قبل ازیں ”میں چور ؟” اور ”غیب سے مدد“ کے عنوانات سے ایک واقعہ مع پس منظر اور پیش منظر بیان کر چکا ہوں ۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے ۔ کہانی جس پر تفتیش شروع کی گئی یہ تھی
مُخبر نے بتایا ”اجمل بھوپال نے منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فورمین ”ح“ نے مدد کی ۔ گوڈؤن کیپر اور اُس کا ہیلپر(Helper) ہفتے کو ورکشاپ کے اندر ہی رہے ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منیجر ”ع“ اپنی سفید کار میں فورمین ”ت“ کو ساتھ لے کر آیا ۔ اندر سے بندوقیں گوڈؤن کیپر اور اس کے مددگار نے نکالیں ۔ چارجمین نے بندوقیں کار میں رکھنے میں مدد دی“
مُخبر کون ؟
متذکرہ بالا کہانی کا مُصنّف اور مُخبر ایک بدنامِ زمانہ ورکر تھا جو فیکٹری میں لیڈر بنا پھرتا تھا اور کاروبار اس کا تھا کہ ٹھرا (دیسی شراب) بیچتا تھا اور جُوے کا اڈا چلاتا تھا ۔ ایک بار اسے فیکٹری کے اندر جوا کھلاتے پکڑا گیا تھا ۔ میرے پاس لائے تو میں نے اُسے سخت تنبیہ کی تھی اور اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”ع“ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نظر میں رکھے جب تک وہ اپنا چال چلن درست نہ کر لے ۔ منیجر ”ع“ اُن دنوں اسسٹنٹ منیجر تھا ۔ فورمین ”ح“ اُس ورکشاپ کا فورمین تھا اور مُخبر کا بھی ۔ فورمین ”ت“ کا اس ورکشاپ سے تعلق نہ تھا مگر وہ نہ غلط کام کرتا تھا نہ کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ چارجمین کا بھی اس ورکشاپ سے کوئی تعلق نہ تھا
حقیقت
ہمارے لوگوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ کوئی کہے ”کُتا تمہارا کان لے گیا“ تو کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کان موجود ہے یا نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ہندوستان پر قابض انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ نظامِ پولیس جاری ہے جو کہ مزید خراب ہو چکا ہے ۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پھندا کس کے گلے میں ڈالنا ہے پھر ایک کہانی بنائی جاتی ہے اور اس کہانی کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے
موازنہ
اگر کوئی متذکرہ بالا کہانی کے حوالے سے زمینی حقائق پر سرسری نظر بھی ڈالتا تو کہانی غلط ثابت ہو جاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ
1۔ منیجر ”ع“ کے پاس کالے رنگ کی کار تھی اور وہ فیکٹری کار پر نہیں آتا تھا ۔ سفید کار جنرل منیجر کے پاس تھی جو کار پر فیکٹری آیا کرتا تھا مگر ان دنوں چھٹی پر تھا اور شہر سے باہر گیا ہوا تھا
2۔ ویپنز فیکٹری کے چاروں طرف خاردار تار کی دبیز باڑ لگی ہوئی تھی ۔ اس باڑ میں سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اسے کاٹا جائے اور یہ کہیں سے کٹی ہوئی نہیں تھی
3۔ صرف ایک گیٹ تھا اور اس پر فوج کا پہرا ہوتا تھا ۔ اوقاتِ کار کے دوران اس فیکٹری کے ملازمین پاس دکھا کر اندر آ سکتے تھے ۔ اوقاتِ کار کے بعد اُنہیں آرڈرلی آفیسر (Orderly) کو ساتھ لے کر آنا پڑتا تھا جو کہ تمام فیکٹریوں کا صرف ایک ہوتا تھا اور بغیر اچھی طرح چھان بین کے اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر اجازت دے تو اس کا اندراج وہ اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں کرتا اور گیٹ کیپر اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں ۔ مگر ایسا کچھ موجود نہ تھا
4۔ متذکرہ بالا باڑ کے علاوہ پی او ایف کے گرد 8 فٹ اُونچی دیوار تھی ۔ 3 گیٹ تھے ۔ اوقاتِ کار کے دوران پاس دکھا کر ان میں فیکٹری میں داخل ہوا جا سکتا تھا لیکن اوقاتِ کار کے بعد باقی گیٹ پکے بند ہو جاتے تھے صرف مین گیٹ کھولا جا سکتا تھا جہاں گیٹ سٹاف کے ساتھ سیکیورٹی والے اور فوجی بھی موجود ہوتے تھے ۔ ان دنوں میں اوقاتِ کار کے بعد نہ کوئی داخل ہوا اور نہ باہر نکلا تھا
5۔ ورکشاپوں کے تمام دروازوں کو بڑے بڑے تالے لگا کر چابیاں مین گیٹ پر جمع کرادی جاتی ہیں ۔ اوقاتِ کار کے بعد صرف آرڈرلی آفیسر مین گیٹ کے رجسٹر پر اندراج کر کے چابیاں لے سکتا ہے اور اس کیلئے معقول وجہ لکھنا ہوتی تھی ۔ مگر کسی نے چابیاں نہیں لی تھیں اور چوری کے بعد اگلے دن چابیاں ویپنز فیکٹری کا نمائندہ مین گیٹ سے لے کر آیا تھا
مندرجہ بالا حقائق ثابت کرتے ہیں کہ متذکرہ بالا کہانی بالکل غلط اور بے تُکی تھی اور اشارہ دیتے ہیں کہ مین گیٹ پر مامور لوگوں میں سے کوئی چور یا چور کا معاون تھا
چوری کیسے ہوئی اور کیسے پکڑی گئی ؟
پچھلی تحریر میں ورکشاپ کی دیوار میں سوراخ کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اس سوراخ والی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف سیڑھی لگائی گئی تھی ۔ اس سوراخ میں سے چادر کے ساتھ لٹک کر ایک آدمی جس کا شانہ 18 انچ سے کم تھا ورکشاپ میں اُترا اور بندوقیں چادر کے ساتھ باندھ باندھ کر باہر بھجواتا رہا ۔ تمام بندوقیں سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر پی او ایف کے اندر ہی مارشلنگ یارڈ میں چھُپا دی گئیں اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر سیکیورٹی والوں کا ڈرائیور پی او ایف سے باہر لے جاتا رہا تھا
ورکشاپ میں اُترنے والا وہی ورکر تھا جس کا نام میری دی ہوئی 7 مشکوک آدمیوں کی فہرست میں سب سے اُوپر تھا ۔ مجھے متعلقہ ورکشاپ کے سینئر مستری ۔ چارجمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور فورمین نے اپنی اپنی سوچ اور تحقیق کے مطابق کُل 15 نام دیئے تھے ۔ میں نے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تبادلہ خیال کیا اور 8 نام فہرست میں سے نکال دیئے تھے ۔ بقایا 7 میں سرِ فہرست ایک لیبر کا نام تھا جو سینئر مستری نے دیا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ نوجوان حُکم دیئے جانے کے باوجود کبھی ڈانگری نہیں پہنتا تھا اور عام طور پر کام کا وقت شروع ہونے کے ایک سے 5 منٹ بعد آتا تھا ۔ چوری کے بعد والے دن صبح وہ کام کے وقت سے کچھ منٹ پہلے ہی آ گیا ۔ اُس نے ڈانگری پہنی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر مچھروں کے کاٹنے کے نشان تھے جس کا بہانہ بنا کر وہ چھٹی لے کر چلا گیا تھا ۔ مستری کا خیال تھا کہ بندوقیں چوری کر کے مارشلنگ یارڈ میں چھپائی گئی ہوں گی جہاں مچھر بہت ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس نے ڈانگری پہنی اور وہیں سے اسے مچھروں نے کاٹا
مستری کا خیال درست تھا ۔ 2 ہفتے بعد جب میرے بتائے ہوئے کے مطابق تفتیش شروع کی گئی تو 12 بندوقیں مارشلنگ یارڈ سے ہی ملی تھیں ۔ باقی قبائلی علاقہ میں بیچ دی گئی تھیں جن میں سے 3 پیسے دے کر واپس لی گئیں اور باقی کا کچھ پتہ نہ چلا تھا