آج کا دن میرے والد محترم کے نام

میں لیبیا میں پونے سات سال قیام کے بعد واپسی پر عمرہ کرکے یکم فروری 1983ء کو پاکستان پہنچا ۔ ان دنوں ہماری رہائش سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں تھی ۔ والدہ ماجدہ 1980 میں وفات پا گئی تھیں اور والد صاحب میرے چھوٹے بھائی کے پاس سعودی عرب میں تھے مگر ہم سے دو دن پہلے راولپنڈی پہنچ چکے تھے ۔ ہم نے والد صاحب کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔ اور میں روزانہ واہ میں اپنے دفتر راولپنڈی ہی سے جاتاآتا رہا ۔

والد صاحب کے حکم پر ہم اکتوبر 1984 میں واہ سرکاری کوٹھی میں چلے گئے اور میری سب سے چھوٹی بہن اپنے خاوند اور بچوں سمیت والد صاحب کے ساتھ رہنے لگی ۔ہم ہر ہفتہ وار چھٹی والد صاحب کے ساتھ راولپنڈی میں گذارتے اور روزانہ ٹیلی فون پر والد صاحب کی خیریت دریافت کرتے ۔ جون 1987ء میں ایک دن میں نے والد صاحب سے بات کی تو مجھے ان کی آواز میں معمولی سی لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی ۔ میں نے اسی وقت اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اور واہ ہی میں رہتی ہیں کو ٹیلیفون کیا اور تیار ہونے کو کہا ۔ میں میری بیوی اور باجی راولپنڈی گئے اور والد صاحب کو زبردستی واہ لے گئے (بوڑھوں کے لئے اپنا گھر چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے) ۔

میرا اندازہ ٹھیک تھا والد صاحب کو ہلکا سا سٹروک (برین ہیموریج) ہوا تھا ۔ علاج سے الحمدللہ وہ ٹھیک ہو گئے ۔ 1988ء میں میری ایک اور چھوٹی بہن جو اسلام آباد میں رہتی ہے خدمت کے جذبہ میں والد صاحب کو اپنے گھر لے گئی ۔ کچھ ماہ بعد والد صاحب کو پہلے سے زیادہ شدّت والا سٹروک ہوا اور میں پھر انہیں اپنے پاس واہ لے گیا ۔

ان دنوں واہ میں کوئی نیوروسرجن نہ تھا اس لئے علاج کے لئے میں انہیں ہفتہ میں ایک بار اسلام آباد لے کر آتا ۔ حالانکہ میری کار بہت آرام دہ تھی پھر بھی آنے جانے سے والد صاحب کو تھکاوٹ ہو جاتی تھی ۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جو سرجن ہے وہ ان دنوں سکاٹ لینڈ میں تھا ۔ میں نے 1990 کی گرمیوں میں اسے ٹیلیفون کر کے ساری بات بتائی اور کہا کہ کمائی کافی ہو گئی اب آؤ اور اسلام آباد والے مکان میں رہو اور والد صاحب کو اپنے پاس رکھ کر ٹھیک طرح سے علاج کراؤ چنانچہ وہ اگلے ہی ماہ آ گیا اور سیٹیلائیٹ ٹاؤن سے سامان اسلام آباد شفٹ کر کے والد صاحب کو اسلام آباد لے آیا ۔

جون 1991 میں وہ کہنے لگا بھائی جان میں تو اسی طرح چھوڑ چھاڑ کر آ گیا تھا میری نئی گاڑی بھی وہاں ایسے ہی کھڑی ہے میں جاکر تین ماہ میں سب کچھ کلیئر کر کے آ جاؤں گا ۔ سو میں والد صاحب کو پھر واہ لے گیا ۔ والد صاحب کی صحت کافی کمزور ہو چکی تھی ۔ کھانا ہم ان کو اپنے ہاتھ سے ہی کھلاتے تھے ۔ 2 جولائی کو صبح میری بیوی ان کو ناشتہ کرانے لگی انہوں نے ناشتہ نہ کیا ۔ میں دفتر جانے کے لئے کار میں بیٹھا ہی تھا کہ میری بیوی بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے بتایا ۔ میں والد صاحب کے کمرہ میں پہنچا ۔ مجھے والد صاحب بہت کمزور محسوس ہوئے چنانچہ میں دفتر نہ گیا اور والد صاحب کے پاس ہی رہا ۔

بارہ بجے کے قریب میں نے ہسپتال میں کئی جگہ ٹیلیفون کر کے اپنی بڑی بہن کو تلاش کیا اور والد صاحب کے متعلق بتایا ۔ ایک بجے وہ ہمارے گھر پہنچ گئیں ۔ سب جتن کئے گئے مگر والد صاحب بعد دوپہر دو بج کر بیس منٹ پر اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔

چھوٹا بھائی سکاٹ لینڈ ۔اس سے بڑا سعودی عرب اس سے بڑا ابو ظہبی اور ایک بہن لاہور میں تھی سب کو اسی وقت ٹیلیفون کئے ۔ ایک بھائی دوسرے دن صبح سویرے پہنچا باقی سب اسی رات پہنچ گئے ۔ تین جولائی کی صبح والد صاحب کے جسد خاکی کو نیو کٹاریاں قبرستان میں ان کی وصیّت کے مطابق سپرد خاک کر دیا کیونکہ میری والدہ ماجدہ کا جسد خاکی بھی وہیں مدفون ہے ۔

والد صاحب نے اسلام آباد والے پلاٹ پر چار ملحقہ مکان بنوائے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم چاروں بھائی اکٹھے رہیں سو الحمدللہ ہم نے ان کی خواہش پوری کی اور ماشاءاللہ چاروں بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہوتی ہے ۔

چھٹی حِس یا ٹیلی پیتھی

آج سے پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں حکومت پاکستان کی طرف سے لیبیا کی حکومت کے ایڈوائزر (انڈسٹریل پلاننگ) کی حیثیت سے طرابلس میں متعین تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا فوزی اس وقت سوا پانچ سال کا تھا۔26 جون 1980 بروز بدھ فوزی سکول سے واپس آیا تو کھانے پینے سے انکار کر دیا اور ایک کونے میں قالین پر بیٹھ کر آنسوؤں کے ساتھ رونا شروع کر دیا کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس وقت لبیا میں لگ بھگ ساڑھے تین (پاکستان میں ساڑھے پانچ) بجے بعد دوپہر کا وقت تھا ۔ میں نے بہلانے کی کوشش میں کہا اچھا کل دفتر جا کر چھٹی لوں گا اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ لے کر آؤں گا پھر پاکستان چلیں گے۔ لیکن فوزی نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں نے ابھی اور اسی وقت پاکستان جانا ہے۔ ہر طریقہ سے بہلانے کی کوشش کی۔ اس کی مرغوب ترین ملک چاکلیٹ بار۔ میکنٹاش کوالٹی سٹریٹ کا ڈبہ۔ آٹومیٹڈ کھلونے۔ مگر کسی لالچ نے کوئی اثر نہ کیا۔ فوزی رات تک روتا رہا اور تھک کر سو گیا۔

اگلے دو دن سکول سے واپس آ کر پھر پاکستان جانے کا تقاضہ شروع ہو جاتا ۔ روتا بھی مگر زیادہ نہیں ۔ 29 جون کو میرے دفتر سے آتے ہی فوزی نے پہلے دن کی طرح متواتر رونا اور پاکستان جانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہم میاں بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں ۔ ہماری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ فوزی نے کبھی زیادہ ضد نہیں کی تھی ۔ نہ ہی خاص روتا تھا اور ہماری بات مان بھی لیا کرتا تھا ۔

آخر 30 جون کو ہمیں دو تاریں اکٹھی ملیں۔ یہ میرے بہنوئی کی طرف سے تھیں۔ میری دو بہنیں پاکستاں میں تھیں باقی دو بہنیں اور ہم چاروں بھائی ملک سے باہر تھے۔ ایک تار 27 جون کی صبح کی تھی لکھا تھا ماں شدید بیمار ہے جلدی پہنچو۔ دوسری 29 جون کی تھی کہ والدہ فوت ہوگئیں ہیں جلدی پہنچو۔ کسی شخص کی بےوقوفی کی وجہ سے ہمیں یہ دونوں تاریں اکٹھی ملیں ۔ پاکستاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بدھ 26 جون کو سوا پانچ ساڑھے پانچ کے درمیان میری والدہ محترمہ کر سٹروک یعنی برین ہیموریج ہوا تھا اور وہ کوما میں چلی گئیں تھیں اور 29 جون بعد دوپہر فوت ہوئیں ۔

اتنے چھوٹے بچے کے دل میں ہزاروں میل دور کس نے پاکستان جانے کا خیال ڈالا۔ اور کس چیز نے اس کو اتنا رلایا۔ اس سوال کا جواب آج کے بڑے سے بڑے سائنسدان کے پاس نہیں ہے ۔

مختاراں مائی کیس – آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا

مختاراں مائی کے مقدمے کی سماعت کے پہلے روز اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے موقع پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مفروضوں پر مبنی تھا۔ اور یہ کہ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں صرف زیادتی کا شکار ہونے والی کا بیان ہی ان ملزمان کو سزا دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

عدالت نے اب یہ کارروائی منگل کے روز تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن

اردو بلاگز کے ایک عمدہ اور حقیقت پسند قلمکار کراچی کے ” دانیال ” کی فرمائش پر ذاتی تجربات اور مشاہدات پہلی بار منظر عام پر ۔ ایسے واقعات جو شائد آپ نے نہ پڑھے ہوں گے نہ سنے ہوں گے ۔ یہاں کلک کیجئے اور پڑھئیے ۔ ۔ ۔ میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن ۔

ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں ہے مگر پھر بھی میں گوش گذار کر دوں کہ کچھ قسطوں میں ایسے واقعات کا اندراج ہوگا جس کو پڑھنے سے پہلے کمزور دل خواتین و حضرات کسی مقّوی القلب شربت کا گلاس اپنے پاس رکھ لیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئے ۔

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ پانچویں قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے

23-05-2005
11-06-2005
14-06-2005
20-06-2005
23-06-2005

اسلامی قوانین ۔ پورے اسلامی قوانین کا احاطہ کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ۔ میں حدود آرڈیننس کے بھی صرف اس حصے پر اظہار خیال کروں گا جس کا تعلق خواتین کے ساتھ بدکاری سے ہے ۔ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں حدود آرڈیننس کے متعلق کچھ اظہار خیال کر چکا ہوں ۔ اس کے علاوہ میرے بیٹے زکریا نے اس پر دوسرے زاو یے سے بحث کی ہے ۔ اب میں اس سے آگے چلتے ہوئے اس کے ایک اور پہلو پر بات کروں گا ۔

اسلامی قوانین کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ ان قوانین کا صحیح اطلاق اس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی یا انصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ جیسا کہ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں واضح کر چکا ہوں ۔ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے صحیح اطلاق میں نہ صرف دوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ جابر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور ریپ کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔ اسلامی قوانین سے واقفیت نہ رکھنے والے جبر و استبداد کو ختم کرنے کی بجائے اسلامی قوانین میں کیڑے نکالنا آسان سمجھتے ہوئے اسلامی قوانین کی مخالفت پر تل جاتے ہیں ۔

حدود آرڈیننس میں درج چار گواہیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ میرے بیٹے زکریا نے لکھا ہے ۔ بدکاری کی سزا ایک سو کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا ہے ۔ اتنی سخت سزا کسی اور جرم کی نہیں ۔ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔ قاتل کی سزا موت ہے اور اگر مقتول کے وارث از خود معاف کر دیں تو قاتل زندہ رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں سنگسار ہونے یا سو کوڑے کھانے والا جس اذیّت سے گذر کر مرتا ہے اس کا اندازہ لگائیے ۔ ہمارے موجودہ معاشرہ پر میں اپنی سابقہ پوسٹس میں روشنی ڈال چکا ہوں ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس طرح کا ہمارا معاشرہ بن گیا ہے اگر یہ پابندی نہ ہوتی تو خود غرض اور جابر مرد ۔ عورتوں پر جھوٹے الزامات لگا کر یا تو انہیں اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کا کھلونا بنا لیتے یا ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ جو کچھ آجکل کچھ علاقوں میں سردار یا وڈیرے کارو کاری یا مانی کے نام پر یا جرگوں کے فیصلوں سے کر رہے ہیں وہ کھلے عام ملک میں ہر جگہ ہونے لگتا ۔

باقی ان شاء اللہ آئیندہ

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ چوتھی قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
23-05-2005
11-06-2005
14-06-2005
20-06-2005

بقیہ حکومت بے بس یا قانون

پولیس کا نظام جو آج بھی رائج ہے اس لئے بنایا گیا تھا کہ پولیس کے ملازم سرداروں اور وڈیروں کے ٹکڑوں پر پلیں اور ان کی فرمابرداری کریں کیونکہ یہ سردار اور وڈیرے انگریز حاکموں کے خیر خواہ تھے۔ محب وطن اور دیانت دار لوگوں کے خلاف مخبری اور ان کو ایزا رسانی پولیس کے غیر تحریر شدہ فرائض میں شامل تھیں ۔

دیگر ہمارے ہاں واردات کی تفتیش کا جو طریقہ عملی طور پر رائج ہے وہ قانون سے آزاد اور انسانیت کا دشمن ہے ۔ تفتیش کرنے والا پولیس میں ہو یا فوج میں ۔ظلم و تشدّد اور شیطانی عمل سے اپنی مرضی کے بیان پر دستخط کروا لئے جاتے ہیں ۔ اس لئے کوئی شریف آدمی سچ کی حمائت کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے ۔ اسی کی بنا پر مجرم بھی بعد میں عدالت میں یہ بیان دے کر بچ جاتا ہے کہ تشدّد کے ذریعہ اس سے جھوٹے بیان پر دستخط کروائے گئے تھے ۔ مالدار اور بارسوخ لوگ جھوٹے گواہ خرید کر اور پولیس والوں کی جیبیں بھر کر نہ صرف خود جرم کی سزا سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اپنے پالے ہوئے غنڈوں پر بھی گزند نہیں آنے دیتے ۔تفتیش میں ایک اور بڑا نقص یہ ہے کہ عام طور پر یہ فیصلہ پہلے ہی کر لیا جاتا ہے کہ کس سے کیا بیان لینا ہے اور پھر اسے اس بیان کی ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ماننے پر تشدّد کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہماری عدالتوں کے احاطہ کے اندر ہی پیشہ ور گواہ ملتے ہیں ۔ ان کی فیس گواہی کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے ۔ یہ فرضی گواہ اصل گواہوں سے زیادہ طمطراق کے ساتھ بیان دیتے ہیں ۔

کراچی میں ایک بزرگ ایم ایم احسن رہتے ہیں ۔ وہ کسی زمانہ میں انسپکٹر جنرل پولیس بھی رہے ۔ لکھتے ہیں ۔ پینتیس سال قبل کراچی ائرپورٹ پر پی آئی اے کے ایک ملازم نے بظاہر پولینڈ کے صدر کو گاڑی کے نیچے کچلنے کی کوشش کی لیکن قریب پہنچ کر گاڑی کا رخ بدل گیا اور دو استقبال کرنے والے گاڑی کی زد میں آگئے ۔ تفتیش پر ملزم نے بتایا کہ وہ پولینڈ کے صدر کو نہیں بلکہ اپنے صدر یحی خان کو اس کے غلط چال چلن کی وجہ سے مارنا چاہتا تھا۔ اتفا‍ق سے صدر یحی خان عین آخری وقت اسلام آباد میں رک گئے تھے ۔ ملزم جب تیز رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا قریب پہنچا تو دیکھا کہ دو بچے پھول پیش کر رہے ہیں ۔ ان کو بچانے کے لئے گاڑی ایکدم موڑی تو وہ دو استقبال کرنے والوں سے ٹکرا گئی ۔ حکومت کی تسلی نہ ہوئی اور انکوائری ایک بریگیڈئر کے ذمہ کی گئی ۔ انکوائری کے بعد بریگیڈئر نے احسن صاحب کو بتایا کہ میں نے ملزم سے حقیقت اگلوا لی ہے اور ان کو ملنے کا کہا ۔ وہاں پہنچنے پر احسن صاحب کو دیکھتے ہی ملزم نے کہا ۔ جناب بات تو وہی ہے جو آپ کو بتائی تھی مگر بریگیڈئر صاحب کی مار پیٹ سے تنگ آ کر اور بالخصوص ان کی اس دھمکی کے خوف سے کہ اگر میں نے ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو وہ بر سرعام میری بیوی کو برہنہ کر دیں گے ۔ میں نے ان کی مرضی کے مطابق بیان دے دیا ہے ۔

ایک پولیس ملازمین کی کمزوری بھی ہے کہ پولیس کے نچلے عملہ کی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ ان کے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے اس لئے بھی وہ سرداروں اور وڈیروں اور جرائم پیشہ لوگوں کے غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ جب یہ عادت پڑ جاتی ہے تو جہاں سردار اور وڈیرے نہیں وہاں پولیس والے شریف یا بے وسیلہ لوگوں کی کلائی مروڑ کر اپنا خرچ پورا کرتے ہیں۔ یہی حال پٹواری اور گرداور وغیرہ کا ہے ۔

موجودہ قوانین اور نفاذ کے موجودہ نظام (پولیس سسٹم) کی موجودگی میں پاکستانی عوام کو ظلم سے چھٹکارہ اور آزادي کیسے مل سکتی ہے ؟

باقی ان شااللہ آئندہ

How to Increase per Capita Income ?

Excuse me for copying English in Urdu blog but this deserved it .

A guide to some serious fun by Ansar Abbasi, The News, June 21, 2005

For example with no provision of Hyde Park, if you are caught shouting in abusive language you have to pay Rs 1,000. Going through these offences, one wonders if the law is meant for Pakistan or. . . Included in the eighth schedule of the local government ordinance, approved by the president and already implemented by three of the four provinces, many of these offences do not go with the ground realities. It is, however, said that the original local government ordinance, now amended, carries even imprisonment.

The amended ordinance gives different district, Tehsil and town officials the responsibility of enforcing penalties in offences included in the eighth schedule of the ordinance. The following are the offences with their penalties:

1) Keeping pigeon or other birds causing danger to air traffic, Rs 500.
2) Kite flying in contravention of any general or specific prohibition, Rs 300.
3) Selling cattle and animals in contravention of local government law/rule, Rs 1,000.
4) Owner of an animal who through neglect or otherwise damages any land or crop etc, Rs 1,000.
5) Failure of a head of family to report the birth or death to a local government (LG), Rs 500.
6) Begging importunately for alms by exposing any deformity or disease or any offensive sore or wound to solicit charity, Rs 500.
7) Failure to lime-wash or repair a building if so required by LG, Rs 1,000.
8) Using or allowing the used building declared unfit by LG for human habitation, Rs 1,000.
9) Loud shouting in abusive language causing distress to others, Rs 1,000.
10) Loud playing of music or radio, beating or drum or tom-tom, blowing a horn or beating or sounding any brass or other instruments or utensils in violation of LG’s prohibitions, Rs 1,000.
11) Exhibiting any obscene advertisement, Rs 1,000.
12) Fixing any bill, notice, poster etc on private or public place other than the place fixed for purpose by LG, Rs 1,000.
13) Defacing or disturbing any direction post, lamppost or lamp extinguishing or any light arrangement, Rs 1,000.
14) Feeding or allowing to be fed an animal meant for dairy or meat purposes, on deleterious substance, filth or refuse of any kind, which is dangerous to health of consumers, Rs 1,000.
15) Failure to keep in good condition troughs and pipes for receiving or carrying water or sullage water, Rs 1,000.
16) Failure to stop leakage of water pipes, faucets and sanitary fittings, Rs 1,000.
17) Failure to clean, repair, cover, fill up or drain off any private well, tank or other source of water supply, which is declared under this ordinance to be injurious to health or offensive to neighbourhood, Rs 1,000.
18) Failure to cut or trim the hedges growing thereon which overhang any well, tank or other source of water used by public, Rs 500.
19) Damage or polluting physical environment, inside or outside private or public premises endangering public health, Rs 2000 for public premises and Rs 500 for private premises.
20) Failure to clean the premises, houses, shops and cultivated lands of plastic bags and other perishable materials, Rs 500.
21) Failure to put in proper order any latrine, urinal drain, cesspool or other receptacle by an owner of a house, shop, office, industry or premises, Rs 2,000 for commercial concerns and Rs 500 for house.
22) Steeping hemp, jute or any other plant in or near pond or any other excavation near residential area, Rs 1,000.
23) Watering cattle or animals, or bathing or washing at or near a well or other source of drinking water, Rs 500.
24) Failure to maintain clean premises of the area in front of a shop, office of factory up to the public street or road serving this facility, Rs 1,000.
25) Failure to provide for disposal of litter or garbage inside or outside a shop, Rs 500.
26) Throwing or refusing any refuse in any place other than specified, Rs 500.
27) Failure to dispose of offal, fate or any organ of a dead animal, Rs 500.
28) Disposal of carcasses of animals within prohibited distance, Rs 500.
29) Causing or permitting animals to stray, Rs 500.
30) Picketing, parking animals or collecting carts or vehicles on any street. Rs 500.
31) Obstructing lawful seizure of animals, Rs 500
32) Failure to furnish information required by LG, Rs 300.
33) Burying or burning a dead body at a place other than registered burial or burning place, Rs 1,000.
34) Excavation of earth, stone or any other material from prohibited areas, Rs 1,000.
35) Connecting or altering any house drain with a drain in a public street or drawing off water without permission, Rs 1,000.
36) Obstructing or tampering with any main pipe, meter or any apparatus or appliances of the supply of water or sewerage system, Rs 1,000.
37) Obstructing or tampering with any road, street, drain or pavement, Rs 1,000.
38) Keeping ferocious dog or other animal in residential areas or taking such animals to public places without leash or chain or to set at large any animal or dog infected with rabies or any other infectious disease, Rs 200.
39) Keeping or maintaining any cattle in any part of the prohibited zone, Rs 500.
40) Without permission allowing the contents of any sink, sewer or cesspool or any other offensive matter to flow or drain or to be put upon any street or public place, Rs 2,000 in case of commercial concerns and Rs 500 for others.
41) Slaughtering of animals for sale of meat at a place other than the specified place, Rs 500.
42) Failure by the owner or occupied of any land to clear away and remove a vegetation declared to be injurious to health to neighbourhoods, Rs 500.
43) Fixing of wooden khokhas/temporary shops on footpaths or beyond the street line, Rs 1,000.
44) Plying of handcarts for the sale of goods without permission, Rs 1,000.
45) Neglect in safe storage of eatable, drinkable and other consumable items sold or supplied to the public, Rs 3,000 in case of large restaurants, hotels and shops, and Rs 500 for others.
46) Digging of public land without permission, Rs 1,000.
47) Contravention of the prohibition or direction of the local government issued under the ordinance, Rs 500.