اس سلسہ میں 4 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ اور ”میں چور ؟“ لکھ چکا ہوں
میں نے کچھ طوالت کے باعث اور کچھ تواتر ٹوٹنے کے خدشہ کے تحت اپنی تحریر ”میں چور ؟“ میں چند متعلقہ ظاہر اور پسِ پردہ واقعات رقم نہیں کئے تھے ۔ ان کے ذکر سے قبل ایک اہم حقیقت
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پر کامل بھروسہ رکھا جائے اور اُسی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلا جائے تو مدد غیب سے آتی ہے ۔ اس کیلئے گناہوں سے مکمل پاک ہونا ضروری نہیں ہے
چوری سے قبل
چوری سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل جب میں پروڈکشن منیجر تھا اور جنرل منیجر کا اضافی کام نہیں کر رہا تھا جس ورکشاپ سے چوری ہوئی تھی اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”د“ میرے پاس آئے کہ دیوار میں ایک سوراخ کرنا ہے اُس کی اجازت چاہیئے ۔ سوراخ زمین سے 10 فٹ اونچا ہونا تھا پھر بھی خطرناک تھا ۔ میں جواز سے مطمئن نہ ہوا اور اجازت نہ دی ۔ پھر مجھ سے بالا بالا جنرل منیجر یا اُس سے بھی اُوپر سے یہ حُکم میرے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو دیا گیا ۔ وہ میرے پاس صرف مطلع کرنے آیا ۔ میں نے اُسے بھی منع کیا لیکن اس نے کہا ”بڑے صاحب نے حُکم دیا ہے“ تو میں نے کہا ”اگر آپ نے حُکم ماننا ہی ہے تو 18 انچ ضرب 18 انچ بہت بڑا سوراخ ہوتا ہے ۔ سوراخ پر 3 انچ کا اینگل آئرن کا فریم لگا کر اس پر اینگل آئرن اور آدھ انچ کے سریئے جو تین تین انچ پر ہوں کی کھڑکی لگائیں جسے روزانہ چھُٹی سے قبل مضبوط تالہ لگایا جائے ۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کھڑی نہیں لگائی گئی تھی اور بندوقیں اسی سوراخ کے راستے چوری ہوئی تھیں
چوری کے بعد
میری لڑکپن کے زمانہ سے عادت ہے کہ صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ہوں ۔ چوری کے 6 دن بعد بروز ہفتہ میں ابھی جاگا نہیں تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے ٹیلیفون اُٹھایا تو آواز آئی ” سر ۔ آپ بچوں کو لے کر راولپنڈی اپنے گھر چلے جائیں اور روزانہ وہیں سے بس پر آیا کریں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ نماز کے بعد میں معمول میں لگ گیا اور ٹیلیفون ذہن سے محو ہو گیا ۔ سہ پہر کے وقت اچانک ٹیلیفون پر سُنا ہوا فقرہ میرے ذہن میں اُبھرا ۔ سوچا مشورہ درست ہے ۔ اپنی بیگم سے عمل کا کہا ۔ بیگم نے ٹکا سا جواب دیا ”آپ چھٹی لے لیں اور ہمارے ساتھ راولپنڈی میں ہی رہیں ورنہ میں یہیں رہوں گی“۔
میں نے ٹیلیفون اُٹھایا اور اپنے ماتحت منیجر ”ع“ کو حُکم دے ڈالا جو مجھے بطور مشورہ ملا تھا ۔ لیکن اُنہوں نے اپنی پرانی کار کی نوک پلک درست کرنے میں اتوار کا دن ضائع کر دیا اور رات آئی تو اُٹھا لئے گے جس کا مجھے پیر کی صبح پَو پھٹنے سے قبل ڈھائی بجے پتہ چلا
منگل کی صبح میں سویا ہوا تھا کہ پھر پَو پھٹنے سے کچھ پہلے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ اُٹھایا تو آواز تھی ”سر آپ گئے نہیں ۔ اب مہربانی کریں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں باہر نکلنے سے قبل چاروں طرف دیکھ لیں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ اس کے بعد میں سویا نہیں اور اس آواز پر بہت غور کرتا رہا مگر 2 بار سُننے کے باوجود میں نہ جان سکا کون تھا ؟ آج تک مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اللہ کا بندہ کون تھا ۔ بہر حال اُس کی نصحیت پر احتیاط کے ساتھ عمل کیا ۔ اللہ کے حکم کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آزاد رہا
ہماری فیکٹری کے 6 اہلکار اُٹھائے جانے کے بعد 4 دن تک میں تن تنہا لڑتا رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام بھی میری ذمہ داری تھی اور وہ بھی 3 آدمیوں کا (اپنا ۔ جنرل منیجر کا جو چھُٹی پر تھا اور منیجر کا جو اُٹھا لیا گیا) ۔ میں کوئی پہلو کمزور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ پانچویں دن دوسری فیکٹریوں سے اسسٹنٹ منیجر اور منیجر صاحبان کے ٹیلیفون آنے شروع ہوئے ۔ پورے ادارے میں طوفان اُٹھنے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب فورمین ۔ اسسٹنٹ فورمین ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپرز اور ورکمین کی ایسوسی ایشنز کے نمائندے الگ الگ میرے پاس آئے اور ہر ایک نے مختلف الفاظ میں کہا ”جناب ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ ہم انتہائی اقدام کیلئے بھی تیار ہیں“۔ میں نے ہر ایک وفد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا”متحد رہیں اور اللہ سے بہتری کی دعا کریں ۔ اپنا کام تندہی کے ساتھ کرتے رہیں“۔
وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چلے گئے ”ہمارا ایک ایک رُکن آپ کے ساتھ ہے ۔ آج سے آپ ہمارے لیڈر ہیں”۔ میں نے دل میں کہا ”اللہ تیری شان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار کام کی تاکید کرنے کے باعث میرے ساتھ ناراض رہتے تھے“ ۔
اُنہوں نے بغیر مجھے بتائے چوکھا چندہ اکٹھا کر لیا اور مجھے قانونی چارہ جوئی کیلئے کوئی بہت بڑا وکیل کرنے کا کہا ۔ میں پہلے ہی اپنے پاس سے خرچ کر کے منیجر اور دو فورمینوں کے لواحقین سے دستخط کروا کر حبسِ بے جا کا کیس عدالت میں داخل کروا چکا تھا ۔ اُنہوں نے تحمکانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے میں نے جو خرچ کیا تھا مجھے دے دیا ۔ کیس کی پہلی پیشی ہوتے ہی سب اہلکاروں رہا کر دیا گیا تھا
ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ؟
اگلے دن منیجر ”ع“ نے بتایا ”مجھے ایک کمرے میں ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا اور ایک بڑا سا بلب روشن کر دیا گیا تھا ۔ مجھے اُونگ آ جائے تو جھٹکا دے کر جگا دیتے تھے ۔ بلب پر آنے والے بیشمار پتنگے میرے اُوپر گرتے میرے اُوپر چلتے رہتے ۔ ایک دن مجھے ایک آڈیو ٹیپ سُنائی گئی جس میں گوڈاؤن کیپر نے اقبالِ جُرم کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بندوقیں منیجر ”ع“صاحب اپنی کار میں باہر لے کر گئے تھے جس کا رنگ سفید تھا ۔ کچھ دیر بعد گوڈاؤن کیپر کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور بولے بتاؤ ان کو ۔ گوڈاؤن کیپر بولا کہ ‘آپ بندوقیں لے کر گئے تھے اپنی کار میں’ ۔ میں نے غصے سے کہا کہ ‘کیا بکواس کر رہے ہو’ ۔ وہ گوڈاؤن کیپر کو چھوڑ کر چلے گئے تو وہ زمین پر گھسٹتا ہوا آیا اور میرے پاؤں چوم کر گڑگڑا کر کہنے لگا ۔ سر مجھے معاف کر دیں ۔ دیکھیں انہوں نے میری کیا حالت بنا دی ہے ۔ میں مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ اُنہوں نے جو کہا میں نے بول دیا“۔
فورمین ”ت“ (جو باعمل مسلمان تھا) نے بتایا ”صاحب ۔ میری داڑھی کھینچتے ۔ گالیاں دیتے ۔ مجھے ننگا بھی کیا ۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ ہم رہا ہو گئے ۔ اگر ایک دن اور رہ جاتے تو میں نے اقبالِ جُرم کر لینا تھا“۔
یہ فورمین محنتی اور دیانتدار تھے ۔ میں نے کہا ”ت ؟ یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟“
وہ بولا ”ہاں صاحب ۔ ایک دن قبل اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر تم نہیں مانو گے تو کل تمہاری بیٹیوں کو یہاں لے کر آئیں گے اور اُن کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے ۔ صاحب ۔ میری 20 اور 22 برس کی بیٹیاں ہیں جن کی شکل آج تک کسی غیر نے نہیں دیکھی ۔ میں اُن کی ناموس کی خاطر اپنی جان دے دیتا“
ہفتہ عشرہ بعد میں گوڈاؤن کیپر کا حال پوچھنے گیا تو اُس نے بتایا ”سر جی ۔ میرے ٹخنوں سے رسی باندھ کر مجھے اُلٹا لٹکائے رکھتے تھے ۔ دن میں ایک بار ایک لکھے ہوئے بیان کو بلند آواز میں پڑھنے کا کہتے تھے جس کے شروع میں تھا کہ میں حلفیہ بیان کرتا ہوں ۔ میں انکار کرتا تو مجھے پھر اُلٹا لٹکا دیتے ۔ میں پانی مانگوں تو پانی میرے چہرے پر پھینکتے ۔ کئی دن لٹکے رہنے کے بعد میرا دماغ کام نہیں کرتا تھا ۔ پھر ایک دن میں نے بیان پڑھ دیا ۔ میرے ٹخنے سُوج گئے تھے اور میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ ابھی بھی میں ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتا“۔
دونوں فورمینوں نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپر اور ورکر ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ منیجر صاحب نمعلوم کس طرح صاحب لوگوں کے منظورِ نظر بن گئے ۔ ان کی خاطر میں نے اپنا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا تھا اور بعد میں یہ صاحب در پردہ میرے خلاف بڑے افسروں کو لکھ کر دیتے رہے جو مجھے کسی نے میرے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد دکھایا
مسروقہ بندوقوں کا کیا ہوا ؟
ان لوگوں کے رہا ہونے کے ایک ہفتہ بعد مجھے کسی میجر صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ اُنہیں میری اعانت کی بہت ضرورت ہے اور مجھے گھر پر ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت دے کر نہ آئے اور اگلے روز بغیر بتائے آ پہنچے ۔ مجھ سے مدد چاہی ۔ میں نے کہا میرے پاس کچھ لوگوں کی فہرست ہے اور میرا دماغ کہتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک اس چوری میں ملوّث ہے ۔ دوسرے دن میرے دفتر آ کر اُنہوں نے مجھ سے وہ فہرست لے لی
چند دن بعد میجر ”ش“ صاحب جن کا دھمکیوں والا ٹیلیفون مجھے آیا تھا نے ٹیلیفون پر معذرت کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ میں چلا گیا اور اُن کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات ہوئی ۔ چوری سے چار ہفتے بعد میجر ”ش“صاحب نے میری دی ہوئی فہرست کے مطابق دو چور بتائے اور بتایا کہ ایک وہ ہے جس کا نام میں نے سرِ فہرست لکھا تھا ۔ اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ایک درجن بندوقوں کی برآمدگی کا بھی بتایا اور کہا کہ بقیہ بندوقیں بیچ دی گئی تھیں ۔ کہنے لگے ”سر ۔ میں تو باہر کا آدمی تھا ۔ آپ کے سکیورٹی والوں ( 2 میجر) نے من گھڑت کہانی کو سپورٹ کر کے سب کچھ خراب کیا ۔ ہم تمام بندوقیں برآمد کر سکتے تھے”۔
چند ماہ بعد میجر ”ش“ نے مجھے ٹیلیفون کیا ۔ بہت مایوس لگ رہے تھے کہنے لگے ”سر ۔ برآمد ہونے والی 12 بندوقوں کے نمبر میں نے خود آپ کی دی ہوئی فہرست سے ملائے تھے ۔ وہی بندوقیں پولیس کے حوالے کی تھیں ۔ پھر تھانے میں بندوقیں کیسے بدل گئیں ؟ اور سب مجرم رہا ہو گئے “۔
میں نے کہا ”ہمارے ہاں سے تو بندوقیں پہلی بار چوری ہوئی ہیں مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ بندوقیں کہیں اور سے چوری ہو رہی ہیں“۔
یہ میجر ”ش“ صاحب کا مجھے آخری ٹیلیفون تھا جس کا آخری فقرہ تھا ”سر ۔ پتہ نہیں اس مُلک کا کیا بنے گا“۔