ذہین وہ نہیں ہوتا جو جانتا ہو کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا
ذہین وہ ہوتا ہے کہ اچھائی دیکھے تو اس پر عمل کرے
اور
برائی دیکھے تو اس سے دُور رہے
بیوقوف کی پہچان
میں اُن دنوں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ رہائش راولپنڈی شہر میں تھی ۔ چند ہمجماعت آئے کہ یومِ آزادی منانے کیلئے راجہ بازار سجایا گیا ہے چلو دیکھتے ہیں ۔ میرے لئے یہ پہلا موقع تھا سو چل پڑا ۔ راجہ بازار پہنچے تو بہت لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد جوانوں کی تھی ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں مگر کم تعداد میں ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے تو مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ یہ جگہ سیر کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا ” تھوڑا سا تو دیکھ لیں“۔ اور ہم ہجوم میں سے تیز تیز راستہ بنانے لگے ۔ ہم نے دیکھا کہ آگے کچھ لڑکیاں ہیں تو راستہ بدل کر نکلنے کی کوشش کی ۔ کچھ جوان جو سامنے سے آ رہے تھے وہ لڑکیوں کے قریب سے ہو کر گذرے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے کیا کیا لیکن لڑکیوں کی رفتار تیز ہو گئی جیسے کوئی پریشانی میں بچ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس پر ہم سب واپس ہو لئے ۔ بھیڑ کی وجہ سے رفتار کافی سُست تھی تھوڑی دیر بعد ایک ساتھی نے کہا ”وہی بدمعاش پھر آ رہے ہیں“۔ میں اُن کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ وہ 3 صحتمند لڑکے تھے ۔ اچانک وہ تیزی سے اپنے داہنی طرف کو گئے ۔ میں نے جو اُدھر نظر کی تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں آ رہی ہیں ۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے میں لپک کر اُن میں درمیان والے لڑکے کے سامنے پہنچا جو اُن کا لیڈر لگتا تھا اور پوری قوت سے اُسے دھکا دیا ۔ اس ناگہانی دھکے سے وہ سنبھل نہ پایا اور سڑک پر گرا ۔ وہ اُٹھ کر مجھ پر کودا مگر بڑے لوگوں نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو قابو کر لیا اور مجھے جانے کا کہا ۔ میں اگر بیچ میں نہ آتا تو وہ لڑکے سیدھے اُن لڑکیوں سے ٹکرا جاتے اور نامعلوم مزید کیا کرتے
واپسی پر میرے ساتھی کہنے لگے ” بیوقوف ذرا دیکھ کر تو ہاتھ ڈالتے ۔ تم سے دو گنا طاقتور تھا ۔ لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو اُس نے تمہارا قیمہ بنا دینا تھا“۔ مگر مجھے اپنے کئے پر کوئی افسوس نہ تھا (ہوا جو بیوقوف)
میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ لاہور میں انجینئرنگ کی سٹیشنری الفا میاں قلعہ گوجر سنگھ اور ڈرائینگ اینڈ سروے سٹور انارکلی میں ملتی تھی ۔ الفا میاں مہنگا تھا اسلئے میں اور میرے جیسے لڑکے انارکلی سے سامان لیتے تھے ۔ ایک دن انارکلی سے ہو کر میں اور ایک ساتھی واپس آ رہے تھے کہ جی پی او کے سٹاپ سے بس پر چڑھیں گے ۔ وہاں انتطار کیا بس آئی اور بھری ہوئی تھی کھڑی نہ ہوئی ۔ کچھ اور ہمجماعت بھی پہنچ گئے تھے ۔ فیصلہ پیدل چلنے کا ہوا ۔ مال کے کنارے جا رہے تھے ۔ باقی ساتھی بار بار رُک جاتے تو مجھے اُن کی انتظار کرنا پڑتی ۔ میں نے اعتراض کیا تو ایک بولا ”یار 13 کلو میٹر پیدل جانا ہے ۔ آنکھیں سینکتے ہوئے جا رہے ہیں کہ سفر کٹ جائے ۔ مجھے بُرا لگا اور کہہ دیا ”کچھ کرنے کے قابل ہو تو لے جاؤ کسی کو ساتھ ۔ یوں ہیجڑوں کی طرح کیا دانت نکال رہے ہو“۔
ایک صاحب بولے “یار ۔ تم تو ہو بیوقوف ۔ باقی سب کو تو اپنے جیسا نہ سمجھو“۔
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشگوار زندگی
زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے
کہ
آنکھیں لوگوں میں اچھائی تلاش کریں
دل بڑی سے بڑی غلطی معاف کر دے
دماغ برائی کو بھول جائے
لیکن
اللہ کے احکام کبھی نہ بھولے
چَوندا چَوندا یعنی تازہ گرم گرم
پروفیسر انور مسعود صاحب کے کلام کا کمال ہے کہ روتوں کو ہنسا دے ۔ اور کبھی کبھی ہنستوں کو رُلا بھی دیتے ہیں
آج اِن کا تازہ مزاح پارہ ملاحظہ فرمایئے
اتنا آسان بھی نہیں ہے اہتمامِ ازدواج
کامیابی کیلئے محنت مشقت کیجئے
سیکھیئے عمران خان سے خانہ آبادی کا راز
آپ کو شادی کرانا ہو تو دھرنا دیجئے
قصہ میری شادی کا
میں اپنی شادی کا چھوٹا سا حوالہ قبل ازیں دے چکا ہوں ۔ میری شادی کا قصہ بھی شاید میری طرح عجوبہءِ روزگار ہے
میں 2 بہنوں اور 3 بھائیوں سے بڑا ہوں اور 2 بہنیں مجھ سے ڈھائی اور ساڑھے پانچ سال بڑی ہیں ۔ مجھ سے ڈھائی سال بڑی بہن 1964ء میں اُن کی شادی تک میری خودساختہ محافظ ۔ مُنتظم عوامی تعلقات (public relations manager) اور مُخبر رہیں ۔ میرے متعلق یا اُن کے مطابق کوئی دلچسپ بات ہو تو مجھے علیحدگی میں بتاتیں ۔ بچپن میں میری یہ بہن مجھ سے جتنا زیادہ پیار کرتی تھیں میں اتنا ہی ان کو چڑاتا تھا ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری امتحان دے کر گھر راولپنڈی پہنچا تو موقع پاتے ہی بولیں ”آؤ تمہیں بڑی دلچسپ بات بتاؤں ۔ فلاں لڑکی جو گارڈن کالج میں تمہاری ہمجماعت تھی نا ۔ اُس کی امی ہماری امی کے پاس آئیں تھیں ۔ تمہارے رشتہ کیلئے“۔ میں نے ٹوکا تو بولیں ”میری بات تو سُنو ۔ پہلے وہ اپنی بیٹی کی تعریفیں کرتی رہیں اور بتایا کہ میڈیکل کالج کے آخری سال میں ہے پھر تمہاری تعریفیں شروع ہو گئیں پھر کہنے لگیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اچھے لوگوں سے واسطہ پڑے ۔ یہ کس لئے کر رہی تھیں ؟ تمہارے رشتہ کیلئے نا ”۔
خیر ۔ اس کے بعد اگلے ڈھائی تین سالوں میں میری بہن نے مزید 4 مختلف لوگوں کی تشریف آوری کے متعلق بتایا ۔ ایک دن میں کہیں گیا ہوا تھا واپس گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بہن مجھے اُچک کر ایک طرف لے گئیں اور کان میں کہا ”تمہارے سلسلے میں فلاں مُلک سے لوگ آئے ہوئے ہیں ساتھ لڑکی بھی ہے ۔ دیکھ لو پھر مجھے بتانا کیسی ہے“۔ میں نے چڑانے کیلئے کہا ”آپ جو میرے لئے لڑکی تلاش نہیں کرتیں تو لوگوں نے مجھے لڑکی سمجھ لیا ہے“۔ خیر یہ تو سب تھا بہن بھائی کا معاملہ
شادی کیلئے پسند کے بارے میں قبل ازیں لکھ چکا ہوں ۔ اب کچھ تفصیل ۔ میرے بھائی نے جو مجھ سے سوا 3 سال چھوٹا ہے شروع 1965ء میں شادی کیلئے بیقراری دکھائی تو میری والدہ محترمہ (اللہ جنت نصیب کرے) جو کب سے میری شادی کی فکر میں تھیں متحرک ہو گئیں اور اپنے سے چھوٹی بہن کی بیٹی کو بہو بنانے کیلئے اُن کے پاس سیالکوٹ گئیں لیکن خالہ صاحبہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے سے انکار کر دیا
میں جولائی میں کراچی ایک کورس کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور چھوٹے ماموں کے پاس ٹھہرا تھا ۔ اچانک ایک دن بڑے ماموں شارجہ سے پہنچ گئے ۔ مجھ سے علیحدگی میں پوچھا ” تم کسی ڈاکٹر کو پسند کرتے ہو ؟“ میں نے انکار کیا تو پوچھا ”وہ ڈاکٹر کون ہے؟“ میں نے کہا ”میں نہیں جانتا آپ کس ڈاکٹر کی بات کر رہے ہیں“۔ پھر کہا ”تم ۔ ۔ ۔ ۔ سے شادی نہیں کرنا چاہتے ؟“ میں نے کہا ”امّی گئی تھیں مگر خالہ نے انکار کر دیا“۔ پھر بڑے ماموں نے چھوٹے ماموں کو بُلایا اور اُن پر چڑھائی کر دی ” تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو کہ ہماری دونوں بڑی بہنیں جو ماں کے برابر ہیں جُدا ہونے کو ہیں“۔ دو دن بعد میں نے واپس راولپنڈی جانا تھا ۔ بڑے ماموں نے کہا ”ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ جائیں گے“ ۔
دونوں ماموں میرے ساتھ وزیرآباد تک گئے اور سیالکوٹ جانے کیلئے اُتر گئے ۔ بڑے ماموں کہہ گئے کہ ”آپا جی سے کہہ دینا ہم چھوٹی آپا کو لے کر راولپنڈی پہنچ رہے ہیں“۔ بڑے ماموں کو میں نے بچپن سے یہی دیکھا تھا کہ ہر وقت مذاق ۔ ہنسنا اور ہنسانا ۔ اس بار وہ بالکل سنجیدہ تھے اور بہت متفکر نظر آتے تھے ۔ باتیں بھی نہیں کر رہے تھے حالانکہ بڑے ماموں موجود ہوں تو گھر گُل و گُلزار نہ بنا ہو ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں حیران تھا کہ بڑے ماموں اتنے سنجیدہ ہو سکتے ہیں
دونوں ماموں 2 دن بعد بڑی خالہ جو میری امی کے بعد بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں کو لے کر پہنچ گئے ۔ ہم سب بہن بھائیوں کو بھگا دیا گیا اور مباحثہ شروع ہوا ۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد بڑے ماموں کی زور دار آواز آئی ”اجمل“۔ میں بھاگتا ہوا پہنچا ۔ بڑے ماموں ہنس رہے تھے اور بولے ”جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ اور منہ میٹھا کراؤ“۔ میں نے ماموں کو ہنستے دیکھا تو بے تکلف ہو کر بولا ”کتنی ۔ ایک من یا ایک ٹرک ؟“
میرے ہموطن جو قومی اور اجتمائی بہتری کی نہ منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ پیش بندی ۔ البتہ فتور پھیلانے کیلئے کچھ ہموطن سالوں پہلے پیش بندی کرنے کے بعد منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں ۔ لوگ جو اجنبی نہیں رشتہ دار ہی تھے نے پہلے تو میری خالہ سے تعلقات بڑھائے پھر ہمدرد اور خیرخواہ بنے اور ناجانے میرے والدین اور میرے متعلق کیا کیا من گھڑت باتیں اس طرح بتاتے رہے کہ خالہ کو یقین آ گیا ۔ وہ خالہ جو میری امی کی پکی سہیلی بھی تھیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے رشتہ کے سلسلہ میں امی کے رشتہ مانگنے جانے سے قبل کسی نے کسی قسم کا اشارہ بھی نہیں دیا تھا اور نہ ہی میری شادی کی کبھی بات کی تھی ۔ کوئی پوچھتا بھی تو میرے والدین ٹال دیتے تھے
شادی کے کئی سال بعد میری بیوی نے بتایا کہ منگنی کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں اور ایک موزوں قسم کا رشتہ بھی بتایا جو لڑکا مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا ۔ کماتا بھی زیادہ تھا اور دولتمند خاندان سے تعلق تھا ۔ جب دباؤ بہت بڑھ گیا تو میری خالہ نے اپنی بیٹی سے بات کی جس نے کہا ”اب میں صرف اجمل سے شادی کروں گی“۔ شادی کے کئی سال بعد مجھے بیوی کے بڑے بھائی نے بتایا ”جس آدمی کی تم تعریف کر رہے ہو اس نے تمہاری منگنی کے بعد مجھے خط لکھا تھا کہ آرڈننس کلب میں شراب ملتی ہے اور اجمل بھی اس کا ممبر ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ہی تحریک پر 1966ء میں آرڈننس کلب میں شراب کی فروخت بند ہوئی تھی
نومبر 1967ء میں شادی ہو گئی لیکن ابلیس نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ شادی کے چند ماہ بعد میں بیوی کو ایک ماہ کیلئے خالہ کے پاس چھوڑ آیا جیسا کہ ہمارے خاندانوں میں رواج تھا ۔ 2 ہفتے بعد بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ واپس پہنچ گئی ۔ مجھے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی ۔ جب بھائی چلے گئے تو میں نے کہا ”آپ نے تو ایک ماہ رہنے کا کہا تھا ۔ خیریت تو ہے نا“۔ بولی ”اب پہلے والی بات نہیں ۔ میں اب آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی“۔ میں خاموش ہو گیا ۔ کچھ دن بعد خود ہی بتایا ”دوسرے ہفتے کے آخر میں کچھ قریبی رشتہ دار اکٹھے ہوئے اور میری مظلومیت اور آپ کی زیادتیوں پر باتیں ہوئیں ۔ میں کمرے میں سب سُن رہی تھی ۔ پھر ایک رشتہ دار نے فیصلہ دے دیا کہ طلاق لے لی جائے ۔ کچھ دیر بعد امی یہ کہہ کر کمرے میں آئیں کہ جس کا معاملہ ہے میں اُس سے تو پوچھ لُوں ۔ میری مرضی پوچھی ۔ میں نے کہا میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں ۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے بھائیجان کل صبح واپس چھوڑ آئیں“۔
میری خالہ شروع سے ہی میرا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ناجانے منگنی سے قبل کیسے دھوکہ کھا گئیں لیکن اُس کے بعد اُنہوں نے بہت سمجھداری سے کام لیا اور میرا خیال بھی بہت رکھا
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
میں بیوقوف بن گیا
جی ہاں ۔ میں واقعی بیوقوف بن گیا ۔ اور لکھ اِس لئے رہا ہوں کہ آپ ہوشیار ہو جائیں اور میری طرح بیوقوف نہ بنیں ۔ ویسے میں اِتنا بیوقوف نہیں جتنا آپ اب سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔ بس ہاتھ ہو گیا میرے ساتھ
بیگم پیچھے لگیں تھیں کہ موسمِ سرما کیلئے ایک اور شلوار قمیض لے لو ۔ بنی بنائی میری پسند کی مل نہیں رہی تھی ۔ 24 دسمبر 2014ء کو میں کلثوم ہسپتال ۔ بلیو ایریا گیا ہوا تھا تو بیگم نے ٹیلیفون پر کہا ”سُنا ہے بلیو ایریا میں ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز بہت اچھی دکان ہے ۔ وہیں سے کپڑا خرید لاؤ“۔ اپنا خیال مرکز جی 9 المعروف کراچی کمپنی جانے کا تھا لیکن سرتابی کی جراءت نہ ہوئی ۔ چنانچہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ۔ دکان نمبر 8۔9 چوہدری پلازہ بلیو ایئریا پہنچا اور کہا شلوار قمیض کیلئے اچھا اُونی کپڑا چاہیئے
پتھاریدار یا چھوٹی دکان ہو تو آدمی خریدنے سے قبل بڑے غور سے پرکھتا ہے ۔ اتنی بڑی دکان اور وہ بھی بلیو ایریا میں اور میں پینڈو ۔ اُس نے اُنہی سے سلوانے پر زور دیا ۔ وہ 1000 روپیہ سلائی لیتے ہیں اور محلے والا 600 روپیہ ۔ سوچا اتنا مہنگا کپڑا لیا ہے کہیں محلے والا درزی خراب نہ کر دے ۔ چنانچہ مان لیا اس شرط پر کہ سِلنے کے بعد گھر پہنچایا جائے گا ۔ یکم جنوری 2015ء کو پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن نہ پہنچا ۔ 2 بار ٹیلیفون کرنے پر 2 جنوری جمعہ کے دن پہنچایا جب میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ بیگم نے پیسے دے کر وصول کر لیا
میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ کپڑا اُونی نہیں بلکہ نائلون قسم کا ہے اور اتنا گرم بھی نہیں ۔ اب معلوم نہیں اُس نے مجھے اُونی دکھایا اور سِلنے کیلئے کوئی اور دے دیا یا میری نظر بڑی دکان دیکھ کر اتنی چکاچوند ہو گئی تھی یعنی میں ہپنوٹائز ہو گیا تھا اور نائلون بھی مجھے بڑھیا اُون دکھائی دی
میرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا ۔ کہتے ہیں ہمسایہ ماں جایہ ۔ مجھے شاید محلے والے درزی کا حق مارنے کی سزا ملی ہے
میری قارئین سے درخواست ہے کہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ہو یا کوئی اور بڑی سے بڑی دکان ۔ دکاندار کی پیاری گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھی طرح دیکھ بھال کر کے چیز خریدیئے
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ گفتار یا عمل ؟
کل کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ
تم نے کیا خواب دیکھے تھے ؟
تم کیا سوچتے تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تم نے کتنا بچا کر جمع کیا ؟
تم کیا پرچار کرتے رہے ؟
بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھے گا کہ
تم نے قرآن پر کتنا عمل کیا ؟
تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟
تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟
Having sat for many years across many tables from many of the ‘folks’ the US tortured in the global ‘war on terror,’ men like Murat Kurnaz and Mohammed al-Qatani, and having heard first-hand their stories of being beaten, hung from ceilings, sexually assaulted, exposed to extreme temperatures, deprived of sleep, and subjected to numerous other brutal acts, my colleagues and I at the Center for Constitutional Rights can assure you: the important thing about the torture report is not just what we learn from it — it is what we do about it.