بات چلی سائنس کی ترقی کی اور کفر اور شرک کی حدوں کو چھونے لگی ۔ میں نے معاملہ کو سلجانے کی کوشش کی مگر
(1) Success of communication depends on how it is perceived and not on how it is delivered.
(2) Perception of communication is influenced by education / training of the receiver and emotional state in which he / she is at the time of communication.
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والی سائنسی ترقی نے جنگوں، بھوک، وبائی امراض جیسے ملیریا ٹائیفائڈ وغیرہ کو کنٹرول کرنے میں حیرت انگیز مدد دی ہے ۔ ۔ ۔ سائنس محبت اور امن کا نہ صرف سبق دیتی ہے بلکہ ایک نہایت اہم بات جو محترم بلاگر نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ سائنس مسیحائی کے جو کام انجام دے رہی ہے
ملیریا ٹائیفائڈ پولیو والی بات ٹھیک ہے لیکن انتھراکس اور زہریلی گیسیں وغیرہ بھی سائنسدانوں کی ایجاد ہیں جو صرف انسانوں کو ہلاک کرنے کی لئے ہیں ۔ سائنس اخلاقیات کا مضمون نہیں ہے کہ اس میں محبت اور امن کا ذکر ہو اور نہ ہی سائنس میں دل ہوتا ہے جو ترس کھائے ورنہ جتنی دوائیاں انسانوں پر تجربے کر کے بنائی جاتی ہیں اور جو اشیاء صرف انسان کی ہلاکت کے لئے بنائی گئی ہیں وہ نہ بنتیں ۔ برطانوی اور امریکی سائنسدانوں کی محبت اور امن کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے ۔ پوست کی کاشت سینکڑوں سال سے ہندوستان میں ہو رہی تھی ۔ اس سے خشخاش حاصل کی جاتی تھی جو کچھ اہم دواؤں میں استعمال ہوتی تھی اور ویسے بھی ایک مقوّی غذا تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے افیون تیار کی (تفصیل انشا اللہ پھر کبھی) ۔ بعد میں پوست سے مغربی دنیا کے سائنسدانوں نے امریکہ کے سیاسی پروگرام کے تحت ہیروئین تیار کی ۔ پوست کی کاشت پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ارد گرد قبائلی علاقہ میں کی گئی اور وہاں ہیروئین بنانے کے پلانٹ بھی لگائے گئے ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ روسی فوجیوں اور قبائلی پختونوں کے نشئی بننے سے پہلے ہیروئین یورپ اور امریکہ میں پہنچ گئی تو بوکھلا کر پابندیاں پاکستان پر لگا دی گئیں ۔
رہی مسیحائی تو یہ بیسویں یا اکیسویں صدی کا کارنامہ نہیں بلکہ انسان کی سب سے اہم ضرورت صحت ہے اس وجہ سے مسیحائی ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے ۔ جراحی میکینائز ہونے سے کافی سودمند ہوگئی ہے مگر میرا خیال ہے کہ طب میں زمانہ قدیم کا معالج آج کے میڈیکل سپیشلسٹ سے بہتر تھا ۔ اس پر انشاء اللہ پھر کسی وقت لکھوں گا ۔ چین اور جاپان میں ابھی تک قدیم علاج رائج ہیں اسی لئے ان لوگوں کی صحت بہت اچھی اور عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں ۔ جاپان میں عورتوں کی اوسط عمر 85 سال سے زیادہ ہے اور مردوں کی اوسط عمر 78 سال سے زائد ہے ۔ چین میں شدید آب و ہوا اور غربت ہونے کے باوجود عورتوں کی اوسط عمر 73 اور مردوں کی 70 ہے جبکہ امریکہ کی انتہائی ترقی اور تمام وسائل کے ہوتے ہوئے عورتوں کی اوسط عمر 79 اور مردوں کی 74 سال ہے ۔ اب تو امریکہ میں بھی قدیم طب تیزی سے رائج ہو رہی ہے ۔
بھوک پر سائنس نے کیسے کنٹرول کیا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا فصلوں کی سائنسی ترقی کا میں نے مطالع کیا ہے لیکن یہ بہت لمبی بحث ہے ۔ رہی جنگ کی بات تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کی جنگ تو نہیں ہوئی مگر اس سے بہت زیادہ مہلک جنگیں ہوئی ہیں ۔ سائنس کی ترقی کے باعث اب لا تعداد لوگوں کو ان کےگھروں میں ہی تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ صرف عراق اور افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ نے جو کاروائیاں کی ہیں ان میں کی گئی بمباری دوسری جنگ عظیم کی بمباری سے سات گنا ہے اور ہلاکت و تباہی آٹھ گنا ہوچکی ہے ۔دانیال صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ سائنس کا بنیادی مقصد جستجواور کھوج ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ دین اس میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ میں نے اپنی تحریر میں ایک متعلقہ ویب سائٹ کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ سائنس بھی دین کی مخالفت نہیں کرتی ۔ اب تو سائنس نے قرآن الحکیم میں تحریر شدہ بیانات کو صحیح ثابت کرنا شروع کر دیا ہے ۔
دانیال صاحب لکھتے ہیں
کئی تحقیقات سے سائنس نے ثابت کردیا ہے انسانوں کے درمیان بلا رنگ و نسل، مذہب اور ذات پات کی اونچ نیچ کے بغیر ساتھ کام کرنے سے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں
جو بات قرآن الحکیم میں درج ہے اور جس پر خطبۃ الوداع میں رسول اکرم صلی علی علیہ و سلم نے زور دیا وہ ایک ہزار چار سو سال بعد سہی لیکن سائنسدانوں نے مان تو لی ۔ خطبۃ الوداع سے اقتباس ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔
دانیال صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ نادرا کی مثال نہ دیں ۔ نادرا نے جو گل کھلائے ہیں وہ شائد دانیال صاحب کے علم میں نہیں ۔ رہا انٹرنیٹ تو اس سے میری دوستی دس سال قبل ہوئی جب اسلام آباد میں انٹرنیٹ صرف ایس ڈی این پی کے کا تھا ۔ بیس سال پہلے یعنی 1985 میں مجبوری کے طور پر کمپیوٹر سے عشق کرنا پڑا کیونکہ مجھے ایم آئی ایس کا جنرل مینجر لگا دیا گیا اور پہلا پروجیکٹ ڈویلوپمنٹ اینڈ امپلیمنٹیشن آف کمپیوٹرائزڈ انوینٹری مینجمنٹ سسٹم دے دیا گیا ۔ انوینٹری کی لاکھوں قسمیں تھیں ۔ سات مین فریم کمپیٹروں کا نیٹ ورک تھا اور ہر مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ پانچ سے پندرہ تک پی سی لگے تھے جو غلام بھی تھے اور خود مختار بھی ۔ ہر آپریٹر کو سروس اس کی دہلیز پر مہیا کرنا تھی اور ساتھ ہی ساتوں اداروں کے اپنے اپنے ڈاٹا کو محفوظ کرکے دوسروں کے لئے ریڈ اونلی بنانا تھا ۔ اللہ کے فضل سے یہ پراجیکٹ دو سال میں ڈاٹا انٹری سمیت مکمل ہو گیا ۔ اپنے بچوں کے کمپیوٹر کا ماہر ہو جانے کے بعد میں بہت سست ہوگیا ۔
دانیال صاحب لکھتے ہیں میرے خیال میں قرآن بھی ایک سائنسی کتاب ہی ہے صرف انداز بیان الہامی ہے ۔
میں دانیال صاحب سے متفق نہیں کیونکہ قرآن کو معاشیات ۔ معاشرت ۔ ستاروں کے علم اور نظام انصاف کے اصولوں کے علاوہ گائیناکالوجی کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے مگر یہ اللہ کا کلام ہے جس کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا ۔ سائنس انسان کے تجربوں کا حاصل ہے اور اس میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے ۔ کچھ ایسی معلومات ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں نے بیسویں صدی میں دریافت کیں جب کہ وہ قرآن میں موجود تھیں ۔ ہماری پسماندگی کا سبب نہ تو قرآن ہے نہ اسلام بلکہ اسکا سبب ہمارا دین سے دور ہونا اور قرآن کے ساتھ منافقانہ روّیہ ہے کیونکہ قرآن پر عمل کرنا تو کجا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن میں لکھا کیا ہے اور اسی وجہ سے ہم لوگ محنت کرنے کی بجائے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں ۔ دانیال صاحب نے سو فیصد درست بات کی کہ کسی مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لئے سائنسی دلیلوں کی ضرورت نہیں ۔
وما علینا الالبلاغ