عنيقہ ناز صاحبہ نے اچھا موضوع چُنا ہے ۔ طريقہ جو بتايا ہے اُس سے ميرے پوتے پوتياں مستفيد ہو سکتے ہيں ۔ ايسے بچے تو پہلے سے ہی اُونچے نام والے سکولوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اگر ايسے بچوں ميں تعليم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو اس ميں طريقہ تعليم کا کوئی دوش نہيں ۔ اُن کے والدين کی لاپرواہی يا غرور کا نتيجہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اصلاحِ طريقہ تعليم کی ضرورت اُن 60 سے 70 فيصد طلباء و طالبات کو ہے جن کے والدين ايسے سُلجھے ہوئے طريقوں پر عمل کرنے سے قاصر ہيں جس کی تين وجوہات ہيں
ايک ۔ والدين اَن پڑھ ہيں يا کم پڑھے لکھے ہيں
دو ۔ والدين گھر کے اخراجات مہيا کرنے ميں اتنے مصروف ہوتے ہيں کہ بچوں کو وقت نہيں دے سکتے
تين ۔ سب سے بڑی وجہ يہ ہے کہ اس طريقہ پر چلنے کيلئے اُن کے پاس وسائل نہيں ہيں
اس کا حل ميں بعد ميں بتاؤں گا پہلے ميری آپ بيتی
اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں نے بلامعاوضہ پہلی جماعت سے لے کر ايم ايس سی تک کے بچوں کو پڑھايا ہے اور ملازمت کے طور پر 3 سال ايسوسيئيٹ انجنيئر ڈپلومہ کلاسز اور 5 سال بی ايس سی انجنيئرنگ کلاسز کو پڑھايا ہے
ميں نے درجن بھر ننھے بچوں کو سکول داخل ہونے سے پہلے پڑھنا لکھنا سکھايا ۔ ان ميں 4 ميرے مجھ سے 10 سے 15 سال چھوٹے بھائی بہن اور 3 ميرے بچے ہيں ۔ ان سب پر ميں نے بڑے حِلم کے ساتھ محنت کی مگر ميری مجھ سے 15 سال چھوٹی بہن کو پڑھانا اور لکھانا ميرے لئے سب سے بڑا امتحان تھا ۔ ميں نے کہا پڑھو “الف” تو اس نے کہا “پڑھو الف”۔ خير اس سے تو جلدی جان چھوٹ گئی ميں نے صرف الف کہنا شروع کيا ۔ ميں نے کہا “ب”۔ تو بہن نے کہا “نہيں آتا” ۔ ميں نے کہا ” A ” تو اس نے کہا ” A “۔ ميں نے کہا ” B “۔ تو اُس نے کہا “نہيں آتا”۔ ميں نے کہا “ايک” تو اُس نے کہا “ايک”۔ ميں نے کہا “دو”۔ تو اس نے کہا “نہيں آتا”
ميں انجنئرنگ کالج سے گرميوں کی چھٹيوں ميں گھر آيا ہوا اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ تين دن ميں پوری کوشش کرتا رہا مگر ميری پياری بہن کا جواب نہ بدل سکا ۔ پھر اس کا ايک حل ذہن ميں آيا ۔ ميں بازار سے اچھے معيار کا سفيد کاغذ اور رنگدار پنسليں لايا اور ايک کاغذ پر رنگدار سيب بنايا اور ساتھ لکھا ” A for Apple “۔ پھر بہن کو دکھا کر کہا ” A for Apple “۔ اُس نے کہا ” A for Apple “۔ ميں نے دوسرے کاغذ پر کرکٹ کا بلا بنايا اور اسے کہا ” B for Bat “۔ تو بلا توقف بہن نے کہا ” B for Bat “۔ اسی طرح انگور کا گچھا بنا کر لکھا الف سے انگور اور بلّی بنا کر لکھا ب سے بلّی اور وہ پڑھتی گئی ۔ گنتی کيلئے بنايا ايک سيب دو ناشپاتی تين آلو بخارے وغيرہ وغيرہ ۔ ميرا نُسخہ کامياب ہو گيا ۔ اس طرح ميں نے اُسے حروفِ ابجد اور Alphabet صرف ايک ماہ ميں پڑھا دی البتہ ميری ڈرائينگ بنانے کی اچھی مشق ہو گئی ۔ لکھنے کيلئے چار لکيری کاپی لايا اُس پر ہلکی پنسل سے ميں لکھ ديتا اور بہن سے کہتا کہ ان لکيروں پر لکيريں لگاؤ مگر ديکھو اگر آپ کی لکير ميری لکير سے باہر نہ گئی تو آپ بادشاہ بنو گی ميں وزير اور اگر آپ کی لکير باہر چلی گئی تو آپ وزير بنو گی اور ميں بادشاہ
ميں نے اس طرح 2 ماہ ميں اپنی اس بہن کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ديا تو اُس نے ايسی رفتار پکڑی کہ ہر جماعت ميں شاباش ليتی بڑھتی گئی اور ايم ايس سی بوٹنی کے بعد ايم فِل کيا ۔ ايک سال بعد پی ايچ ڈی بھی کر ليتی اگر اُس کی شادی نہ کر دی جاتی
ہمارا معاشرہ جس ميں 40 فيصد آبادی غربت کی لکير سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے اور مزيد 20 فيصد بمشکل گذارہ کر رہے ہيں وہ اپنے بچوں کيلئے ايسی کاپياں جو عام کاپيوں سے خاصی مہنگی ملتی ہيں کيسے مہيا کر سکتے ہيں ۔ اس مسئلے کا حل تختی اور سليٹ ہے جس کا استعمال دو تين دہائيوں سے ترک کر ديا گيا ہے ۔ تختی پر استاذ پنسل سے لکھ ديتے تھے اور بچے قلم سے لکھتے تھے ۔ اب تو وہ قلميں عجائب گھر ميں بھی نظر نہيں آتيں ۔ سليٹ پر استاذ گنتی سکھاتے ۔ اگر کہيں غلطی ہو جاتی تو مٹا کر درست کرتے اور ساتھ سمجھاتے بھی ۔ ايک تختی اور ايک سليٹ گھر کے سب بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا سکتی ہيں اور اس کے بعد کسی اور کے بھی کام آ سکتی ہيں
تختی پر قلم سے لکھنے کيلئے قلم کو ايک خاص طريقے سے پکڑا اور چلايا جاتا تھا اور دباؤ کا بھی خاص دھيان رکھنا پڑتا تھا ۔ يہ سب کام استاذ سکھاتے تھے ۔ اس سے انگليوں ہتھيلی اور کلائی کے پٹھے موذوں طور پر نشو و نما پاتے تھے اور بعد ميں پنسل يا پين سے لکھنا آسان ہوتا تھا
بچوں کو لکيريں لگانے کا شوق 2 سے 3 سال کی عمر کے درميان شروع ہو جاتا ہے ۔ ايک طرف سے استعمال شدہ کاغذ خاصی تعداد ميں سنبھال رکھيئے ورنہ بازار سے نيا سفيد کاغذ لے آيئے اور آدھی لمبائی والی رنگدار پنسليں بھی ۔ بچے کو رنگدار پنسليں ديجئے اور ايک ايک کر کے کاغذ ديتے جايئے ۔ اس بات کا خاص خيال رکھيئے کہ بچہ پنسل يا کاغذ منہ کی طرف نہ ليجائے ۔ پنسل کی صورت ميں وہ اُسے کاٹے گا اور اس کي نوک ٹوٹ کر بچے کے حلق ميں اٹک سکتی ہے جو پريشانی کا باعث بنے گی ۔ کاغذ بچہ تيزی سے منہ ميں ڈال کر کھينچتا ہے ۔ اس صورت ميں کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا منہ ميں رہ سکتا ہے جس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب تالو يا حلق سے چپک کر مصيبت کھڑی کر ديتاہے ۔ بچے کو محدود وقت کيلئے پنسليں ديجئے اور پھر لے کر چھپا ديجئے ورنہ آپ کے گھر کی ديواريں آپ کے کپڑے بچے کا جسم يا جو کچھ اُسے مل جائے اُس پر ابسٹريکٹ آرٹ [abstract art] کے نمونے بن جائيں گے