پہلے شبّیر کی “میری یادیں” میں تحریر سے اقتباس
۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ذہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسلام کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی “حدود ” کا معاملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی عرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے ۔۔۔ یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس ختم ہوا
ہمارے ملک کے قوانین ہماری آزادی سے پہلے قابض انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ عوام کی بھلائی کے لئے نہیں۔ ہماری آزادی کے بعد جو ترامیم ہوئیں وہ زیادہ تر مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں ہوئیں چنانچہ اول تو قوانین ہیں ہی جابر اور بارسوخ لوگوں کی حمائت میں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی بھی تشریح اسی طرح سے کی جاتی ہے۔ حدود کے قوانین کا صحیح نفاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت وغیرہ میں انسانیت دوست (یا منطقی) ترمیمات نہیں کی جاتیں۔ حدود آرڈیننس تو کیا۔ کسی بھی انسان دوست قانون کا صحیح نفاذ موجودہ قانون تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ وکیل بھاری فیس کے عوض ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو وہ دولت کی گولی کھلا کے سلا دیتا ہے۔ اس لئے کسی عام آدمی کو انصاف مل جانا محض ایک اتفاق ہوتا ہے۔
ضیاءالحق کے زمانہ میں گواہی دینے کے لئے ایک حلف ضروری قرار دیا گیا تھا جو کہ قرآن شریف میں غلط کاری کے سلسلہ میں درج ہے۔ یہ حلف کچھ اس طرح تھا ” میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور اگر میں کوئی غلط بیانی کروں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو” یہ حلف نامعلوم کیوں ختم کر دیا گیا۔ شائد اس لئے کہ جھوٹے گواہوں کو ذہنی کوفت نہ ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام انصاف میں نہ آج جیسے وکیل کی گنجائش ہے اور نہ آج جیسے ججوں کی۔ اسلامی نظام انصاف میں سچ کی جستجو اور انصاف کا اطلاق (جس کو کوئی جھوٹ پر مبنی نہ کہہ سکے) جج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جج صرف وہی بن سکتا ہے جس کے انصاف پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیءِ افکار سے مشرق میں غلام
نوٹ ۔ یہاں مدرسہ سے مطلب مروّجہ تعلیمی ادارے یعنی سکول کالج یونیورسٹی سب ہیں