ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ آخر ستمبر 1947 ء میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم 6 بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو سيکنڈ کزن اور ايک اُن کی پھوپھی [16 سولہ سال کی] ان کے ساتھ چلے گئے ۔ جو کچھ گھر ميں موجود تھا اُس ميں سے کچھ آٹا چاول ۔ دالیں ۔ ایک لٹر تیل زیتون اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے
چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو “جے ہند” اور” ست سری اکال” کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتہ چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے کبھی وہاں سے بھی گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے
کھانا پکانے کے لئے میں اپنے سيکنڈ کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک ہم واپس نہ آتے ہماری بہنیں ہماری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ايک دن تو ہم واپس آئے تو ہماری بہنوں سميت سب خواتين کو نماز جيسی حالت ميں ديکھا ۔ وجہ ہميں کسی نے نہ بتائی ۔ دروازہ ميری سيکنڈ کزن نے کھولا جو ہم چھ ميں سے سب سے بڑی [17 سال کی] تھيں ۔ مجھے پيار کيا پھر ميرے دونوں ہاتھوں کی ہتھليوں کو چوما اور چند لمحے ديکھتی ہی رہ گئيں ۔ ميں نے ديکھا اُن کی آنکھوں سے برسات جاری تھی ۔ اچانک اُنہوں نے منہ پھير کر آنسو پونچھے اور پھر اپنے بھائی کو گلے لگايا ۔ اسی لمحے کرنل عبدالمجيد صاحب کی بيوی آئيں اور ميرے اور پھر ميرے سيکنڈ کزن کے سر پر ہاتھ پھير کر دعائيں ديں
ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو اُبلے ہوئے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف اُبلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے