ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ لیکن پہلے ایک لطیفہ ۔ ايک اَن پڑھ ديہاتی کے بيٹے لندن ميں آباد ہو گئے ۔ جب اُن کا کاروبار چل پڑا تو اُنہوں نے اپنے والد صاحب کو بُلا کر برطانيہ کی سير کرائی ۔ چار ماہ بعد جب وہ واپس گاؤں پہنچے تو گاؤں کے لوگ ان سے ملنے آئے ۔ ايک نے کہا “سنا ہے برطانيہ کے لوگ بہت ترقی کر گئے ہيں”۔ برطانيہ پلٹ ديہاتی نے فوراً کہا ” ترقی ؟ ایسی ترقی کی ہے اُنہوں نے کہ اُن کا بچہ بچہ انگريزی بولتا ہے”۔
ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے [Lord Macaulay] کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس ۔
“I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber that I don’t think we would ever conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation”.
ميں نے ٹيکنيکل کالج اور يونيورسٹی ميں انجنيئرنگ کے مضامين پڑھائے ہيں ۔ اس کے علاوہ انگريزی بھی پڑھائی ہے ۔ ميری پوری کوشش ہوتی تھی کہ جو بات طلباء کو سمجھ نہ آئے وہ انگريزی ہی ميں سمجھاؤں ۔ ليکن صورتِ حال يہ تھی کہ کئی طلباء امتحان ميں پرچہ تو صحيح حل کر ليتے تھے مگر ان سے پوچھا جائے تو پتہ چلتا کہ بات ان کو سمجھ نہيں آئی ۔ آخرِ کار مجھے اُنہيں اُردو ميں سمجھانا پڑتا ۔ اصل بات يہ ہے کہ قصور طلباء کا نہيں ۔ کوئی بھی طالب عِلم فطری طور پر صحيح سمجھ اور بہترين اظہار صرف اپنی زبان ميں ہی کر سکتا ہے ۔
ميں نے ميٹرک تک سائنس اور رياضی اردو ميں پڑھے ۔ اس کے بعد سب کچھ انگريزی ميں پڑھا ۔ اُردو بطور زبان ميں نے پہلی سے آٹھويں جماعت تک پڑھی تھی اور انگريزی بطور زبان پہلی سے بارہويں جماعت تک ۔ میں نے اردو اور انگريزی کو اچھی طرح پڑھا تھا چنانچہ مجھے ميٹرک کے بعد سب کچھ انگريزی ميں پڑھنے ميں خاص مشکل پيش نہ آئی ۔
اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ پانچ لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری [Saint Marry] ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے تين لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔
ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے ۔ ہماری موجودہ حکومت نے تو ثابت کر ديا ہے کہ اچھی تعليم حاصل کرنا صرف کروڑ پتی لوگوں کی اولاد کا حق ہے ۔ اور عوام کی تعليم کو ایک ميٹرک پاس ريٹائرڈ جرنيل کے رحم و کرم پر چھوڑ ديا گيا ہے جس نے پریس کانفرنس میں کہا “ہم اسلامیات کو سلیبس سے نہیں نکال رہے ۔ ہم سکولوں میں قرآن شریف کے پورے 40 سپارے پڑھائیں گے” ۔ ایک صحافی نے سوچا کہ شائد غلطی سے زبان سے 40 نکل گیا ہے اور تصدیق چاہی تو وزیرِ تعلیم نے پھر کہا “ہاں ۔ 40 سپارے”۔