Daily Archives: August 8, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ پہلی قسط

دانیال صاحب نے لکھا ہے ۔

میں دینی مدارس پر پابندیوں کے خلاف ہوں۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی تعلیم کی کمی ہے اور مدارس اس ضمن میں بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ مساجد حکومت کنٹرول کرے اور اپنی مرضی کے خطبات نشر کروائے۔ پاکستان کے مدارس میں یقینا دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ لیکن وہاں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے؟ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہئیے؟ اور ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہئیے؟دانیال صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ مدرسوں اور مسجدوں پر پابندی نہیں ہونا چاہیئے اور نہ یہ حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہئیں ۔ ورنہ وہی ہو گا جو ترکی میں ہوا ۔ جن کا اب یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ مارچ 1924 میں مصطفے کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے سیکولر حکومت قائم کی ۔ کسی کا عربی لباس پہننا ۔ عورتوں کا سر کو ڈھانپنا ۔ عربی زبان میں قرآن اور نماز پڑھنا اور اسلام یا اسلامی معاشرہ کا نام لینا ممنوع قرار دیا اور یورپین لباس کو قومی لباس قرار دیا گیا ۔ مسجدیں حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیں اور سرکاری امام مقرر کئے جو نماز ترکی زبان میں پڑھاتے اور نماز کے وقت کے علاوہ مسجدوں پر تالے رہتے ۔ ان اقدامات کو مصطفے کمال پاشا نے ترقی کی نشانی کہا اور یورپین بننے کا دعوی کیا ۔ آج 80 سال بعد بھی ترکی یورپینوں کا باجگذار تو ہے مگر یورپی یونین میں شامل نہیں ہو سکا جبکہ ماضی قریب میں روس سے آزاد ہونے والی مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں یورپین یونین کا حصہ بن چکی ہیں

پاکستانی مدرسوں کا غریب بچوں کو پڑھانے میں بہت بڑا کردار ہے بلکہ ہم لوگ جو اسلام کے متعلق تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں وہ ان مدرسوں کے پڑھے ہوئے علماء کی وجہ سے ہے ۔ دانیال صاحب نے تو اپنے عمدہ دماغ کی سوچ تحریر کی ہے ۔ ميں اس کا آئینی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا ۔ تمام دینی اور مذہبی مدرسوں یا سکولوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان مدرسوں کے تعلیمی کام یا نظام میں حکومت کی طرف سے مداخلت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چند دن قبل آئین کی جن شقوں کی بنیاد پر حسبہ ایکٹ کی پانچ شقوں کی انیس ذیلی شقوں کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے ۔ حکومت مدرسوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے اور مدرسوں کی انتظامیہ کو مختلف حکم دے کر آئین کی ان ہی شقوں کی مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔ ۔ ۔

Chapter 1. FUNDAMENTAL RIGHTS

20. Subject to law public order and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions.

22.
(1) No person attending any educational institution shall be required to receive religious instruction, or take part in any religious ceremony, or attend religious worship, if such instruction, ceremony or worship relates to a religion other than his own.
(2) In respect of any religious institution, there shall be no discrimination against any community in the granting of exemption or concession in relation to taxation.
(3) Subject to law:
(a) no religious community or denomination shall be prevented from providing religious instruction for pupils of that community or denomination in any educational institution maintained wholly by that community or denomination; and
(b) no citizen shall be denied admission to any educational institution receiving aid from public revenues on the ground only of race, religion, caste or place of birth.

مندرجہ بالا شقیں 1956 کے آئین اور 1962 کے آئین میں بھی موجود تھیں ۔