Daily Archives: December 17, 2007

لڑکے گھورتے ہیں

موضوع اس سے شروع ہوا کہ لڑکے اور مرد لڑکیوں اور خواتین کو گھورتے ہیں اور دیگر نازیبا حرکات کرتے ہیں ۔ یہ حرکات میں نے اپنی زندگی میں اس وقت پہلی بار دیکھی تھیں جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا یعنی 1951ء میں ۔ میں مندرجہ ذیل خواتین و حضرات کی تحاریر اس سلسلہ میں پڑھ چکا ہوں

راشد کامران صاحب نے 3 دسمبر 2007ء کو
فرحت صاحبہ نے 6 دسمبر 2007ء کو
عورت کی مجموعی مظلومیت پر لکھا جو کہ ایک الگ تحقیق طلب ہے
قدیر احمد صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
اپنے آپ کو بدتمیز کہنے والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
میرا پاکستان والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو
ماوراء صاحبہ نے 9 دسمبر 2007ء کو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرا ذہن کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس میں جو بات گھُس جائے اس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ چنانچہ 1951ء سے میں نے دیکھنا شروع کر دیا کہ جب جوان لڑکی یا عورت گذر رہی ہوتی ہے تو کون کیا کرتا ہے ۔ اس کی عمر کتنی ہے اور بظاہر ماحول کیسا ہے ۔ ہم اس زمانہ میں راولپنڈی شہر کے وسطی علاقہ میں رہتے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ راولپنڈی اور گرد و نواح کے رہنے والے عورتوں پر جُملے کسنا شائد اپنا فرض سمجھتے تھے اور جملہ کسنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھ کر داد و تحسین وصول کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ عورت کے پاس سے ٹکراتے ہوئے گذرنا یا عورت کے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگانا یا چُٹکی لینا بھی ہوتا تھا ۔ یہ حرکات کرنے والوں میں نوجوان اور شادی شدہ دونوں شامل ہوتے لیکن ان میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوتے ۔ پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت ہی کم کو ایسی حرکت کرتے دیکھا گیا

میں گارڈن کالج میں داخل ہوا تو وہاں مخلوط تعلیم تھی مگر لڑکیوں کی ڈین ایک بڑی عمر کی عیسائی خاتون مس خان تھیں جو ہر وقت لڑکیوں کی تربیت اور حفاظت کرتی تھیں ۔ لڑکیاں کیا لڑکے بھی ان سے بہت ڈرتے تھے ۔ اسلئے کالج کے اندر تو ممکن تھا ہی نہیں کہ کوئی لڑکا کوئی نازیبا حرکت کرے ۔ کالج سے باہر بھی پروفیسر صاحبان خیال رکھتے تھے ۔ ہمارے ہمجماعت لڑکے کو ہمارے پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے کسی بس سٹاپ پر لڑکیوں کے پاس کھڑا دیکھا اور کالج میں اس کو اتنا شرمندہ کیا کہ دوبارہ اس نے ایسی حرکت نہ کی ۔ سنا ہے کہ دس بارہ سال بعد گارڈن کالج میں حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ معاشرہ ہی بگڑنا شروع ہو گیا تھا

میں مزید تعلیم کیلئے 1956ء میں لاہور چلاگیا ۔ وہاں انارکلی میں ایسی حرکات ہوتے دیکھیں مگر اس کے مرتکب بالخصوص اسی کام کیلئے آئے ہوتے تھے ۔ ان میں کالجوں کے طلباء بھی شامل ہوتے تھے ۔ دکاندار عزت و احترام کے ساتھ باجی یا خالہ جی کہہ کر پیش آتے ۔ اس کے برعکس راولپنڈی میں کچھ دکان دار بھی ان بُری حرکات میں شامل ہوتے تھے ۔

ایک بات جو کسی نے نہیں لکھی یہ ہے کہ کچھ لڑکیاں ایسی حرکات سے محظوظ ہوتے بھی دیکھیں ۔ کبھی کبھی ایسی لڑکی بھی دیکھی جو خود جان بوجھ کر نوجوان لڑکے کے قریب سے یا سامنے سے گذری

مندرجہ بالا مشاہدات 1962ء تک کے ہیں ۔ اسلام آباد ہو ۔ کراچی ہو یا لاہور ۔ اب تو یہ حال ہے کہ غریب سے لے کر امیر ترین والدین کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہے ۔ دولت کی فراوانی نے تو چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ کسی ریستوراں میں چلے جائیے یا کسی سیر و تفریح کی جگہ ۔ ہر جگہ فلمی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یومِ آزادی ہو یا نئے سال کی پچھلی رات ۔ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں وہ طوفانِ بد تمیزی ہوتا ہے کہ ایک بار دیکھنے کے بعد توبہ کی اور پھر کوئی ضروری کام بھی ہوا تو ایسی رات میں گھر میں دُبکے رہے