معاشرہ میں خود بخود بگاڑ پیدا نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کے افراد ہی اس کا سبب ہوتے ہیں ۔ ایک دو نہیں سب مجموئی طور پر اس کے حصہ دار ہوتے ہیں ۔ کوئی غلط اقدام کر کے ۔ کوئی اس کی حمائت کر کے اور کوئی اس پر آنکھیں بند یا خاموشی اختیار کر کے ۔ 1970ء تک ریڈیو پر دلچسپ اور سبق آموز ڈرامے ہوتے تھے ۔ ریڈیو پر مزاحیہ پروگرام بھی ہوتے تھے لیکن ان میں بھی تربیت کو مدِ نظر رکھا جاتا تھا ۔ اِن میں نظام دین سرِ فہرست تھا ۔ چوہدری نظام دین کے ٹوٹکے اور نُسخے مزاحیہ لیکن دُور رس تربیت کے حامل ہوتے تھے ۔
اُس زمانہ میں کئی مووی فلمیں ایسی ہوتیں کہ لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت دیکھنے جاتے ۔ ان کو سماجی فلمیں کہا جاتا تھا ۔ ان میں بُرے کا انجام بُرا دکھایا جاتا اور آخر میں سچے یا اچھے کو کامیاب دکھایا جاتا ۔ اسی طرح کچھ گانے بھی سبق آموز ہوتے تھے جو بہت پسند کئے جاتے جن میں سے چند کے بول اس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں
سو برس کی زندگی میں ایک پل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل
جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام
اک دن پڑے گا جانا کیاوقت کیا زمانہ ۔ کوئی نہ ساتھ دے گا سب کچھ یہیں رہے گا
دنیا ایک کہانی رے بھیّا ۔ ہر شئے آنی جانی رے بھیّا
میری نوجوانی کے زمانہ یعنی 1960ء یا کچھ پہلے ایک گانا آیا جو عاشق نے محبوبہ کا حصول نہ ہونے پر گایا تھا
کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ۔ ۔ ۔ خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے بن کے رہو
ہمارا کیا ہے ہم تو مر کے جی لیں گے ۔ ۔ ۔ یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہنس کے پی لیں گے
تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں میں ۔ ۔ ۔ دیارِ حُسن میں تم حُسنِ دیار بن کے رہو
ایک دہائی بعد شاعروں کا دماغ پلٹا تو اُسی طرح کی صورتِ حال میں یہ گانا آیا
قرار لُٹنے والے تُو قرار کو ترسے ۔ ۔ ۔ میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے
خُدا کرے تیرا رنگیں شباب چھِن جائے ۔ ۔ ۔ بہار آئے مگر تُو بہار کو ترسے
اُس زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا ۔ تعلیم کا بھی کم خیال نہیں رکھا جاتا تھا اور بامقصد تعلیم کی خواہش کی جاتی تھی ۔ زیادہ تر سکولوں کے اساتذہ سلیبس یا کورس کے علاوہ پڑھاتے تھے اور چلنے پھرنے بولنے چالنے کے آداب پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ عام سلیبس کے علاوہ طُلباء کو معلوماتِ عامہ ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے کورسز کرنے کی ترغیب دی جاتی ۔ میں نے دو معلوماتِ عامہ کے دو ابتدائی طبی امداد کے اور ایک ہوائی حملہ کے بچاؤ کا امتحان آٹھویں سے دسویں جماعت تک اے گریڈ میں پاس کئے تھے ۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کی عملی تربیت دی جاتی تھی جو میں نے آٹھویں ۔ نویں اور اور دسویں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں حاصل کی ۔
شاید 1959ء کا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اپنے ایک استاذ کے گھر مشورہ کیلئے گیا تو وہاں ایک صاحب اپنے بیٹے سمیت موجود تھے ۔ چند منٹ بعد وہ چلے گئے تو محترم اُستاذ نے فرمایا “ان صاحب کا بیٹا ہمارے کالج میں دوسرے سال میں ہے ۔ یہ کہہ رہے تھے کہ “میں نے بیٹے کو یہاں بھیجا تھا کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ انسانیت بھی سیکھ لے گا ۔ یہ انجنیئر تو شاید بن جائے گا لیکن انسان بننے کی بجائے جانور بنتا جا رہا ہے ۔ اتنے اعلٰی معیار کے کالج میں پہنچ کر اس دماغ آسمان پر چڑھ گیا ہے اور اسے بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں رہی”۔
میرے سکول کالج کے زمانہ میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی تھیں ۔ اساتذہ کی اکثریت گو زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھی لیکن اپنے فرائض سے نہ صرف واقف ہوتے تھے بلکہ انہیں بخوبی نبھاتے بھی تھے ۔ وہ اپنے طُلباء سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو اُن کا سرپست سمجھتے تھے ۔ طُلباء اور ان کے والدین بھی اساتذہ کی تعظیم کرتے تھے جس کا بچوں پر مثبت اثر پڑتا تھا ۔ والدین کو استاذ سے کوئی شکائت ہوتی تو علیحدگی میں اس سے بات کرتے اور بچے کو خبر نہ ہوتی ۔ استاذ بھی والدین کو طالب علم کی شکائت اسکے سامنے کی بجائے علیحدگی میں کرتے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بُرے لوگ اُس زمانہ میں بھی تھے لیکن آج کی طرح اکثریت ہم چُناں دیگرے نیست مطلب ہم جیسا کوئی نہیں والی بات نہ تھی ۔ کم پڑھے اور اَن پڑھ لوگ پڑھے لکھے کی عزت کرتے تھے خواہ وہ ان سے چھوٹا ہو اور پڑھے لکھے مؤدبانہ طریقہ سے بات کرتے تاکہ دوسرے کو معلوم ہو کہ وہ تعلیم یافتہ ہے ۔
آج میں دیکھتا ہوں کہ پڑھا لکھا اکڑ میاں بنا پھرتا ہے اور دوسرے کو حقیر جانتا ہے ۔ تُو تُو کر کے بات کرتا ہے ۔ بڑی گاڑی والا پرانی یا چھوٹی گاڑی والے کو حقیر سمجھتا ہے ۔ میریئٹ یاکے ایف سی سے نکلنے والا باہر کھڑے پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے ۔ متعدد بار میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں عام سے لباس میں تھا اور میرےساتھ بدتمیزی کی کوشش کی گئی اور جب میں نے انگریزی بولی تو صاحب بہادر یا محترمہ کی زبان گُنگ ہو گئی ۔ [وضاحت ۔ انگریزی بولنے کا مطلب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ۔ مدبّر اور مہذّب انسان کی طرح بات کی ۔ یہ فقرہ انجنیئرنگ کالج سے لے کر اب تک میرے دوستوں میں اِن معنی میں مستعمل ہے]
یہ کمپیوٹر کے دور کا معاشرہ جس میں جھوٹ اور ظُلم کی بہتات ہے اس کے سُلجھنے کی شاید کسی کو اُمید ہو مجھے تو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے ۔ وجہ یہ کہ چالیس پچاس سال قبل جو جانتا تھا وہ بھی دوسرے کی بات غور سے سنتا تھا کہ شاید کوئی نئی بات سیکھ لے ۔ آج کے دور میں اکثر لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اسلئے دوسرے ان کو کچھ نہیں سِکھا سکتے بلکہ دوسروں کو اُن سے سیکھنا چاہیئے ۔