کیا صرف پاکستانی گھورتے ہیں ؟

یہ میری 17 دسمبر 2007ء کی تحریر کا دوسرا باب سمجھ لیجئے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کو جتنی اپنے ہموطنوں سے شکائت رہتی ہے کسی اور قوم کو نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سب پاکستانی بُرے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے اور ایسے لوگوں کو غیر کے سامنے اچھا بننے کا ایک ہی طریقہ سمجھ آیا ہے کہ اپنوں کو بُرا کہیں ۔ اس طرح وہ دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو بُرا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہموطنوں میں قباحت یہ ہے کہ ٹکٹِکی لگا کر دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں جو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر لفظ گھورنا کی بجائے بُری نظر سے دیکھنا کہا جائے تو ایسا یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتا ہے حالانکہ ان ملکوں میں جنسی آزادی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں کسی لڑکی یا عورت کو گھورنے یا غلط نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے یعنی کسی عورت یا لڑکی میں کشش محسوس ہوئی تو موقع پا کر اس کا بھوسہ لے لیا ۔ یہ عمل زبردستی بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یورپ کے ایک شاپنگ سنٹر میں کچھ خریدنے کیلئے اس کی تلاش میں تھا ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور بہت کم لوگ موجود تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ایک مرد گاہک نے ایک سیلز وومن کا بھوسہ لینے کی کوشش کی وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی تو اس نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر بھوسہ لینے کی کوشش کی ۔ عورت نے اپنے آپ کو چھڑانے کی پوری کوشش کی ۔ اتنی دیر میں میں قریب پہنچ گیا ۔ جونہی مرد نے مجھے دیکھا وہ عورت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔

اطالوی چُٹکی لینے میں مشہور ہیں ۔ یہ میرا مشاہدہ بھی ہے ۔ کئی ملکوں میں مرد یا لڑکا گذرتے گذرتے کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ کچھ کر جاتا ہے جس پر عام طور پر لڑکی یا عورت مسکرا دیتی ہے لیکن کبھی کبھی لال پیلی ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پیرس ۔ فرانس میں ایک عورت نے پیچھے بھاگ کر مرد کو تھپڑ لگایا ۔ 1980ء یا اس کے آس پاس کا واقعہ ہے کہ طرابلس ۔ لبیا میں ایک سوڈانی عورت گوشت کی دکان پر کھڑی تھی کہ ایک یورپین مرد نے ناجانے کیا کیا کہ عورت نے تیزی سے پلٹ کر اُسے دو چار دوہتھڑ مارے ۔ قبل اس کے کہ کوئی یورپین کو پکڑنے کا سوچتا وہ بھاگ کر مارکیٹ سے باہر نکل گیا ۔

یورپ اور امریکہ میں لڑکیاں اور عورتیں بھی لڑکوں یا مردوں سے اس سلسلہ میں پیچھے نہیں ۔ میں امریکہ میں صرف 20 دن رہا اور اس دوران اس قسم کے 2 واقعات دیکھنے کو ملے ۔ البتہ یورپ میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ۔

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

23 thoughts on “کیا صرف پاکستانی گھورتے ہیں ؟

  1. محب علوی

    میں متفق ہوں کلی طور پر آپ سے۔

    اصل میں بد قمستی سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو یہ خبط ہے کہ وہ اپنے ملک میں کیڑے نکالنے سے باز نہیں آتے اور نا سمجھی میں خود کو ہی برا بنا لیتے ہیں کہ وہ چاہے کچھ بھی کر لیں ان کی پہچان پاکستان ہی رہے گا۔ اپنی آنکھ کا تنکا بھی انہیں شہتیر نظر آتا ہے اور جہاں رہتے ہیں وہاں رات دن زنا بالجبر کے بعد قتل کے بڑھتے واقعات نظر نہیں آتے انہیں البتہ پاکستان میں گھورنے پر انہیں سخت تشویش اور کوفت لاحق ہو جاتی ہے مگر سر عام بوس و کنار اور جانوروں سے بدتر حالت میں شرم و حیا اتار کر جنسی افعال پر انہیں مسئلہ نہیں ہوتا۔

  2. میرا پاکستان

    محب صاحب
    غیرممالک میں‌مقیم پاکستانیوں پر تنقید کچھ زیادہ نہیں‌کردی آپ نے۔ غیرممالک میں‌مقیم پاکستانی دونوں معاشروں کا موازنہ کرنے کی بہترپوزیشن میں‌ہوتے ہیں۔ ہاں ان کی نیت پر شک کرنا ان کیساتھ زیادتی ہوگی۔ دراصل یورپ میں‌اتنی برائی نہیں‌جتنی پاکستان میں بتائی جاتی ہے۔

  3. زکریا

    بات گھورنے سے سیکسیول ہراسمنٹ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دوسرا موضوع زیادہ اہم ہے مگر مشاہدہ یا اکا دکا کیس سے بہتر اس بارے میں اگر کوئی سروے اور ریسچ ہو تو ہی پتہ چل سکتا ہے۔ امریکہ میں تو ایسے کئی سروے موجود ہیں مگر پاکستان میں شاید بالکل نہیں۔

    جہاں تک ایسے واقعات کی بات ہے تو پاکستان میں بسوں وغیرہ میں سفر کرنے والی خواتین سے معلوم کرنا چاہیئے کہ ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوتا۔

    اب بس کرتا ہوں کہ محب مزید کچھ نہ کہہ دے۔

  4. ماوراء

    اجمل انکل، یہاں مجھے کچھ اختلاف ہے۔ گھورنے کے معاملے میں پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں۔۔۔جہاں ایک عورت اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ کچھ نظریں اس کا تعاقب کرتی ہی رہتی ہیں۔ آپ بازار چلے جائیں، ہوٹل چلے جائیں، باہر واک پر نکل جائیں۔۔۔مختصر یہ کہ وہاں اکیلا گھر سے باہر نکلنا بہت مشکل ہے۔۔یا اگر ناممکن بھی کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ (یہ میرا اپنا تجربہ بھی ہے)
    یورپ میں ایک عورت آدھی رات کو اکیلی گھر سے نکل اور آ سکتی ہے۔ وہ شہر یا ملک کے کسی کونے میں اکیلی جا سکتی ہے۔ راستے میں کوئی کسی کو نہیں گھورتا۔ اگر کوئی دیکھے گا بھی تو ایک نظر ڈال کر اپنے کام میں مصروف ہو جائے گا۔ کم از کم سکینڈے نیویا میں کسی کو گھورنا نہایت ہی معیوب حرکت سمجھی جاتی ہے۔ اور یہاں سب سے کم پڑھا لکھا بندہ بھی اخلاق کی حدود کو جانتا ہے۔

    جو آپ نے زبردستی کی بات کی ہے۔ تو اس کا میرا مشاہدہ یہی ہے کہ ایسا صرف انہی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جو ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں۔ کوئی راہ چلتی لڑکی یا عورت کے ساتھ ایسا نہیں کرتا۔۔ہاں، شاید تھرڈ کلاس طبقے میں ایسا ہوتا ہو۔ بلکہ یقیناً ہوتا ہے۔ اور اس قسم کے جو واقعات ہوتے ہیں وہ یقیناً انہی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جن مردوں کو خواتین نے زیادہ فری کیا ہوتا ہے۔

    یورپ اور امریکہ کو جس طرح لیا جاتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ اچھے ہیں اور کردار کے مضبوط ہیں۔ تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ اگر آپ خود ہی اس طرف جانا چاہتے ہیں تو پھر میں یہی کہوں گی ۔۔۔ یہاں آزادی ہی آزادی ہے۔

    پاکستان میں یورپ اور امریکہ سے زیادہ گھورا جاتا ہے۔ اور میری نظر میں یہی حقیقت ہے۔ جو ہمارے ملک میں اچھائی ہے۔ اس کو ہم اچھا ہی کہیں گے۔ لیکن اگر کسی اور میں کوئی اچھائی ہے تو اس کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بھی یہ اچھائی اپنا سکیں۔ یہ لوگ چاہے کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، لیکن ان میں بہت سی اچھی عادات بھی ہیں۔ اور اچھے کو کبھی برا نہیں کہا جا سکتا۔ اور نہ ہی برائی کو ہم اچھا کہہ سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو حقیقت میں تب ہم احساسِ کمتری کا شکار ہوں گے۔ کہ دوسروں کی اچھائیاں دیکھ نہ سکیں گے اور اپنی برائی کو اچھائی کا نام دیتے رہیں گے۔ یہ منافقت میں بھی آتا ہے۔ ہم نے یورپ اور امریکہ سے مقابلہ نہیں کرنا۔۔ہم نے صرف اپنی اخلاقی اقدار کے مطابق اپنے آپ کو درست کرنا ہے۔

    ——
    محب علوی بھی جلد ہی امریکہ آنے والے ہیں۔ اس کے بعد ان سے ان کی رائے پوچھی جائے گی۔ :smile: ابھی کے لیے صرف اتنا ہی۔۔۔کہ محب، یہ ممالک مسلم ممالک نہیں ہیں، ان کی اپنی اقدار اور کلچر ہے۔ ہمیں ان پر انگلی اٹھانے کے بجائے۔۔۔اپنے آپ پر انگلی اٹھانی ہے۔

  5. Pingback: میرا پاکستان » بیرون ملک مقیم پاکستانی

  6. فیصل

    مجھے زیادہ تو نہیں‌البتہ یورپ میں‌دو سال رہنے کا تجربہ ہے اور چند ایک ممالک یعنی جرمنی، فرانس، بلجیم، نیدرلینڈ‌، سوئٹزلینڈ‌وغیرہ دیکھے ہیں ۔ بیگم بھی ساتھ تھیں۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ خواتین یورپ میں‌ زیادہ محفوظ‌ہیں۔ میری بہن اسوقت بھی جرمنی میں‌تنہا رہ کر پی ایچ ڈی کر رہی ہے جبکہ یہاں پاکستان میں خاتون کا تنہا رہنا بہت مشکل ہے۔ بیحیائی کی جہاں‌تک بات ہے، وہ وہاں‌بھی تھی اور یہاں‌بھی ہے۔ لیکن اتنی بری حالت نہیں‌تھی جتنی محب صاحب نے بیان کی ہے۔ بات کلچر کی بھی ہے اور مذہب کی بھی۔ وہاں‌شادی سے پہلے تعلق کو برا نہیں‌سمجھا جاتا سو لوگ ایسا تعلق بناتے بھی ہیں۔ ہمارے ہاں برا سمجھا جاتا ہے بلکہ بہت ہی برا لیکن لوگ پھر بھی ایسے کام کرتے ہیں۔ میری بیگم کھلے چہرے لیکن لمبے برقعے کے ساتھ یورپ میں‌اکیلی گھومتی رہیں‌ لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں‌پیش آیا، یہاں‌ وہ اکیلے باہر جانے کا تصور بھی نہیں‌کرینگی۔
    میرا خیال ہے کہ انسان ہر جگی ایک سے ہیں‌لیکن بات تعلیم کی ہے، وہ تعلیم بھی جو سکول، کالج میں‌دی جاتی ہے اور وہ بھی جو معاشرہ ہمیں‌سکھاتا ہے۔ اسی لیے وہاں‌خواتین کو اتنا نہیں‌گھورا جاتا کہ معیوب بات ہے لیکن خواتین کی مرضی سے ہر حد پار ہو سکتی ہے۔
    سب سے بہتر بات ماورا نے کی ہے کہ ہمیں‌خود کو دیکھنا چاہیے اور اپنے معیار خود بنانے چاہیں۔
    آخری بات یہ کہ ہم پاکستانی شائد ہمیشہ ہی غلط نیت سے نہیں‌گھورتے۔ تجسس یا حیرت سے بھی گھورتے ہیں مثلا گاؤں‌میں‌باہر کی عورتوں‌کو گھورا جاتا ہے، گاؤں‌والیوں‌کو نہیں‌کہ وہ پہلے ہی دیکھی بھالی ہوتی ہیں (یہ سچ ہے کہ پردہ شہر میں‌زیادہ کیا جاتا ہےـ
    ایک طرف تو ہندی فلموں‌اور پاکستانی ڈراموں‌میں‌عورت مرد کا کھلا ملاپ دکھایا جاتا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں‌ایسا کچھ نہیں‌ہوتا تو نوجوان فرسٹریٹ‌بھی ہوتے ہیں خود میرا بھی یہی خیال تھا کہ شائد یونیورسٹی میں‌افیئر ہونا ضروری ہے :mrgreen:

  7. اجمل Post author

    مبصر نمبر 3 سے 7
    آپ سب نے شائد میری اس تحریر کی پہلی سطر نہیں پڑھی اور صرف محب صاحب کے تبصرہ کو ذہن میں رکھ کر تبصرہ کیا ہے ۔ از راہِ کرم میری تحریر کی پہلی سطر پڑھیئے اور پھر بتائیے کہ آپ کو یورپ اور امریکہ کا دفاع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا میں نے موجودہ پاکستانی معاشرہ کا دفاع کیا ہے ؟
    افغانستان میں طالبان کی جس حکومت کو جاہلیت قرار دیا گیا ہے ۔ اس دور میں اکیلی عورت چوکھا زیور پہن کر افغانستان کے ایک سر سے دوسرے سرے تک دن رات بلاخطر سفر کر سکتی اور اس دور میں افیون کی کاشت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی مگر وہ تو جاہل لوگ تھے اور انہوں نے عورتوں کو گھروں میں قید کر دیا تھا ۔ ٹھیک ہے نا ؟

  8. shahidaakram

    محترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے اتنا زبردست بلاگ لکھا ہے انکل آپ نے ميں نے کل ہی پڑھ ليا تھا ليکن ميں باقی کُچھ لوگوں کے تاثرات بھی ديکھنا چاہتی تھی کہ اُن کا نظريہ کيا ہے اب آج ماوراء کا تجزيہ ديکھا اور باقی لوگوں کے خيالات پڑھ کر سوچا اب اپنے خيالات کا اظہار کرُوں انکل جی ماوراء اور باقی سب محترمين بات صرف يہ ہے کہ انسان کی فطرت ميں تجسس ہوتا ہے ہمارے مُلک ميں يا مُلک کے لوگوں ميں عورت کو گُھورنے کی عادت صرف اس وجہ سے ہے کہ ہميں بچپن سے يہی سکھايا گيا ہے کہ نظريں نيچی رکھو لڑکيوں سے بات نہيں کرنی سو جہاں کبھی موقع ملتا ہے بے چارے مرد حضرات رہ نہيں سکتے اور اگر آپ نے غور کيا ہو تو يا بہت اُوپر والے طبقے کے لوگ يا بالکُل نيچے طبقے کے لوگوں ميں ايک مماثلت ہوتی ہے کسی بھی بات کی کوئ پرواہ نہيں کسی بھی طرح کے رشتے اور تعلُقات بہت آرام سے اُستوار کرنے کی بات ہو يا لباس کے معاملے ميں بے پرواہی ہوہم درميانے طبقے کے لوگ ان معاملوں ميں جس طرح کی احتياط کرتے ہيں خُود کو ڈھک کر رکھنا ہے بچا کر رکھنا ہے حجاب ،نقاب يا عبايا وغيرہ کا استعمال ،ليکن پھر بھی جو بات اصل ہے وہ يہ کہ ہم بلا وجہ ہی اپنے لوگوں پر بہتان کی بات نہيں کرتے ہيں حقيقت يہی ہے ہونا تو يہ چاہيئے کہ دُوسرے مُلک ميں ہم لوگوں کو اگر کوئ پاکستانی خاتُون نظر آجاۓ تو اُس کا احترام دُوسروں سے بھی بڑھ کر کريں ليکن ايمان سے ہوتا اس کے بالکُل برعکس ہے ميں پندرہ برس سے يو اے ای ميں ہُوں اس سے پہلے سعُوديہ اور مسقط بھی رہی ہُوں ميرے شوہر کي جاب شرُوع سے ہي ايسي ہے کہ گھر سے زيادہ وہ فيلڈ ميں ہوتے ہيں اور مُجھے بالکُل اکيلا رہنا پڑتا ہے ليکن کبھي معمُولي سا بھي خوف محسُوس نہيں ہُواکسی بھی وقت کہيں آنا جانا ہو بہت سہُولت اور آرام سے آ جا سکتے ہيں يہاں گروسری کی اشياء گھروں ميں ڈيليور کرنے کا رواج بھی ہے اور سبھی انڈين ہيں اس کام ميں ليکن پيسے واپس ديتے يا ليتے وقت دو اُنگليوں سے اُوپر سے پيسے پھينکتے ہيں جبکہ ہمارے اپنے پاکستانی بھائيوں کے پُوری کوشش ہوتی ہے کسی طرح ہاتھ چُھو جاۓ باہر اگر اکيلے نکلو تو خطرہ اپنے ہموطنوں سے ہی ہوتا ہے کہ اس بُری طرح ديکھتے ہيں کہ بندہ گھبرا جاتا ہے جبکہ باقی لوگوں کو کوئ پرواہ بھی نہيں ہوتی ميں لندن جرمنی کينيڈا وغيرہ بھی گئ ہُوں ليکن وہاں بھی صُورتحال اتنی خراب نہيں اگر کُچھ غلط ہوگا بھی تو صرف اُسی صُورت ميں کہ دونوں فريق کی رضامندی شامل ہوجبکہ ہم لوگ تو شايد دل پشوری کرنے کے لۓ سامنے والے کو ہراساں کرتے ہيں ميں يہ صرف ا پنے لوگوں کی بُرائ براۓ بُرائ کے طور پر نہيں کہہ رہی بلکہ شرمندگی ہوتی ہے يہ سب کہہ کر بھی ،باقی دُنيا ميں جو کُچھ ہوتا ہے وہ اُنکے معاشرے اور کلچر کے حساب سے ہے اور شايد ہمارے حضرات جو کُچھ کرتے ہيں وہ اپنے کلچر کے حساب سے ہے سو حساب برابر
    بہر حال دل بُرا نا کريں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں ميں
    اللہ حافظ
    شاہدہ اکرم

  9. محب علوی

    لگتا ہے میری باتیں لوگوں کو زیادہ ہی سخت لگی ہیں۔ میری بات کا جواب کسی نے دینے کی زحمت کم کی اور مجھ پر تنقید زیادہ کی ہے سوائے زیک کے جس نے اس دوسرے موضوع کی طرف اشارہ کیا جو گھورنے سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین ہے۔ انشاءللہ میں اب تحقیق کے ذریعے بہت سے حقائق پیش کروں گا کیونکہ زبانی کلامی تو بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں۔

    جہاں تک یہ بات رہی کہ اکیلی عورت یہاں کیا کر سکتی ہے تو دور جانے کی مجھے ضرورت نہیں میرے والد جدہ میں اٹھارہ سال رہے اور ہم تین بھائیوں کو ہماری والدہ نے اکیلے پالا اور ہماری ضروریات کو پورا کیا اور الحمد اللہ انہیں کبھی زندگی اس طرح نہیں لگی جیسے میرے باقی دوست بلاگران کو لگ رہی ہے یعنی عورت کا تنہا رہنا ایک عذاب۔

    اس کے علاوہ ہزاروں لڑکیاں تعلیم کے سلسلے میں دور دراز شہروں کے ہوسٹلز میں رہتی ہیں اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور اور بالکل محفوظ رہتی ہیں۔ چند واقعات ضرور ہوتے ہیں مگر یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں انتہائی کم اس پر آپ بھی تحقیق کر لیں جبکہ میں نے تو کئی برس پہلے کر رکھی ہے اب پھر کر لوں گا۔

    وہاں عورتوں زیادہ تر اکیلے اس لیے رہتی ہیں کہ وہاں عزت ناموس شرم حیا جیسی چیزیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور دو تین ملاقات کے بعد اگر آپس میں جسمانی تعلقات قائم نہ ہوں تو تعلق قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پر بھی آپ احباب ذرا دیانتداری اور ایمانداری سے رائے دیں کیونکہ یہ وہ ناسور ہے جس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

  10. ماوراء

    اجمل انکل، اگر میں نے آپ کی بات کو ٹھیک سے سمجھ نہیں سکی تو اس کے لیے معذرت۔

    محب علوی، آپ کی بات کا جواب افضل صاحب نے اپنے بلاگ پر پوری پوسٹ میں لکھا ہے۔ میری ایک لائن ہی آپ کا جواب تھا۔ مزید اس لیے کچھ نہیں کہا کہ آپ کی بات میں حقیقت کم اور جذباتیت زیادہ تھی۔ آپ نے اب بھی بات کا رخ موڑ دیا ہے۔ بات یہ نہیں ہو رہی کہ پاکستان میں عورت اکیلی جی نہیں سکتی۔۔بات صرف گھورنے پر ہو رہی ہے۔اس طرح تو میری امی اور ہم بھی شروع دن سے پاکستان میں اکیلے ہی رہے ہیں۔ جبکہ میرے ابو کو یہاں رہتے ہوئے28، 29 سال ہو گئے ہیں۔ بہت سی عورتیں اکیلی رہ کر زندگی بہت اچھی گزار لیتی ہیں۔ گھورنے سے زندگی عذاب نہیں بنتی۔ :grin:

    ہاسٹل والی کا بات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔لیکن پھر بھی یہی کہوں گی کہ اگر ایسے کوئی واقعات ہوتے بھی ہیں تو دونوں طرف سے رضامندی کے تحت ہوتے ہیں۔ یہاں سکولوں ،کالجز یا کام پر کسی کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ ہے۔ کسی سکول، کلاس فیلو یا کولیگ سے آپ کو شکایت ہے، تو آپ انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ اور پھر وہ اس کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    اور یہاں بھی عورت کی عزت کی جاتی ہے۔ اور یہاں بھی عورتوں میں ابھی شرم و حیا باقی ہے۔ یہاں بھی تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ موجود ہیں۔ جو ایسی حرکتیں کرنے والوں کو برا سمجھتے ہیں۔ اور خود بھی گری ہوئی حرکت کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہاں بھی شادی کو ایک بہترین عمل سمجھا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ لوگ شادی کے بغیر ساتھ رہنے والوں کو تنقیدی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اوکے، نیو جینریشن میں یہ چیز نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔آپ یورپ اور امریکہ کے صرف نچلے طبقے کو کیوں دیکھتے ہیں۔ اور اچھے لوگ کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اور جن باتوں پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ان پر اعتراض اس لیے نہیں کر سکتے کہ ایک تو یہ کہ یورپ اور امریکہ آپ کے اپنے ممالک نہیں ہیں۔ نا ہی یہ مسلم ممالک ہیں، نا ہی ان کا ہمارے جیسا کلچر ہے۔ ان کو چھوڑ دیں۔۔۔ان کو اپنی اقدار کے مطابق جینے دیں۔ ان کو ہم نے ٹھیک نہیں کرنا۔۔ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے۔ پاکستان کے جو آجکل حالات ہیں۔۔یورپ، امریکہ سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت برائی پھیل چکی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ لوگ کھلے عام آزادی سے کرتے ہیں اور ہمارے لوگ چھپ کر۔۔۔۔

    چاہے جتنی مرضی تحقیق کر لیں، چاہے جتنے مرضی مثالیں لے آئیں۔۔۔حقیقت کو کبھی نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں عورت کے لیے باہر نکلنا نہایت ہی مشکل کام ہے، مردوں کی نظریں اس کے تعاقب میں ہر وقت ہوتی ہیں۔ اور اس پر اکثر جملے بھی کسے جاتے ہیں۔۔۔لیکن یورپ اور امریکہ میں عام صورتِ حال میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ عورت جتنی یہاں محفوظ ہے۔۔اتنی پاکستان میں نہیں۔۔۔!!!!

    ختم شد۔ :grin:

  11. shahidaakram

    ماوراء جی
    آداب
    اُميد ہے آپ بخير ہوں گی ميں آپ کی باتوں سے سو فيصد مُتفق ہُوں ميں پچھلے پندرہ سال سے يو اے ای ميں ہُوں اور ميرے شوہر کی شُرُوع سے جاب ايسی رہی ہے کہ وہ فيلڈميں ہی ہوتے ہيں پہلے 60 دن مُستقل جاب اور 30 دن آف ہوتا تھا اب شيڈول تبديل ہُوۓ سات آٹھ سال ہو گۓ ہيں سو اب 6دن کام اور تين دن آف ليکن پھر بھی کبھی کبھار کام کی زيادتی کی وجہ سے دس پندرہ اور بيس دن بھی ہو جاتے ہيں اور ميں اور ميری بيٹی اکيلے ہوتے ہيں ليکن کبھی کسی قسم کا ڈر نہيں لگا سوال صرف يہ ہے کہ کياہم دونوں پاکستان ميں اس طرح اکيلی رہ سکتی تھيں جبکہ پہلے ميری بچی اور چھوٹی تھی اور اب بڑی ہے دونوں حالتوں ميں خطرہ ہی ہے نا بات صرف گُھورنے کی نہيں ہے ہر طرح کے ڈر کی ہے
    دُعاگو
    شاہدہ اکرم

  12. ماوراء

    شاہدہ، شکریہ۔ آپ نے درست کہا ہے۔ اکیلی عورت کے لیے پاکستان میں رہنا اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب فیملی کا کوئی اور بندہ ساتھ نہ ہو۔ یہی بات میں بھی کہوں گی کہ میرے امی ابو بھی پاکستان جاتے رہتے ہیں۔ اور ہم بہن بھائی اکیلے رہتے ہیں۔ اور پاکستان میں تو بالکل بھی نہیں رہا جا سکتا۔

  13. محب علوی

    ماورا کچھ شماریات اور کچھ تحقیق کر لینا کہ اب میں اداروں کی رپورٹس لکھوں گا اور ذرا آنکھیں کھلی رکھنا تاکہ اندازہ کر سکو کہ اپنے قریب رہنے والی برائیوں کو کیوں نہیں پہچان سکی ہو اب تک۔ بہت اہم مضمون ہے اور میں اس پر انشاءللہ اب بہت تفصیل سے لکھوں گا اور ہاں تمہیں تمہارے ملک کی عورتوں کا بتایا تو تڑپی ہو نہ مگر میں تم لوگوں کے ملکوں کا حال لکھوں تو تمہیں جذباتیت لگتی ہے :lol: حالانکہ مجھ سے کہیں پہلے اجمل صاحب نے اپنی زندگی کا نچوڑ لکھا ہے اور ابھی بہت کم لکھا ہے۔ میں برطانیہ میں ایک سال ان کے معاشرے کا بغور مطالعہ کرکے آیا ہوں اور برطانیہ کو پورے یورپ میں ایک قدامت پسند ملک کے طور پر گردانا جاتا ہے جو نہ تو ماڈرن ہے اور نہ جہاں جدید زندگی اپنی آب و تاب پر ہے۔

    “اور جن باتوں پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ان پر اعتراض اس لیے نہیں کر سکتے کہ ایک تو یہ کہ یورپ اور امریکہ آپ کے اپنے ممالک نہیں ہیں۔ نا ہی یہ مسلم ممالک ہیں، نا ہی ان کا ہمارے جیسا کلچر ہے۔ ان کو چھوڑ دیں۔۔۔ان کو اپنی اقدار کے مطابق جینے دیں۔ ان کو ہم نے ٹھیک نہیں کرنا۔۔ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے۔ پاکستان کے جو آجکل حالات ہیں۔۔یورپ، امریکہ سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت برائی پھیل چکی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ لوگ کھلے عام آزادی سے کرتے ہیں اور ہمارے لوگ چھپ کر۔۔۔۔”

    تم ان کے کلچر کو جانتی ہو کیا ؟ ان کا کلچر کیا وہی ہے جس میں وہ ڈوبے ہوئے ہیں ہرگز نہیں وہ بھی دل سے اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں اور وہ بھی ہماری طرح اچھے اخلاق اور اقدار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس لیے بہت ضروری ہے کہ انہیں بھی صحیح سمت کی طرف گامزن کیا جائے نہ کہ گھوم پھر کر پاکستان میں ہی کیڑے نکالے جائیں جیسا کہ ماشاءللہ بیرون ملک بسنے والے اکثر پاکستانیوں کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ تم لوگ رہتے یورپ اور مغربی ممالک میں ہو مگر تنقید کرنے کو صرف پاکستان ہی نظر آتا ہے تم لوگوں کو کبھی ناروے پر اس طرح کی تنقید کی ہے تم نے جتنی شدید تنقید تم پاکستان پر کرتی ہو؟ کبھی ناروے میں عورتوں سے ناروا سلوک پر کچھ لکھا کبھی
    چلو تم نہ سہی اب میں تمہیں ایک پورا مضمون لکھ کر دوں گا جو تم میں جرات ہوئی تو دوسروں کو دکھا دینا مجھے یقین ہے تمہیں اس پر اعتبار نہیں آئے گا کیونکہ تمہاری نظر میں ناروے بہت پارسا اور بہترین ملک ہوگا تو جب یہی جذبہ میں اپنے ملک کے لیے حقیقی طور پر ظاہر کرتا ہوں تو لوگوں کو برا بھی لگتا ہے اور وہ تنقید بھی بہت کرتے ہیں مگر تحقیق قطعا نہیں‌ کرتے ۔

    اور ہاں ناروے کے مرد ناروے کی ان عورتوں کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں جن پر جنسی تشدد ہوتا ہے ملاحظہ کر لو

    Oslo – Women who flirt openly have themselves to blame if they are subjected to sexual assaults, one in two Norwegian men said according to a survey published Wednesday.

    The survey was commissioned by the Norwegian chapter of human rights watchdog Amnesty International and Reform, a resource centre for men.

    http://news.monstersandcritics.com/europe/news/article_1296122.php

    آٹھ ہزار عورتیں سالانہ ریپ کا شکار ہوتی ہیں ناروے میں اور بیس ہزار عورتوں پر جنسی حملے ہوتے ہیں ہر سال ناروے میں۔ اسی رپورٹ میں آخر میں پڑھ لینا۔

    ناروے ابھی بہت محفوظ اور عورتوں کے حوالے سے بہترین ملک ہے۔ فرانس ، ہالینڈ ، انگلینڈ کی حالت ابتر ہے۔
    مزید شماریات اور تحقیق جاری ہے

  14. اجمل Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ ماوراء صاحبہ او محب علوی صاحب
    آپس میں مقابلہ بازی کی بجائے اگر آپ لوگ مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا ۔ میں اپنے معاشرہ پر اسلئے تنقید کرتا ہوں کہ اگر قارئین درست سمجھیں تو اصلاح کی کوشش کریں ۔ میں نے 17 دسمبر کو اپنے معاشرہ کے عیب گنوائے تھے ۔ جب ہمارے معاشرہ کا مغربی معاشرہ سے مقابلہ کی کوشش کی گئی تو مندرجہ بالا تحریر کی ضرورت محسوس ہوئی ۔
    ہر شخص کا اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے ۔ میرے ذہن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے جُستجُو کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے ۔ میں جہاں بھی گیا وہاں کے معاشرہ کا بغور مطالعہ کیا تاکہ ان کی اچھائیاں اپنا سکوں ۔ اس خبط میں مجھے کافی سرمایہ بھی خرچ کرنا پڑتا تھا لیکن مجھے کبھی اس کی فکر نہ ہوئی ۔ میں نے جو کچھ مختلف ممالک اور اپنے ملک میں دیکھا اکثریت نے دس سال ایک جگہ رہ کر بھی دیکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ لیکن بہت سی باتیں ایسی ہیں جو میں لکھنا پسند نہیں کرتا ۔

  15. امید

    اس تمام گفتگو کوپڑھ کر ایک پاکستانی لڑکی کی حیثیت سے رائے دینے کا دل چاہا -کیونکہ سب کی رائے پڑھ کر ایک لمحے تو مجے یہ لگا کہ میں شاید ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں مردوں کی زندگی کا مقصد صرف اورصرف خواتین کو گھورنا ہے-

    جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے -خواتین ان گنت کام اکیلے کررہی ہیں اور بہت تحفط کے ساتھ- کچھ لوگ اس برائی کے حامل تو ہوسکتے ہیں پر یہ کہنا کہ مجموعی طور پر، ہرکوئی یا ذیادہ تر لوگ ایسا کرتے ہیں یہ غلط ہے-

    اپنا تجربہ لکھا جائے تو بینک جا نا ہو یا بازار، یا دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ بھی ہو-کبھی بھی مشکلات یا ناخوشگوار واقعہ درپیش نہیں آئا

    اگر ہم دوسرے معاشروں سے اپنا مقابلہ کریں تو آج بھی ہمارے یہاں خوایتن کا آحترام باقی ہے-

    آج بھی بسوں میں خواتین کو دیکھ کر سیٹ چھوڑ دی جاتی ہے-

    آج بھی کسی شاپ پر خواتین کو پہلے موقع دیا جاتا ہے-

    آج بھی سر راہ کوئی معیوب حرکت نہیں کی جاسکتی-

    آج بھی ہر مقام پر خواتین کو تحفظ دیا جاتا ہے-

  16. اجمل Post author

    اُمید صاحبہ
    ماشاء اللہ آپ نے پاکستان میں رہتے ہوئے اپنا تجربہ بیان کر کے دساور میں رہنے والی پاکستانی لڑکیوں اور خواتین کو اُمید اورحوصلہ دینے کی مثبت کوشش کی ہے

  17. سارہ

    میں امید کے خیالات سے بالکل متفق ہوں ۔۔۔۔ پاکستان میں اب ایسے بھی برے حالات نہیں ۔۔۔ جیسے کہ ماورا نے کہا کہ یہاں اکیلے عورت کا رہنا ممکن نہیں ۔۔ تو ایسا بلکل بھی نہیں ۔۔ کم از کم بڑے شہروں کراچی ۔ اسلام آباد لاہور وغیرہ میں تو بہت سی عورتیں اکیلی رہتی ہیں ۔۔ میری پھپھا کی دیتھ ہو چکی ہے ۔۔ اور میری پھپھو دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں ڈاکٹر ہیں جاب کرتی ہیں کار خود ڈرائیو کرتی ہیں انہیں ایسا کوئی مسئلہ در پیش نہیں ۔۔ کراچی کے علاوہ سکر اور حیدرآباد جیسے چھوٹے شہروں میں بھی کافی عورتوں کو جانتی ہوں جو کسی نی کسی مجبوری کے تحت اکیلی رہتی ہیں ۔۔۔

    امید نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ۔۔اگر ہم دوسرے معاشروں سے اپنا مقابلہ کریں تو آج بھی ہمارے یہاں خوایتن کا آحترام باقی ہے-

    آج بھی بسوں میں خواتین کو دیکھ کر سیٹ چھوڑ دی جاتی ہے-

    آج بھی کسی شاپ پر خواتین کو پہلے موقع دیا جاتا ہے-

    آج بھی سر راہ کوئی معیوب حرکت نہیں کی جاسکتی-

    آج بھی ہر مقام پر خواتین کو تحفظ دیا جاتا ہے-

    میں بھی جاب کرتی ہوں ۔۔ بہت سے ضروری کاموں کے لئے اکیلے گھر سے نکلنا پڑتا ہے ۔۔۔ کبھی خود کو غیر محفوظ نہیں تصور کیا ۔۔

    چند لوگوں کی برائی کا سب کو زمہ دار نہیں بنایا جا سکتا ۔۔۔

  18. قیصرانی

    السلام علیکم۔ موضوع کے مطابق ہی بات کرنے کی کوشش کروں‌گا

    جہاں‌ تک سوال ہے:

    کیا صرف پاکستانی ہی گھورتے ہیں؟ میرا جواب ہے نہیں

    کیا سارے پاکستانی ہی گھورتے ہیں؟ میرا جواب ہے نہیں

    کیا سارے پاکستانی مرد گھورتے ہیں؟ میرا جواب ہے نہیں

    اگر ان سوالات کے بارے آپ کے جوابات بھی نہیں میں‌ ہیں تو کیا کچھ افراد یا کل آبادی کے ایک حصے کو جو نصف سے کم ہے، کے افعال کو سب پر تھوپ دینا ٹھیک ہے؟ جواب اگر آپ دیں‌ تو شاید بہتر ہو

  19. اجمل Post author

    سارہ صاحبہ
    آپ کا شکرگذار ہوں کہ آپ نے میری تحریر پر تبصرہ کیا اور ماشاء اللہ بہت اچھا تبصرہ کیا ۔

    قصرانی صاحب
    آپ تو مجھے حساب دان لگتے ہیں ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو اسی قسم کے سوال کرتا ۔ شکریہ

  20. ماوراء

    سارا، یہ میں نے بالکل نہیں کہا کہ عورت پاکستان میں اکیلی رہ نہیں سکتی۔ بلکہ میں نے تو یہ کہا ہے (اگر تم میری پچھلے کمنٹس پڑھو۔۔)کہ میری امی بھی بہت لمبا عرصہ اکیلا پاکستان رہی ہیں۔ اور انہوں نے 25 سال جاب کی ہے۔ اور انھیں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ میں اس موضوع پر اس لیے بات نہیں کر رہی کہ موضوع کا رخ بدل چکا ہے۔ لیکن میں یہاں وضاحت کر دوں کہ میں نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ پاکستان میں رہنا مشکل ہے۔ “بات صرف اور صرف گھورنے کی ہوئی تھی۔” ہم بھی پاکستان میں رہے ہیں۔ سکول، کالج وغیرہ ہم بھی اکیلے ہی گئے ہیں۔ مسئلہ کچھ اور ہے۔۔۔جو شاید وہی سمجھ سکتے ہیں۔۔جو پاکستان اور دوسرے ممالک میں رہ چکے ہیں۔ اور وہ موازنہ کر سکتے ہیں۔

    اور بلاشبہ سارے مرد نہیں گھورتے۔۔لیکن بہت سے گھورتے ہیں۔ اور صرف انہی کی بات ہو رہی ہے۔

  21. ابوشامل

    میرے خیال میں قطعی جواب تو کوئی بھی نہیں دے سکتا ہر کوئی اپنی جگہ خوش ہے اور اسی کو بہتر قرار دینے میں جتا ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر یورپ اور امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے ایک تو وہ خلاف قانون ہے اور دوسرا قانون کی گرفت بھی اس پر ہے اور کوئی اس کی دسترس سے باہر نہیں جا سکتا جبکہ پاکستان میں جتنا کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانون، مذہب، اخلاقیات سب کے خلاف ہے اور اس کے باوجود اگر ہوتا ہے تو میرے خیال میں یورپ اور امریکہ سے زیادہ معیوب بات ہے۔
    رہی دوسری بات وہ یہ کہ یورپ اور امریکہ کو “پاکستان” (پاک لوگوں کا ملک) ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے یہ بھی جانتے ہوں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ زنا یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہی ہوتا ہے اور زنا بھی صرف وہی شمار کیا جاتا ہے جو بالجبر ہو، زنا بالرضا زنا میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اعداد و شمار دیکھنے کے لیے http://www.nationmaster.com/graph/cri_rap-crime-rapes ملاحظہ کیجیے۔ مسلمان ممالک میں عورت کو غیر محفوظ قرار دینے والے اپنے ہی اداروں کے پیش کیے گئے اعداد و شمار دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون سی جگہ زیادہ محفوظ ہے۔

  22. Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » سروے کیا کہتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.