کرتی ہے ۔

اس آرڈیننس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا ۔ انٹرنیٹ یا موبائل فون کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے اور مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا جرم ہوگا اور اس پر سات سال تک قید یا تین لاکھ روپے تک سزا سنائی جاسکتی ہے حتٰی کہ کچھ جرائم میں موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ نے تو اس کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن بوجوہ یہ نافذ نہیں ہوسکا تھا ۔

بالخصوص موجودہ صورت حال میں جبکہ منتخب پارلیمان موجود نہیں ایک ایسے نئے قانون کا نفاذ جو پہلے سے ہی متنازعہ ہے کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ آخر ناپسندیدہ ۔ غیر اخلاقی اور بےہودہ جیسے الفاظ کی تعریف اور تعیّن کون کرے گا؟ کیا یہ معلومات تک رسائی کے حق کو محدود کرنے کی ایک کوشش نہیں ہے ؟

نجی ٹی وی کمپنیوں پرحکومت کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی بھی عمل کو لائیو کاسٹ [live cast] کرنا تو پہلے ہی پیمرا آرڈیننس کے تحت ممنوع قرار دیا جا چکا ہے تاکہ حکومتی ناکامیاں اور چیرادستیاں عوام تک نہ پہنچ سکیں ۔ مزید اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر میری مرضی نہ ہو اور آپ نے گزرتے ہوئے میری فوٹو لے لی تو یہ الیکٹرانک کرائم ہے ۔ پھر تو الیکٹرانک جرنلزم تو ختم ہوگئی ۔ یہ تو آزادی صحافت پر بھی ایک خطرناک وار ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین سے لیس کرنا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون میں صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ موبائل فون ۔ کیمرہ اور تصویر کشی اور پیغام رسانی کے لئے استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات کے استعمال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اور اسکے نفاذ سے فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عالمی قوانین پر دسترس رکھنے والے قانون دان زاہد جمیل کہتے ہیں کہ اس قانون کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور مجموعی طور پر ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کرکے کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر داخل کرائی جاسکتی ہے ۔ کسی بھی قانون میں جرم کی پوری طرح وضاحت کی جاتی ہے اس قانون کو اس طرح ڈیفائن کیا گیا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کے قوانین کے بالکل برعکس ہے ۔ زاہد جمیل کے بقول یہ ایک نئی مثال ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں مثلاً امریکہ ۔ برطانیہ وغیرہ میں اس طرح کے جرائم کے لئے سزائے موت کہیں بھی نہیں ہے ۔

یہ حکمنامہ بظاہر اتنا مُہلک نظر نہیں آتا لیکن اس کا استعمال انتہائی مُہلک ہو سکتا ہے ۔ 3 نومبر 2007 سے آئین میں دئیے گئے اصولوں کی جارحانہ خلاف ورزی کرتے ہوئے جو تبدیلیاں کی گئیں ان کے مطابق صدر اور صدر کے مقرر کردہ افسران کے کسی حکم کے خلاف کوئی عدالت کوئی کسی درخواست پر غور بھی نہیں کر سکتی ۔ موجودہ حکومت نے تو پچھلے 6 سال میں کسی قانون کی پرواہ نہیں کی ۔ بغیر کسی ثبوت ۔ عدالتی چارہ جوئی یا تحقیقات کے کمسن بچوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں پاکستانیوں کو اُٹھا کر غائب کر دیا گیا ۔ اب اس قانون میں تو کھُلی چھُٹی ہے کہ کسی بھی بات یا عمل کو ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ قرار دیا جا سکتا ہے اور کسی بھی شخص کو پھانسنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا اس حکمران کیلئے کیا مشکل ہے جو ملک کے آئین اور قانون کی آئے دن دھجیاں اُڑاتا رہتا ہے اور انصاف مہیا کرنے والے 60 سینئر ترین جج صاحبان کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہٹا کر پابندِ سلاسل کیا ۔ ان حالات میں کوئی شخص انصاف کیسے حاصل کرے گا ؟

یہاں کلک کر کے پڑھئے عوام کا ردِ عمل

محرم الحرام

آج محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہے اور ہجری سال 1429 کی ابتداء ہو رہی ہے ۔ عام طور پر اس مہینہ کو صرف 10 محرم 61 ھ کے دن میدانِ کربلا میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ خانہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ متذکرہ واقع سے 37 سال قبل یکم محرم 24 ھ کو رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے قریبی ساتھی دوسرے خلیفہ راشد امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا ۔

لیکن اس مہینہ کی عظمت بہت پہلے سے مقرر ہے ۔ محرم اور احرام کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں ۔ حرام کا لاحقہ اس مہینہ کی حُرمت کو بڑھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ قمری جنتری جو کہ آجکل ہجری جنتری کہلاتی ہے سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ہزاروں سال قبل سے نافذ العمل ہے کے چار مہینوں کو احترام والے مہینے کہا گیا جن میں ایک محرم الحرام بھی ہے ۔ جب تک ماہِ رمضان میں روزے رکھنے کا حکم نہیں آیا تھا رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے 10 محرم کا روزہ واجب فرمایا تھا ۔

اس مہینہ کو یہودی بھی عظمت والا مہینہ سمجھتے تھے اور 10 محرم کو روزہ رکھتے تھے کیونکہ ان کے مطابق 10 محرم کو سیْدنا موسٰی علیہ السلام اپنی قوم سمیت دریا میں سے بحاظت گذر گئے تھے اور فرعون مع اپنے پیروکاروں کے غرق ہو گیا تھا ۔

آخرِ عمر میں رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو کے علم میں آیا کہ یہودی بھی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ مماثلت سے بچنے کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ” آج کے بعد ہم 10 محرم کے ساتھ ایک اور دن ملا کر دو دن کے روزے رکھا کریں گے”۔ حضور کا تو وصال ہو گیا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمٰعین 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو جس طرح انہیں سہولت ہوئی روزے رکھتے رہے ۔

ان دو دنوں یعنی 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو روزہ رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے ۔ اگر صرف 10 محرم کا ہی روزہ رکھا جائے تو بھی ثواب ہے ۔

لاہور میں دھماکہ

لاہور میں ہائی کورٹ کے باہر آج دوپہر دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 25 اشخاص ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں 20 پولیس والے ہیں ۔ یہ دھماکہ اس مقام پر ہوا جہاں کچھ دیر بعد وکیلوں کی احتجاجی ریلی پہنچنے والی تھی۔ وکیل ہر جمعرات کو احتجاجی مظاہرہ اور عدالتوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں ۔ وکیلوں کی ایک ریلی ایوان عدل سے ہائی کورٹ کی جانب روانہ ہوچکی تھی جبکہ ہائی کورٹ بار ایسوس ایشن کا اجلاس ختم ہونے کے بعد یہ اعلان ہو چکا تھا کہ وکیل ریلی کے لیے باہر نکلیں لیکن اسی دوران ایک بڑے دھماکے کی آواز سنائی دی ۔

صحتمند کون ؟

میں نے زندگی بھر کے تجربہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آدمی کی بلحاظِ صحت چار قسمیں ہیں

1 ۔ جو شخص اپنی اور دوسروں کی بھی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اس کی صحت خراب ہی رہتی ہے

2 ۔ جو شخص صرف اپنی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اس کی صحت بھی زیادہ اچھی نہيں رہتی لیکن اولالذکر سے بہت بہتر ہوتی ہے

3 ۔ جو شخص نہ اپنی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اور نہ دوسروں کی اس کی صحت خراب نہیں ہوتی

4 ۔ جو شخص خود تو کسی بات پر پریشان نہیں ہوتا لیکن دوسروں کو پریشان کئے رکھتا ہے اس کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے