درُست وقت

اچھی زندگی گذارنے کیلئے وقت کا انتخاب انتہائی اہم ہے

وعدہ نہ کیجئے جب جوش یا بہت خوشی میں ہوں

جواب نہ دیجئے جب غمگین ہوں

فیصلہ نہ کیجئے جب غُصہ میں ہوں

ہر کام سے قبل سوچ لیجئے اور عقلمند بنیئے

[اور سوچنے سے پہلے سوچئے کہ سوچنا چاہیئے بھی یا نہیں :smile: ]

عقل اور سمجھ ؟

عقل اور سمجھ دونوں ہی لطیف یعنی نہ نظر آنے والی چیزیں ہیں اور انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر انسان ان دونوں کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں ۔ عقل بے اختیار ہے اور سمجھ اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ عقل آزاد ہے اور سمجھ غلام

عقل وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے ۔ عقل کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے عقل کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے ۔ جس کی عقل پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں پاگل کہا جاتا ہے ۔ عقل اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ ایک پاگل نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی “ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟” ڈاکٹر نے بتایا تو پاگل کہنے لگا “باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر لگا لیں”

عقل جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی ۔ ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے

کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ طوطا ۔ مینا ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے

عقل پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے ۔ آدمی اپنی عقل کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتے ہیں

سمجھ وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ سمجھ جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے ۔ ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی سمجھ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے ۔ اگر ابلیس انسان کی سمجھ کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں آنکھوں پر پردہ پڑنا کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے

اُخروی سزا و جزا کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ سمجھ سے ہے ۔ سمجھ مادی جنس نہیں ہے اور میرا مفروضہ ہے کہ سمجھ انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے ۔ سمجھ کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے

مندرجہ بالا تحریر میری ساری زندگی کے مشاہدوں اور مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری سمجھ کو ابلیس سے محفوظ رکھے

اَب بتائيے

ميں نے گُذشتہ کل ايک اِلتماس کی تھی ۔ ريحان ۔ شعيب [بنگلور والے] اور کنفيوز صاحبان نے ميری رہنمائی کی جس کے لئے ميں اُن کا شُکرگذار ہوں ۔ قارئين اس تحرير کی درُستگی يا خرابی کی اطلاع دے کر مشکور فرمائيں ۔ يہ ميں براہِ راست بلاگ پر لکھ رہا ہوں کيونکہ ابھی سب سافٹ ويئر نصب کرنا ہيں جو اس تحرير کی درستگی کی خبر ملنے کے بعد اِن شاء اللہ کروں گا

ہوا يہ کہ جس دکاندار سے ميں نے ہارڈ ڈرائيو خريدی تھی اُس نے باوجود ميرے واضح کرنے کے زبانوں کی آپشن نہيں رکھی تھی ۔ دوبارہ گيا تو کسی طرح اُردو چابی تختہ ڈال ديا جس کا نتيجہ ميں گذشتہ کل بتا چکا ہوں ۔ کل ميں تيسری بار اس کے پاس گيا تو اُردو کی آپشن ڈالنے کے لئے نئے سرے سے وِنڈوز ايکس پی نصب کی ۔ اُردو کي درست آپشن شامل ہو گئی مگر چابی تختے نے دو بار درُست کام کيا پھر گڑبڑ ہوگئی اور اينٹی وائرس بھی اُڑ گئی ۔ مزيد بجائے دوسری ساری پچھلی فائليں محفوظ کرنے کے اُس نے اپنی مرضی کی کرديں ۔ کمال يہ کہ جو ونڈوز ايکس پی نصب کی اس کی چند فائليں کام نہيں کرتی تھيں اسلئے ميرے لئے مزيد مشکلات پيدا ہو گئيں اور ميں کمپيوٹر پر کچھ لکھنے سے بھی رہ گيا ۔

ميں نے صبح کے چھ گھنٹے بے فائدہ برباد کئے ۔ پھر ايک کزن سے ونڈوز ايکس پی 2005 کی سی ڈی مل گئی اور ميں يہ الفاظ لکھنے کے قابل ہوا ۔ ميرے پاس ونڈوز ايکس پی سروس پيک 2 کی سی ڈی ہوا کرتی تھی ليکں نامعلوم کس نے اغواء کر لی

دِلچسپ بات يہ ہے کہ گذشتہ کل والی تحرير اب مجھ سے درُست پڑھی جا رہی ہے

مدد فوری درکار ہے

کمپیوٹر بالخصوص اردو کے ماہرين سے درخواست ہے کہ فوري مدد کریں
میرے نئے کمپيوٹر ميں اردو لکھتے ہوئے مسائل پيدا ہو رہے ہيں
جب میں کمپیوٹر آن کرتا ہوں تو لکھا آتا ہے
Keyboard Microsoft ??????? has encountered a problem and needs to close.
میں او کے پر کلک کر ديتا ہوں
جب میں بغیر اعراب کے اردو لکھتا ہوں تو لکھی جاتی ہے ۔ جیسے
بلاشبہ وہ مصر تھا کہ یکجہتی نہیں ہے

اگر اعراب ڈالوں تو ایسے لکھی جاتی ہے
بلاشُبہ وہ مُصر تھا کہ یَکجہتی نہیں ہے

جواب دہ

بلا شبہ ہر انسان صرف اپنے عمل کیلئے “جواب دہ” ہے لیکن اس سے جو استعارہ دورِ حاضر میں میرے کئی ہموطن لے رہے ہیں اگر اسے کم علمی نہ مانا جائے تو خودسری پر دلالت کرتا ہے ۔ آجکل کسی شخص کو کوئی ایسا مشورہ دیا جائے جس کا تعلق انسانیت کے بنیادی اصولوں سے ہے تو بعض اوقات آگے سے جواب ملتا ہے “تم کون ہوتے ہو مجھے کہنے والے ؟ میں سب کچھ جانتا یا جانتی ہوں”۔ ایسا جواب دینے والے نے کبھی سوچا کہ وہ اس دنیا میں تنہا نہیں رہ رہا بلکہ وہ ایک معاشرے کا حصہ ہے اور اگر کسی معاشرے کا ہر فرد یہی نظریہ اختیار کرے تو کیا وہ معاشرہ کہلائے گا یا خودسر پودوں کا جنگل ؟

کوئی بھی اصول کچھ بنیادی اصولوں کا تابع ہوتا ہے جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کوئی انسان اس دنیا میں اکیلا ایک خول کے اندر رہنے کیلئے نہیں آیا بلکہ وہ ایک معاشرے کا حصہ ہے جسے قائم رکھنے کیلئے انسانیت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ہر فرد کا فرض ہے ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم حقوق ہیں ۔ حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن سب حقوق کو اپنے اندر سمیٹنے والا حق ہے کہ کسی کی وجہ سے کسی دوسرے کو کوئی جسمانی یا ذہنی تکلیف نہ پہنچے ۔ وطنِ عزیز میں انسانی حقوق کے بڑے بڑے علمبردار بھی اس کسوَٹی پر شايد ہي پورا اُتریں

اپنے ذاتی کمرے یا گھر کے اندر کوئی بھی عمل کیا جائے اس کا تعلق صرف اس کمرے یا گھر کی چاردیواری کے اندر کے لوگوں سے ہوتا ہے گو وہاں پر بھی دوسروں کا کما حقہُ خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ گھر کے اندر کے لوگ ایک دوسرے سے پوری طرح واقف ہونے اور جذباتی تعلقات کی بناء پر بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں اس لئے فساد کھڑا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن بہت سے گھرانوں میں اس نوعیت کے فساد ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر گھر سے باہر ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں ۔ اسلئے گھر سے باہر اپنی کئی خواہشات کو مارنا ضروری ہو جاتا ہے

فرض کیجئے کہ جم جانے والے جوان گرمی کے باعث فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ گھر سے جم جاتے آتے وقت صرف کچھا ۔ چڈی یا چھوٹا نیکر پہنیں اور راستے میں شاپنگ بھی اسی طرح کرتے آئیں یا گرمیوں میں بغیر پتلون کے گھومنا چاہیں تو اس نظریہ کے مطابق کہ “ہر آدمی صرف اپنے عمل کیلئے جواب دہ ہے اور دوسرے کو اسے ہدایت کرنے کا حق نہیں ہے” ان جوانوں کے عمل پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ۔ خاص کر عورتیں سب سے زیادہ احتجاج کریں گی گو کچھ عورتوں کی تفریح بھی ہو جائے گی ۔ انسانی حق کے تحت چونکہ اس فعل سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے اسلئے ان جوانوں کو بغیر مناسب طریقے سے جسم ڈھانپے گھر سے باہر جانے کا حق نہیں ہے

اب اس کا اُلٹ دیکھتے ہیں ۔ جب کوئی عورت نیم عریاں یا ایسا لباس جس سے اس کے جسم کے خد و خال واضح ہوں پہن کر گھر سے باہر نکلتی ہے تو کچھ مرد اسے دیکھ کر وقتی خوشی حاصل کرتے ہیں لیکن مرد و عورت دونوں کی اکثریت اسے اچھا نہیں سمجھتی چنانچہ فعل سے عوام کی اکثریت کو تکلیف پہنچتی ہے اسلئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کے خد و خال کی نمائش نہ کرے اور گھر سے باہر مناسب طریقہ سے جسم کے خد و خال ڈھانپ کر نکلے

ایک لمحہ کیلئے سوچئے کہ کوئی جوان مرد یا عورت ایسا لباس کیوں پہنتا ہے جس سے جسم کے خد و خال ظاہر ہوں یا جسم کے خوبصورت حصے نظر آئیں ؟ صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ اُس مرد یا عورت کی خواہش ہے کہ لوگ اس کے جسم کی خوبصورتی سے متاءثر ہوں ۔ یہ برسرِ عام جسمانی نمائش کا ایک طریقہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے آجکل اسے آزادی کا نام دے دیا گیا ہے ۔ میں ہوائی مفروضوں کی بنیاد پر بات نہیں کر رہا ۔ بچپن سے میری عادت ہے کہ جب احساس ہو کہ اس علاقے میں جوان لڑکیاں یا عورتیں بھی ہیں تو نظیں نیچی رکھ کر چلتا ہوں ۔ پھر بھی کبھی کبھار سامنے دیکھنا پڑ جاتا ہے بالخصوص جب دوسرے شہر گیا ہوتا ہوں ۔ کئی بار لڑکی یا عورت پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

یہ تو مادی لحاظ سے انسانی حق کی بات تھی ۔ پاکستانیوں کی اکثریت مسلمان ہے ۔ مسلمان پر اللہ کے احکام ماننا فرض ہے اور فرض ادا نہ کرنے والا مجرم یا گناہگار ہوتا ہے ۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت

سورت ۔ 24 ۔ النور ۔ آیت ۔ 31 ۔ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے

سورت ۔ 24 ۔ النور ۔ آیت ۔ 31 ۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے ۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور وہ اپنا بناؤ سنگار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند ۔ باپ خوندوں کے باپ ۔ اپنے بیٹے ۔ خاوندوں کے بیٹے ۔ بھائی ۔ بھتیجے ۔ بھانجے ۔ اپنے میل جول کی عورتیں ۔ اپنے لونڈی غلام اور وہ جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور وہ لڑکے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا علم لوگوں کو ہو جائے

خیال رہے کہ عورتیں نزول قرآن سے قبل اوڑھنی یا چادر سر پر لیتی تھیں

بہترین دوست

دو گہرے دوست اکٹھے صحرا نوردی پر نکلے ۔ وہ ایک صحرا میں سے گذر رہے تھے ۔ سفر کی سختیوں نے چڑچڑا پن پیدا کر دیا تھا ۔ کسی بات پر بحث ہو گئی اور تکرار ہونے پر ایک نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا ۔ تھپڑ کھانے والے نے ریت پر لکھا

“آج میرے دوست نے مجھے تھپڑ مارا”۔

چلتے چلتے وہ ایک نخلستان میں پہنچے ۔ دونوں مٹی سے اٹے ہوئے تھے ۔ اُنہوں نے پانی میں نہانے کا سوچا ۔ جس نے تھپڑ کھایا تھا وہ پہلے جھیل میں گھُسا اور دلدل میں دھنسنے لگا ۔ جس نے تھپڑ مارا تھا اُس نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے دلدل سے نکلنے میں مدد کی ۔ دلدل سے باہر نکل کر وہ ایک پتھر پر کچھ کندہ کرنے لگ گیا ۔ دوسرا حیران ہو کر دیکھتا رہا ۔ جب وہ لکھ چکا تو اُس نے پوچھا کہ “جب میں نے تمہیں تھپڑ مارا تھا تو تم نے ایک منٹ میں ریت پر لکھ دیا تھا ۔ اب تم نے پتھر پر یہ لکھنے میں اتنی محنت کی ہے ۔ آج میرے دوست نے میری جان بچائی ؟”

تھپڑ کھانے اور دلدل میں پھنسنے والے نے جواب دیا “جب ہمیں کوئی تکلیف پہنچائے اُسے ریت پر لکھنا چاہیئے کہ جب ہوا چلے تو وہ مٹ جائے ۔ لیکن جب کوئی ہمارے ساتھ اچھائی کرے تو اسے پتھر پر کندہ کرنا چاہیئے کہ کبھی مِٹ نہ سکے”

Click on “Reality is Often Bitter” or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.comto see that worship is only for one God as written in the Qur’aan and in the Bible

چھوٹی سی معذرت

بلاگرز و قارئین ۔ السلام علیکم
بروز ہفتہ 30 مئی 2009ٗء کو میں نے اپنے بااعتماد ساتھی 133 میگا ہرٹز رفتار کی ٹرانسفر بس ۔ 533 میگا ہرٹز رفتار اور 512 میگا بائیٹ رَیم والے پینٹیم تھری کو رُخصت دے دی ۔ اب اس کی جگہ 200 گیگا ہرٹز رفتار اور 2 گیگا ہرٹز رفتار کی 2 گیگا بائیٹ رَیم والے پینٹیم فور نے لے لی ہے ۔ کل یعنی منگل 2 جون سے میری اس کے ساتھ جنگ جاری ہے ۔ میں اُسے اپنی پسند پر ڈھالنا چاہ رہا ہوں اور وہ اپنی مرضی سے چلنا چاہ رہا ہے

میں 30 مئی سے 2 جون تک 4 دن بے کمپیوٹرا تھا ۔ اس دوران میں نے جو تبصرہ کسی کے بلاگ پر کیا یا اپنے بلاگ پر کسی قاری کے تبصرے کا جواب لکھا ان میں غلطیوں کا پایا جانا بہت حد تک ممکن ہے اور ابھی غلطیوں کا سلسلہ چلے گا کیونکہ سب سے اچھا اور برینڈڈ کومپیک کا کلیدی تختہ لایا ہوں جس کی سات چابیوں پر لکھا کچھ ہے اور لکھتی کچھ اور ہیں ۔ اسے آج تبدیل کرنے کی کوشش کروں گا
ان سب خامیوں کیلئے میں معذرت خواہ ہوں

Click on “Reality is Often Bitter” or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

to see that worship is only for one God as written in the Qur’aan and in the Bible