پاکستان کے سب سے بڑے اور انواع و اقسام کے باسیوں والے شہر میں پَلی بڑھی اور رہائش پذیر ايک تعليم یافتہ قاریہ [جن سے تعارف میری تحریر اور شاید مجھ پر اُن کی تنقید سے ہوا تھا] نے میری ايک حالیہ تحریر پر تبصرہ کرنے کے بعد فرمائش کی ” فرمانبرداری کی تعریف ضروربتائیے گا”
ہرچند میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ فرمانبرداری يا تابعداری کی تعریف خُوب جانتی ہیں ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ میرا نظریہ جاننا چاہتی ہیں ۔ اگر میں اُنہی کی عمر کا ہوتا تو شاید کہتا کہ “میرا امتحان لے رہی ہیں”۔ لیکن میں نے ايسا کبھی نہیں کہا ۔ اپنا تو نظریہ ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی خوش ہو جائے تو سمجھیئے کہ ایک لمحہ اچھا گذر گیا
محترمہ نے بتایا نہیں کہ مُدعا والدین کی فرمانبرداری ہے یا مجموعی فرمابرداری ۔ بہر کیف میں اسے والدین کے حوالہ سے ہی لوں گا کیونکہ میری جس تحریر پر تبصرہ کیا گیا وہ والدین کے بارے میں تھی ۔ ویسے بھی اپنے سے اعلٰی عہدیدار کی فرماں برداری کے متعلق ايک دو واقعات کو میں اپنی ڈائری سے بلاگ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔ یہ فرمائش نہ آتی تو آج اس جگہ وہی شائع ہوتا
میرے نزدیک والدین کی فرمانبرداری کا مطلب ہے
1 ۔ حُکم کی بجا آوری جس میں جُرم یا گناہ یعنی ظُلم یا خیانت یا منافقت وغیرہ کا ارتکاب نہ ہو
2 ۔ خدمت اپنے جائز وسائل کے اندر رہتے ہوئے یعنی نان و نفقہ ، لباس ، رہائش، وغیرہ مہیا کرنا
3 ۔ صحت کا خیال رکھنا اور اس کیلئے کوشش کرنا
4 ۔ مؤدبانہ طریقہ سے پیش آنا یا گفتگو کرنا
5 ۔ اگر غلط حُکم دیں تو ردِ عمل صرف خاموشی
اب ملاحظہ ہو اللہ کا حُکم ۔ متعلقہ آیات کئی ہیں لیکن میں صرف چار کا حوالہ دوں گا جن سے مطلب واضح ہو جاتا ہے
سورت ۔ 9 ۔ توبہ ۔ آیت ۔ 23 ۔ اے اہل ایمان ۔ اگر تمہارے [ماں] باپ اور [بہن] بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو اُن سے دوستی نہ رکھو ۔ اور جو اُن سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 17 ۔ بنی اسرآءيل ۔ آیت ۔ 23 و 24 ۔ اور تمہارے رب نے فيصلہ کر ديا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا 0 اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھُکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں [شفقت سے] پرورش کیا ہے تُو بھی اُن [کے حال] پر رحمت فرما
سورت ۔ 29 ۔ عنکبوت ۔ آیت ۔ 8 ۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم دیا اور اگر وہ تجھ پر [یہ]کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر ۔ میری ہی طرف تم [سب] کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان [کاموں] سے آگاہ کردوں گا جو تم [دنیا میں] کیا کرتے تھے
غور طلب حُکم “اُف نہ کرنے” کا ہے ۔ اُف انسان کہتا ہے جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے ۔ سو مطلب یہ ہوا کہ والدین سے اگر تکلیف بھی پہنچے تو بُرا نہ مناؤ