اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
23-05-2005
11-06-2005
مزید کارو کاری کے متعلق
ڈاکٹر شاہد مسعود ایک آرتھو پیڈک سرجن ہیں اور اے آر وائی ٹی وی سے مختلف پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ان کا ایک پروگرام ہے ویووز آن نیوز ۔ انہوں نے کارو کاری کے متعلق حقائق جمع کر کے اس پروگرام میں 22 ۔ 23 اور 24 جولائی 2004 کو حقائق پیش کئے تھے ۔ میں نے ان پروگراموں کی سکرپٹ کی آفیشل کاپی حاصل کی ہے اور اس میں سے چند اقتباس پیش کر رہا ہوں۔بلوچستان کے مشہور سیاستدان اور قبائلی سردار اکبر بگٹی سے بات چیت۔
کارو کاری کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے لئے اچھے رسم و رواج ہیں ۔ ہم اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ۔ ۔ ان رسموں سے تمام قبیلوں کی عزت برقرار رہتی ہے اور تمام قبیلے مل کر اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں عورت کو پتا ہے کہ کارو کاری کی سزا کیا ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکاتی ہے ۔ یہ بھی اک باعزت طریقہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو ختم کر لیتی ہے بجائے اس کے کہ خاوند اس کو مارے یا بھائی اس کو مارے ۔
ڈی پی او سکھر غلام شبیر شاہ کہتے ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم تو سیدھا سیدھا قتل کا کیس دائر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آگے چل کر عدالت میں کیس چلتا ہے تو جس قانون کے مطابق کیس چلتا ہے وہ قانون انگریز کا بنایا ہوا ہے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قبیلہ والے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا کوئی بھی مرد جذ بات میں آ گیا تھا اسلئے اس نے یہ کام کیا کیونکہ اس نے اپنی عورت اور دوسرے مرد کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا جس کی وجہ سے وہ رہ نہ سکا اس نے یہ کام کر دیا۔
اندرون سندھ سے لالہ اسد پٹھان لکھتے ہیں ۔ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقہ کھچو کے گرد و نواح میں ایک قبرستان ہے جسے کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں جو کہ دو ڈھائی سو سال پرانہ ہے اور اس میں سینکڑوں خواتیں بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ جس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے تو اس کی بیوی کے گھر والے اس کو 75000 روپیہ بطور جرمانہ عطا کرتے ہیں اور اگر وہ ادا نہ کریں تو اس کی بیوی کے تمام گھر والے کارو کاری کے زمرے میں آتے ہیں اور لڑکے والے جس کو چاہیں مار سکتے ہیں ۔ اس رسم کے ذریعہ جو قتل کئے گئے ہیں ان میں خواتیں کی تعداد نوّے اور سو کے درمیان اور مردوں کی پندرہ اور بیس کے درمیان ہے۔ میری عمر اس وقت 35 سال ہے ۔ ۔ ۔ یہاں کے سردار بہت اچھے ہیں ۔ ایک دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں بس ہم اس پر خوش ہیں کیونکہ ہم ان کی رعایا ہیں اور کارو کاری کا فیصلہ سردار کرتے ہیں اور جب سزا دینی ہوتی ہے تو لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ اس قبیلے کے اتنے روپے اس قبیلے نے دینے ہیں اگر رقم ادا نہ کرے تو مرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
جنوبی بلوچستان میں ایک مقدمے کی تفتیش کرنے والے تحصیلدار نے بتایا کہ ایک شخص کو دوسری شادی کی خواہش تھی لیکن اس کی پہلی بیوی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔ چنانچہ بیوی سے چھٹکارہ پانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا اور نزدیکی فیکٹری میں کام کرنے والے اپنے ایک جان پہچان والے شخص کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ مہمان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مہمان اور اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ تحصیلدار کے مطابق قاتل اس لئے بچ جاتے ہیں کہ موقع کی کوئی شہادت عموما نہیں ہوتی اور یہ کام انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا ظاہر کیا جاتا ہے ۔
دریائے سندھ کےقریب رہنے والے لوگ کاری قرار دی گئی عورت کو قتل کر کے اس کی ناک کاٹ کر نعش دریا میں بہا دیتے ہیں تا کہ آگے چل کر کوئی اس کی کٹی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ کاری ہے اور نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے ۔کاری کے قتل ہونے کے بعد کارو قرار دیئے گے مرد سے اچھی خاصی رقم لی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بےگناہ شادی شدہ عورت قتل ہونے پر اس کے والدین خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کا نصیب ہی یہی تھا ۔
باقی ان شااللہ آئندہ