بلاگستان کی پی پی

میرا معمول ہے کے صبح سویرے پھر دوپہر اور پھر شام کو بلاگستان کھول کر نظر ڈالتا ہوں کیا نیا ہے

آج جو صبح سویرے کھولا تو پی پی (PP) نظر پڑی ۔ آگے بڑھا تو اور پی پی (PP) ۔ آگے اور پھر اور پی پی (PP) ۔

میں بھی ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھتا گیا حتٰی کہ وہ تحاریر شروع ہو گئیں جو گذشتہ شام کو دیکھی تھیں

چنانچہ اس حد تک مبلغ ڈیڑھ درجن پی پی (PP) یعنی پوری 18 عدد پی پی (PP) تحاریر گِن چکا تھا نصف جن کے 9 ہوتے ہیں

شاید اسلئے کہ آج پی پی (PP) کی ایک بڑی لیڈر کا یومِ وصال ہے

اس وقت تک میری پی پی (PP) بول گئی

دہشتگردی کا ذمہ دار کون ؟

ریاض شاہد صاحب کی تحریر پر میرے تبصرے کے حوالے سے ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے تاریخی حقائق لکھے ہیں جو ہمیں اخباروں ۔ رسالوں اور کتابوں میں نہیں ملتے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ نقل کر رہا ہوں ۔ جس کے بعد ایک نکتے کی کچھ وضاحت درج ہے

در اصل اس معاملے کو ہر ایک اپنی عینک سے دیکھ کر عینک کے شیشے کے رنگ کے مطابق فیصلہ دیتا ہے۔ جتنے مُنہ اتنی باتیں کے مصداق میں بھی رائے دینے کا مرتکب ہو رہا ہوں ۔ مجھے جب ایک کینیڈین ویب سائٹ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ اگر روس 1979ء میں افغانستان میں داخل نہ ہوتا تو پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین 1980ء کی دہائی کے شروع میں ہی کابل پر قابض ہوجاتے تو میں حیران ہوا۔
میرے ایک دو جاننے والے ہیں جو افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین کسی نہ کسی طرح اس کانفلکٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانیوں کی تربیت مذہبی بنیادوں پر کی۔ ان کو قلعہ بالا حصار میں تیار کیا گیا۔ 1973ء میں یہ کام شروع ہوا اور 1975ء میں اسلام پسندوں نے ایک عدد بغاوت کی جو ناکام ہوئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کا سب سے پہلا ریلا 1975ء میں آیا تھا۔ چار سال بعد روس افغانستان میں داخل ہوا۔ ایک عدد سپر پاور کو جب آپ اس حد تک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر آپ کو مدد کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا ء کو جو پالیسی ملی، اس نے حالات کی وجہ سے اس کو جاری رکھا۔
اگر جنرل ضیاء اس پالیسی پر عمل کی وجہ سے مطعون قرار پا سکتا ہے تو اس پالیسی کا بانی کیوں نہیں ؟ 1994ء ۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جن کا ذکر آپ نے کیا ، طالبان کو آرگنائز کرنے میں براہ راست ملوث تھے۔ جنرل ضیاء کو گالیاں کیوں؟
جنرل ضیا ء کو گالیاں ایک خاص طبقہ شوق سے دیتا ہے اور وہ اپنے نظریئے کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ آج کل فیشن ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جس کو کچھ علم نہیں اٹھتا ہے اور ضیاء مرحوم کو تختہ ء مشق بنا لیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جنرل ضیا ء ایک فرشتہ تھا، مگر عدل کا تقاضا ہے کہ آپ اس کو اس بات کا الزام نہ دیں جس کا ارتکاب اس نے کیا ہی نہ ہو۔ باقی آپ اپنا نظریہ قائم کرنے میں آزاد ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم سب، یا ہمارے آباء ذمہ دار ہیں۔ اتنی زیادہ خرابی صرف ایک شخص کے اقدامات کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات مندرجہ بالا حوالاجات میں پڑھی جا سکتی ہیں

میں ساڑھے چھ سال قبل اس موضوع پر مندرجہ ذیل تحاریر لکھ چکا ہوں ۔ اس میں ”3 ۔ افغان جہاد“ میں 1975ء کی بغاوت کا ذکر ہے
1 ۔ طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ ۔ 2 ۔ افغانوں کی تاریخ کا خاکہ ۔ 3 ۔ افغان جہاد ۔ 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا ۔ 5 ۔ ہیروئین کا کاروبار ۔ 6 ۔ پاکستانی طالبان ۔ 7 ۔ ذرائع ابلاغ کا کردار۔
قاضی حسین احمد کی تاریخی تحریر جو 2 قسطوں میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی

میرے مطالعہ اور تحقیق سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے افغانیوں کی تربیت ”مذہبی بنیادوں پر“ نہیں کی تھی بلکہ مذہب کا نام استعمال کر کے کرائے کے جنگجو تیار کروائے تھے جنہیں محمد داؤد خان کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ خیال رہے کہ 1973ء میں محمد داؤد خان نے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت حاصل کی تھی ۔ ظاہر شاہ امریکہ اور یو ایس ایس آر کا مشترکہ محبوب تھا ۔ محمد داؤد خان ایسے اقدامات کرتا رہا جس سے کبھی یو ایس ایس آر اور کبھی امریکہ کا طرفدار یا نمائیندہ ہونے کا تاءثر ملتا رہا لیکن آخر ایک دن اس نے اسلامی سلطنت کا اعلان کر کے سب کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا تھا

قائد اعظم اور قرآن

اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ”میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ“جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ
نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ حصہ اول میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے، اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن
سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔ (صفحات 239، 240)

غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941ء کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ءبحوالہ احمد سعید صفحہ 216)

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔

بشکریہ ۔ جنگ

تیرا احسان ہے

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی ۔ ۔ ۔ ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اُٹھا دین محمد کا سپاہی ۔ ۔ ۔ اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئے آیا سر میدان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا ۔ ۔ ۔ اس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ ۔ ۔ ۔ ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا ۔ ۔ ۔ نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا
سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا ۔ ۔ ۔ پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے ۔ ۔ ۔ سندھی بلوچی سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے ۔ ۔ ۔ ساتھ اپنے مہاجر لئے قرآن چل پڑے
اور قائد مِلت بھی چلے ہونے کو قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

نقشہ بدل کے رکھ دیا اس مُلک کا تو نے ۔ ۔ ۔ سایہ تھا محمد کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ اُلجھے ۔ ۔ ۔ لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد ۔ ۔ ۔ میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد ۔ ۔ ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ موقع

گذرے موقع پر افسوس کرتے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا
بلکہ
مزید عمر ضائع ہو جائے گی
اپنے آج کو ضائع نہ کیجئے

گذشتہ موقع سے سبق حاصل کیئے
اور
مُستبل پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Hidus Peace Loving ???

ریاض شاہد صاحب سے معذرت کے ساتھ

السلام علیکم
آپ کا مضمون ”بے جڑ کا درخت“ پڑھ کر اظہارِ خیال شروع کیا تو بہت طویل ہو گیا ۔ اسلئے اسے اپنے بلاگ پر شائع کرنے کا سوچا ۔ اس سلسلہ میں آپ سے معذرت کا خواستگار ہوں ۔ میں نے اس موضوع کا مطالعہ 1955ء میں شروع کیا تھا جب جمعہ کے خطبہ کے دوران راولپنڈی کے ایک مشہور خطیب کے ایک فقرے نے میرے ذہن کو پریشان کر دیا تھا

دراصل اس سارے فساد کی جڑ حکمران بھی ہیں ۔ حکومت کی مشینری بھی ہے اور عوام بھی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غلامانہ ذہنیت کے لوگ جو دین بیزار بھی تھے حکمران بننے میں کامیاب ہو گئے اور اُنہوں نے پاکستان کا آئین جو 1953ء میں مرتب کیا گیا تھا منظور نہ ہونے دیا جس کیلئے 1953ء میں حکومت توڑ دی گئی اور 1954ء میں اسمبلی کو بھی چلتا کیا

ایوب خان اچھا مسلمان نہ تھا لیکن اسلام دشمن بھی نہ تھا ۔ اُس نے اوقاف حکومت کے اختیار میں لانے کے بعد مساجد کو بھی سرکاری تحویل میں لانے کی کوشش کی تھی جسے اُن عوام نے جن کا زور ہمیشہ سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے ناکام بنا دیا تھا

ضیاء الحق نے بلا شُبہ غلطیاں کی ہیں ۔ البتہ مُلک میں دینیات کی درست تعلیم کا بندوبست کرنے کیلئے حُکم دیا تھا کہ سکولوں میں دینیات کے اساتذہ منظور شدہ مدرسوں سے کم از کم ایک سال کا کورس کر چکے ہوں ۔ پہلے 500 مدرس بھرتی کرنے کیلئے پاکستان کی مساجد کے اماموں کے کوائف اکٹھے کئے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک سال کے کورس والے خال خال ہی ہیں ۔ اگر 6 ماہ اور 3 ماہ کے کورس والے بھی شامل کر لئے جائین تو کُل 287 بنتے ہیں ۔
میں نے مختلف علاقوں میں جا کر سوال کیا کہ مدرسوں سے اتنے سارے لوگ جو تعلیم پاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ ایک تو معاوضہ بہت کم ہے دوسرے اللہ کی غلامی کرنے کی بجائے کچھ انسانوں کی غلامی کرنا پڑتی ہے ۔ بطور نمونہ ۔ آج سے 15 سال قبل میں نے معلوم کیا تھا تو بتایا گیا کہ مرکزی جامع مسجد اسلام باد المعروف لال مسجد کے امام کو پے سکیل 12 کی تنخواہ دی جاتی تھی اور ہمارے محلہ (ایف۔8 ) کی مسجد کے امام کا پے سکیل 9 تھا

1973ء کے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی جو صرف مشورہ دے سکتی ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ اس میں متنازعہ لوگ تعینات کئے جاتے رہے ہیں ۔ آجکل کی صورتِ حال یا دہشتگردی کا ملبہ سارا ضیاء الحق پر ڈالا جاتا ہے ۔ درست ہے کہ ضیاء الحق سیاسی لحاظ سے ملک کو نقصان پہنچنے کا سبب بنا لیکن وہ تو 1988ء میں مر گیا تھا ۔ موجودہ حالات کے ذمہ داروں کی تربیت اور بالیدگی 1994ء میں ہوئی جب مُلا عمر اپنے کچھ طالبعلموں کے ساتھ ایک ماں کی فریاد پر اُٹھ کھڑا ہوا جس نے مسجد میں آ کر واویلا کیا تھا ”میں تمہارے دین اور تمہارے اللہ کو کیا کروں ۔ میری جوان بیٹیاں دن دیہاڑے اُٹھا کر لے گئے ہیں ؟“ ہوتے ہوتے بہت سے ستم رسیدہ افغان اُس کے ساتھ مل گئے اور بغیر جنگ کے مُلا عمر آدھے افغانستان پر چھا گیا ۔ انہیں لوگوں نے طالبان کا نام دیا حالانکہ وہ سب طالبان نہ تھے
اُس وقت پاکستان کے حکمرانوں کو نامعلوم کیا سوجھی تھی کہ اُس وقت کے وزیرِ داخلہ جو پشاور کے رہائشی تھے اور میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے نے تحریک طالبان پاکستان ترتیب دی اور ان لوگوں کی عسکری تربیت کا بندوبست بھی کیا

مزید یہ کہ جس ملک کے پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں سے زیادہ خود پسند اور انتہاء پسند ہوں وہاں اس سے بہتر کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟

آج کے سب مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ ہر شخص دوسرے کو بُرا کہنے کی بجائے اپنے گریبان میں اچھی طرح دیکھے ۔ جتنے عیب اُسے چمٹ چکے ہیں اُن سے چھٹکارہ حاصل کرے اور فیصلہ کر لے کہ
آئیندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا
سُنی بات کسی اور سے بیان کرنے سے پہلے تصدیق کروں گا کہ کیا وہ سچ ہے ۔ اس پرکھ کے بعد بھی اُس صورت میں کسی دوسرے سے بیان کروں کہ اس سے معاشرے کو فائدہ پہنچے گا ورنہ اپنا منہ بند رکھوں گا

ہماری روانگی اور پاکستان آمد

کرنل عبدامجید کے بھائی جموں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے ۔ نومبر 1947ء کے وسط میں وہ چھاؤنی آئے اور بتایا کہ” شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ امن ہو جائے گا ۔ جموں کے تمام مسلمانوں کے مکان لوٹے جاچکے ہیں اور تمام علاقہ ویران پڑا ہے” ۔ واپس جا کر انہوں نے کچھ دالیں چاول اور آٹا وغیرہ بھی بھجوا دیا ۔ چار ہفتہ بعد ایک جیپ آئی اور ہمارے خاندان کے 6 بچوں یعنی میں ۔ میری 2 بہنیں ۔ 2 کزنز اور پھوپھی کو جموں شہر میں کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کے گھر لے گئی ۔ وہاں قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ 6 نومبر کو مسلمانوں کے قافلے کے قتل عام کے بعد خون سے بھری ہوئی بسیں چھاؤنی کے قریب والی نہر میں دھوئی گئی تھیں ۔ اسی وجہ سے ہم نے نہر میں خون اور خون کے لوتھڑے دیکھے تھے ۔ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور نیشنل کانفرنس کے مسلمانوں کے عِلم میں بھی وقوعہ کے بعد آیا ۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ہمیں دوسرے لاوارث اور زخمی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مدراسی فوجیوں کی حفاظت میں 18دسمبر 1947ء کو سیالکوٹ پاکستان بھیج دیا گیا ۔

میں لکھ چکا ہوں کہ میرے والدین فلسطین میں تھے اور ہم دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی اور پھوپھی بھِیڑ بھاڑ سے گبھرانے والے لوگ تھے اِس لئے انہوں نے پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہونے کی کوشش نہ کی ۔ جو عزیز و اقارب پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہوئے ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا
ہمارے بغیر ڈھائی ماہ میں ہمارے بزرگوں کی جو ذہنی کیفیت ہوئی اُس کا اندازہ اِس سے لگائیے کہ جب ہماری بس سیالکوٹ چھاؤنی آ کر کھڑی ہوئی تو میری بہنوں اور اپنے بچوں کے نام لے کر میری چچی میری بہن سے پوچھتی ہیں “بیٹی تم نے ان کو تو نہیں دیکھا” ۔ میری بہن نے کہا “چچی جان میں ہی ہوں آپ کی بھتیجی اور باقی سب بھی میرے ساتھ ہیں”۔ لیکن چچی نے پھر وہی سوال دہرایا ۔ ہم جلدی سے بس سے اتر کر چچی اور پھوپھی سے لپٹ گئے ۔ پہلے تو وہ دونوں حیران ہوکر بولیں ” آپ لوگ کون ہیں ؟ ” پھر ایک ایک کا سر پکڑ کر کچھ دیر چہرے دیکھنے کے بعد اُن کی آنکھوں سے آبشاریں پھوٹ پڑیں ۔

پاکستان پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دادا کا جوان بھتیجا جموں میں گھر کی چھت پر بھارتی فوجی کی گولی سے شہید ہوا ۔ باقی عزیز و اقارب 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے اور آج تک اُن کی کوئی خبر نہیں ۔ جب ہمارے بزرگ ابھی پولیس لائینز جموں میں تھے تو چند مسلمان جو 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے وہ چھپتے چھپاتے کسی طرح 7 نومبر کو فجر کے وقت پولیس لائینز پہنچے اور قتل عام کا حال بتایا ۔ یہ خبر جلد ہی سب تک پہنچ گئی اور ہزاروں لوگ جو بسوں میں سوار ہو چکے تھے نیچے اتر آئے ۔ وہاں مسلم کانفرنس کے ایک لیڈر کیپٹن ریٹائرڈ نصیرالدین موجود تھے انہوں نے وہاں کھڑے سرکاری اہلکاروں کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا “پولیس لائینز کی چھت پر مشین گنیں فِٹ ہیں اور آپ کے فوجی بھی مستعد کھڑے ہیں انہیں حُکم دیں کہ فائر کھول دیں اور ہم سب کو یہیں پر ہلاک کر دیں ہمیں بسوں میں بٹھا کے جنگلوں میں لے جا کر قتل کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیں یہیں قتل کر دیا جائے اس طرح آپ کو زحمت بھی نہیں ہو گی اور آپ کا پٹرول بھی بچےگا ” ۔ چنانچہ 7 اور 8 نومبر کو کوئی قافلہ نہ گیا ۔ اسی دوران شیخ عبداللہ جو نیشنل کانفرنس کا صدر تھا کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ اس نے نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کو شہروں سے ہٹا کر ان کی جگہ مدراسی فوجیوں کو لگایا جو مسلمان کے قتل کو ہم وطن کا قتل سمجھتے تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ پھوپھی اور خاندان کے باقی بچے ہوئے تین لوگ 9 نومبر 1947ء کے قافلہ میں سیالکوٹ چھاؤنی کے پاس پاکستان کی سرحد تک پہنچے ۔ بسوں سے اتر کر پیدل سرحد پار کی اور ضروری کاروائی کے بعد وہ وہاں سے سیالکوٹ شہر چلے گئے ۔