کہاں ہيں انسانيت کا پرچار کرنے والے ۔ کيا امريکا اسی لئے ہر سال 3 ارب ڈالر اسرائيل کو ديتا ہے ؟
فرحان دانش کی تحرير پڑھ کر ميں اس امداد کی کاميابی کی دعا تو کر رہا تھا مگر ميرا دل کہہ رہا تھا ” يا اللہ خير ۔ ان لوگوں کے ساتھ اسرائيل صرف اتنی رعائت کر دے کہ انہيں واپس بھيج دے يا قيد کر لے”
نائين اليون کا بہانہ بنا کر امريکا اور اس کے حواريوں نے عراق اور افغانستان ميں لاکھوں بے قصور انسانوں کو بھون ديا اور مزيد بھون رہے ہيں اور اس کا دائرہ پاکستان تک بڑھا ديا ہوا ہے مگر امريکا اور برطانيہ کا ناجائز بچہ اسرائيل 1948ء سے متواتر دہشتگردی کر رہا ہے اور اس کے خلاف مذمت کی قرارداد بھی اسلئے منظور نہيں ہو سکتی کہ امريکا اُسے وِيٹو کر ديتا ہے ۔ اس ناجائز بچے کے پُشت پناہ امريکا برطانيہ روس اور يورپ کے کئی ممالک ہيں ۔ اور بدقستی ہے ہماری قوم کی کہ کچھ اپنے ہموطن بھی اسرائيل کی تعريف کئے بغير نہيں رہ سکتے
اب غزہ ميں محصور خوراک سے محروم فلسطينيوں کيلئے انسانی ہمدردی کے تحت امداد لانے والوں کو بھی اسرائيل نے اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنا ديا ہے
اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لانے والے ” آزادی بیڑے” میں شامل کشتیوں پر غزہ کے ساحل سے نزدیک سمندر میں حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادنے ہیلی کاپٹروں سے کشتیوں پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران جھڑپوں میں 16 امدادی کارکن ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔ اسرائیل نے اپنے دو فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔کشتیوں میں سوارکارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے کر اسرائیلی بحریہ نے امدادی کارکنوں کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس واحد آپشن اسدود کی بندرگاہ کا رُخ کرنا ہے تاکہ 10ہزار ٹن امدادی سامان میں سے کچھ کو اسرائیلی حکام غزہ منتقل کرسکیں ۔
صبح چار بجے ہونے والی اس کارروائی کا حکم اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے دیا۔قافلے میں ترکی اور یونانی سمیت چھ کشتیاں شامل ہیں ۔ اسرائیلی کارروائی کے بعد ترکی نے انقرہ میں اسرائیلی سفیر کو طلب کرلیا جب کہ مشتعل افراد نے استنبول میں اسرائیلی قونصل خانے پر دھاوا بولنے کی بھی کوشش کی