ہمارا رویہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ تیسری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
23-05-2005
11-06-2005
14-06-2005

حکومت بے بس یا قانون

ہمارے ملک میں قتل و غارت گری بالخصوص کارو کاری کو روکنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہمارے زیادہ تر قوانین غیر ملکی حاکم (انگریزوں) نے ہمیں کمزور کرنے اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے تھے ۔ یہ قوانین حکومت وقت کے بعد زیادہ تر ان لوگوں کی حمائت میں ہیں جن کو انگریزوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کی خاطر اپنی قوم یعنی ہندوستان کے باشندوں سے غدّاری کے عوض جاگیریں عطا کیں اور سردار یا وڈیرہ بنایا ۔ قانون با اختیار ہو تو بھی کچھ اچھا نتیجہ نکلے مگر یہاں تو صرف کتابوں میں ہے اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے نہیں ۔ان انسان دشمن نظام کو بدلنا اس لئے مشکل ہے کہ سردار اور وڈیرے یا ان کی اولاد یا عزیزواقارب ہر طرف ہیں ۔ اسمبلی ہو۔ سول سیکریٹیریئٹ ہو یا فوج ۔ ہر ادارہ کی فہرستیں بنا کے تحقیق کر لیجئے ہر جگہ آپ ان کو پائیں گے۔ دوسرا عنصر جس نے پاکستان بننے کے پانچ سال کے اندر ہی پاکستان کے عوام کو اصل آزادی سے محروم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں تھیں وہ ہیں انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کے تربیّت یافتہ آفیسران اور فوج کے اعلی آفیسرز جو قائداعظم اور پاکستان کی نسبت حکومت برطانیہ کے زیادہ وفادار تھے ۔ آج کی سول سروس کے آفیسران بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو غلام سمجھتے ہی ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے سینئر دو مسلمان فوجی آفیسر جو محب وطن تھے وہ ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ۔ کہتے ہیں یہ حادثہ ایک سازش تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت برطانیہ کے دلدادہ ایوب خان فوج کے سربراہ بن گئے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور قائداعظم کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان کو بھی ایک سازش کے تحت1951 میں ہلاک کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو قائداعظم کے بعد گورنر جنرل بنایا گیا تھا ۔ حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں قوم کا واسطہ دے کر وزیراغظم بنا دیا اور پھر 1953 میں ان کی حکومت مع اسمبلی کے توڑ دی ۔ 1954 میں بیوروکیٹس (غلام محمد گورنر جنرل اور چوہدری محمد علی وزیراعظم) اور جنرل محمد ایوب خان (کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع) کی چوہدراہٹ میں حکومت شروع ہوئی ۔ اپنی مرضی کے وزیر اعظم بنائے اور ہٹائے جاتے رہے ۔ غلام محمد کے بعد میجر جنرل ریٹائرڈ سکندر مرزا اور پھر 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں پکی فوجی حکومت آ گئی ۔ تمام سیاست دان جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے کام کیا تھا ان کو نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ اپنی خواہشات کے مطابق سیاست دانوں کی نئی پنیری لگائی گئی ۔ جنرل دس دس سال حکومت کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے تیار کردہ سیاست دانوں کو بھی دو تین سال سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی ۔ اس طرح سارا وقت اپنے آپ کو مضبوط بنانے ۔ اپنی جائیدادیں بنانیں اور اپنی انڈسٹریاں قائم کرنے میں گذارتے رہے ۔ اس کے لئے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ان کو بھی مالامال کیا گیا ۔ ملک و قوم اور قوانین میں بہتری لانے کی کوئی کوشش کرنے کی بجائے قوانین کو ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالتے رہے ۔

باقی ان شااللہ آئیندہ

شمعءِ زندگی

منیر احمد طاہر کے اندھیرے نہ بڑھاؤ سے متاءثر ہو کر لکھا

اپنی روح میں شمع جلا کے
اسے اندھیروں میں لے جاؤ
لو گھٹتی ہوئی محسوس ہو تمہیں
اسے خلوص کی چنگاری سے بڑھکاؤ
لو تو صرف اس وقت بڑھے گی
جب اک شمع سے دوسری جلے گی
پھر اربوں جلتی ہوئی شمعیں
گھپ اندھیروں کو دھکیل دیں گی
رکھو بلند اپنی شمع کہ سب دیکھیں
لے کے چلو اسے ساحل سے ساحل
اور دنیا کو بھر دو آزادی کی روشنی سے
صرف آج نہیں ۔ ابد تک کے لئے

تبدیلی تبدیلی تبدیلی

خود بدلتے نہیں ۔ سب کچھ بدل دیتے ہیں
میرے اہل وطن یہ کیا چارہ گری کرتے ہیں

تبدیلی تبدیلی تبدیلی ۔ پچھلے پینتیس چالیس سال سے یہ گردان سنتا چلا آ رہا ہوں ۔
نتیجہ ۔ جتنی تبدیلی لائی گئی ہے اتنا ہی ملک اور قوم کا نقصان ہوا ۔
وجہ ۔ تبدیلی اس لئے لائی گئی کہ تبدیلی لانا تھی ۔
تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لا لا کر تعلیم کو بے مقصد بنا دیا گیا ہے ۔
حکومتیں تبدیل کر کر کے ملک کو وحشیوں بھرا جنگل بنا دیا گیا ہے ۔
آئین میں تبدیلیاں کرتے کرتے ملک بے آئین ہو کے رہ گیا ہے ۔
آجکل تو تبدیلی نہیں تبدیلیوں پر زور ہے ۔
اللہ رحم کرے اس ملک پر اور ہم عوام پر ۔

اور ہاں ضیاء صاحب کیفے حقیقت والے کو بھی اردو میں تبدیلی کا شوق چرایا ہے ۔
ارے میاں ۔ ذ اور ز کو برداشت کر لیجئے ۔ پہلے ہی اردو کو شائد گنواروں یا ان پڑھوں کی زبان سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاندانہ سلوک کیا جاتا رہا ہے ۔ اردو میں تبدیلیاں کیں تو جو ٹوٹی پھوٹی اردو رہ گئی ہے وہ بھی دفن ہو جائے گی ۔

ترقّی چاہیئے تو ترقّی تبدیلی سے نہیں ہوتی بلکہ ترقّی از خود تبدیلی لاتی ہے ۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے ترقّی کی کوشش کیجئے ۔ تبدیلیاں خود بخود آئیں گی ۔ اور ترقّی کے نتیجہ میں آنے والی تبدیلیاں صحت مند اور خوشگوار ہوں گی ۔ مگر ترقّی کے لئے بے غرض محنت کی ضرورت ہے ۔

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ دوسری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
23-05-2005
11-06-2005

مزید کارو کاری کے متعلق

ڈاکٹر شاہد مسعود ایک آرتھو پیڈک سرجن ہیں اور اے آر وائی ٹی وی سے مختلف پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ان کا ایک پروگرام ہے ویووز آن نیوز ۔ انہوں نے کارو کاری کے متعلق حقائق جمع کر کے اس پروگرام میں 22 ۔ 23 اور 24 جولائی 2004 کو حقائق پیش کئے تھے ۔ میں نے ان پروگراموں کی سکرپٹ کی آفیشل کاپی حاصل کی ہے اور اس میں سے چند اقتباس پیش کر رہا ہوں۔بلوچستان کے مشہور سیاستدان اور قبائلی سردار اکبر بگٹی سے بات چیت۔

کارو کاری کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے لئے اچھے رسم و رواج ہیں ۔ ہم اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ۔ ۔ ان رسموں سے تمام قبیلوں کی عزت برقرار رہتی ہے اور تمام قبیلے مل کر اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں عورت کو پتا ہے کہ کارو کاری کی سزا کیا ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکاتی ہے ۔ یہ بھی اک باعزت طریقہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو ختم کر لیتی ہے بجائے اس کے کہ خاوند اس کو مارے یا بھائی اس کو مارے ۔

ڈی پی او سکھر غلام شبیر شاہ کہتے ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم تو سیدھا سیدھا قتل کا کیس دائر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آگے چل کر عدالت میں کیس چلتا ہے تو جس قانون کے مطابق کیس چلتا ہے وہ قانون انگریز کا بنایا ہوا ہے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قبیلہ والے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا کوئی بھی مرد جذ بات میں آ گیا تھا اسلئے اس نے یہ کام کیا کیونکہ اس نے اپنی عورت اور دوسرے مرد کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا جس کی وجہ سے وہ رہ نہ سکا اس نے یہ کام کر دیا۔

اندرون سندھ سے لالہ اسد پٹھان لکھتے ہیں ۔ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقہ کھچو کے گرد و نواح میں ایک قبرستان ہے جسے کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں جو کہ دو ڈھائی سو سال پرانہ ہے اور اس میں سینکڑوں خواتیں بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ جس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے تو اس کی بیوی کے گھر والے اس کو 75000 روپیہ بطور جرمانہ عطا کرتے ہیں اور اگر وہ ادا نہ کریں تو اس کی بیوی کے تمام گھر والے کارو کاری کے زمرے میں آتے ہیں اور لڑکے والے جس کو چاہیں مار سکتے ہیں ۔ اس رسم کے ذریعہ جو قتل کئے گئے ہیں ان میں خواتیں کی تعداد نوّے اور سو کے درمیان اور مردوں کی پندرہ اور بیس کے درمیان ہے۔ میری عمر اس وقت 35 سال ہے ۔ ۔ ۔ یہاں کے سردار بہت اچھے ہیں ۔ ایک دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں بس ہم اس پر خوش ہیں کیونکہ ہم ان کی رعایا ہیں اور کارو کاری کا فیصلہ سردار کرتے ہیں اور جب سزا دینی ہوتی ہے تو لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ اس قبیلے کے اتنے روپے اس قبیلے نے دینے ہیں اگر رقم ادا نہ کرے تو مرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

جنوبی بلوچستان میں ایک مقدمے کی تفتیش کرنے والے تحصیلدار نے بتایا کہ ایک شخص کو دوسری شادی کی خواہش تھی لیکن اس کی پہلی بیوی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔ چنانچہ بیوی سے چھٹکارہ پانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا اور نزدیکی فیکٹری میں کام کرنے والے اپنے ایک جان پہچان والے شخص کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ مہمان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مہمان اور اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ تحصیلدار کے مطابق قاتل اس لئے بچ جاتے ہیں کہ موقع کی کوئی شہادت عموما نہیں ہوتی اور یہ کام انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا ظاہر کیا جاتا ہے ۔

دریائے سندھ کےقریب رہنے والے لوگ کاری قرار دی گئی عورت کو قتل کر کے اس کی ناک کاٹ کر نعش دریا میں بہا دیتے ہیں تا کہ آگے چل کر کوئی اس کی کٹی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ کاری ہے اور نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے ۔کاری کے قتل ہونے کے بعد کارو قرار دیئے گے مرد سے اچھی خاصی رقم لی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بےگناہ شادی شدہ عورت قتل ہونے پر اس کے والدین خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کا نصیب ہی یہی تھا ۔

باقی ان شااللہ آئندہ

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

ہمارا رویّہ

اول ۔ ہم نے بہت سے رسم و رواج کو اسلام کا نام دے دیا ہوا ہے اور ان رسم رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں جبکہ اسلام رسم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور انسان کو صرف اللہ اور اس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔

دوم ۔ اگر ہم نے کسی دنیاوی موضوع پر لکھنا ہوتا ہے یا کسی دنیاوی معاملہ پر تنقید کرنا ہوتی ہے تو پہلے اس موضوع یا معاملہ پر تحقیق کر کے مصدقہ مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ اگر اس موضوع یا معاملہ پر کتاب یا کوئی تحریر موجود ہو تو اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور سب کچھ اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اس موضوع یا معاملہ پر لکھتے یا تنقید کرتے ہیں ۔ لیکن اگر موضوع یا معاملہ دین اسلام کا ہو تو ہم پورے دین کو سمجھنے کی کوشش تو کجا ۔ قرآن الحکیم کا ترجمہ اور تفسیر کو ایک دفعہ بھی پڑھے بغیر اسلام کے اصولوں پر تقریر اور دل کھول کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویّہ کہاں تک منطقی اور جائز ہے۔ کبھی ہم نے سوچا اس کے متعلق ؟

رسم و رواج

ہم نے بہت سے رسم و رواج غیر مسلموں یا اسلام کے دشمنوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ سب پر تھوڑا تھوڑا بھی لکھا جائے تو ایک کتاب بن جائے ۔میں اس وقت صرف کارو کاری کا مختصر ذکر کروں گا۔ کارو کے معنی کالا اور کاری کے معنی کالی ہے یعنی جس مرد یا عورت نے اپنا منہ کالا کیا۔ مطلب ہے بدکاری کی۔ یہ رواج زمانہ قدیم سے بلوچوں میں چلا آ رہا ہے اور جہاں جہاں بلوچ گئے اسے ساتھ لے گئے ۔ چنانچہ آجکل یہ رواج بلوچستان کے علاوہ سندھ۔ جنوبی پنجاب اور سرحد میں بھی پایا جاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئےاس سرداری نظام کو قانونی تحفظ دیا۔ انگریز گورنر البرٹ سینڈیگن نے 1873 میں قبائل کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرتے ہوئے جن قبائلی رسم و رواج کو قانونی تحفظ دیا ان میں ایک کارو کاری بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے باقی قوانین کی طرح یہ قانون بھی ابھی قائم ہو گا۔

ان قبیلوں میں قبیلہ کے سردار مطلق العنان حاکم ہوتے ہیں اور باقی لوگ محکوم غلامی کی حد تک ۔ سردار کے خاندان کا مرد جس عورت کو چاہے اپنی ناجائز خواہشات کا شکار بنائے اس پر کوئی قدغن نہیں مگر عام لوگوں میں کوئی سردار کی مرضی کے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتا۔ سردار چاہے کسی کی بیٹی کو کسی اوباش یا بدمعاش سے بیاہ دے یا کسی بڈھے سے جس کے پوتے پوتیاں بھی ہوں۔ انکار کی صورت میں لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار سے باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ کی بات کرنے پر کارو کاری قرار دے کر لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار کا یہ حکم کسی حد تک سردار کے خاندان کی لڑکیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر سردار کے گھرانے کی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے کسی بہانہ سے قتل کر دیا جاتا۔ اگر وہ لڑکی کسی ماتحت لیکن شریف لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سردار مال یا زمیں کی خاطر اسے کسی بوڑھے یا بچے یا شرابی کبابی سے بیاہنا چاہتا ہے تو اس بےگناہ لڑکے کو کسی غریب بےگناہ لڑکی کے ساتھ کارو کاری قرار دے کر دونوں بے قصوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کو کارو یا کاری قرارن دیا جائے نہ ان کو غسل دیا جاتا ہے نہ کفن پہنایا جاتا ہے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ یہی کھیل ہمارے پیارے ملک کے دوسرے علاقوں میں غیرت کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں میں لگ بھگ 70 فیصد عورتیں یا لڑکیاں اور 30 فیصد مرد ہوتے ہیں۔

اب آج کے ایک ہی دن میں مختاراں مائی کے متعلق تین انکشافات پڑھئے۔

مختاراں مائی پچھلے دس دن سے گھر میں نظر بند ہے۔ یہاں کلک کر کے تفصیل پڑھئے

LAHORE, June 10: The interior ministry has placed Mukhtaran Mai’s name on the Exit Control List (ECL). Sources in the ministry told Dawn on Friday that Mukhtaran Mai had been scheduled to leave for London in a day or two on an invitation from the Amnesty International.“Her name has been placed on the ECL with a directive to the Federal Investigation Agency to ensure compliance,” an officer of the FIA said. The official said the government had taken the decision on reports that her visit could ‘tarnish’ the image of the country abroad.

مختاراں مائی پر ظلم کرنے والے 12 افراد کو رہا کرنے کا عدالتی حکم ۔ اسکے لئے یہاں کلک کر کے پوری خبر پڑھئے

باقی ان شاء اللہ اگلی تحریر میں

آج کے دن ایک اعتراف

آج آٹھ جون ہے یعنی میری بیٹی کا یوم پیدائش ہے۔ میری ایک بیٹی ہے۔ ویسے تو سب ہی ایک ہیں یعنی میری ایک بیوی ہے۔ ایک بڑا بیٹا ہے زکریا اور ایک چھوٹا بیٹا ہے فوزی ۔ ٹھیک ہے نا ۔ ایک ایک ہی ہوئے نا ؟ (ہا ہا ہا) میری بیٹی کا نام ہے منیرہ ۔ یہ نام میری امی (اللہ غریق رحمت کرے) نے تجویز کیا تھا۔ میری بیٹی مجھے بہت ہی پیاری ہے۔ اور بیٹی بھی مجھے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک مسئلہ ہے جو کئی سالوں سے حل نہیں ہو سکا وہ یہ کہ میں کہتا ہوں کہ میں زیادہ پیار کرتا ہوں اور بیٹی کہتی ہے میں زیادہ پیار کرتی ہوں۔ بعض اوقات اس معاملہ پر ہم میں تکرار ہو جاتی ہے مگر جلد ہی ہم دونوں ہنسنے لگ جاتے ہیں اور صلح ہو جاتی ہے۔ پرانی بات ہے ایک دفعہ بیٹی کا کوئی مطالبہ مجھے معقول نہ لگا میں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور خاموش ہو گیا۔ بیٹی نے سمجھا کہ میں ناراض ہو گیا ہوں اور رو رو کے اپنا برا حال کر لیا۔ میں جب اس کے کمرہ میں گیا تو اسے دیکھ کر حقّا بقّا رہ گیا۔ اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ میں نے بیٹی کو پچکارا اور بڑی مشکل سے باور کرایا کہ میں اس سے ناراض نہیں۔

جنوری میں اور میری بیگم ۔ بیٹی کو کراچی میں سیٹ کرنے گئے۔ چار دن بعد میں سخت بیمار ہو گیا۔ کچھ وقت ہسپتال میں بھی گذارنا پڑا۔ ایک ماہ تک کافی تکلیف رہی۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو میں بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو آدھی بھی نہ رہی تھی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ والدین تو اولاد سے پیار کرتے ہی ہیں مگر ایسی بیٹیاں بہت کم ہوں گی جو اپنے والدین سے اتنا والہانہ پیار کریں۔ چنانچہ میں ہار گیا اور بیٹی جیت گئی۔ ارے ارررررے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ یہ بھی میری ہی جیت ہے کیونکہ بچوں کی جیت والدین کی ہی جیت ہوتی ہے۔

مکّر کٹّیاں نیں چھاواں ۔۔۔۔۔

ہوسٹن (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر امان اللہ خان کی کتاب سے کچھ پنجابی شعر نقل کر رہا ہوں۔ یہ افغانستان اور عراق کی صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ میں شاعری کے اسلوب سے واقف نہیں ہوں پھر بھی نیچے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مکْر کُٹیاں نیں چھاوان

پیا لگدا حشر دیہاڑا سی ۔ ہر پاسے چیک چہاڑا سی
اینج لگدا سی بغداد نئیں ۔۔۔ فیر ہویا کی سی۔ یاد نئیں
اج چار دوالے کیہڑے نیں ۔ میرا فوٹو لیندے کیہڑے نیں
اے لتاں کس نے کٹیاں نیں ۔ جتھے ہتھ سن اوتھے پٹیاں نیں
او ویلے یاد پئے آوندے نیں ۔ میرے اتھرو وگدے رہندے نیں
جیڑے گھرسن سارے ڈھے گئے نیں ۔ ہن کھنڈرای باقی رہ گئے نیں
کوئی جا کے اج لیا دیوے ۔۔۔ مینوں پورا کوئی بنا دیوے

اردو ترجمہ حاضر ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں۔ غلطیاں درگذر کیجئےگا۔

پُر فریب ہیں سائے

وہ لگتی حشر کی گھڑی تھی ۔ ہر سو چیخ پکار۔ وہاں پڑی تھی
یوں لگتا تھا کہ بغداد نہیں ۔۔۔ پھر ہوا کیا تھا۔ کچھ یاد نہیں
آج چاروں طرف میرے کون ہیں ۔ یہ فوٹو میرا لیتے کون ہیں
یہ ٹانگیں کس نے کاٹی ہیں ۔ ہاتھ جہاں تھے وہاں بھی پٹیاں ہیں
وہ واقعات ہیں اب یاد آنے لگے۔ میرے آنسو بھی ہیں بہنے لگے
جو گھر تھے سارے گرچکے ۔ اب کھنڈر ہی باقی رہ گئے ہیں
کوئی جا کے مجھےلادیوے ۔ مجھے پورا تو کوئی بنا دیوے