کيا دنيا مردوں کی ہے ؟

يہ ميں نے نہيں لکھا
بلکہ برطانيہ ميں پيدا ہونے والی ايک برطانوی پڑھی لکھی کئی بچوں کی ماں کی سائٹ سے نقل کيا ہے

لڑکی زور سے ہنسے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوبصورتی
لڑکا زور سے ہنسے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گنوار
لڑکی ميٹھا بولے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پياری لگے
لڑکا ميٹھا بولے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاپلوس
لڑکی شاپنگ کرے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رواج
لڑکا شاپنگ کرے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرام کا مال جو ہے
لڑکی خاموش رہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غمگين
لڑکا خاموش رہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مِيسنا
لڑکياں مل کر چليں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گروپ
لڑکے مل کر چليں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے غيرتوں کا ٹولہ

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ اسلام ميں داخلے کا امتحان

مسلمان والدين کے ہاں پيدا ہونے والی ہر لڑکی اور ہر لڑکا مسلمان ہوتا ہے اور ساری زندگی وہ اپنے آپ کو اِسی بنا پر مسلمان سمجھتے ہيں ۔ تقريباً تمام سکولوں ميں پہلے چھ کلمے پڑھائے جاتے ہيں جو کہ سب بچے طوطے کی طرح رَٹ ليتے ہيں مگر بہت ہی کم ايسے طلباء و طالبات ہوتے ہيں جو ان کلموں کے معنی اور مقصد پر غور کرتے ہوں گے ۔ يہ چھ کلمے دراصل اسلام ميں داخلے کا امتحان ہيں جس کے بعد مسلمان ہونے کی کئی اور منازل بھی ہيں ۔ صرف چھٹا کلمہ نقل کر رہا ہوں تاکہ سب اپنا احتساب کريں کہ انہيں اسلام ميں داخلہ مل گيا ہے يا نہيں ؟

چھٹا کلمہ

اَللَّھُمَ اِنیِ اَعُوذُ ِبکَ مِن اَن اُشرِکَ بِک شَیئًا وَّاَنَا اَعلَمُ بِہٖ وَ اَستَغفِرُکَ لِمَالَا اَعلَمُ بِہٖ تُبتُ عَنہُ وَ تَبَرَّاَتُ مِنَ الکُفرِ و َالشِّرکِ وَ الکِذبِ وَالغِیبَۃِ وَ البِدعَۃِ وَ النَّمِیمَۃِ وَ الفَوَاحِشِ وَ البُہتَانِ وَ المَعَاصِی کُلِّھَا وَ اَسلَمتُ وَ اَقُولُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ

اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے ساتھ کسی کو شریک کروں اور وہ میرے علم میں ہو ۔ اور میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ میں نے اس سے توبہ کی اور میں بیزار ہوا کفرسے اور شرک سے اور جھوٹ سے اور غیبت سے اور ہر نئی بات سے جو بری ہو اورچُغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور کسی پر بہتان باندھنے سے اور ہر قسم کی نافرمانی سے اور میں اسلام لایا اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں

آج کی اہم ملکی جبريں

ہم دنيا کی بہترين قوم ہيں اسلئے ہماری ہر چيز بہترين اور اچھوتی ہے
دوسرے مُلکوں کی خبريں ہوتی ہيں مگر ہمارے مُلک ميں جبريں ہوتی ہيں
حاضر ہيں آج کی اہم جبريں ۔ ہر جبر کے 2 حصے ہوں گے ۔ پہلا ۔ جو کہا گيا اور دوسرا ۔ جو مطلب ہے

صدرِ محترم کا گلا پھاڑ اعلان
“عوام دستی کو چاہتے ہیں تو تم کیا کر سکتے ہو”
مطلب ۔ عوام دھوکے باز ہيں تو کيا وہ ديانتدار شخص کو پسند کريں گے ؟

عدلیہ سے مخاطب ہو کر ” آپ مان لیں کہ عوام اصل طاقت ہیں”
مطلب ۔ اعلٰی عدالتوں کو ميں ياد دہانی کراتا ہوں کہ ہمارے جيالوں کا جتھہ جس سڑک سے گذرتا ہے اس سڑک پر کوئی چيز سلامت نہيں رہتی ۔ ديکھتے نہيں ہم کراچی ميں بولنے والوں کو کتنی صفائی سے راستہ سے ہٹا رہے ہيں

” اپنے دوستوں کو صبر کی تلقین کرتا ہوں”
مطلب ۔ ابھی تو ميں نے ايک ارب ڈالر سے کچھ اُوپر جمع کيا ہے ۔ صبر سے کام ليں ۔ کم از کم 10 ارب ڈالر تو کر لينے ديں پھر اگر کچھ بچ گيا تو تم لے لينا

حکومت کا اعلان
حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے تحت بجلی کے نرخوں میں آج بروز جمعرات یکم جولائی سے 7.6 فیصد فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ روز کے 14 پيسے فی يونٹ اضافے سے الگ ہے
مطلب ۔ ہميں ووٹ دو گے تو ايسے ہی مزے پاؤ گے ۔ ہم سے کچھ تو سيکھو ۔ بِل ادا کرنا ہے تو مال بناؤ ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں نہيں ہيں کيا ؟

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کا اعلان
جن علاقوں میں چوری کی شرح 10 فیصد سے کم ہے وہاں لوڈشیڈنگ 3 سے 2 گھنٹے کر دی جائے گی۔ وقت پر بل ادا کرنے والوں کو کچھ فری یونٹ دیئے جائیں گے
مطلب ۔ بجلی ضرور چوری کرو بھائی مگر کچھ ہماری اِجت کا بھی کھيال رکھو ۔ بھائی تھوڑا سا بِل تو ادا کر دو ۔ ہم اُس ميں سے بھی کچھ يونٹ مُفت کر ديں گے ۔ بھائی جرا کھيال کرو ہماری اِجت کا

عوام کا اعلان
چنيوٹ ميں غربت سے تنگ آکر خاتون نے 2 بچوں سمیت دریا میں کود کر خودکشی کرلی
مطلب ۔ عوام کے پاس اب ايک ہی طاقت رہ گئی ہے اس جمہوريت ميں ۔ سُنا تو تھا کہ جمہوريت کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہيں

جانتے ہيں يہ کيا ہے ؟

عصرِ حاضر ميں معلومات بہت زيادہ ہو گئی ہيں مگر ماہرين کہتے ہيں کہ تاريخ کمزور ہے ۔ صرف 5 سے زيادہ اور 6 سے کم دہائياں پرانی بات تو سب کو معلوم ہونا چاہيئے

نيچے تصوير ديکھ کر بتايئے کہ ہوائی جہاز پر کيا لادا جا رہا ہے ؟

چلئے کچھ اشارہ ديتا ہوں کہ يہ 1956ء کا واقعہ ہے ۔ آيا کچھ سمجھ ميں ؟
*
*
*
جواب نيچے ہے
*
*
*
يہ 5 ميگا بائٹ [5MB] کی ہارڈ ڈسک ڈرائيو ہے آئی بی ايم کے پہلے سُپر کمپيوٹر 305 رامَک کی جس کا اجراء ستمبر 1956ء ميں کيا گيا تھا ۔ اس ہارڈ ڈسک ڈرائيو کا وزن 1000 کلو گرام سے زيادہ تھا

حيران ہونے کی ضرورت نہيں ۔ 1980ء ميں ہمارے ادارے ميں آئی بی ايم کا مين فريم کمپيوٹر تھا اُس کی ہارڈ ڈِسک ڈرائيو 50 ميگابائيٹ کی تھی ۔ جب ميں نے اپنے دفتر کيلئے 1987ء ميں 20 ميگا بائٹ ہارڈ ڈِسک ڈرائيو والا پی سی خريدا تو لوگ اُسے ديکھنے کيلئے آتے تھے اور حيران ہوتے تھے ۔ اس وقت ميں 250 جی بی والے کمپيوٹر پر کام کر رہا ہوں ۔ آجکل 8 جی بی کی يو ايس بی فليش ڈرائيو عام ملتی ہے اور آئی فون 32 جی بی والا ملتا ہے

قوتِ ارادی اور ماں کی دعا

سائنس نے بہت ترقی کی ۔ موت کی رفتار تو بڑھ گئی مگر زندگی بے آسرا ہی رہی
بنکر بسٹر بم [Bunker Buster Bomb] تو بہت بنا لئے گئے مگر ماں کی محبت کو پھيلانے والا آلہ کسی نے نہ بنايا
پستول ۔ بارود اور ہيروئين بھانپ لينے والے آلات تو بن گئے مگر ماں کے احساسات کو پڑھنے يا ناپنے والا کوئی آلہ ايجاد نہ ہوا
انسان نے بڑے پيمانے پر فنا اور کُشت و خون کے تيز رفتار طريقے تو ايجاد کر لئے مگر ماں کی قدر و منزلت اُجاگر کرنے کوئی آلہ نہ بن سکا

ميں اپنی ماں سے آج سے 30 سال قبل 29 جون 1980ء کو ہميشہ کيلئے جُدا ہو گيا تھا اور جيسے ساتھ ہی قبول ہونے والی پُرخلوص دعاؤں سے بھی محروم ہو گيا

اے جوانوں جن کی مائيں زندہ ہيں وقت کو ضائع مت کرو اور اپنی ماؤں کی اتنی خدمت کرو کہ ماں کے جسم کے ہر رونگٹے سے دعا نکلے
ماں کی دعا اللہ نہيں ٹھکراتا کيونکہ وہ ڈانٹتی ہے تو ہونٹوں سے ۔ دعا ديتی ہے تو دل کی گہرائيوں سے

اس حوالے سے ايک اچھوتا واقعہ

لانس آرام سٹرانگ 1971ء میں پیدا ہوا ۔ وہ دو ہی سال کا تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں اس وقت بمشکل 19 برس کی تھی۔ اس نے مختلف جگہوں پر نوکریاں کرکے لانس آرم سٹرانگ کو پالا اوربچپن ہی میں اسے اتھلیٹ بننے کی تربیت دی۔ وہ اسے باقاعدہ اتھلیٹک کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے لے جاتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ لانس آرم سٹرانگ نے سائیکلنگ کو اپنے لئے منتخب کیا اور 20 سال کی عمر میں امریکہ کی شوقیہ سائیکلنگ کا چمپئن بن گیا۔ 4 برس کے بعد سارے مقابلے جیت کر وہ سائیکلنگ کا عالمی چمپئن بن گیا

1996ء میں جب وہ عالمی چمپئن بن چکا تھا تو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ اسے کینسر ہے اور یہ کینسر پھیپھڑوں اور دماغ تک پھیل چکا ہے۔ اس موذی مرض کا راز اس وقت کھلا جب آرام سٹرانگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر سائیکلنگ کے مقابلے جیت چکا تھا، وہ اپنے سائیکل پر پہاڑوں کے دل روند چکا تھا اور صرف 21 برس کی عمر میں امریکہ کے ہیرو کا درجہ حاصل کرچکا تھا ۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق آرم سٹرانگ کے زند ہ رہنے کے امکانات 40 فیصد سے زیادہ نہ تھے کیونکہ سرطان جسم کے اندر خطرناک مقامات تک پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ اب آرم سٹرانگ کبھی سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے گا اور وہ جسمانی طور پر کسی بھی کھیل کے لئے فِٹ نہیں ہوگا۔ جب یہ ساری رپورٹیں آرم سٹرانگ کو دکھائی گئیں تو اس نے جان لیوا بیماری کے سامنے ہار ماننے سے انکارکردیا اور اعلان کیا کہ وہ ڈٹ کر اور مضبوط قوت ِ ارادی کے ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرے گا اور کھیل کے میدان کی مانند بیماری پر بھی فتح حاصل کرے گا۔ 1996ء میں اس کا علاج شروع ہوا اور اس کی شدید کیموتھراپی کی جانے لگی۔ کیموتھراپی سے کینسر کا مریض کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے، اکثر اوقات اس سے بال جھڑ جاتے ہیں اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے لیکن آرم سٹرانگ کی قوت ِ ارادی، بلند حوصلگی، جذبے اور یقین محکم نے رنگ دکھایا۔ اس کی ماں کی دعاؤں نے صحت یابی کی راہ ہموار کی اور 2سال کے اندر اندر آرم سٹرانگ نے بیماری کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ سرطان جیسے مرض کو بھی مضبوط قوت ِ ارادی سے شکست دی جاسکتی ہے

آرم سٹرانگ 2 سال بعد میدان میں اُترا تو پتہ چلا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے اور کھیلوں کی دنیا اسے ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ چکی ہے ۔ آرم سٹرانگ حالات سے گھبرانے والا اور ہار ماننے والا انسان نہیں تھا چنانچہ اس نے 1999ء میں دوبارہ سائیکلنگ ریس میں حصہ لیااور پھیپھڑوں کی کمزوری کے باوجود چوتھی پوزیشن لے کر دنیاکو حیران کر دیا۔ اس تمام عرصے میں آرم سٹرانگ کا اپنی ماں سے گہرا تعلق قائم رہا۔ وہ ماں سے کتنی محبت کرتا تھا اور اسے کیا مقام دیتا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہوتا ہے کہ آرم سٹرانگ نے 1992ء میں اوسلو ناروے میں منعقد ہونے والی عالمی ریس میں حصہ لیا اور دنیا بھر کے مشہور سائکلسٹوں کو شکست دے کر عالمی چمپئن بن گیا۔ اس کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہو کر ناروے کے بادشا ہ نے اسے ملاقات کی دعوت کااعزاز بخشا ۔آرم سٹرانگ نے یہ کہہ کردعوت نامہ مسترد کر دیا کہ جب تک میری ماں کو دعوت نہیں دی جاتی میں یہ دعوت نامہ قبول نہیں کروں گا چنانچہ ناروے کے بادشاہ نے آرم سٹرانگ اور اس کی ماں دونوں کو دعوت نامے بھجوائے اور ان کی عزت افزائی کی

آرم سٹرانگ کی مضبوط قوت ِ ارادی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ کینسر کو پوری طرح شکست دینے کے لئے 1999ء میں فرانس پہنچ گیا جہاں ہر سال سائیکلنگ کا عالمی مقابلہ ہوتا ہے جسے ٹور دی فرانس [Tour De France] کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس نے اس عالمی مقابلے میں حصہ لیا اور سب کو پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر مقابلہ جیت لیا ۔ اس کے بعد لانس آرم سٹرانگ مسلسل سات برس تک ٹور دی فرانس میں حصہ لیتا رہا اور عالمی چمپئن بنتا رہا اور مسلسل سات برس تک عالمی چمپئن بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جسے ماہرین کے مطابق شاید ایک سو برس تک توڑا نہ جاسکے

اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ِ آدم… یعنی اشرف المخلوقات کو ایک ایسی بے بہا صلاحیت، ناقابل تسخیر قوت اور نادر تحفے سے نوازا ہے جس کی تربیت کرکے اور جس سے کام لے کر انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اور جس کی قوت سے وہ نہ ہی صرف کائنات کو سرنگوں کرسکتاہے بلکہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے، موذی سے موذی مرض کو شکست دے سکتا ہے، پہاڑوں کے دل روند سکتا ہے، بلند ترین چوٹیوں کو مسخر کرسکتا ہے، سمندروں کے رخ موڑ سکتا ہے اور زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے

قدرت کی اس بے بہا صلاحیت اور نادر تحفے کا نام ہے قوت ِ ارادی

قدرت فیاض ہے اور قدرت یہ صلاحیت تمام انسانوں کو دیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اس صلاحیت سے کام لے کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں، کامیابیوں کی داستانیں بن جاتے ہیں جبکہ اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کرہءِ ارض پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رینگتے زندگی گزار دیتے ہیں

طالبعلم 10 سال سےلاپتہ

” میرے بیٹے کی خطا یہ تھی کہ اس کے چہرے پر داڑھی تھی” یہ الفاظ ہیں مغلی کے جو پچھلے 10 سال سے اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے۔ مغلی کا 23 سالہ بیٹا عاشق حسین ملک ساکنہ پیرباغ حیدر پورہ 12ویں جماعت کا طالب علم تھا اور ہائرسکنڈری سکول جواہر نگر میں زیر تعلیم تھا ۔ اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے عاشق کے بڑے بھائی محمد کمال نے کہا ”23 اور 24 مئی 1997ء کی درمیانی رات کو 20 گرینیڈرس جس کی قیادت کمانڈر اے اے ملک کررہے تھے اور ان کے ساتھ ایک نقاب پوش آدمی بھی تھا نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور عاشق کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے کہ محلہ کے ہی ایک اور نوجوان غلام قادر بٹ کا مکان دکھائے” ۔ محمد کمال کا مزید کہنا ہے کہ” بٹ کو فوج پہلے ہی حراست میں لے چکی تھی اور اسکا گھر دکھانے کابہانہ کرکے وہ عاشق کو گاڑی میں دھکیل کر بھاگ گئے”۔

محمد کمال نے بتایا کہ اگلے ہی دن وہ 20 گرینیڈرس کے کیمپ واقع گریند بڈگام پہنچ گئے لیکن وہاں فوج نے انہیں عاشق سے ملنے نہیں دیاجبکہ فوج نے یہ اعتراف کرلیا کہ عاشق اُن ہی کے پاس ہے۔ محمد کمال نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ”اپنادکھڑا سنانے کیلئے ہم پولیس کے پاس گئے مگرپولیس چوکی ہمہامہ نے ایف آئی آر درج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایس پی بڈگام کے ہدایات ہیں کہ فوج کے خلاف کوئی شکایت درج نہ کریں ”۔

محمد کمال کے مطابق پانچ دن کے بعد غلام قادر بٹ کو رہا کیا گیا اور اذیتوں کی داستان سناتے ہوئے بٹ نے انہیں بتایا کہ پورے پانچ دن ان دونوں (عاشق اور بٹ) کو ننگا رکھا گیا اور شدید انٹروگیشن کیا گیا ۔ پانچویں دن کپڑے پہننے کی اجازت دیکر بٹ کو رہا کیا گیا ”۔ کسمپرسی کی دلخراش داستان سناتے ہوئے محمد کمال کہتے ہیں” ایک سال تک ہم متعلقہ فوجی کیمپ کی خاک چھانتے رہے یہاں تک کہ وہ کیمپ وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گیا”۔ عاشق کے لواحقین نے فوج تو فوج سیاست دانوں اور ذمہ داروں تک کا دروازہ کٹھکھٹایا مگر کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ کمال نے کہا ”ہم متعلقہ ضلع کمشنر سے لیکر وزیر اعلیٰ تک درخواست لے کر پہنچے لیکن وہاں سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا ”۔

عاشق کی عمر رسیدہ ماں مغلی کا کہنا ہے ” انٹروگیشن سنٹروں سے لے کر سب جیل ، سب جیل سے لے کر ہرکسی جیل تک بیٹے کو ڈھونڈا لیکن کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔ یہاں تک کسی نے ایک بارافواہ پھیلائی کہ عاشق دلی کے تہاڑ جیل میں ہے، وہاں بھی پہنچے لیکن بے سود”۔

محمد کمال نے سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی ساخت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا ”کمیشن میں مقدمہ دائر کرنا فضول ہی ثابت ہوا کیونکہ گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد کمیشن نے فیصلہ سنانے کے بجائے اُنہیں یہ مشورہ دیا کہ کیس واپس لیکر معاوضہ لیجئے ”۔ محمد کمال کے بقول ایس ایچ آر سی نے انہیں یہ کہہ کر اور زیادہ مایوس کیا کہ کمیشن کو فوج کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

محمد کمال نے اپنی مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”کہ جب ہر جگہ سے خالی ہاتھ ہی لوٹے تو بعد میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور 20 گرینیڈرس اور کمانڈر اے اے ملک کے خلاف مقدمہ زیر نمبر 145/97 دائر کیا۔ ہائی کورٹ نے سیشن جج بڈگام کو تحقیقات کرنے کیلئے حکم نامہ بھیجا ۔ سیشن جج بڈگام نے گواہوں کے بیانات بشمول بٹ کے قلمبند کئے اور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور پولیس نے تب جاکے ایف آئی آرزیر نمبر 18/2005/342,365RPCمورخہ 3 فروری 2005ءکو درج کیا”۔ 2007ء میں منظر پر عام پر آئے زیر حراست ہلاکتوں کے واقعات کے حوالہ سے محمد کمال نے اپنے اندر کے ڈر کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے کہا ” گاندر بل اور سمبل کے قبرستانوں سے بے گناہ کشمیریوں کی لاشیں نکالے جانے کے بعد ہماری پریشانیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیاہے”۔

تحرير ۔ امتياز خان ۔ سرينگر ۔ مقبوضہ جموں کشمير

مياں بيوی ميں جنگ کيسے شروع ہوتی ہے

ايک خاوند گھر ميں اکيلا چھوٹے موٹے کام کر کے فارغ ہو گيا تو سمجھ ميں نہيں آ رہا تھا کيا کرے ۔ ٹی وی آن کيا اور ريموٹ کنٹرول سے چينل تبديل کرنے لگ گيا ۔ اتنی دير ميں بيوی آ گئی اور خاوند کے ساتھ صوفے پر بيٹھ کر بولی

بيوی “جانی ۔ ٹی وی پر کيا ہے ؟”

خاوند “خاک”

اور پھر جنگ شروع ہو گئی

———— ——— ——— ——— ——— ——— ———

بيوی سج دھج کر کہيں جا رہی تھی ۔ خاوند کو خدا حافظ کہا تو وہ بولا

خاوند ” واپس کب آؤ گی ؟”

بيوی ” کيوں ؟ ”

خاوند ” ميرا مطلب ہے کل ہماری شادی کی سالگرہ ہے ۔ کيسے منانے کا ارادہ ہے ؟ ”

بيوی ” ميرا جی چاہتا ہے کہ اب کے شادی کی سالگرہ ايسی جگہ مناؤں جہاں گئے کافی عرصہ ہو گيا ہے ”

خاوند ” تو پھر کيا خيال ہے کل کا دن باورچی خانہ ميں گذاريں ؟ ”

پھر جنگ شروع ہو گئی