جواب دہ

بلا شبہ ہر انسان صرف اپنے عمل کیلئے “جواب دہ” ہے لیکن اس سے جو استعارہ دورِ حاضر میں میرے کئی ہموطن لے رہے ہیں اگر اسے کم علمی نہ مانا جائے تو خودسری پر دلالت کرتا ہے ۔ آجکل کسی شخص کو کوئی ایسا مشورہ دیا جائے جس کا تعلق انسانیت کے بنیادی اصولوں سے ہے تو بعض اوقات آگے سے جواب ملتا ہے “تم کون ہوتے ہو مجھے کہنے والے ؟ میں سب کچھ جانتا یا جانتی ہوں”۔ ایسا جواب دینے والے نے کبھی سوچا کہ وہ اس دنیا میں تنہا نہیں رہ رہا بلکہ وہ ایک معاشرے کا حصہ ہے اور اگر کسی معاشرے کا ہر فرد یہی نظریہ اختیار کرے تو کیا وہ معاشرہ کہلائے گا یا خودسر پودوں کا جنگل ؟

کوئی بھی اصول کچھ بنیادی اصولوں کا تابع ہوتا ہے جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کوئی انسان اس دنیا میں اکیلا ایک خول کے اندر رہنے کیلئے نہیں آیا بلکہ وہ ایک معاشرے کا حصہ ہے جسے قائم رکھنے کیلئے انسانیت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ہر فرد کا فرض ہے ۔ ان بنیادی اصولوں میں سب سے اہم حقوق ہیں ۔ حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن سب حقوق کو اپنے اندر سمیٹنے والا حق ہے کہ کسی کی وجہ سے کسی دوسرے کو کوئی جسمانی یا ذہنی تکلیف نہ پہنچے ۔ وطنِ عزیز میں انسانی حقوق کے بڑے بڑے علمبردار بھی اس کسوَٹی پر شايد ہي پورا اُتریں

اپنے ذاتی کمرے یا گھر کے اندر کوئی بھی عمل کیا جائے اس کا تعلق صرف اس کمرے یا گھر کی چاردیواری کے اندر کے لوگوں سے ہوتا ہے گو وہاں پر بھی دوسروں کا کما حقہُ خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ گھر کے اندر کے لوگ ایک دوسرے سے پوری طرح واقف ہونے اور جذباتی تعلقات کی بناء پر بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں اس لئے فساد کھڑا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن بہت سے گھرانوں میں اس نوعیت کے فساد ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر گھر سے باہر ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں ۔ اسلئے گھر سے باہر اپنی کئی خواہشات کو مارنا ضروری ہو جاتا ہے

فرض کیجئے کہ جم جانے والے جوان گرمی کے باعث فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ گھر سے جم جاتے آتے وقت صرف کچھا ۔ چڈی یا چھوٹا نیکر پہنیں اور راستے میں شاپنگ بھی اسی طرح کرتے آئیں یا گرمیوں میں بغیر پتلون کے گھومنا چاہیں تو اس نظریہ کے مطابق کہ “ہر آدمی صرف اپنے عمل کیلئے جواب دہ ہے اور دوسرے کو اسے ہدایت کرنے کا حق نہیں ہے” ان جوانوں کے عمل پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ۔ خاص کر عورتیں سب سے زیادہ احتجاج کریں گی گو کچھ عورتوں کی تفریح بھی ہو جائے گی ۔ انسانی حق کے تحت چونکہ اس فعل سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے اسلئے ان جوانوں کو بغیر مناسب طریقے سے جسم ڈھانپے گھر سے باہر جانے کا حق نہیں ہے

اب اس کا اُلٹ دیکھتے ہیں ۔ جب کوئی عورت نیم عریاں یا ایسا لباس جس سے اس کے جسم کے خد و خال واضح ہوں پہن کر گھر سے باہر نکلتی ہے تو کچھ مرد اسے دیکھ کر وقتی خوشی حاصل کرتے ہیں لیکن مرد و عورت دونوں کی اکثریت اسے اچھا نہیں سمجھتی چنانچہ فعل سے عوام کی اکثریت کو تکلیف پہنچتی ہے اسلئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کے خد و خال کی نمائش نہ کرے اور گھر سے باہر مناسب طریقہ سے جسم کے خد و خال ڈھانپ کر نکلے

ایک لمحہ کیلئے سوچئے کہ کوئی جوان مرد یا عورت ایسا لباس کیوں پہنتا ہے جس سے جسم کے خد و خال ظاہر ہوں یا جسم کے خوبصورت حصے نظر آئیں ؟ صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ اُس مرد یا عورت کی خواہش ہے کہ لوگ اس کے جسم کی خوبصورتی سے متاءثر ہوں ۔ یہ برسرِ عام جسمانی نمائش کا ایک طریقہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے آجکل اسے آزادی کا نام دے دیا گیا ہے ۔ میں ہوائی مفروضوں کی بنیاد پر بات نہیں کر رہا ۔ بچپن سے میری عادت ہے کہ جب احساس ہو کہ اس علاقے میں جوان لڑکیاں یا عورتیں بھی ہیں تو نظیں نیچی رکھ کر چلتا ہوں ۔ پھر بھی کبھی کبھار سامنے دیکھنا پڑ جاتا ہے بالخصوص جب دوسرے شہر گیا ہوتا ہوں ۔ کئی بار لڑکی یا عورت پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

یہ تو مادی لحاظ سے انسانی حق کی بات تھی ۔ پاکستانیوں کی اکثریت مسلمان ہے ۔ مسلمان پر اللہ کے احکام ماننا فرض ہے اور فرض ادا نہ کرنے والا مجرم یا گناہگار ہوتا ہے ۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت

سورت ۔ 24 ۔ النور ۔ آیت ۔ 31 ۔ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے

سورت ۔ 24 ۔ النور ۔ آیت ۔ 31 ۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے ۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور وہ اپنا بناؤ سنگار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند ۔ باپ خوندوں کے باپ ۔ اپنے بیٹے ۔ خاوندوں کے بیٹے ۔ بھائی ۔ بھتیجے ۔ بھانجے ۔ اپنے میل جول کی عورتیں ۔ اپنے لونڈی غلام اور وہ جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور وہ لڑکے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا علم لوگوں کو ہو جائے

خیال رہے کہ عورتیں نزول قرآن سے قبل اوڑھنی یا چادر سر پر لیتی تھیں

This entry was posted in ذمہ دارياں, روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “جواب دہ

  1. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    خیال رہے کہ عورتیں نزول قرآن سے قبل اوڑھنی یا چادر سر پر لیتی تھیں ۔

    محترم اجمل صاحب۔
    دور جہالت میں عورتیں اپنی اوڑھنی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی چھاتی پہ ایک مخصوص طریقے سے باندھتی تھیں کہ نسوانی ابھار الگ الگ اور ابھرے نظر آتے اور بجائے پردے کی بے پردگی کا احساس ہوتا۔ جس پہ کسی متوقئ شر اور فتنے سے بچنے کے لئیےاوڑھنی کے آنچل سے سینے ڈھاپنے کے احکامات آئے۔

    اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کہ مخصوص نسوانی حسن کے مصنوعی طریقے اور اظہار عام جگہوں پہ منع ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.