ايک قاریہ کی فرمائش

پاکستان کے سب سے بڑے اور انواع و اقسام کے باسیوں والے شہر میں پَلی بڑھی اور رہائش پذیر ايک تعليم یافتہ قاریہ [جن سے تعارف میری تحریر اور شاید مجھ پر اُن کی تنقید سے ہوا تھا] نے میری ايک حالیہ تحریر پر تبصرہ کرنے کے بعد فرمائش کی ” فرمانبرداری کی تعریف ضروربتائیے گا”

ہرچند میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ فرمانبرداری يا تابعداری کی تعریف خُوب جانتی ہیں ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ میرا نظریہ جاننا چاہتی ہیں ۔ اگر میں اُنہی کی عمر کا ہوتا تو شاید کہتا کہ “میرا امتحان لے رہی ہیں”۔ لیکن میں نے ايسا کبھی نہیں کہا ۔ اپنا تو نظریہ ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی خوش ہو جائے تو سمجھیئے کہ ایک لمحہ اچھا گذر گیا

محترمہ نے بتایا نہیں کہ مُدعا والدین کی فرمانبرداری ہے یا مجموعی فرمابرداری ۔ بہر کیف میں اسے والدین کے حوالہ سے ہی لوں گا کیونکہ میری جس تحریر پر تبصرہ کیا گیا وہ والدین کے بارے میں تھی ۔ ویسے بھی اپنے سے اعلٰی عہدیدار کی فرماں برداری کے متعلق ايک دو واقعات کو میں اپنی ڈائری سے بلاگ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔ یہ فرمائش نہ آتی تو آج اس جگہ وہی شائع ہوتا

میرے نزدیک والدین کی فرمانبرداری کا مطلب ہے

1 ۔ حُکم کی بجا آوری جس میں جُرم یا گناہ یعنی ظُلم یا خیانت یا منافقت وغیرہ کا ارتکاب نہ ہو
2 ۔ خدمت اپنے جائز وسائل کے اندر رہتے ہوئے یعنی نان و نفقہ ، لباس ، رہائش، وغیرہ مہیا کرنا
3 ۔ صحت کا خیال رکھنا اور اس کیلئے کوشش کرنا
4 ۔ مؤدبانہ طریقہ سے پیش آنا یا گفتگو کرنا
5 ۔ اگر غلط حُکم دیں تو ردِ عمل صرف خاموشی

اب ملاحظہ ہو اللہ کا حُکم ۔ متعلقہ آیات کئی ہیں لیکن میں صرف چار کا حوالہ دوں گا جن سے مطلب واضح ہو جاتا ہے

سورت ۔ 9 ۔ توبہ ۔ آیت ۔ 23 ۔ اے اہل ایمان ۔ اگر تمہارے [ماں] باپ اور [بہن] بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو اُن سے دوستی نہ رکھو ۔ اور جو اُن سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں

سورت ۔ 17 ۔ بنی اسرآءيل ۔ آیت ۔ 23 و 24 ۔ اور تمہارے رب نے فيصلہ کر ديا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا 0 اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھُکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں [شفقت سے] پرورش کیا ہے تُو بھی اُن [کے حال] پر رحمت فرما

سورت ۔ 29 ۔ عنکبوت ۔ آیت ۔ 8 ۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم دیا اور اگر وہ تجھ پر [یہ]کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر ۔ میری ہی طرف تم [سب] کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان [کاموں] سے آگاہ کردوں گا جو تم [دنیا میں] کیا کرتے تھے

غور طلب حُکم “اُف نہ کرنے” کا ہے ۔ اُف انسان کہتا ہے جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے ۔ سو مطلب یہ ہوا کہ والدین سے اگر تکلیف بھی پہنچے تو بُرا نہ مناؤ

ايسا کيوں ہوا ؟

ميری تحرير ” جنہوں نے مجھے انسان بنایا” پڑھ کر کچھ قارئین کرام نے تقاضہ کیا ہے کہ میں اپنے تاریخی مشاہدات کے حوالے سے وجوہات لکھوں کہ “ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟”

وقتاً فوقتاً مُختلف موضوعات کے تحت میں قومی انحطاط کی وجوہات لکھتا رہا ہوں ۔ سب تحاریر تلاش کرنا بہت وقت مانگتا ہے ۔ جو تلاش کر سکا ہوں مندرجہ ذیل ہیں ۔ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھ لیجئے
کچھ بات تنزّل کی
کسوٹی
معاشرہ ۔ ماضی اور حال
نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی
اِرد گِرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں
اِنتخابات سے پہلے [اگر سب اِس اصول پر عمل کریں]

اب صرف اساتذہ کے تعلق سے لکھنا مقصود ہے ۔ جب میری تعلیم کا آغاز ہوا تو اُستاذ خواہ وہ پہلی جماعت کا ہو بڑے سے بڑا عہديدار بھی اس کا احترام کرتا تھا ۔ اس کی بہت سی مثالیں میرے مشاہدہ میں آئیں ۔ میں صرف اپنے ساتھ پیش آنے والا ايک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ میں نے 1962ء میں بی ایس سی انجیئرنگ کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۔ کچھ دن بعد میں بائیسائکل پر جا رہا تھا کہ پولیس والے نے میرا چالان کر دیا ۔ دوسرے دن میں ضلع کچہری پہنچا ۔ کسی نے بتایا کہ اے ڈی ایم صاحب کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے ہیں ۔ میں ڈی سی صاحب کے دفتر چلا گيا ۔ چپڑاسی نے کہا “چِٹ پر اپنا نام اور کيا کام کرتے ہيں لکھ ديں”۔ چپڑاسی نے واپس آ کر اندر جانے کا کہا ۔ ڈی سی اور اے ڈی ایم صاحبان نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا ۔ میرے بتانے پر ڈی سی صاحب بولے “جناب ۔ آپ اُستاذ ہیں ۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی ۔ آئیندہ کوئی کام ہو تو ٹیلیفون کر دیں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ويسے آپ تشریف لائیں ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی”

ایک اس سے بھی پرانہ واقعہ ہے 1953ء کا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہمارے سيکشن میں غلام مرتضٰے نامی ایک لڑکا بہت شرارتی تھا اور پڑھائی کی طرف بھی بہت کم توجہ دیتا تھا ۔ اس کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ وہ کسی اُستاذ کی عزت نہیں کرتا ۔ ایک دن کوئی باہر کا آدمی سکول میں پرائمری کے ایک اُستاذ سے ملنے آیا اور اس کے ساتھ جھگڑنے لگا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی ۔ غلام مرتضٰے گولی کی طرح کمرے سے نکلا اور باہر سے آنے والے آدمی کو دبوچ کر دھکے دیتے ہوئے سکول سے باہر لے گیا ۔ اتنی دیر میں کچھ اساتذہ پہنچ گئے ۔ غلام مرتضٰے نے جو دیکھا تھا بیان کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ “تم نے ایسا کیوں کیا”۔ غلام مرتضٰے بولا “اُستاذ پر کوئی ہاتھ اُٹھائے ۔ میں بے غيرت نہیں ہوں کہ دیکھتا رہوں”

میرے طالب علمی کے زمانہ میں صورتِ حال ایسے تھی کہ نہ صرف میرے بلکہ سب طلباء کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ اُستاذ کسی طالب علم کی پٹائی کرے تو طالب علم کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسکے گھر والوں تک بات نہ پہنچے کيونکہ اسکی مزید پٹائی والدین سے ہونے کا خدشہ ہوتا تھا کہ اُستاذ نے کسی غلط حرکت کی وجہ ہی سے پٹائی کی ہو گی ۔ نہ صرف طلباء بلکہ اُن کے والدین بھی ساری عمر اپنے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت و احترام کرتے تھے

پھر ايک دور آیا جسے “عوامی” کا نام دیا گیا ۔ اُس دور میں سب کو یہ سکھایا گیا کہ مُلکی نظامِ تعلیم کے پیروکار تعلیمی اداروں کے اساتذہ نیچ ہیں اور قابلِ سرزنش ہیں ۔ اساتذہ کے ساتھ گستاخی کے واقعات ہونے لگے ۔ کسی غلط عمل پر طالب علم کی سرزنش کرنا اساتذہ کے لئے مُشکل ہو گیا ۔ اسی پر بس نہ ہوا ۔ تعلیمی ترقی کے نام پر غیرسرکاری درسگاہیں ماسوائے غیرمُلکیوں کی ملکیت کے قومی تحویل میں لے کر اکثر اساتذہ کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے بہانے سے چلتا کیا گیا ۔ اُن دنوں سرکاری درسگاہیں بہت کم تھیں مگر اکثر غير سرکاری درسگاہوں میں تعلیم کا معیار بلند تھا ۔ قومی تحویل میں لی گئی درسگاہوں میں حکومت کے منظورِ نظر تعینات ہوئے جن کو حکومت سے وفاداری کا زیادہ اور بچوں کی تعلیم کا کم خیال تھا جس کے نتیجہ میں تعلیمی انحطاط شروع ہوا

عوامی حکومت کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مہنگائی یکدم بڑھی تو حکومت کے منظورِ نظر اساتذہ نے ٹیوشن سینٹر کھول لئے اور درسگاہوں ہی میں ان ٹیوشن سینٹروں کی اشتہار بازی کرنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے او اور اے لیول کے جھنڈے بلند ہونا شروع ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ نے اپنی کمائی کے لئے اُن کی بھرپور اشتہاربازی کی ۔ ان او لیول والوں کی قابلیت کا مُختصر ذکر میں نے اپنی 16 مئی 2007ء کی تحریر میں کیا تھا

حکومت نے جلسوں اور جلوسوں کو بھرنے کے لئے درسگاہوں میں سیاست کو عام کیا اور درسگاہیں سياسی کٹھپتلیاں بن کر رہ گئے ۔ طُلباء اور طالبات میں محنت کا رحجان کم ہوا تو اسناد بکنے لگیں ۔ پرانے زمانہ میں دوران امتحان کبھی کبھار کوئی نقل کرتا پکڑا جاتا تو منہ چھپاتا پھرتا پھر برسرِعام نقل ہونے لگی اور امتحانی مراکز بکنے لگے ۔ سفید پوش والدین کے محنتی اور دیانتدار بچے مُشکلات کا شکار ہونے لگے مگر مجبور تھے کہ ان کے پاس بھاری فیسوں کیلئے رقوم نہ تھیں

کسی زمانہ میں خاندان کی بڑھائی کا نشان تعليمی قابلیت ۔ شرافت اور دیانتداری ہوتے تھے پھر بڑھائی یہ ہونے لگی کہ “ميرا بيٹا امریکن سکول یا سِٹی سکول ۔ یا گرامر سکول یا بيکن ہاؤس میں پڑھتا ہے۔ اور او لیول یا اے لیول کر رہا ہے”۔ استاذ کی خُوبیوں کی بجائے دولت اور اعلٰی عہديداروں سے تعلق کی عزت ہونے لگی

جس استاذ نے مجھے آٹھویں جماعت میں انگریزی پڑھائی تھی وہ خود دس جماعت پاس تھے مگر جیسا اُنہوں نے پڑھایا ويسا پڑھانا تو کُجا دورِ حاضر کا ایم اے انگلش ويسا لکھ بھی نہیں سکتا

بے رسُوخ بندے کدھر جائیں

یکم جون 2008ء تا 31 مئی 2009 کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی ۔ اس سے پچھلے سال کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی جو گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اُس کی قیمت کا 69.375 فيصد صارفین سے وصول کیا گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 45ہزار ملین کیوبک فٹ گیس چوری ہوئی تھی جبکہ اب 42 ہزار ملین کیوبک فٹ ہے ۔ یعنی اس سال سوا چھ ارب روپے صارفین سے اُس گیس کے وصول کئے جائیں گے جو اُنہوں نے استعمال نہیں کی

سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ “گیس مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ جتنی مہنگی ہو گی چوری اتنی زیادہ بڑھتی جائے گی”۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں اس وقت سینکڑوں سی این جی سٹیشن ، ہزاروں ٹیکسٹائل، فرنیس ، فیکٹریوں اور مِلوں میں گزشتہ دو تین برسوں سے گیس چوری بہت بڑھ گئی ہے ۔ یہ سوئی نادرن کا قصہ تو حکومتِ پنجاب کے اقدام کے باعث سامنے آ گیا ۔ سوئی سدرن کا حال کیا ہے وہ ہم نہیں جانتے

بجلی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔ سب خسارے بے رسُوخ صارفین سے وصول کر لئے جاتے ہیں اسلئے کسی کو حالات کو درست کرنے کی فکر نہیں

بھارت ، کالا باغ ڈيم اور مخالف سندھی

وفاقی حکومت کا 28 برسوں میں کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی ،واپڈا ملازمین کی تنخواہوں،سڑکوں کی تعمیر پر 80 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ بنتا نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے بجلی کا بحران حکومتی کوششوں کے باوجود آئندہ 5 برس تک کم نہیں ہوگا۔وفاقی حکومت نے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ25 پیسے فی یونٹ کی لاگت سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی لاگت 10 برس قبل200 ارب روپے لگائی گئی تھی جو سیاست کی نذر ہو کر اب 550 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت اگلے 6 برسوں میں دریائے سندھ کے 90 ملین کیوبک فٹ پانی پر قبضہ کرنے کے لئے کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو دریائے سندھ کے 80 فیصد پانی کو سٹور کر لے گا۔کیونکہ بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیاں گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کر چکی ہیں تاکہ سندھ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں کمی نہ آئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے سندھ کی فصل خریف اور ربیع کو بہت فائدہ پہنچے گا فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا

از نوائے وقت آن لائین

فرق

مشرق اور مغرب کی دو منفرد تہذیبیں ہوا کرتی تھیں ۔ پچھلی تین دہائیوں میں ذرائع ابلاغ [جن کی اکثریت دين مخالف مادہ پرست لوگوں کے قبضہ میں ہے] کی تبليغ نقشہ نے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ چند دن قبل میں ایک واقعہ کا حال پڑھ رہا تھا تو میری سوچ مجھے کئی دہائیاں پیچھے لے گئی جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور دو بچوں کا باپ تھا ۔ ويپنز فیکٹری جس کا میں پروڈکشن منيجر تھا کے نئے سینئر انسپیکٹنگ آفيسر میجر منیر اکبر ملک تعینات ہوئے ۔ کچھ دن بعد وہ اپنی بیگم سمیت ہمارے گھر آئے ۔ گپ شپ ہوتی رہی ۔ جاتے ہوئے بولے “ہم نے ابتداء کر دی ہے ۔ اب یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے”

دو تین ہفتے بعد ہم رات کا کھانا کھا کر چلتے چلتے اُن کے ہاں پہنچ گئے ۔ اُن کی سرکاری رہائش گاہ ہماری سرکاری رہائش گاہ سے کوئی 500 میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ ميرا بڑا بیٹا زکریا تقریباً چار سال کا تھا اور بيٹی تقریباً دو سال کی ۔ ہم اُنہیں گھر ملازمہ کی نگرانی میں چھوڑ گئے کیونکہ میجر منیر اکبر کے ساتھ ہماری بے تکلفی نہ تھی ۔ جب ہم ميجر منیر اکبر کے گھر پہنچے تو اُن کا پہلا سوال تھا “بچے کہاں ہیں ؟” پھر کہا “آپ ڈيوٹی پر نہیں آئے کہ بچے گھر چھوڑ دیئے ۔ ابھی واپس جائیں اور بچے لے کر آئیں”۔ پھر اپنی کار میں مجھے لے کر گئے اور ہم بچوں کو لے کر آئے

دورِ حاضر میں بڑے شہروں میں رہنے والے والدین کی اکثریت معمول ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ملازمین پر چھوڑ کر شامیں اور راتیں موج میلے میں گذارتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں بہت کم بچے والدین کا مکمل احترام کرتے ہیں

جنہوں نے مجھے انسان بنایا

شام کو کھانا کھا کر اور دیگر فرائض سے فارغ ہو کر جب میں بستر پر دراز ہوتا ہوں تو کبھی کبھی نیند کی بجائے میں دُور ماضی کی پھُلواڑی میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ایک ایسی ہی رات میں اپنے اساتذہ کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا جنہوں نے مجھے انسان بنایا ۔ آب وہ سب راہی مُلکِ عدم ہو چکے ہیں

میرے پرائمری جماعتوں کے اساتذہ مجھے اُردو کے ہدائت حسین ۔ حساب کے بھگوان داس اور انگریزی کی مسز گُپتا یاد آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اُستاذ ہدائت حسین نے کس طرح پہلے میری کاپی پر خود لکھ کر اور پھر مجھ سے لکھوا کر مجھے پہلی جماعت میں اُردو لکھنا سکھائی تھی ۔ اُستاذ بھگوان داس ہر بچے کی کاپی دیکھ کر اُسے اُس کی غلطی سمجھاتے اور اگر سوال ٹھیک حل کیا ہوتا تو شاباش دیتے ۔ مسز گپتا ہر بچے سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے اُن کا اپنا اور لاڈلا بچہ ہو ۔ وہ ہمیں انگریزی کی اچھی اچھی نظمیں بھی سُناتيں

چھٹی اور ساتویں جماعتوں کے اُستاذ ہدائت حسین [یہ مُختلف ہیں] جنہوں نے ہمیں حساب اور الجبرا پڑھایا ۔ ان کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اُنہیں مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ کوئی واقعہ ہو جائے اور حقیقت معلوم نہ ہو رہی ہو تو مجھے بلا کر پوچھتے کہ کیا ہوا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سچ بولنے میں بہت دلیر ہو گیا

آٹھویں جماعت میں انگریزی کے اُستاذ نذیر احمد قریشی اور ریاضی کے اُمید علی اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ میں نے درُست انگریزی لکھنے میں جو مہارت حاصل کی وہ اُستاذ نذیر حسین قریشی صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ وہ میٹرک یا ایف اے پاس تھے مگر انگریزی میں اُنہوں نے ہمیں بی اے کے برابر کر دیا ۔ سارا سال بشمول گرمیوں کی چھٹیوں کے اُنہوں نے ہمیں ایک گھنٹہ روزانہ بغیر کسی معاوضہ کے فالتو پڑھایا ۔ ہمارا روزانہ امتحان لیتے ۔ ایک بار میرے 10 میں سے 9 نمبر آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈے ہاتھ پر ڈنڈا مارا ۔ میرا ہاتھ سُوج گیا ۔ میں نے کبھی مار نہ کھائی تھی اس لئے درد کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا ۔ میں آواز کے ساتھ کبھی نہیں رویا ۔ اس وقت بھی میں منہ چھپا کر آنسو بہاتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم کون سے ہم جماعت شام کو اُستاذ کے گھر گئے اور میرے ساتھ زیادتی کی شکائت کی ۔ دوسرے دن اُستاذ میرے پاس آئے ۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا اور کچھ بولے بغير ایک دم دوسری طرف منہ کر کے چل دیئے ۔ بعد میں ہم جماعتوں نے بتایا کہ اُستاذ کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ کچھ دن بعد اُستاذ نے ساری جماعت کے سامنے کہا “آپ سب مجھے اسی طرح پیارے ہیں جیسے میرے اپنے بچے ہیں ۔ اجمل ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتا ہے ۔ اُس نے 10 میں سے 9 نمبر لئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا تھا ۔ میں اپنے بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہوں”۔ اُستاذ اُمید علی نے ایک ایک لڑکے کو اس طرح کر دیا کہ آٹھویں جماعت کا پورا ریاضی کا کورس وہ از بر جانتا تھا ۔ اُستاذ اللہ بخش صاحب نے مجھے ڈرائينگ کرنے کا گُر سکھا ديا

نویں اور دسویں جماعتوں میں انگریزی کے اُستاذ ظہور احمد ۔ سائنس کے شیخ ہدائت اللہ اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ سب ہی اعلٰی اور محنت سے پڑھانے والے ہمدرد انسان تھے ۔ انہوں نے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں بھي ایک ایک ماہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ پڑھایا

گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں انگریزی کے وی کے مَل ۔ ریاضی کے خواجہ مسعود اور کیمسٹری کے نسیم اللہ ۔ انجنیئرنگ کالج کے بزرگ اکمل حسین [ایک اکمل بعد میں بھی تھے] ۔ عنائت علی قریشی ۔ مختار حسین اور عبدالرحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشید ۔ احمد حسن قریشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ اکرام اللہ ۔ محمد سلیم الدين ۔ منیر ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کر تھے اور ہمیں بڑی محنت سے پڑھايا

اساتذہ اور بھی بہت تھے جنہوں نے ہمیں پڑھایا ۔ میں اُں کا احترام کرتا ہوں لیکن ذکر صرف اُن کا کیا ہے جن کا کردار غیرمعمولی تھا ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئرنگ کالج تک کے ہمارے اِن اساتذہ نے پڑھائی کے علاوہ ہمیں معاشرتی تربيت بھی دی اور ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں ہماری رہنمائی کی

بُجھا ایک اور چراغ

اِنّا لِلہ وَ اِنّا اِلَیہِ راجِعُون

لاہور ميں دورِ حاضر کے تین عالِمِ دين تھے جنہيں میں جانتا ہوں اور جن کا سياست سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک جنہیں پچھلی حکومت کے دور میں شہید کیا گیا تھا

آج لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں مسجد جامعہ نعیمیہ میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مُہتمم اعلیٰ مولوی ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی صاحب مسجد سے ملحق اپنے دفتر میں حسبِ معمول لوگوں سے مل رہے تھے کہ ایک خودکش حملہ آور نے اُن کے دفتر میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے

شہید ہونے والوں میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے معتمد ڈاکٹر خلیل بھی شامل ہیں ۔ ان دو سميت چار افراد شہید اورآٹھ افراد زخمی ہوگئے

کيا يہ خود کُش حملہ آور مُسلمان ہیں ؟
نہیں نہیں نہیں ۔ ہو ہی نہیں سکتا
یہ طالبان کے بھیس میں غيرمُلکی ايجنٹوں کے سوا کچھ نہیں

اب حکومت کو چاہیئے کہ کم از کم ڈاکڑ اسرار احمد کی حفاظت کی معقول بندوبست کرے