امريکا ميں آزادی اظہارِ رائے ؟؟؟

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور
يا
صريح منافقت

اور يہ بھی ديکھئے کہ واشنگٹن پوسٹ اس منافقت کو کس طرح جائز قرار ديتا ہے

وائٹ ہاوس کی سینئرترین رپورٹر 89 سالہ خاتون صحافی ہیلن تھامس جو امریکی صدرجان ایف کینیڈی کے دورِ صدارت سے وائٹ ہاؤس کی صحافتی ٹیم میں شامل تھيں کو اسرائیل مخالف بیان دینے پر سخت تنقید کے بعد اچانک ريٹائرڈ کر دیا گیا ۔ ہیلن نے غزہ جانے والے ترکی اور آئرلینڈ کے امدادی بحری بیڑوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اورسخت رویہ اختیارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فلسطین چھوڑدیں ۔ انہوں نے مشوردیا تھا کہ اسرائیلی ان ممالک کو لوٹ جائیں جہاں سے آئے تھے يعنی وہ جرمنی ، پولینڈ اور امریکا میں اپنے گھروں کو چلیں جائیں

ہیلن تھامس طویل عرصے تک وائٹ ہاؤس کے یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کی نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں اور آج کل ایک اخبار کے لئے کالم بھی لکھ رہی ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشیوں کا راز

چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی جو حاصل ہو ۔ اس کیلئے شکرگذار ہونا چاہیئے

جہاں کہیں بھی ہوں جو کچھ بھی کر سکیں جتنا بھی ہو سکے دوسرے کی مدد کرنا چاہيئے

جن اشیاء کو حق سمجھتے ہیں اُن کیلئے دراصل شکرگذار ہونا چاہیئے

آدمی کی اصل دولت یہ ہے کہ اُس نے آخرت کیلئے کیا کیا ہے ؟

اللہ بہترین نعمت اُسے دیتا ہے جو اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دیتا ہے

ہلاک شُدہ پاکستانی جنگجو ؟

فرضی جھڑپیں، حراستی گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں گذشتہ 20 برسوں سے کشمیر میں روز مرہ کا مشاہدہ گھر گھر کی کہانی اور گلی گلی کی داستان ہیں ۔ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بستی بستی لوگوں کو اس قسم کی شکایتیں ہیں لیکن شہر ناپرساں جسے کشمیر کہتے ہیں میں طوطی کی آواز پر کون کان دھرتا ہے ۔ البتہ 2007ء میں فرضی جھڑپوں اور ہلاکتوں کے سلسلے سے جس طرح ڈرامائی انداز میں نقاب سرک گئی اس نے ان بے بس گھرانوں اور بے نوا لواحقین کو ضرور یہ اُمید دلادی ہے کہ کسی دن وہ بھی اپنے ”گمشدہ” عزیزوں کی ”آرام گاہوں” تک پہنچیں گے

کوکرناگ کے عبدالرحمان پڈر کے اہل خانہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں پولیس تھانوں ، چوکیوں اور فوجی و نیم فوجی کیمپوں کی خاک چھاننے کے بعد اتفاقیہ طور پر 2007ء کے ابتدائی ایّام میں شادی پورہ (گاندربل) کی پولیس چوکی میں ایک ”ہلاک شدہ پاکستانی جنگجو” کی تصویر کو دیکھ کر چونک گئے ۔ تصویر کو دیکھ کر ہی 70 سالہ غلام رسول پڈر کو یقین ہوگیا کہ یہ ان کے بیٹے کی تصویر ہے۔ ”میں اندھا بھی ہوتا، تو بھی اپنے بچے کو پہچان لیتا”

غلام رسول پڈر نے اخباری نمائندوں کو بتایا۔ یہ نقطہ آغاز تھااور اب تک معاملے کی مزید چھان بین کے نتیجے میں ایسی نعشوں کو قبروں سے کھود نکالا گیا ہے، جنہیں گاندربل کی ٹاسک فورس نے فرضی جھڑپوں میں مار ڈالنے کے بعد پاکستانی جنگجو قرار دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کی قبروں پر کتبے بھی لگائے گئے تھے جن میں ان کے نام اور پاکستان میں ان کی جائے سکونت بھی درج تھی۔ مثلاً عبدالرحمان پڈر کی قبر پر لگائے گئے کتبے میں ان کی شناخت یہ درج کی گئی تھی: ابو حافظ ساکن ملتان پاکستان۔

فرضی جھڑپ ، فرضی نام اور فرضی سکونت لیکن زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ کشمیر یا اس سے باہر کسی بھی رجل رشید اور بھلے مانس نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب پاکستانی جنگجو جاں بحق ہوجاتے ہیں تو ان کے نام ا ور دیگر تفصیلات کہاں سے نازل ہوتی ہیں؟ کیا وہ اپنا بایوڈاٹا [Biodata] یا سی وی [Curriculm Vitae] جیبوں میں لئے پھرتے ہیں

اب تک گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں میں سے محض5 معاملات نے تفتیش اور تحقیق کی روشنی دیکھی ہے جبکہ گاندربل کے عوامی حلقوں کا اصرار ہے کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد سو سے بھی متجاوز ہے۔ صرف بٹ محلہ سمبل کے قبرستان میں 55 قبریں ہیں ان میں سے ایک عبدالرحمان پڈر آف لارنو کوکرنا گ (پولیس کے مطابق ابو حافظ آف ملتان) کی تھی، باقی54 قبروں میں کون مدفون ہیں، مقامی لوگ اس بارے میں اپنے شکوک اور تحفظات رکھتے ہیں۔ گاندربل کے ایک بزرگ شہری، عبدالعزیز صوفی نے کہا” گزشتہ 20سال میں پولیس نے جھڑپوں کے بعد سو سے زیادہ نوجوانوں کو پاکستانی جنگجو قرار دیا، عوام نے انہیں مذہبی رسوم کے مطابق دفن کیا لیکن کیا وہ واقعی پاکستانی تھے، اس پر کل بھی شک تھا، آج بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ واقعی جنگجو بھی تھے، یا عبدالرحمان پڈر ہی کی طرح نہتے شہری تھے جنہیں پیسے اور پرموشن کی لالچ میں پولیس والوں نے ان کو فرضی جھڑپوں کے ڈرامے رچا کر مارڈالا۔”

کیا وہ واقعی پاکستانی تھے یا پھر کیا وہ واقعی جنگجو تھے؟ سوال اتنا ہی نہیں ہے، ایک مقامی قانون دان کہتے ہیں ”اگر بالفرض کسی جنگجو کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے تو حراست میں لینے کے بعد اس کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر قتل کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے، جو سزا کا مستوجب ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں کہ جنگجوئوں کو گرفتار کرکے پولیس یا فوجی و نیم فوجی دستوں نے زیر تعذیب ہلاک کرڈالا، اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے”

معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو کچھ سامنے آیا ہے، یہ محض نمونہ مشتے از خروارے یا Tip of the Ice Berg کہا جاسکتا ہے۔یہ محض گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کی کارستانی ہے ،دیگر علاقوںسے ایسی شکایتیں روزمرہ موصول ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی ایک ہزار سے زائد افراد کی ”گمشدگی” کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ غیر کاری تنظیمیں اس تعداد کو10 ہزار کے آس پاس بتاتی ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، عوام کو اور گمشدہ افراد کے لواحقین کو اس بات کا حق ہے کہ انہیں صحیح صحیح صورت حال کی جانکاری دی جائے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ از مقبوضہ جموں کشمير

امريکا 71 سال قبل اور ہم

نيچے امريکا کے صرف 71 سال قبل کے

دور کی تصاوير ديکھنے کے بعد سوچيئے کہ ہميں کس عمل کی ضرورت ہے

ہم سجھتے ہيں کہ ہميں بُرا دور مِلا ہے اور مختلف قسم کی شکايات کرتے رہتے ہيں ۔ پٹرول مہنگا ہے ۔ بے روزگاری ہے ۔ يہ نہيں ہے وہ نہيں ہے ۔ ہم دورِ حاضر سے نالاں ہيں ۔ مہنگائی بے انصافی اور سب سے بڑھ کر بے حسی زوروں پر ہے

کيا يہ سب حالات ہمارے ہی پيدا کردہ نہيں ہيں ؟
ہمارا 71 سال قبل 71 سال قبل کے امريکا جيسا حال تو نہ تھا بلکہ 40 سال قبل بھی ہمارا ايسا حال نہ تھا

امريکا 71 سال ميں بلنديوں پر پہنچ گيا اور ساری دنيا پر قبضہ جمانا شروع کر ديا مگر ہم نے پچھلے 40 سال میں اپنا يہ حشر کر ليا ہے جسے ہم خود ہی کوس بھی رہے ہيں

ہم بجائے خود اُوپر چڑھنے کے دوسرے ہموطن کو نيچے گِرا کر سمجھتے ہيں کہ ہم اُونچے ہو گئے ہيں ۔ يہ تنزل ہے ترقی نہيں

ہميں باہمی گريبان پکڑنا اور باہمی تفگ بازی چھوڑ کر محنت سے صرف اپنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں يعنی اپنی قوم اور اپنے مُلک پاکستان کيلئے خلوصِ نيت سے محنت کرنا ہو گی

ورنہ اگر ہمارے لچھن يوں ہی رہے تو ہم پر آج سے بھی زيادہ بُرا وقت آ سکتا ہے

ہر حال ميں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہيئے اور ديانتداری سے محنت کرنا چاہيئے ۔ يہی ترقی کی مشعلِ راہ ہے

فاطمہ جناح پارک تو زندہ رہے

فاطمہ جناح پارک جو اسلام آباد ميں ہمارے گھر سے 5 منٹ کے پيدل راستہ پر ہے ۔ پرويز مشرف کے زمانہ ميں اسے بھی ماڈرن کرنے کی کوشش کے سلسلہ ميں وہاں ايسی تعميرات ہوئيں کہ باغ ايک بازار بننا شروع ہو گيا تھا ۔ مجبور ہو کر شہريوں نے عدالتِ عظمٰی کا رُخ کيا تھا

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ، فاطمہ جناح پارک میں تعمیرات کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے اس مقدمہ کی گزشتہ ماہ سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ عدالت نے پارک میں واقع غیرملکی چین کے ریستوراں [ميکڈانلڈ] اور تفریحی کلب [باؤلنگ] کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریستوران کے مالک امین لاکھانی کا سپریم کورٹ کے بارے میں ریمارکس سے متعلق معافی نامہ قبول کرتے فیصلے میں کہا ہے کہ ان دونوں عمارتوں کے مالکان اپنے خرچ پر انہیں تین ماہ میں گرائیں گے۔سپریم کورٹ نے پارک میں نظریہ پاکستان کونسل کو لائبریری کیلئے الاٹ کی جانے والی زمین کی لیز بھی ختم کرنے کا حکم دیا

عدالت نے ان تعمیرات کی اجازت دینے والے سابق چیئرمین سی ڈی اے اور موجودہ سیکریٹری پٹرولیم کامران لاشاری کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے

ميکڈانلڈ کھانے والے کيا کھائيں گے
باؤلنگ کرنے والے کدھر جائيں گے

امريکا خود اپنا دُشمن ہے

یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ اگر پاکستان نیوی کی طرف سے بین الاقوامی سمندری حدود میں کسی تجارتی یا امدادی بحری جہاز پر غلطی سے حملہ کردیا جاتا اور حملے میں دو تین مغربی باشندے مارے جاتے تو امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پاکستان کا کیا حشر کرتے؟

بدھ کی شب سینیٹر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر لو لاؤ ہوئی کے اعزاز میں الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ پاکستانی سیاستدان اور صحافی مغربی سفارتکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ” 31مئی کو فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر حملہ کرنے والے فوجیوں کا تعلق اسرائیل کی بجائے پاکستان ، ایران یا ترکی کے ساتھ ہوتا تو کیا مغربی ممالک کی حکومتیں صرف ہلکے پھلکے مذمتی بیانات تک محدود رہتیں یا اقوام متحدہ کے ذریعہ ذمہ دار ملک پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی ہوتیں؟”

اس عشائیے میں موجود فلسطین کے سفیر جناب ابو شناب بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ میں مغربی سفارت کاروں کو وہ آنکھوں دیکھے واقعات بتاؤں جب اسرائیلی نیوی نے غزہ کے ساحل پر فلسطینی مچھیروں کی کشتیوں پر بمباری کی۔ فلسطینی سفیر کے ا صرار پر میں نے کئی سفارت کاروں کو بتایا کہ پچھلے سال جنوری میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملے کئے تو میں مصر کے راستے سے غزہ میں داخل %D

اسرائيلی درندگی کے مزيد نمونے

ميں نے کل اسرائيل کی غزہ ميں دہشتگردی کے چند ثبوت پيش کئے تھے ۔ آج اسرائيليوں کی درندگی کے چند اور نمونے بوجھل دل کے ساتھ حاضر ہيں جن ميں بالخصوص ننھے بچوں کو درندگی کا نشانہ بنايا گيا ہے ۔ اسرائيل کے بہيمانہ قتل و غارت پر کبھی امريکا نے اسرائيل کی صرف مذمت بھی نہيں کی

اگر کسی مسلمان ملک ميں ايک غير مسلم بچہ مر جائے تو امريکا طوفان کھڑا کر ديتا ہے ۔ امريکا کے چہيتے پرويز مشرف کا دور تھا اسلام آباد کے سيکٹر ايف ۔ 7 ميں ايک کچی آبادی کے نام پر پکی آبادی ہے جو سرکاری زمين پر قبضہ کر کے غيرقانونی طور پر عيسائيوں نے بنائی ہوئی ہے ۔ يہ فرنچ کالونی کے نام سے مشہور ہے ۔ سڑک کی طرف اُنہوں نے ايک کچی ديوار بنائی ہوئی تھی ۔ ايک دن عيسائی بچے سڑک کے کنارے اُس ديوار کے ساتھ بيٹھے کھيل رہے تھے کہ طوفان آ گيا اور ديوار گر گئی ۔ اس کے نيچے آ کر ايک عيسائی بچہ مر گيا ۔ واشنگٹن کی ديواريں لرزنے لگيں اور پرويز مشرف کو ٹيليفون آيا ۔ چنانچہ وہاں اُس غيرقانونی کالونی کے ساتھ ری اِنفورسڈ کنکريٹ کی ديوار بنانے کے علاوہ اس کالونی کو قانونی قرار دے ديا گيا