غزہ ميں اسرائيلی دہشتگردی

نيچے غزہ ميں اسرائيل کی دہشتگردی کے چند نمونے ہيں جو بين الاقوامی تنظيموں کے ذريعہ وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتے رہے ۔ اسرائيل کی شايد يہی کاروائياں امريکا کو اسرائيل کی پُشت پناہی اور مدد کرنے پر مجبور کرتی ہيں کيونکہ امريکا کی زبان ميں يہ اسرائيل کا جمہوری حق ہے اور عراق اور افغانستان پر قابض امريکی فوج کے خلاف بولنا بھی دہشتگردی ہے . اسرائيلی فوج نے ہسپتال پر بھی ميزائل مارا

اسرائيلی درندگی کے نمونے اِن شاء اللہ دوسری قسط ميں ۔ اسرائيل نے غزہ ميں رہنے والے معصوم بچوں پر نہ صرف تشدد کيا بلکہ بے دردی سے شيرخوار بچوں کو ہلاک بھی کيا

آج کی تاريخ

آج سے 55 سال قبل يعنی 2 جون 1955ء کو ميرے دادا جان اچانک وفات پا گئے تھے ۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِليَہِ رَجِعُون ۔ اُن دنوں ہم مکان نمبر آر ۔ 166 جھنگی محلہ راولپنڈی ميں رہتے تھے ۔ اس طرح ميرا روزانہ کا تاريخی تربيتی اور معلوماتی پروگرام ختم ہو گيا جو دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد دادا جان کی ٹانگيں اور بازو سہلاتے ہوئے سالہا سال سے مجھے ميسّر تھا

غیرت

غیرت کا جو استعمال وطنِ عزیز میں ہے اُسے دیکھ کر بعض اوقات کہنا پڑتا ہے کہ ایسی غیرت سے ہم باز آئے ۔ دو مثالیں ذہن میں آئی ہیں ايک اَن پڑھ گھریلو ملازم کی اور دوسری پڑھے لکھے افسر کی

اَن پڑھ کی غيرت
واقعہ ہے 1980ء کی دہائی کا ۔ ایک عورت نے ميری بيگم کے سامنے اپنی مُفلسی بيان کر کے ملازمہ رکھنے کی درخواست کی ۔ اُسے گھر کا کام کرنے کيلئے اسے رکھ ليا گيا اور اس کے خاندان کو اپنی رہائشگاہ سے منسلک کوارٹر میں رہائش دی ۔ اُن کی حالت يہ تھی کہ گال پچکے ہوئے کپڑے خستہ ۔ ميری بيوی مدد کرتی رہی ۔ اللہ نے کرم کيا دوڈھائی سال میں سب صحتمند اور خوشحال ہو گئے ۔ ايک دن اس ملازمہ نے بدتميزی کی جس پر ميری بيوی نے صرف اتنا کہا “ميرے سامنے اس طرح بولتے ہوئے تمہيں شرم نہيں آتی”۔ کچھ دن بعد وہ لوگ کوارٹر خالی کر کے چلے گئے ۔ ڈيڑھ دو سال بعد اس ملازمہ کا خاوند مجھے سڑک پر ملا ۔ کپڑے ميلے کچلے ۔ قميض پھٹی ہوئی ۔ گال چار سال قبل کی طرح پچکے ہوئے ۔ حال احوال پوچھا تو جن کے ہاں کام کيلئے رہ رہے تھے اُن کے ظلم کی داستان سنائی
میں نے کہا کہ “واپس ہمارے پاس آ جاتے”
کہنے لگا “غيرُت آنی آئی [غیرت کی وجہ سے نہيں آيا]”

پڑھے لکھے کی غيرت
دو دہائيوں سے زيادہ عرصہ ہوا کہ ٹيکسلا میں ایک شخص قتل ہو گيا ۔ قصہ مختصر يوں تھا کہ ‘ب” نے “ج” کے گھر والوں کے ساتھ کوئی زيادتی کی جبکہ “ج” گھر پر موجود نہ تھا ۔ گھر آنے پر واقعہ کا عِلم ہوا تو “ج” نے “ب” کے گھر جا کر اُسے آواز دی ۔ جب “ب” باہر نہ نکلا تو “ج” نے “ب” کو بُرا بھلا کہا ۔ تھوڑی دير بعد “ب” ہاتھ میں پستول لئے نکلا اور آتے ہی “ج” کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹريز کی انتظاميہ میں ايک گریڈ 18 کے افسر جنہوں نے ماسٹر آف ایڈمن سائنس پاس کيا ہوا تھا ٹيکسلا میں رہتے تھے ۔ میں نے اُن سے قتل کی وجہ دريافت کی تو وہ يوں گويا ہوئے “دیکھيں نا جی ۔ غيرت بھی کوئی چيز ہوتی ہے ۔ “ج” نے “ب” کو گالياں ديں ۔ “ب” کو غيرت تو آنا تھی ۔ اُس نے جو کيا درست کيا ”

امريکا کا پالتو دہشتگر

کہاں ہيں انسانيت کا پرچار کرنے والے ۔ کيا امريکا اسی لئے ہر سال 3 ارب ڈالر اسرائيل کو ديتا ہے ؟

فرحان دانش کی تحرير پڑھ کر ميں اس امداد کی کاميابی کی دعا تو کر رہا تھا مگر ميرا دل کہہ رہا تھا ” يا اللہ خير ۔ ان لوگوں کے ساتھ اسرائيل صرف اتنی رعائت کر دے کہ انہيں واپس بھيج دے يا قيد کر لے”

نائين اليون کا بہانہ بنا کر امريکا اور اس کے حواريوں نے عراق اور افغانستان ميں لاکھوں بے قصور انسانوں کو بھون ديا اور مزيد بھون رہے ہيں اور اس کا دائرہ پاکستان تک بڑھا ديا ہوا ہے مگر امريکا اور برطانيہ کا ناجائز بچہ اسرائيل 1948ء سے متواتر دہشتگردی کر رہا ہے اور اس کے خلاف مذمت کی قرارداد بھی اسلئے منظور نہيں ہو سکتی کہ امريکا اُسے وِيٹو کر ديتا ہے ۔ اس ناجائز بچے کے پُشت پناہ امريکا برطانيہ روس اور يورپ کے کئی ممالک ہيں ۔ اور بدقستی ہے ہماری قوم کی کہ کچھ اپنے ہموطن بھی اسرائيل کی تعريف کئے بغير نہيں رہ سکتے

اب غزہ ميں محصور خوراک سے محروم فلسطينيوں کيلئے انسانی ہمدردی کے تحت امداد لانے والوں کو بھی اسرائيل نے اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنا ديا ہے

اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لانے والے ” آزادی بیڑے” میں شامل کشتیوں پر غزہ کے ساحل سے نزدیک سمندر میں حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادنے ہیلی کاپٹروں سے کشتیوں پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران جھڑپوں میں 16 امدادی کارکن ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔ اسرائیل نے اپنے دو فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔کشتیوں میں سوارکارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے کر اسرائیلی بحریہ نے امدادی کارکنوں کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس واحد آپشن اسدود کی بندرگاہ کا رُخ کرنا ہے تاکہ 10ہزار ٹن امدادی سامان میں سے کچھ کو اسرائیلی حکام غزہ منتقل کرسکیں ۔

صبح چار بجے ہونے والی اس کارروائی کا حکم اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے دیا۔قافلے میں ترکی اور یونانی سمیت چھ کشتیاں شامل ہیں ۔ اسرائیلی کارروائی کے بعد ترکی نے انقرہ میں اسرائیلی سفیر کو طلب کرلیا جب کہ مشتعل افراد نے استنبول میں اسرائیلی قونصل خانے پر دھاوا بولنے کی بھی کوشش کی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اِن شَاء اللہ

اِن شَاء اللہ کا مطلب ہے اگر اللہ نے چاہا ۔ ظاہر ہے کہ اللہ صرف اچھی بات چاہتا ہے ۔ ہمارے ہاں گفتگو ميں اِن شَاء اللہ کا استعمال کرتے ہوئے اس حقيقت کو بالکل فراموش کر ديا جاتا ہے

کچھ لوگ کسی کو بد دعا ديتے ہوئے يا بُرا کہتے ہوئے بھی ساتھ اِن شَاء اللہ کہتے ہيں ۔ يہیں بس نہيں ايسا کام يا عمل کرنے سے پہلے جو کہ گناہ ہے اِن شَاء اللہ کہا جاتا ہے جيسے کسی فلم ميں ناچنے والی اپنی کاميابی کيلئے اِن شَاء اللہ کا استعمال کرے

کچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو اُس کام کيلئے اِن شَاء اللہ استعمال کرتے ہيں جسے کرنے کا اُن کا ارادہ نہيں ہوتا ۔ اس کے برعکس کوئی کہے “اِن شاء اللہ ميں آؤں گا يا يہ کام کر دوں گا” تو کہا جاتا ہے کہ “تم نے نہيں کرنا”۔ ايک بار ميرے ساتھ ايسا ہوا تو ميں نے پوچھا “آپ کيسے کہہ سکتے ہيں کہ ميں نہيں آؤں گا ؟” جواب ملا “جو کام نہيں کرنا ہوتا اُس کے ساتھ اِن شَاء اللہ لگا ديا جاتا ہے”

اللہ ہميں دين کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

اِک نئی مصيبت

آج لاہور ماڈل ٹاؤن میں دہشتگرد قادیانیوں کی عبادت گاہ میں داخل ہو گئے اور لوگوں کو محصور بنا لیا ۔ پنجاب کی پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 5 حملہ آور ہلاک ہوئے اور ایک کو زندہ گرفتار کر کے اُس کی خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنا دیا گيا۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے 5 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے ۔ پولیس حکام اور ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔

اسی طرح کا حملہ گڑھی شاہو میں بھی ہوا ہے جس ميں دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ پولیس کے جوانوں نے قریبی عمارتوں پر پوزیشنیں سنبھال لی ہیں جبکہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے عبادت خانے کے قریب جانے کی کوشش کی جارہی ہے

کھری کھری سُنا ديں

دس بارہ سال قبل جو حالت تھی عوام اُس سے بھی خوش نہ تھے مگر اُس کے مقابلے ميں آج جو حالت ہے اُس کا اندازہ ميں اس سے لگاتا ہوں کہ 1999ء ميں چکی کا آٹا يعنی مکمل گندم چھوٹی چکی پر پِسی ہوئی 10 روپے فی کلو گرام اور ايک سال پرانے چاول سُپر باسمتی 25 روپے فی کلو گرام خريدتا تھا ۔ اب وہی آٹا 35 روپے اور وہی چاول 90 سے 110 روپے ميں خريدتا ہوں

چاروں طرف شور مچا ہے “حُکمران چور ۔ حُکمران کھا گئے ۔ حُکمران کچھ نہيں کرتے”۔ اس شور کو سُن کر مجھے يہ کہانی ياد آتی ہے جو کسی بزرگ نے تين دہائياں قبل سنائی تھی

ہمارے لوگوں کا شغف ہے کہ حکومت کو جب تک بُرا نہ کہا جائے حُب الوطنی اور ذہانت ثابت نہيں ہوتی ۔ ايک محفل ميں اسی طرح حکومت کو باری باری کوسا جا رہا تھا کہ آخر ميں چوہدری صاحب بولے “ميں نے تو ڈی سی کو کھری کھری سُنا ديں”

سب انگشت بدنداں رہ گئے ۔ ايک شخص جو خاموش بيٹھا سب کی باتيں سُن رہا تھا بولا “چوہدری صاحب ۔ اگر آپ پھر کبھی ڈی سی کے پاس جائيں تو مجھے ضرور بتائيں”

اگلے ماہ چوہدری صاحب نے اُسے بتايا اور وہ وقت مقررہ پر چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گيا ۔ چوہدری صاحب اُسے ساتھ لے کر ڈی سی کے دفتر کے پچھلی طرف پہنچے ۔ شام کے چھ بجے تھے وہاں کوئی آدم زاد نہ تھا ۔ چوہدری صاحب نے ڈی سی پر لعن طعن شروع کی حتٰی کہ گالی گلوچ تک پہنچ گئے ۔ وہ شخص حيران و پريشان ديکھتا رہا ۔ جب چوہدری صاحب تھک گئے تو اُس شخص سے کہنے لگے “چلو چليں”
اُس شخص نے کہا “چوہدری صاحب ۔ يہاں تو کوئی بندہ ہے نہ بندے کی ذات ۔ آپ نے گالياں کس کو دی ہيں ؟”
چوہدری صاحب جھٹ سے بولے ” کيا تم چاہتے ہو کے ميں ڈی سی کو اُس کے سامنے گالياں دوں ؟ مجھے اندر کروانا ہے ؟”