پہلی قسط يہاں کلک کر کے پڑھيئے
موجودہ افغانستان ۔ ایران اور ملحقہ علاقہ میں دین اسلام کا احیاء 652ء میں شروع ہوا اور بہت جلد چاروں طرف دین اسلام کی روشنی پھیل گئی ۔ 962ء سے 1140ء تک غزنوی مسلم ریاست قائم رہی جس دوران یہ علاقہ تہذیب کا مرکز اور اسلام کا قلعہ بنا (مشہور حُکمران محمود غزنوی کا دور نومبر 971ء سے اپریل 1030 تک تھا) ۔ 1130ء میں محمود غزنوی کی وفات کے بعد مرکز کمزور ہونا شروع ہوا اور 1140ء میں غوریوں نے غزنی پر قبضہ کر لیا ۔
افغانستان میں امریکا کی اکیسویں صدی کی سفّاکانہ غارت گری کی ماضی میں صرف ایک مثال ملتی ہے اور وہ تھی 1219ء اور 1221ء کے درمیان جب چنگیز خان نے اس علاقہ پر قبضہ کر کے قتلِ عام کیا ۔ املاک تباہ کیں اور ذرائع آبپاشی تباہ کر دیئے جس کے نتیجہ میں ذرخیز زمینیں بنجر ہو گئیں ۔
غوریوں کی چھِنی ہوئی حکومت 1332ء اور 1370ء کے درمیان دوبارہ اُن کے پاس رہی ۔ 1370ء سے 1404ء تک اس علاقہ پر تیمور لنگ نے حکومت کی ۔ 1451ء میں ایک افغان رہنما بہلول نے ہندوستان میں دہلی پر قبضہ کر کے پورے علاقہ میں لودھی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 1504ء اور 1519ء کے درمیان ایک مَوغُل بابر نے اس علاقہ میں مَوغُل سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ خیال رہے کہ منگول کو عربی میں مَوغُل کہا جاتا ہے اور ہند و پاکستان میں مُغل ۔ 1520ء اور 1579ء کے درمیان ایک منفرد افغانی بایزید روشن نے افغانوں کو اُبھارا اور مَوغُل حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی وہ لڑائی کے دوران 1579ء میں مارا گیا لیکن افغانوں کی مَوغُل حکمرانوں کے خلاف جدوجہد جاری رہی ۔ 1613ء اور 1689ء کے دوران خوشحال خان خٹک نے جو کہ ایک اچھا شاعر اور سالار بھی تھا افغانوں کو غیرمُلکی قبضہ کے خلاف منظم کیا ۔
اسی دوران 1622ء میں فارسیوں نے کچھ افغان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ 1708ء میں افغان آزادی کے علمبردار میر واعظ جس کا انتقال 1715ء میں ہوا نے قندھار آزاد کروا لیا ۔ میر واعظ کے بیٹے میر محمود نے 1722ء میں فارس کا علاقہ اصفہان فتح کر کے افغان سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اسی دوران دُرانیوں نے ہرات پر فارسیوں کا قبضہ ختم کروا لیا ۔ 1725ء میں میر محمود پُراسرار طور پر قتل ہو گیا اور افغان سلطنت پھر کمزور ہونے لگی ۔ 1736ء سے 1738ء تک فارس کے بادشاہ نادر شاہ نے جنوب مشرقی فارس ۔ جنوب مغربی افغانستان اور قندھار پر قبضہ کر لیا ۔ 1747ء میں نادر شاہ قتل ہوا اور افغان احمد شاہ ابدالی کی سربراہی میں ایک بار پھر اُبھرنا شروع ہوئے اور جدید افغانستان کی بنیاد رکھی اور 1750ء تک افغان سلطنت پھر وسط ایشیا سے دہلی تک اور کشمیر کے بلند پہاڑوں سے بحیرہ عرب تک پھیل گئی ۔ یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی جو 1834ء تک قائم رہی ۔
مئی 1834ء میں پشاور پر سِکھوں نے قبضہ کر لیا ۔ بعد میں اکبر خان کی سرکردگی میں افغانوں کی جمرود کے قریب سکھوں سے جنگ ہوئی اور مشہور سکھ سالار ہری سنگھ نالوہ مارا گیا اس وقت پشاور سے سکھوں کو نکال دیا جاتا اگر ایک افغان سالار دوست محمد خان سالارِ اعلٰی اکبر خان کی ہدایات پر قائم رہتا ۔ 1836ء میں دوست محمد خان کو امیر کا نام دے کر حکمران بنا دیا گیا اور وہ افغانستان کے تمام علاقوں کو متحد کرنے میں کوشاں ہو گیا ۔ اُسے مختلف قبائل کو اکٹھا کرنے میں کامیابی ہو رہی تھی کہ 1839ء میں انگریزوں نے ایک سابق بادشاہ شاہ شجاع کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ دوست محمد نے مقابلہ کیا مگر ابھی پوری طرح منظم نہ ہونے کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ دوست محمد کو ہندوستان کی طرف مُلک بدر کر دیا گیا اور شاہ شجاع کو انگریزوں نے اپنا کٹھ پُتلی بادشاہ [موجودہ حامد کرزئی کی طرح] بنا دیا ۔
جنوری 1842ء میں افغانوں نے شاہ شجاع کو ہلاک کر کے انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کر دی ۔ اکبر خان نے ایک بار پھر سالارِ اعلٰی کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان لشکر کی مدد سے 16500 افراد پر مشتمل انگریزوں کی پُوری فوج کا صفایا کر دیا جن میں سے صرف ایک فوجی زندہ بچا ۔ اس انگریز فوج میں ہندوستان سے بھرتی کئے ہوئے فوجی بھی شامل تھے ۔ افغان پھر خودمُختار ہو گئے ۔ 1843ء میں امیر دوست محمد خان نے واپس آ کر عنانِ حکومت سنبھال لیا ۔ 1845ء میں افغانوں کے قابلِ تعریف سالار اکبر خان کا انتقال ہوا ۔ انگریزوں نے نئی چال چلی اور 1859ء میں بلوچستان پر قبضہ کر کے افغانون کو زمین میں محدود کر دیا ۔
دوست محمد خان کی وفات کے بعد 1865ء میں روس نے سمرقند ۔ بُخارا اور تاشقند پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد 1873ء میں بقایا افغانستان کی سرحدوں کے احترام کا وعدہ کیا ۔ انگریزوں نے 1878ء میں دوبارہ افغانستان پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس کا افغانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وسائل کی کمی کے باعث 1879ء میں کُرم ۔ خیبر ۔ مشنی ۔ پشین اور سِبی انگریزوں کے قبضہ میں آ گئے ۔ 1880ء میں جب افغان مرد سالار جنگ میں مارے جا چکے تو ایک افغان خاتون ملالائی نے افغانوں کا پرچم تھاما اور انگریزوں کا نہائت دلیری سے مقابلہ کیا ۔ 1885ء میں روس نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنج دہ پر قبضہ کر لیا ۔ 1893ء تک انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں پاؤں جما چکی تھی سو اُنہوں نے اپنی مرضی سے ڈیورینڈ لائین بنا کر اسے افغانستان اور ہندوستان کی سرحد قرار دیا ۔ یہ ڈیورینڈ لائین اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہے جسے اس کے ارد گرد رہنے والے نہیں مانتے ۔ 1921ء میں انگریزوں نے تیسری بار افغانستان پر بھرپور حملہ کیا اور افغانوں سے شکست کھائی ۔
حبیب اللہ کلاکانی عُرف بچہ سقہ کا دور افغانستان میں 1929ء میں آیا ۔ اس کے بعد نادر خان نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے خوب لُوٹ مار کی ۔ 1933ء میں ایک طالبعلم نے نادر خان کو ہلاک کر دیا اور اُس کا بیٹا ظاہر شاہ تخت پر بیٹھا ۔ 1953ء میں محمد داؤد خان وزیرِ اعظم بنا لیکن 1963ء یا 1964ء میں ظاہر شاہ نے اُسے ہٹا کر ڈاکٹر محمد یوسف کو وزیرِ اعظم بنا دیا ۔