چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیابی کا راستہ

ہونا کیا چاہیئے
اپنا عِلم دوسروں میں بانٹيئے تو لافانی ہو جائيں گے
اپنی کامیابی کا اندازہ اس سے لگائيے کہ اسے حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ چھوڑا
محبت اور کھانا پکانے کی طرف پورے اِنہماک سے بڑھيئے

عصرِ حاضر کی صورتِ حال
محنت کرو مگر دوسروں کو صرف اس وقت بتاؤ جب باس [Boss] سُن رہا ہو
باس پر توجہ رکھو کہ اُسے کیا پسند ہے ۔ وہی کرو
باس پر خُفیہ نظر رکھو اور پتہ چلاؤ کہ اُسے کس چیز کی ضرورت ہے ۔ وہ اُسے مہیا کرو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

کيا وِکی پِيڈيا اور آل تھِنگز پاکستان قابلِ اعتبار ہيں ؟

اس کالم کا مقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔

اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلباء اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیا جا سکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے

سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔

وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistanکے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9 اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن ناتھ کو 1979ء میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا

میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں ۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا

میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کا معتد بہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا

پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam
۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7 اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3 جون 1947ء والی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا

لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7 اگست 1947ء کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کا نام قائداعظم سے سنا۔

اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجانا چاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کا تصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں

عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ء میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں ہے۔

وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔

پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو

ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15 اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا

”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“

میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14 اگست سے 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔

18 ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیں ہیں“ (1982ء) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا ؟ اس کا ذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کا ذکر کرتا

جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا

قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود ۔ بشکريہ ۔ جنگ

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں

حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2008ء کو ختم ہونے والے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

يہ تحرير ميں نے 10 جنوری 2009ء کو لکھی تھی ۔ اس کے بعد آج تک يعنی 17 ماہ ميں جو کچھ ہوا وہ شايد سب کے ذہنوں پر ہو گا

عيسائی برطانوی شہزادہ اور ہم مسلمان

نیو یارک میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں برطانوی شہزادے چارلس نے گلوبل وارمنگ کے باعث ہونے والی تبدیلیوں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے عالمی ماہرین پر زور دیا ہے کہ قرآن میں بتائے گئے احکامات پر عمل کر کے دنیا کو کسی بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے

ہمارے ہموطن مسلمانوں ميں اونچا بولنے والے کہتے ہيں کہ
اسلام کے قوانين 14 سو سال پرانے ہيں اسلئے موجودہ ترقی يافتہ دور ميں نافذ العمل نہيں
اسلام پر عمل انتہاء پسندی کو جنم ديتا ہے

عقل ۔ کيا صرف انسان کو ہے ؟

انسان سمجھتا ہے کہ عقل صرف اسی ميں ہے مگر گرد و پيش کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے سب جانداروں کو عقل دے رکھی ہے خواہ انسان ہوں ۔ چرند ہوں يا پرند

سمجھدار پرندہ

ريچھ کا عقلمند اور بہادر بچہ
اِسے آواز کے ساتھ ديکھيئے

ريچھ کا “کُنگ فُو” بچہ

ہرن اور کُتے کا کھيل

پڑھيئے اور سوچئے

عزيز ہموطنوں
اللہ آپ کو سلامتی اور حق کی پہچان عطا فرمائے
آپا دھاپی چھوڑيئے اور ہوش سے کام ليجئے ۔ آج ہم سب کو جن آفتوں کا سامنا ہے يہ سب ہماری غلط سوچ اور بے عملی يا غلط عمل کا نتيجہ ہيں ۔ يہ وقت ہے اپنی دماغی اور عملی صلاحيّتوں کو بروئے کار لانے کا ۔ اپنے مصائب کا سدِ باب ہم نے خود ہی کرنا ہے ۔ ايئر کنڈيشنڈ کمروں ميں رہنے اور فائيو يا سِکس سٹار ہوٹلوں ميں کھانا کھانے والوں کو کيا معلوم کہ 80 سے 90 فيصد ہموطن جن کے ہاں بجلی گھنٹوں کے حساب سے غائب رہتی ہے اُن پر کيا گذرتی ہے

آنکھيں اور دماغ کی کھڑی کھول کر ديکھيئے کہ کيا واقعی وطنِ عزيز بجلی کی طلب [demand] کے مطابق پيداواری صلاحيت [Production Capacity] نہيں رکھتا

وطنِ عزيز ميں بجلی کی پيداوار کے 3 بڑے ذرائع ہيں
1 ۔ پن بجلی
2 ۔ تھرمل يعنی گيس يا بھاپ يا فرنس آئل سے
3 ۔ نيوکليئر

بجلی مہيا کرنے والے 4 بڑے ادارے ہيں ۔ واٹر اينڈ پاور ڈويلوپمنٹ اتھارٹی [WAPDA] ۔ کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی [KESC] ۔ پاکستان اٹامک انرجی کميشن [PAEC] اور انڈيپنڈنٹ پاور پروڈکشن پروجيکٹس [IPPs] ۔ ان اداروں کی نصب شدہ پيداواری صلاحيت [Installed Production Capacity] جون 2008ء ميں مندرجہ ذيل تھی

واپڈا پن بجلی

تربيلہ ۔ 3478 ميگا واٹ
وارسک ۔ 243 ميگا واٹ
درگئی ۔ 20 ميگا واٹ
منگلا ۔ 1000 ميگا واٹ
غازی بڑوتھا ۔ 1450 ميگا واٹ
چشمہ ۔ 184 ميگا واٹ
مونگ رسول ۔ 22 ميگا واٹ
شادی وال ۔ 18 ميگا واٹ
نندی پور ۔ 14 ميگا واٹ
کُرم گڑھی ۔ 4 ميگا واٹ
رينالہ ۔ 1 ميگا واٹ
چترال ۔ 1 ميگا واٹ
جگران آزاد جموں کشمير ۔ 30 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پن بجلی کی کُل پيداواری صلاحيت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6465 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واپڈا تھرمل بجلی

گيس ٹربائن پاور سٹيشن شاہدرہ ۔ 59 ميگا واٹ
سٹيم ٹربائن پاور سٹيشن فيصل آباد ۔ 132 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن فيصل آباد ۔ 244 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن ملتان ۔ 195 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن مظفر گڑھ ۔ 1350 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن گُدُو ۔ 1655 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن کوٹری ۔ 174 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن جام شورو ۔ 850 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن لاڑکانہ ۔ 150 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن کوئٹہ۔ 35 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن پسنی۔ 17 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن پنج گڑھ ۔ 39 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کل تھرمل پاور پيداواری صلاحيت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4900 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واپڈا کی کُل بجلی کی پيداواری صلاحيت ۔ ۔ 11365 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی

تھرمال پاور سٹيشن کورنگی ۔ 316 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن کورنگی۔ 80 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن سائٹ۔ 100 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن بِن قاسم ۔ 1260 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کی کُل بجلی کی پيداواری صلاحيت ۔ 1756 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان اٹامِک انرجی کميشن

کَينُوپ ۔ 137 ميگا واٹ
چَشنوپ ۔ 325 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نيوکليئر پاور کُل پيداواری صلاحيت ۔ 462 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آئی پی پيز

حب پاور پروجيکٹ ۔ 1292 ميگا واٹ
گُل احمد انرجی لميٹڈ کورنگی ۔ 136 ميگا واٹ
حبيب اللہ کوسٹل پاور لميٹڈ ۔ 140 ميگا واٹ
لبرٹی پاور لميٹڈ گوٹکی ۔ 232 ميگا واٹ
ٹپال انرجی لميٹڈ کراچی ۔ 126 ميگا واٹ
اينرگو انرجی لميٹڈ کراچی ۔ 217 ميگا واٹ
اے ای ايس لال پير لميٹڈ محمود کوٹ مظفر گڑھ ۔ 362 ميگا واٹ
اے ای ايس پاک جنريشن لميٹڈ ۔ محمود کوٹ مظفر گڑھ ۔ 365 ميگا واٹ
الترن انرجی لميٹڈ ۔ اٹک ۔ 29 ميگا واٹ
فوجی کبير والا پاور کمپنی خانيوال ۔ 157 ميگا واٹ
جاپان پاور جنريشن لاہور ۔ 120 ميگا واٹ
کوہِ کور انرجی لميٹڈ لاہور ۔ 131 ميگا واٹ
رؤش پاور خانيوال ۔ 412 ميگا واٹ
سبا پاور کمپنی شيخو پورہ ۔ 114 ميگا واٹ
سدرن اليکٹرک پاور کمپنی لميٹڈ رائے وِنڈ ۔ 135 ميگا واٹ
اٹک جنريشن لميٹڈ مورگاہ راولپنڈی ۔ 165 ميگا واٹ
اٹلس پاور شيخو پورہ ۔ 225 ميگا واٹ
کوٹ ادُو پاور لميٹڈ ۔ کوٹ ادُو [بينظير کے دور ميں بيچی گئی] ۔ 1638 ميگا واٹ
اُچ پاور لميٹڈ ڈيرا مُراد جمالی نصير آباد ۔ 586 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آئی پی پيز کی کُل پيداواری صلاحيت ۔ 6582 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پانی کے بہاؤ ميں کمی بيشی کے ساتھ واپڈا کی پن بجلی کی پيداواری صلاحيت کم از کم 2414 ميگا واٹ اور زيادہ سے زيادہ 6465 ميگا واٹ ہوتی ہے يعنی ان دو حدود کے درميان اُوپر نيچے ہوتی رہتی ہے
اسطرح اگر پن بجلی کی کم سے کم پيداواری صلاحيت کو ہی گِنا جائے تو وطنِ عزيز ميں

بجلی کی کم از کم پيداواری صلاحيت 16339 ميگا واٹ ہے
اور جب درياؤں ميں مناسب پانی ہو تو 20165 ميگا واٹ ہوتی ہے

يہ ساری بجلی پيپکو حاصل کرتا ہے اور صارفين [consumers] کو مہيا [supply] کرتا ہے

پورے مُلک کی بجلی کی طلب جو 20 اپريل 2010ء کو ناپی گئی 14500 ميگا واٹ تھی
چنانچہ وطنِ عزيز ميں بجلی کی کم از کم پيداواری صلاحيت کُل موجودہ طلب يا کھپت سے 1839 ميگا واٹ زيادہ ہے
مگر پيپکو صرف 10000 ميگاواٹ بجلی مہيا کرتا ہے يعنی طلب سے 4500 ميگا واٹ کم

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس سے واضح ہوتا ہے کہ 8 سے 18 گھنٹے روزانہ کی بجلی کی بندش [load shedding] جو وطنِ عزيز ميں ہوتی آرہی ہے اس کا سبب پيداواری صلاحيت کا کم ہونا نہيں ہے جس کی بنياد پر مہنگے داموں رينٹل پاور سٹيشن لگائے جا رہے ہيں بلکہ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک سے جو آنکھيں بند کر کے قرضے لئے جا رہے ہيں اُن کے ساتھ شرائط کے زيرِ اثر کم بجلی پيدا کی جا رہی ہے ۔ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک کی شرائط ميں ايک کڑی شرط يہ ہے کہ خام تيل [crude oil] کی درآمد کم رکھی جائے

مزيد يہ کہ بجلی پيدا کرنے والی کمپنياں پی ايس او سے يہ کہہ کر فرنس آئل نہيں خريد رہيں کہ اُن کے پاس پيسے نہيں ہيں ۔ بجلی پيدا کرنے والی بڑی بڑی کمپنياں اپنی پيداواری صلاحيت کا صرف 40 فيصد بجلی پيدا کر رہی ہيں ۔ وجہ يہ کہ حکومت اُنہيں خريدی گئی بجلی کی ادائيگی نہيں کر رہی ۔ صورتِ حال يہ ہے کہ پنجاب کے سوا باقی تينوں صوبوں اور وفاقی حکومت کے ذمے اربوں روپے واجب الادا ہيں ۔ صرف سندھ ہی 22.8 ارب روپے ادا کرنے سے يہ کہہ کر انکاری ہے کہ يہ بجلی سندھ کی حکومت نے استعمال ہی نہيں کی ۔ ايک لحاظ سے وہ سچے ہيں کہ حکومت نے يہ بجلی استعمال نہيں کی مگر يہ بجلی سندھ ہی ميں چوری ہوئی ہے اور مزيد ہو رہی ہے ۔ حکومت سندھ بجلی کی چوری کا سدِباب نہيں کرتی ليکن اس کی قيمت ادا کرنے سے انکاری ہے ۔ صوبہ سرحد [خيبر پختونخواہ] اور بلوچستان کے ذمہ بھی بڑی بڑی رقميں واجب الادا ہيں چنانچہ پيپکو کے پاس بھی پيسہ نہيں ہے کہ آئی پی پيز کو ادائيگی کرے اور ضرورت کے مطابق فرنس آئل خريدے

متذکرہ بالا وجوہ کے نتيجہ ميں نہ صرف بجلی کی پيداوار کم ہو رہی ہے بلکہ وطنِ عزيز کی صنعت بھی تباہ ہو رہی ہے جس کے نتيجہ ميں مُلکی معيشت مزيد خسارے ميں جائے گی اور آئی ايم ايف اور ورڈ بنک سے مستقبل ميں مزيد قرضے لينا پڑيں گے ۔ اس طرح وطنِ عزيز کی معيشت مزيد برباد ہو گی اور مُلک ان قرضوں کے نيچے دب کر خدا نخواستہ ختم ہو جائے گا ۔ وفاقی حکومت کے مشير ماليات کے مطابق حکومت پر اس وقت 8160 ارب روپے قرض ہے ۔ اسے ہندسوں ميں لکھوں تو 8160000000000 روپے بنتا ہے

وفاقی حکمران اسلئے خاموش ہيں کہ وہ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک کی برکتوں سے نوازے جا چکے ہيں اربوں روپيہ سالانہ حکمرانوں کی بود و باش اور عياشيوں پر خرچ کيا جا رہا ہے مگر ضروريات زندگی کا کوئی پُرسانِ حال نہيں

کيا ہموطن صرف سختياں سہتے اور آپس ميں دست و گريباں ہوتے رہيں گے اُس وقت تک کہ جب پانی سر سے گذر جائے گا اور سب ڈوب چکے ہوں گے ؟

اب جوش ميں آکر بسيں جلانے اور لوگوں کے گھروں اور گاڑيوں کے شيشے توڑنے کا وقت نہيں ہے بلکہ ان کی اور ان ميں موجود ہموطنوں کی زندگيوں کی حفاظت کيلئے کام کرنے کا وقت ہے

شايد کہ کسی کے دِل ميں اُتر جائے ميری بات