مجھے 23 جون 2008ء کو محمد سعد صاحب کا مندرجہ ذیل برقیہ ملا
میں افغانستان اور طالبان کے ماضی ۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل طالبان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں ۔ اور اگر درست نہیں تو ان کی حقیقت کیا ہے ۔ کیا آپ میری کچھ رہنمائی کر سکیں گے؟ اگر اس سلسلے میں بلاگ پر ایک تحریر ہو سکے تو اور بھی اچھا ہے کہ کئی دوسرے لوگ بھی پڑھ لیں گے ۔ آپ کو تنگ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ میں نے سوچا کہ آپ کو ایسی بہت سی باتیں معلوم یا یاد ہونگی جو آج کل مغربی میڈیا کی مہربانیوں سے پسِ منظر چلی گئی ہیں ۔ امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے
محمد سعد صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا گو مطالبہ ایک کتاب لکھنے کا کر دیا گیا ۔ میں انتہائی اختصار کے ساتھ صرف اُن لوگوں کے پسِ منظر اور کردار کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کروں گا جن کو طالبان کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ایک نشست میں سب لکھنا نہ صرف میرے لئے مشکل ہو گا کیونکہ ذاتی مجبوری کے تحت میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا بلکہ قارئین پر بھی اسے یکمُشت پڑھنا گراں گذرنے کا اندیشہ ہے ۔
کسی زمانہ میں موجودہ پورا افغانستان ۔ ایران کا جنوبی حصہ پاکستا ن کا صوبہ سرحد ۔ ریاست جموں کشمیر مع شمالی علاقہ جات اور پورا پنجاب دہلی سمیت ایک مسلم سلطنت ہوا کرتی تھی لیکن مسلسل غیرملکی سازشوں اور اندرونی ناچاقی نے اس عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا
دیگر جنوب مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے ۔ ان لوگوں نے کبھی جبر کی حکمرانی کو نہیں مانا ۔ وسائل کم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مالدار نہیں ہوتے لیکن بڑے دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ زرک خان اور اِیپی فقیر اسی علاقہ میں پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کو سالہا سال تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور ان دونوں کو ان کی انسان دوست عادت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھوکہ دہی سے گرفتار کیا گیا ۔
فی زمانہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں قدیم زمانہ سے جس پودے کی کاشت انسانی صحت کیلئے مفید بیج خشخاش یا خشخش حاصل کرنے کیلئے کی جاتی تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے اس پودے سے نشہ آور جنس افیون بنانے کی ترکیب ایجاد کی جس کے متعلق میں 13 دسمبر 2005ء کو لکھ چکا ہوں جس کا مختصر خُلاصہ یہ ہے :
”اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 مِٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔ انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی“ ۔
بیسویں صدی میں پوست کے اسی پودے سے یورپی سائنسدانوں نے ہیروئین بنائی اور اس کے کارخانے افغانستان کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں لگائے ۔ اِن کارخانوں کی معمل [laboratories] یورپی ممالک سے بن کر آئی تھیں ۔ یہ کاروائی دراصل اس علاقے کے صحتمند لوگوں کے خلاف ایک سازش تھی جس طرح کہ چینیوں کے خلاف سازش کی گئی تھی لیکن اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ خطرناک نشہ آور مادہ کی مقامی منڈی میں کوئی خاص مانگ نہ ہوئی اور اس کی ترسیل یورپ اور امریکہ کی طرف ہونے لگی ۔ جب امریکہ کو اس خطرہ کا احساس ہوا تو اُنہوں نے پوست کی کاشت پر بین الاقوامی طور پر پابندی لگانے کی مہم شروع کر دی ۔ جس کے نتیجہ میں اس علاقہ کے لوگ ایک سستے اور آسان نُسخہِ صحت خشخاش سے محروم ہو گئے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جب افغانستان پر مُلا عمر کا حُکم چلتا تھا تو ہیروئین کی افغانستان میں پیداوار صفر ہو گئی تھی اور اب جبکہ وہاں امریکا کا حُکم چلتا ہے دنیا میں ہیروئین کی کُل پیداواری مقدار کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں تیار ہو رہی ہے ۔