میری ذات

میں ذات پات کی بات کرنے نہیں جا رہا ۔ میرا موضوع ہے ”میں خود“۔

نوکیلے پتھروں پہ چل کے کانٹوں میں راہ بناؤ
یہ تیری زندگی ہے اجمل ۔ خیاباں نہیں ہے

میں نے 1947ء سے 1994ء تک کی اپنی زندگی کو چند الفاظ میں اُوپر لکھ دیا ہے ۔ نوکیلے پتھروں اور کانٹوں کی کچھ جھلکیاں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت سپُردِ قلم کر چکا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کی جھلک آج کی تحریر میں ملے گی اور میری عادات اور بچپن میں میرے معمولاتِ زندگی کا مختصر ذکر بھی موجود ہے
جو واقعات باقی ہیں اُن میں سے کچھ تو اسی طرح کے ہیں اور کچھ کو یاد کر کے میں اپنے لئے کرب کے لمحات پھر زندہ نہیں کرنا چاہتا ۔ اسلئے ان کا لکھنا مناسب نہیں

(1) وفاداری کس سے ؟ (2) سینے پر مُونگ (3) گفتار و کردار (4) گھر کی مُرغی (5) بابائے مشین گن (6) باس (7) میں چور (8) کہانی کیا تھی (9) لبیا اور یو اے ای کیسے گیا ؟ (10) مٹیریئل کہاں سے آتا ہے (11) کرے کوئی بھرے کوئی (12) پیٹھ میں چھُرا گھوپنا
1947ء کے واقعات بھی مختصر یہاں لکھے ہیں
(1) میرا بچپن (2) قتلِ عام کی ابتداء (3) میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی (4) 6 نومبر کا قتلِ عام

میری کچھ عادات کے سبب شاید مجھے اجنبی مخلوق سمجھا جائے

میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی
زندگی میں صرف ایک بار ایک لڑکے سے لڑائی ہوئی وہ بھی اسلئے کہ وہ میرے گلے پڑ گیا تھا
میں نے گلی میں کھیلنا یا کھڑے رہنا یا پُلی پر بیٹھنا کبھی پسند نہ کیا
بنٹے (گولیاں یا ماربلز) اور اخروٹ میں نے کبھی نہیں کھیلے
2 بار پتنگ اُڑائی ایک بار پاکستان بننے سے قبل اور ایک بار پاکستان بننے کے بعد
شاید 2 درجن بار پِٹھو گرم اور گلی ڈنڈا کھیلا ہو گا مگر میدان میں ۔ گلی میں نہیں
پاکستان بننے سے قبل ہمارے گھر کے سامنے ۔ داہنے اور بائیں مکانوں میں میرے علاوہ صرف ایک لڑکا تھا باقی سب لڑکیاں تھیں ۔ دوسرا لڑکا جو مجھ سے 4 سال بڑا تھا روندچی تھا اسلئے لڑکیاں صرف مجھے اپنے ساتھ کھلاتی تھیں چنانچہ میں رسی ٹاپنے کا ماہر ہو گیا تھا اور لڑکیوں والی دوسری کھیلیں بھی اچھی کھیل لیتا تھا اور ہاں شٹاپُو بہت کھیلا ۔ لڑکیوں میں 2 میری بڑی بہنیں 2 رشتہ دار اور5 محلہ دار تھیں جن میں 3 میری ہم عمر باقی بڑی تھیں ۔ میں لڑکیوں کا احترام کرتا تھا جو سکول اور کالج کے زمانہ اور بعد میں بھی جاری رہا ۔ ساری عمر اپنی سگی اور پھوپھی زاد بہنوں کے علاوہ باقیوں سے فاصلہ رکھا اور کبھی بے تکلف نہ ہوا ۔ پھوپھی زاد بہنیں میرے بچپن میں ہمارے گھر ہی میں رہتی تھیں کیونکہ میری پھوپھو فوت ہو گئی تھیں

بچپن میں معمولات
شروع 1950ء سے ستمبر 1956ء تک جب میں تعلیم کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا میرے معمولات یہ تھے

1 ۔ جون 1955ء کو وفات تک روزانہ بعد دوپہر اور رات کو دادا جان کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا (اس عمل کو دبانا بھی کہتے ہیں)
2 ۔ روزانہ شام کو والد صاحب کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا
3 ۔ روزانہ صبح سویرے والد صاحب کا بائیسائکل صاف کرنا
4 ۔ ہفتہ میں تین یا چار بار اپنے اور والد صاحب و بہن بھائیوں کے جوتے پالش کرنا
5 ۔ ہفتہ میں ایک بار اپنے اور والد صاحب و بھائیوں کے کپڑے استری کرنا
6 ۔ ہفتے میں 2 بار پیدل جا کر سبزی منڈی (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) سے سبزی اور فروٹ منڈی (گھر سے 3 کلو میٹر) سے پھل لانا
7 ۔ ہر ماہ پیدل جا کر دالگراں بازار (گھر سے 2 کلو میٹر) سے مختلف قسم کی دالیں لانا اور راشن ڈپو (قرب ناز سنیما) سے چینی لانا
8 ۔ گرمیوں میں روزانہ شام کو 4 چارپائیاں چھت پر چڑھانا اور اگلی صبح نیچے اُتارنا
9 ۔ گیارہویں جماعت میں داخل ہونے تک روزانہ دوپہر کو سکول سے آ کر اپنا اور والد صاحب کا کھانا لے کر نرنکاری بازار (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) جانا اور وہیں دوپہر کا کھانا کھانا

دوسرے معمولات
سکول میں آدھی چھٹی کے وقت سکول کا کام کر لیتا تھا اور جو باقی بچتا چھُٹی کے بعد سڑک کے کنارے پتھر پر بیٹھ کر کر لیتا پھر گھر جاتا ۔ بارہویں پاس کرنے تک رات کو عشاء کی نماز کے بعد سو جایا کرتا تھا اور صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ۔ اُٹھتے ہی گھر (جھنگی محلہ) سے چل پڑتا ۔ ساتھ والے محلہ (سید پوری گیٹ) سے میرا ہمجماعت اور دوست رشید بنی چوک سے قبل ہی مل جاتا ۔ ہم دونوں عید گاہ قبرستان کے قریب جاتے (فاصلہ 2 کلو میٹر)۔ رشید پھلائی کے درخت سے ایک ٹہنی کاٹ کر اس کی 2 مِسواک بناتا اور ہم دونوں دانت صاف کرتے گھروں کو واپس پہنچتے ۔ واپس آ کر میں نہاتا اور مسجد جا کر فجر کی نماز پڑھتا ۔ پھر پڑھنے بیٹھ جاتا ۔ جب ناشتہ تیار ہوتا تو ناشتہ کر کے کپڑے تبدیل کرتا اور سکول یا کالج کو چل دیتا
میں 2010ء تک دن میں بالکل نہیں سوتا تھا

اللہ کریم نے اتنا اچھا ذہن عطا کیا تھا کہ جو میں ایک بار یاد کر لیتا اُسے دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ میں رَٹا نہیں لگا سکتا تھا ۔ میرا یاد کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ کتاب سے ایک بار غور سے پڑھتا پھر کتاب بند کر کے اُسے لکھنا شروع کر دیتا ۔ لکھنے کے بعد کتاب سے موازنہ کرتا ۔ جہاں غلطی ہوتی اُسے پھر سے پڑھتا اور ذہن میں دہراتا ۔ پھر لکھنے بیٹھ جاتا ۔ زیادہ سے زیادہ 3 بار لکھنا پڑتا ۔ اس کیلئے میں نیا کاغذ استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ رَدّی کی دکان سے سفید کاغذ جن کے ایک طرف لکھا ہو چھانٹی کر کے لے آتا اور یہ لکھائی اُن پر کرتا تھا۔ حساب ۔ جیومیٹری اور الجبرا کے سوال حل کرتے رہنا تو میرا شوقیہ کھیل تھا ۔ سکول میں ہمارے اساتذہ صاحبان نے میرا نام الجبراء دان رکھا ہوا تھا

جب میں پیدل یا بائیسائکل پر سودا سلف لینے یا کسی اور کام سے نکلتا تو راستہ میں اُس دن اسکول میں پڑھا ہوا سبق زبانی دہرا لیتا ۔ میری نظریں سڑک یا گلی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف لگے بورڈوں پر بھی ہوتیں ۔ مجھے یاد رہتا کہ کونسا بورڈ کہاں دیکھا تھا چنانچہ واقف لوگ مجھ سے پوچھا کرتے تھے فلاں دکان یا دفتر کس جگہ ہے

میں نے سکول کے زمانہ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرسٹ ایڈ ۔ ہوائی حملہ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا ایک ایک اور معلوماتِ عامہ کے 3 امتحان پاس کئے
میں آٹھویں جماعت میں تھا کہ والد صاحب نے انگریزی رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ سالانہ کی بنیاد پر لگوا دیا جو میرے بارہویں پاس کر کے انجنیئرنگ کالج لاہور جانے تک جاری رہا ۔ میں اسے پورا پڑھ ڈالتا ۔ اس میں مجھے How to increase your word power بہت پسند تھا ۔ اسے پڑھ کر میں اپنا امتحان لیا کرتا تھا.
میری بڑی بہن ایک کتاب لائیں جس کا موضوع تھا How to increase your will power میں نے ساری پڑھ ڈالی. اس میں اپنے اوپر کرنے والی مشقیں ہوتی تھیں جو میں بڑے شوق سے کرتا ۔ ان میں آسان سی 2 یہ تھیں
1 ۔ ایک سٹول صحن یا کمرے کے درمیان میں رکھ اس پر ایک ٹانگ کے سہارے کھڑے ہو جاؤ ۔ بے شک گھر کے لوگ گذرتے اور مذاق اُڑاتے رہیں 10 منٹ اُسی طرح کھڑے رہو
2 ۔ بھری ہوئی ماچس کی ڈبیہ کھول کر ساری تیلیاں اس طرح پھینکو کہ بکھر جائیں پھر ایک ایک تیلی اُٹھا کر ڈبیہ میں سیدھی ساتھ ساتھ قرینے سے رکھتے جاؤ ۔ جب سب تیلیاں رکھ چکو تو پھر اُسی طرح ڈبیہ اُنڈیل دو اور اُسی طرح واپس رکھو ۔ یہ عمل تیسری بار بھی کرو ۔ اُس زمانہ میں ماچس کی ڈبیہ میں 52 تیلیاں ہوا کرتی تھیں

سکول کے دنوں میں چند ماہ شام کو ہاکی کھیلی اور گیارہویں بارہویں کے دوران شام کو باسکٹ بال ۔ بارہویں جماعت تک میں جمناسٹک بھی کیا کرتا تھا ۔ انجنیئرنگ کالج ہوسٹل میں جب پڑھائی سے وقت ملتا ٹیبل ٹینس یا بیڈ منٹن کھیلتا
نویں جماعت میں تھا تو چند ہمجماعت لڑکے مقابلہ کرتے تھے کہ کرسی کی اگلی ٹانگ زمین کے قریب سے پکڑ کر کرسی سیدھی اُوپر اُٹھائی جائے ۔ میں نے اس کی مشق کی اور بازو والی بڑی کرسی بھی اُٹھانے لگا ۔ یہ کرسیاں شیشم (ٹاہلی) کی بنی ہوتی تھیں جو بہت وزنی ہوتی تھیں
جب میں دسویں میں تھا تو ہاتھ زمین پر رکھ کر اپنی چھوٹی بہن جو 4 سال کی تھی کو کہتا ”میری ہتھیلی پر کھڑی ہو جاؤ اور بالکل سیدھی کھڑی رہنا“۔ وہ کھڑی ہو جاتی اور میں اُوپر اُٹھاتا اور اپنا بازو سیدھا رکھتے ہوئے اپنے کندھے کی سطح تک ہاتھ لے جاتا اور 5 منٹ اسی طرح کھڑا رہتا ۔ ہوتے ہوتے ایک سال بعد میں اپنی اس 5 سالہ بہن کو داہنی ہتھیلی پر اور 3 سالہ بھائی کو بائیں ہتھیلی پر کھڑا کر کے بازو سیدھے رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ اکٹھے اُٹھا کر کندھوں کی سطح پر لے جاتا
گھر میں جب کوئی ساتھ کھیلنے والا مل جاتا بیڈمنٹن یا لُڈو یا سانپ سیڑھی کھیل لیتا
سماجی اور بہبود کے کاموں میں حصہ لینا میں نے سکول سے لے کر اب تک اپنا فرض جانا اور حتی الوسعت ان میں حصہ لیا

میں نے جو کچھ 1947ء میں دیکھا اُس نے بہت چھوٹی عمر میں مجھ میں سوچنے ۔ سمجھنے اور باتیں کرنے سے زیادہ عمل پیرا ہونے کی عادت ڈال دی تھی ۔ میرا نظریہ رہا کہ دوسرے مجھ سے زیادہ مُشکلات میں گھِرے ہو سکتے ہیں اسلئے میں نے دوسروں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے ہمیشہ اُن کی مدد کرنے کا سوچا ۔ اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی تکلیف اور مُشکلات کا عِلم شادی سے قبل والدین یا کسی بہن بھائی کو نہ ہونے دیا اور شادی کے بعد بیوی اور بچوں سے دُور رکھا

میرے اللہ کا مجھ پر بہت کرم رہا کہ میں انتہائی تکلیف یا ذہنی کرب میں بھی ہوتا اور کوئی حال پوچھتا تو میرا جواب ہوتا ”الحمدللہ ۔ میں ٹھیک ہوں“۔ صرف ایک واقعہ رقم کرتا ہوں ۔ دسمبر 1964ء میں ایک دوائی کا ردِ عمل ہوا اور میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔ عِلم اُس وقت ہوا جب جسم کا آدھا خون بہہ گیا تھا یعنی ہیموگلوبن 6.9 رہ گئی تھی ۔ ہسپتال میں 3 دن بیہوش رہنے کے بعد آنکھیں کھولیں ۔ ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی نہیں اُٹھا ۔ سر ہلانے کی کوشش کی مگر بے سُود ۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ ہوش میں دیکھ کر پوچھا ”کیسی طبیعت ہے ؟“ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے مجھ سے کہلوایا ”الحمدللہ ۔ ٹھیک ہوں“۔

میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 5 ماہ صافی تنخواہ 456 روپے تھی جس میں سے 16 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ اس کے بعد ایک سال صافی تنخواہ 500 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ پھر 6 ماہ صافی تنخواہ 550 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ نومبر 1964ء میں صافی تنخواہ 650 روپے ہو گئی جو بڑھتے بڑھتے نومبر1967ء میں 800 روپے ہو گئی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ یہ 16 یا 30 روپے دفتر جانے آنے کیلئے بس کا کرایہ اور دفتر میں ایک پیالی چائے پینے کیلئے تھے ۔ یہ عمل جنوری 1968ء تک جاری رہا پھر میں بیوی سمیت واہ منتقل ہو گیا اور دسمبر 1971ء تک صافی تنخواہ کا 30 سے 50 فیصد والد صاحب کو دیتا ریا ۔ 1972ء میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں ۔ 1972ء کے آخر حال یہ ہوا کہ پیاز جو 1971ء میں ایک روپے کے 2 کلو گرام ملتے تھے وہ 5 روپے کا ایک کلو گرام ہو گئے اس وقت تک میں 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا اسلئے کوشش کر کے جو بھی بچا پاتے والد صاحب کو دے دیتا ۔ 1984ء تک مالی اور کچھ دوسری ذمہ داریاں مجھ پر رہیں

کوئی نہیں جانتا کہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری سال میں تھا اور والد صاحب کی مالی حالت خراب ہو گئی تھی تو کئی ماہ میں نے صرف ایک وقت کھانا کھایا اور ناشتے میں سوکھی ڈبل روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا ۔ میرے چھوٹے 5 بہن بھائی زیرِ تعلیم تھے ۔ 1965ء میں میرے سوا تین سال چھوٹے بھائی نے شادی کرنے کیلئے بے قراری دکھائی تو 14 اگست 1965ء کو ہم دونوں کی منگنی کر دی گئی لیکن بوجوہ دونوں کی شادی نومبر 1967ء میں ہوئی ۔ میں 7 دسمبر 1970ء کو باپ بنا جبکہ میرا چھوٹا بھائی ساڑھے پانچ ماہ قبل 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا ۔ چھوٹا بھائی برسرِ روزگار نہ تھا اسلئے کچھ سال والدین کے اخراجات میں اضافہ کا باعث بنا رہا ۔

سوائے میری بیوی کے کوئی نہیں جانتا کہ وسط 1974ء سے اوائل 1976ء تک ہم صرف سبزی اور دالوں پر گذارا کرتے رہے ۔ گوشت کبھی کبھار دل کی تسلی کیلئے پکا لیتے اور اپنے 2 ننھے بچوں کو دن میں ایک ایک پیالی دودھ پلاتے رہے

1973ءمیں اپنے ماتحت بے قصور ملازمین کی مدد کرنے کی پاداش میں مجھ پر سخت وقت آیا ۔ ایسے وقت میری بیوی نے میرے ساتھ مرنے کا فیصلہ دے دیا تھا جس سے مجھے تقویت ملی تھی ۔ میں عملی زندگی میں کِن مشکلات سے جنگ کرتا رہا ۔ میرے عزیز و اقارب میں سے کسی کے عِلم میں نہیں تھا ۔ پچھلے 2 سال کے دوران جس نے میرے بلاگ کو باقاعدگی سے پڑھا ہو گا اُس کے علم میں کچھ واقعات آئے ہوں گے

میں نے اُردو میں یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا ۔ جب میرا بلاگ زیادہ پڑھا جانے لگا تو گاہے بگاہے قارئین ذاتی کوائف اور حالات لکھنے کی فرمائش کرنا شروع ہوئے ۔ میں اُنہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ وہ بھی شرافت کے باعث چُپ ہو جاتے رہے ۔ 6 سال یونہی گذر جانے کے بعد ایک صاحب نے دلائل پیش کئے جو میری کمزوری ہے ۔ چنانچہ میں ہار گیا اور ملازمت میں اپنے تجربات لکھنا شروع کئے ۔ آخر ذاتی معاملات کی باری آئی جو بچوں سے شروع کئے اور بالآخر آج میری ذات کی باری آ گئی

اس بلاگ کے پونے 10 سالہ سفر میں مجھے کچھ قارئین سے ذاتی تنقید کے علاوہ تُند و تیز اور بعض اوقات زہر آلود باتیں بھی سُننا پڑیں ۔ سب سے بے ضرر فقرے اس قسم کے تھے
”بُوڑھے ہو کر سب پارسا ہو جاتے ہیں“۔
یا
”آپ جوانی میں بھی ایسے ہی تھے یا کہ بُوڑھے ہو کر نصیحتیں شروع کر دی ہیں ؟“
چند ایک نے مجھے منافق کہا ۔ ایک دو صاحبان نے میرے آباؤ اجداد کو بھی نہ بخشا جو اس دنیا سے کُوچ کر چُکے تھے
زندگی کے نشیب و فراز تو ایک طرف ۔ لوگ کسی طور جینے نہیں دیتے
جب میں خاموش بیٹھ کر سب کی باتیں سُنتا رہتا تو کہا جاتا ”بولنے پر اس کے پیسے لگتے ہیں“ یا ”یہ مغرور ہے دوسروں کو اس قابل نہیں سمجھتا“۔
جب بولتا تو سُننا پڑتا ”یہ تو یونہی بولتا رہتا ہے” یا ”یہ تو ہے ہی بیوقوف“۔
ایک سیدھی سادھی خاتون تھیں جو مجھے اچھا سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ میں سچ بولتا ہوں ۔ ایک دن میں اُن کے ہاں گیا ہوا تھا ۔ سچ بولنے کے نتیجہ میں مجھے نقصان پہنچا تھا جس کا عِلم اُنہیں ہو گیا تھا مگر میرے منہ سے سننا چاہتیں تھیں ۔ میں نے کہا ”میں جھوٹ کیسے بولتا“۔ بولیں ”ایسا بھی کیا سچ بولنا کہ آدمی اپنا نقصان کر لے“۔

بچے پیار کے ہوتے ہیں اور پیار سے ہی سیکھتے ہیں ۔ مار پٹائی بچوں کی تخلیقی قابلیت پر بُرا اثر ڈالتی ہے ۔ میں نے اللہ کے فضل سے اپنے تینوں بچے پیار اور حوصلہ افزائی سے پالے اور اُن کی ماں (جو اُن کی محبت میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتی ہے) نے اُن سے بے جا لاڈ نہیں کیا ۔ اللہ قادر و کریم نے اپنا فضل کیا اور بغیر کسی ٹیوشن یا والدین کی مدد کے ماشاء اللہ تینوں بچے عام تعلیمی اداروں میں پڑھ کر تعلیم میں اچھے رہے اور عملی زندگی میں بھی خود مختار ہیں یعنی والدین یا کسی اور انسان کی طرف سے کوئی سہارا ۔ ٹیک ۔آڑ ۔ آسرا وغیرہ نہ تلاش کیا اور نہ لیا ۔ صرف اتنا پوچھ لیتے ”ابو ۔ یہ کر لوں ؟“

مندرجہ ذیل عِلّتیں یا بُری عادات بچپن ہی میں میرا وطیرہ بن گئی تھیں اور آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ زندگی بھر اِن کی وجہ سے میں نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا
1 ۔ جھوٹ نہ بولنا
2 ۔ منافقت سے بچنا
3 ۔ دوسرے کی زیادتی بھُلا دینا
4 ۔ اپنی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی مدد کرنا
5 ۔ جو مِل جائے اُس پر مطمئن رہنا

اللہ مجھ پر بہت مہربان رہا ۔ سکول ۔ کالج (گیارہویں بارہویں) اور انجنیئرنگ کالج سب جگہ اساتذہ اور طلباء مجھ پر اعتماد کرتے تھے ۔ اساتذہ خاص بات یہ کہہ کر مجھ سے پوچھتے کہ یہ سچ بتائے گا ۔ لڑکے اپنے پیسے محفوظ کرنے کیلئے میرے پاس رکھتے ۔ کچھ لڑکے اپنے راز مجھے بتا کر میرا مشورہ مانگتے ۔ مشورے تو آج تک مجھ سے لئے جاتے ہیں

اللہ کریم نے بیوی ایسی دی کہ ہر دم اور ہر حال میں میرا ساتھ دیا اور مجھے گرنے نہیں دیا
اللہ کی کرم نوازی کہ میرے تینوں بچے سوائے فیسوں اور کتابوں وغیرہ کے اخراجات کے ، مجھ پر بوجھ نہ رہے اور ماشاء اللہ اب ہماری خدمت کے ساتھ سیر و تفریح اور اخراجات کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ اللہ بے نیاز ہے جس پر جتنا چاہے کرم کر دے ۔ اللہ نے یہ کرم بھی فرمایا تھا کہ
ہماری شادی ہوئے 7 سال گذر چکے تھے ۔ میری بیگم نے اس دوران ایک کپڑا بھی نہ خریدا تھا ۔ 1974ء کے آخر میں میں نے کہا ”میرے ساتھ چلیں اور اپنی پسند کا ایک دو جوڑے کا کپڑا لے لیں“۔ بولی ”رہنے دیں ۔ شادی کے دنوں والے کپڑے زیادہ نہیں پہنے ۔ کہیں جانا ہوا تو وہ پہن لوں گی“۔
میرا چھوٹا بیٹا فوزی وسط 1984ء میں چوتھی جماعت میں تھا ۔ اس کے کپڑے پرانے ہو گئے تھے ۔ میں نے کہا ” چلو بیٹا ۔ آپ کو نئے کپڑے لے دوں“۔
بولا ”زکریا بھائی کے جو کپڑے چھوٹے ہو گئے ہیں وہ میں پہن لوں گا“۔
بڑا بیٹا زکریا وسط 1986ء میں دسویں جماعت میں تھا ۔ اس کی پتلون چھوٹی ہو کر ٹخنوں سے اُوپر چلی گئی تھی ۔ میں نے کہا ”بیٹے ۔ میرے ساتھ چلو ۔ نئی پتلون لے دوں“۔
زکریا بولا ”ابو جی ۔ رہنے دیں ۔ گذارہ ہو رہا ہے“۔
ہر بار اللہ کے تشکّر میں میرے آنسو ٹپک پڑے

اللہ کریم نے مجھے قدم قدم پر سہارا دیئے رکھا ۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں ۔ میری بیوی ۔ بچے میرا قیمتی سرمایہ ہیں اور بہن بھائی بھی بہت خیال رکھتے ہیں

اس تحریر کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میری زندگی کا سرمایہ لُٹ گیا ہے اور میں بے مایہ ہو گیا ہوں
اللہ کریم میری غلطیاں معاف فرمائے

عشق دا سیاپا ۔ تازہ خبر

کسی نے سچ کہا ہے ” کہتے ہیں جسے عشق خلل ہے دماغ کا“۔ میں محبت کے بارے اظہارِ خیال بہت پہلے کر چکا ہوں ۔ آج افشاء ہونے والا ایک اور محبت نامہ

محبت کی شادی کرنے والے جوڑے میں علیحدگی ہو گئی ۔ باپ بیرون ملک چلا گیا جبکہ ماں اپنے بچوں 6 سالہ عمر اور 5 سالہ آمنہ کو چھوڑکر اپنے بھائیوں کے پاس ملتان چلی گئی ۔ خبر نکلی جب ایک وکیل بچوں کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ پہنچے اور درخواست پیش کی جس میں بچوں نے کہا ”پاپا ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں اور ماما ملتان چلی گئی ہیں ۔ ہمیں اپنے امی ابو کے پاس جانا ہے“۔ بچوں کے وکیل کا کہنا تھا کہ” بچوں کے والدین علیحدگی کے بعدانہیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ ماں باپ انہیں رکھنے کو تیار نہیں اور بچوں کا کوئی سہارا نہیں“۔
عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کو ہدایت کی کہ بچوں کی ماں کی عدالت میں حاضری یقینی بنائی جائے۔ مزید سماعت 9 جنوری کو ہو گی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اچھا آدمی

اچھے آدمی کی نشانی یہ ہے
کہ وہ اُن لوگوں کی بھی عزت کرتا ہے
جن سے اسے کسی قسم کے فائدے کی توقع نہیں ہوتی

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Torture “

An Excerpt
They are only jolted out of their slumber about once a decade when some star diplomats turn up, handling negotiations over the latest international crisis. Back in the 1990s it was the former Yugoslavia. More recently it’s been America and Iran. And once the belligerents in Syria have exhausted each other in a few years time they too will probably head to the city that has come to symbolise internationalism, neutrality and the laws of war.

پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا

ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں محاورے پڑھائے گئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ جنگ میں یا آپس میں دُشمنی ہو تو کوئی سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے پیچھے سے آ کر حملہ کر دے تو اُسے کہتے ہوں گے ”پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا“۔
بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کر لینے کے بعد 1962ء میں ملازمت شروع کی تو سمجھ میں آیا کہ دُشمن نہیں بلکہ یہ فعل دوست یا دوست کے بھیس میں دُشمن کرتا ہے ۔ اپنے ساتھ بِیتے کئی ایسے واقعات میں سے 4 بطور نمونہ نذرِ قلم کر رہا ہوں
کیا منافقت اس سے کسی فرق چیز کا نام ہے ؟

1 ۔ دسمبر 1962ء سے اپریل 1963ء تک 5 ماہ میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سینیئر لیکچرر تھا ۔ ایک دن میں صبح سویرے پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذر کر اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سینیئر لیکچرر مسٹر ”م“سامنے سے آتے ہوئے ملے جنہوں نے گارڈن کالج میں گیارہویں جماعت میں ہمیں فزکس پڑھائی تھی ۔ پوچھنے لگے ”آپ پرنسپل صاحب کو مل کر آ رہے ہیں ؟“ میں نے ”نہیں“ کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ایک دوسرے سینیئر لیکچرر جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے اور پوچھا ”آج صبح دیر ہو گئی تھی کیا ؟“ میرے ”نہیں“ کہنے پر بولے ”مجھے پرنسپل صاحب سے کام تھا تو صبح پہنچتے ہی اُن کے دفتر میں چلا گیا تھا ۔ بعد میں وہاں مسٹر ”م“ نے آ کر پوچھا کہ کیا بھوپال صاحب آج چھٹی پر ہیں ؟ میں نے سارا انسٹیٹیوٹ دیکھ لیا مگر نہیں ملے“۔

2 ۔ میں نے مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر ملازمت اختیار کر لی ۔ پہلے 6 ماہ ہمیں مختلف فیکٹریوں میں مشینوں اور ان کے کام کے مطالعہ کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ میں پہلے ماہ سمال آرمز گروپ میں تھا ۔ میرے ساتھ بھرتی ہونے والے 9 میں سے ایک مسٹر ”خ“ جو میری دوستی کا دم بھرتے تھے ایک قریبی فیکٹری میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون آیا ”جلدی آؤ تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے“۔ میں نے کہا ”چھٹی کے بعد ملوں گا“۔ بولے ”میں نے چائے منگوائی ہے اور چائے کے ساتھ کھانے کیلئے باہر سے کچھ منگوایا ہے ۔ اتنی بے مروّتی تو نہ کرو“۔ میں اپنے ورکس منیجر کے دفتر گیا ۔ وہ نہیں تھے تو میں دوسرے مجھ سے سینیئر اسسٹنٹ ورکس منیجر کو بتا کر چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو تو مجھے بٹھایا ساتھ ہی چائے آ گئی مگر مسٹر ”خ“ مجھے یہ کہہ کر دوسرے دفتر میں چلا گیا ”تم چائے پینا شروع کرو میں ضروری ٹیلیفون کر کے آتا ہوں“۔ میں نے چائے نہیں پی اور اُس کا 10 منٹ انتظار کرنے کے بعد واپس آ گیا ۔ میں 20 منٹ میں واپس پہنچ گیا ۔ واپس آنے پر سیدھا ورکس منیجر کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے پوچھا ”تم کہاں تھے ؟“ میرے بتانے پر بولے ”اس دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں میری شکل پسند نہیں ۔ اسی طرح ایسے بھی ہوں گے جنہیں تمہاری شکل پسند نہیں ۔ ہر آدمی کو دوست مت سمجھو“۔ میں حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگا تو اپنی گھڑی دیکھ کر بولے ”10 منٹ قبل مسٹر ”خ“ کا ٹیلیفون آیا تھا کہ مجھے اجمل سے ضروری کام ہے میں آدھے گھنٹے سے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مل نہیں رہا ۔ کیا وہ چھٹی پر ہے ؟“

3 ایک انجنیئر مسٹر ”ب“ صاحب نے پی او ایف میں ملازمت شروع کی ۔ اُنہیں 2 سال بعد اسسٹنٹ منیجر بنایا جانا تھا لیکن 3 سال سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی نہ بنایا گیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ میری محنت اور کارکردگی کی وجہ سے ٹیکنیکل چیف مجھ سے خوش تھے ۔ کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے ایک اسسٹنٹ کی منظوری ہو چکی تھی ۔ میں نے ایک اچھا موقع دیکھ کر اُن سے بات کی جس کے نتیجے میں پرانی تاریخ یعنی 2 سال کے بعد سے مسٹر ”ب“ کی ترقی ہو گئی اور اُسے ہماری فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا ۔ مسٹر ”ب“ میری دوستی کا دم بھرنے لگے
پھر 1973ء میں ہماری فیکٹری سے چوری ہوئی تو مسٹر ”ب“ کو گھر سے اُٹھا کر کسی تفتیشی مرکز میں رکھ دیا گیا ۔ میں نے اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل حتٰی کہ اپنی جان کی بازی لگا کر قانونی چارہ جوئی اور دیگر اقدامات کئے اور اللہ کے فضل سے اُنہیں 5 دن بعد رہا کر دیا گیا ۔ میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مسٹر ”ب“ نے کہا ”میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ جو آپ نے میرے لئے کیا ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو نہیں کر سکتا تھا“۔
اس کے بعد ذاتی مفاد کی خاطر مسٹر ”ب“ میرے خلاف من گھڑت کہانیاں بڑے باس تک پہنچاتے رہے جس کے نتیجے میں بڑے باس نے جو پہلے ہی غلط احکام نہ ماننے کی وجہ سے مجھ سے ناراض رہتے تھے کئی سال میری ترقی روکے رکھی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملی

4 ۔ پی او ایف میں ہر آفیسر کی سالانہ خُفیہ رپورٹ کی ابتداء اُس کا سیئنر آفیسر کرتا تھا ۔ اس فارم میں پہلا صفحہ وہ آفیسر خود پُر کرتا تھا جس کے متعلق رپورٹ ہوتی تھی ۔ میں پچھلے 8 سال سے جرمنوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اُن کی جرمن سمجھنا اور بولنا پڑتی تھی ۔ کئی ڈرائینگز بھی جرمن زبان میں ہوتی تھیں ۔ رپورٹ میں ایک خانہ تھا کہ کون کونسی زبان جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن صرف بول لیتا ہوں ۔ میرے سینیئر افسر مسٹر” گ“ نے مجھے بُلا کر کہا ”دو لفظ جرمن کے بول لیتے ہو تو یہاں لکھ دیا ہے ۔ اسے کاٹو“۔ میں نے کاٹ دیا ۔ دوسرے دن ایک مسٹر ”ع“ جو پی او ایف میں بھرتی ہونے سے لے کر منیجر ہونے تک میرے ماتحت رہے تھے میرے پاس آئے ۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ”باس مسٹر ” گ“ نے بُلایا تھا”۔
میں نے وجہ پوچھی تو بولے ”کہہ رہے تھے کہ رپورٹ فارم پر لکھو کہ تم جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھ دیا“۔
میں نے کہا ”آپ تو جرمن کا ایک حرف بولنا بھی نہیں جانتے اور آپ نے لکھ دیا“۔
بولے ”باس نے کہا تھا سو میں نے لکھ دیا ۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔
جرمن جاننے کی بناء پر مسٹر ”الف“ کو جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا جبکہ اس اسامی کیلئے میرے نام کی 3 سال قبل منظور دی گئی تھی جب مجھ سے سینیئر افسر کو تعینات کیا گیا تھا

بلاگ 2014ء میں کیسا رہا

پہلے نئے عیسوی سال کیلئے میری سادہ سی دعا
اے کُل کائنات کے خالق و مالک ۔ اس کا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ِاس دنیا سے جھُوٹ اور منافقت کو اُٹھا لے

ورڈ پریس نے پہلی بار میرے اس بلاگ کی سال بھر کی کارکردگی کے کچھ اعداد و شمار بھیجے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے

سال 2014ء میں یہ بلاگ75480بار دیکھا گیا
سب سے مصروف دن 11 فروری 2014ء تھا جس دن 1634 قارئین نے یہ بلاگ دیکھا
سال 2014ء کے قارئین کا تعلق 65 ممالک سے تھا ۔ سب سے زیادہ قارئین کا تعلق چیک ریپبلِک ۔ پاکستان اور امریکہ سے تھا

سب سے زیادہ مندرجہ ذیل تحاریر دیکھی گئیں

ڈاکٹر طاہر القادری ۔ وضاحت ۔ 1237 بار دیکھی گئی
اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء ۔ 1222 بار دیکھی گئی
بلاگر ۔ سالگرہ ۔ فوائد اور نقصانات ۔ 1194 بار دیکھی گئی
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عزت ۔ 1044 بار دیکھی گئی
اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت ۔ 1028 بار دیکھی گئی
عورت اور مرد ۔ 1009 بار دیکھی گئی
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی ۔، 1003 بار دیکھی گئی

میرے بچے

میرے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے
مجھے طعنہ دیا جاتا ہے
”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

میں نے کسی کو ملک سے باہر جانے سے منع نہیں کیا ۔ صرف محبِ وطن بننے کی تلقین کرتا ہوں جو ملک سے باہر رہ کر بھی ہو سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ ”کیا روزی کمانے کیلئے مُلک سے باہر جانے والا آدمی محبِ وطن نہیں رہتا ؟“
دوسری بات کہ ہمارے ہاں اُوپر سے لے کر نیچے تک الزامات لگانے کو شاید اعلیٰ تعلیمی اور عقلی معیار سمجھا جانے لگا ہے ۔ اب تو کچھ ایسا احساس بیدار کیا گیا ہے کہ حُب الوطنی کا ثبوت دوسرے پر الزامات لگانا ہے
کبھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ الزام لگانے سے پہلے کچھ حقائق معلوم کر لے
۔سیانے کہتے ہیں کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے قبل سوچو کیونکہ ہو سکتا ہے دوسرا عملی طور پر آپ سے بہتر ہو

میرے بڑے بیٹے زکریا نے ایف ایس سی (ہائرسیکنڈری) کے امتحان میں میرٹ سکالرشپ حاصل کیا پھر انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں چاروں سال اوّل رہا ۔ قائد اعظم سکالرشپ اوّل آنے والے کو ملتا ہے ۔ یہ سکالرشپ صوبہ سندھ کے رہائشی کو دیا گیا جو کسی امتحان میں اوّل نہیں آیاتھا البتہ اُس کے میٹرک کے امتحان میں زکریا سے زیادہ نمبر تھے ۔ (بینظیر بھٹو کا دورِ حکومت 19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء)
اُس نے ایک سال تک سکالرشپ سے فائدہ حاصل نہ کیا ۔ زکریا نے اُس کو ٹیلیفون کیا۔ وہ زکریا کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آیا اور یہاں تک کہا ”میں شکالرشپ سے مستفید ہوں یا اسے ضائع کر دوں ۔ میری مرضی ۔ تُم کون ہوتے ہو ۔ تُم نے مجھے ٹیلیفون کرنے کی جُراءت کیسے کی“۔ اور پھر وہ سکالرشپ ضائع ہو گیا

ایس اینڈ ٹی سکالرشپ آیا تو زکریا کے آجر (employer) نے اس پر سفارش لکھ کر واپس کرنے کی بجائے فارم ہی غائب کر دیا ۔ رابطہ کرنے پر کہا کہ ”ہم خود ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے امریکہ بھیجیں گے ۔ امریکہ کی معیاری یونیورسٹی میں داخلہ لے لو ۔ جو خرچہ ہو گا ہم دے دیں گے“۔ زکریا نے داخلہ لے لیا جس پر 34000 روپے خرچ ہوئے جو ضائع گئے کیونکہ 3 سال تک نہ بھیجا گیا جبکہ ایرے غیرے بھیجے جاتے رہے ۔ زکریا نے کہا کہ ”مجھے آپ فارغ کر دیں ۔ میں مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتا“ تو فٹا فٹ سکالرشپ پر ایم ایس انجنیئرنگ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ میں نے سربراہ ادارہ (کراچی کے رہائشی) سے رابطہ کیا جس نے میرے بہنوئی (جو اُن دنوں ممبر پی او ایف بورڈ تھے) کی وساطت سے میری منّت سماجت کی تھی کہ زکریا کو اس ادارے میں ملازمت کا مشورہ دو ں اور وہ اُسے ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے بھیجیں گے ۔ اُس نے بتایا کہ ”کچھ رولز آڑے آ گئے ہیں ۔ زکریا کے ایم ایس کر کے آنے کے ایک سال بعد اُسے پی ایچ ڈی کیلئے بھیج دیں گے“۔

دوبارہ داخلے کیلئے درخواستیں بھیجیں ۔ محکمہ نے پہلے والا 34000 روپیہ نہ دیا ۔ دوسری بار کے اخراجات اور 3 ماہ کا تعلیمی خرچہ دے کر ستمبر 1997ء میں امریکہ بھیج دیا اور کہا کہ ہر 3 ماہ بعد خرچہ بھیج دیا جائے گا لیکن اس کے بعد ایک پیسہ بھی نہ بھیجا ۔ زکریا دسمبر 1997ء سے جون 1998ء تک بار بار ای میلز بھیجتا رہا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا ۔ زکریا مالی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلاء رہا اور تنگ آ کر جون 1998ء میں مستعفی ہو گیا ۔ اُس وقت تک وہ عارضی ملازمت پر تھا ۔ اس کے 2 سال 3 ماہ بعد یعنی ستمبر 2000ء میں حادثاتی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ محکمہ نے جولائی 2000ء میں زکریا کے خلاف راولپنڈی کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہوا تھا جبکہ ادارے کو معلوم تھا کہ ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ بیلف کو شاید پیسے کھلا کر اس کے سمن ہم تک نہ پہنچنے دیئے گئے تھے ۔ میں اگلی پیشی پر عدالت پہنچ گیا ۔ دعوے کی نقل ملنے پر معلوم ہوا کہ زکریا سے دیئے گئے پیسے واپس مانگنے کے علاوہ 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ مانگا گیا ہے ۔ راولپنڈی کچہری ہمارے گھر (اسلام آباد) سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور راستہ میں ٹریفک بہت ہوتا ہے اسلئے کچہری کے چکروں سے بچنے کیلئے میں نے لکھ کر دے دیا کہ ”وصول کی ہوئی رقم ہم واپس کرنے کو تیار ہیں مگر جرمانہ بے بنیاد ہے“ ۔ اس کے بعد میں ہر ماہ تاریخ پر حاضر ہوتا رہا لیکن ادارے والوں کی طرف سے اوّل کوئی حاضر نہ ہوتا اور حاضری لازمی ہو جانے پر کوئی انٹ شنٹ درخواست جمع کرا دی جاتی ۔ ڈھائی تین سال بعد جج تبدیل ہو جاتا تو پھر پہلے والی گردان دہرائی جاتی ۔ آخر 2010ء میں جج نے فیصلہ کر دیا کہ ”صرف لیا ہوا پیسہ واپس کیا جائے“۔ جو ہم نے بڑی مشکل سے 4 ماہانہ اقساط میں ادا کیا

جو آدمی مقروض ہو گیا ہو اور اس کے پاس واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہ ہوں اور باپ بھی ریٹائر ہو چکا ہو وہ اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ جہاں ہے وہاں اگر اُسے روزی کمانے کا جائز ذریعہ مل رہا ہو تو اس سے مستفید ہو

میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے آئی بی اے کراچی سے صبح کے کورس میں ایم بی اے کیا ۔ اسلام آباد میں بغیر سفارش مناسب ملازمت ممکن نہ ہوئی تو اُس نے معمولی ملازمت شروع کی ۔ میں نے اعتراض کیا تو بولا ”ابو جی ۔ کچھ ملے گا ہی ۔ اگر فارغ رہا تو بے کار ہو جاؤں گا“۔
پھر ایک بہتر ملازمت ملی تو چند ماہ بعد پرویز مشرف کی حکومت آ گئی ۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہر صوبے سے ایک آدمی تھا ۔ حکومت نے سب لوگ تبدیل کر کے صرف کراچی والے رکھ لئے ۔ کراچی والوں کو اسلام آباد شاید پسند نہ آیا ۔ ملازمین کو فارغ کر دیا اور دفتر بند کر دیا
اس کے بعد فوزی نے برطانیہ سے ایم ایس سی فناس پاس کیا ۔ اسلام آباد میں ایک غیرملکی ادارے میں اسامی نکلی ۔ ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ۔ میرٹ کے لحاظ سے فوزی اول رہا ۔ سینیئر وائس پریزیڈنٹ جس کے ماتحت کام کرنا تھا اُس نے منظوری دے دی لیکن پریزیڈنٹ صاحب کراچی کے تھے ۔ اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے کو رکھ لیا
کچھ ماہ بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔ 3 سال بعد ترقی بھی ہوئی ۔ اس کے بعد وہی کہ اگلی ترقی کیلئے سفارش نہ تھی ۔ پھر دبئی میں ملازمت مل گئی اور 2008ء سے دبئی میں ہے

بیٹی نے کلِنیکل سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ۔ پھر پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کیا ۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج کرنا چاہا تو معلوم ہوا معالج مریض کو ڈرا کر رقم اکٹھی کرتا ہے اور مریض کی تسلّی بھی ایسے معالج سے ہوتی ہے ۔ سو یہ کام چھوڑ دیا ۔ کمپیوٹر کی ماہر تھی ۔ گھر سے ہی مختلف کمپنیوں کا ایڈمنسٹریشن کا کام شروع کیا ۔ ہوتے ہوتے غیر ملکی کمپنیوں تک پہنچی اور دفتر میں جانا شروع کیا ۔ مالی بے ضابطگی دیکھ کر کمپنی چھوڑی ۔ دوسری میں کام ملا پھر تیسری ۔ ہر جگہ مالی بے ضابطگی معمول کی بات تھی جس کے باعث زندگی مُشکل میں رہی ۔ جب کمپنی میں کام کم ہو جاتا پہلے میری بیٹی اور اس جیسوں کو فارغ کیا جاتا ۔ جو اپنی جیبیں بھرتے اور صاحب لوگوں کو خوش رکھتے وہ ٹِکے رہتے
آخری کمپنی میں بیٹی پرفارمینس آڈیٹر تھی ۔ آڈٹ کرنے پر بھاری مالی بے ضابطگی پائی گئی جس کی رپورٹ دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد بیٹی کی تنخواہ بہت کم کر دی گئی کہ کام کم ہو گیا ہے چنانچہ بیٹٰی نے ملازمت چھوڑ دی اور اکتوبر 2012ء میں بھائی کے پاس دبئی چلی گئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اپنا عکس

آپ کو جو کچھ دوسرے میں نظر آتا ہے
وہ آپ کی اپنی سوچ یا شخصیت ہے
اگر آپ کو دوسرے میں بہت اچھی چیز نظر آئے گی
وہ دراصل آپ کی اپنی اچھائی ہو گی

That ordinary people can carry out evil deeds led Professor Arendt to suggest that the “banality of evil” was a critical problem that had to be recognised as a modern condition. The Israeli war with Gaza provided riveting visuals of the bombardment of homes, shops, hospitals, schools, several of which served as United Nations’ “safe havens,” that killed and wounded thousands. Israel responded to Hamas’ rain of rockets by bombing and invading Gaza, attacking urban living areas where Hamas fighters were alleged to be operating with a network of tunnels.
The Palestinian death toll in Gaza stands at more than 2,000 with nearly 10,000 wounded. More than 300 children have died. Included in the carnage were 26 members of the Abu Jame’ family, who were killed in a single strike. Sixty-four Israeli soldiers and three civilians have died. When U.N. observers denied that there were any weapons in their smashed shelters, the Israeli reply was that they would investigate the shelling.
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Banal “