Daily Archives: May 14, 2011

افغانستان پاکستان اُسامہ ۔ تاريخ کا ايک ورق

مندرجہ ذيل تحرير پڑھنے سے پہلے اگر میرے ایک دہائی سے زیادہ پر محیط مطالعہ اور تحقیق کا نچوڑ افغانستان کی تاريخ کے خلاصے پر نظر ڈال لی جائے تو اس تحرير کو سمجھنے ميں آسانی رہے گی ۔ افغانستان کی تاريخ نہائت مُختصر انداز ميں ان روابط پر موجود ہے ۔ پہلی قسط ۔ ۔ ۔ دوسری قسط ۔ ۔ ۔ تيسری قسط ۔ ۔ ۔ چوتھی قسط ۔ ۔ ۔ پانچويں قسط ۔ ۔ ۔ چھٹی قسط ۔ ۔ ۔ اور ساتويں قسط

جہاد افغانستان کے آخری مراحل میں اُسامہ بن لادن اپنے مال و دولت سمیت پاکستان میں وارد ہوئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور عرب ممالک کھُل کر پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کا ساتھ دے رہے تھے ۔ اس سے پچھلے مراحل میں خود امریکہ بھی محتاط تھا کیونکہ انہوں نے افغانستان کو سوویت یونین کے دائرہ اثر میں دینا قبول کرلیا تھا اور وہ افغانستان میں سوویت یونین کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لئے تیار نہیں تھا

ظاہر شاہ [1933ء تا 1973ء] کے زمانے میں حالت یہ تھی کہ افغانستان کے ایک بااثر وزیر عبدالستار سیرت کے کہنے کے مطابق شمالی افغانستان میں ایک معمولی پولیس افسر بھی ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سوویت یونین سے منظوری حاصل کئے بغیر تعینات نہیں کیا جاتا تھا تاکہ سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمران ناراض نہ ہوجائیں۔ کابل یونیورسٹی اور کابل کی پالیٹکنک انجینئرنگ یونیورسٹی کمیونسٹ طلباء اور اساتذہ کا گڑھ تھے یہاں تک کہ کابل یونیورسٹی کے شریعت فیکلٹی میں بھی بعض بااثر کمیونسٹ اساتذہ تعینات تھے

اس زمانے میں کابل میں کمیونسٹ طلباء اور اسلامی تحریک سے وابستہ طلباء کی کشمکش شروع ہوئی۔ یہ 1968ء کی بات ہے کہ مسلمان طلباء کی قیادت ایک ایسے نوجوان کے ہاتھ میں آئی جو مافوق العادہ عبقری صلاحیتوں کا مالک تھا۔ عبدالرحیم نیازی نامی اس طالب علم نے مسلمان نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ ان کے ساتھ کابل یونیورسٹی کے اساتذہ میں استاذ غلام محمد نیازی، پروفیسر برہان الدین ربانی اور طلباء میں استاذ عبدالرب الرسول سیاف اور انجینئر گلبدین حکمت یار پیش پیش تھے ۔ عبدالرحیم نیازی کو ایک پراسرار طریقے سے زہر دے کر قتل کیا گیا۔ یہ مشہور کر دیا گیا کہ انہیں کینسر ہے اور علاج کے لئے انہیں دہلی لے جایا گیا ۔ دہلی سے ان کی میت جب کابل ائیرپورٹ پر پہنچی تو پورا کابل شہر تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لئے اُمڈ آیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ سے ایک ہمہ گیر تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت حکمت یار ،حبیب الرحمن شہید ، سیف الدین شہید، استاذ برہان الدین ربانی ، استاذ سیاف اور مولوی محمد یونس خالص کررہے تھے ۔ ان نوجوانوں اور ان کے اساتذہ کی زیر نگرانی یہ تحریک بالآخر جہاد افغانستان میں تبدیل ہوئی

حبیب الرحمن شہید میرے پاس پشاور تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سوویت یونین اور ان کے زیر اثر کمیونسٹ گروہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے دونوں ممالک کو اسلام کے رشتے میں جوڑ کر یک جان اور دوقالب بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کوششیں کرنی چاہئیں ۔ میں انہیں لے کر مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے نوجوان کی حوصلہ افزائی کی لیکن انجینئر حبیب الرحمن شہید جو صرف 24 سالہ نوجوان تھا ۔ واپسی پر داؤد کے زیر عتاب آگیا اس پر فوجی افسران کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگایا گیا اور اسے پھانسی کی سزا ہوئی

ان کے بعد اسلامی تحریک دوسرے نوجوانوں اور پروفیسروں کی قیادت میں آئی ۔ ان کے ساتھ روابط کی تجدید کے لیے میں نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 1973ء سے لے کر 1977ء تک میں نے مختلف طریقوں سے افغانستان کے پانچ دورے کئے اور ان مسلسل رابطوں کی وجہ تھی کہ افغانستان سے برہان الدین ربانی ، انجینئر حکمت یار ، مولوی محمد یونس خالص اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی

ظاہر شاہ کے بعد محمد داؤد اور ان کے بعد نور محمد ترکی اور پھر حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب کے دور حکومت کے پورے عرصے میں افغانستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ ہمارا بھرپور تعاون جاری تھا۔ نور محمد ترکی کی حکومت تک امریکہ کھل کر جہاد کی پشتیبانی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور نور محمد ترکی [27 اپريل 1978ء تا 14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو خود امریکہ نے تسلیم کرلیاتھا اور حکومت پاکستان نے بھی امریکہ کے کہنے پر اسے تسلیم کرلیا تھا حالانکہ ہم نے جنرل ضیاء الحق کو کہا تھا کہ یہ حکومت کمزور ہے اور اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ حفیظ اللہ امین [14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو امریکہ اور پاکستان نے تسلیم نہیں کیا اور ان کے زیر اثر عرب ممالک نے پاکستان کی حکومت کو کنڈوٹ [Conduit] بنا کر افغان مجاہدین کی مدد شروع کی

اس دور میں بڑی تعداد میں عرب مجاہدین اور عرب شیوخ مذہبی لباس میں اور مخیر تاجروں کے لباس میں پاکستان آئے جن میں سے ایک اُسامہ بن لادن تھے لیکن دوسرے عرب شیوخ کی طرح ان کی آمد و رفت صرف بڑے ہوٹلوں اور حویلیوں تک محدود نہیں تھی ۔ انہوں نے کسی بڑے ہوٹل یا بڑی حویلی میں قیام کی بجائے مجاہدین کے ساتھ پہاڑوں اور سرنگوں میں رہنا قبول کیا اور شہزادوں کی طرز زندگی چھوڑ کر فقر کی زندگی اختیار کی

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور روسی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد اُسامہ بن لادن نے واپس سعودی عرب جا کر عیش اور آرام کی زندگی دوبارہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے لئے دوسرے عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کا راستہ اختیار کیا جو اپنے آپ کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کا اکیلا قطب الاقطاب سمجھ بیٹھا تھا اور دنیا کے لوگ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب یہ یک محوری دنیا [Unipolarl World] بن گئی ہے۔ اُسامہ بن لادن نے اس مفروضے [myth] کو توڑنے کا تہیہ کیا۔ اس کا یقین تھا کہ جس بے سر و سامانی کی حالت میں افغانوں نے جہاد شروع کیا اس کے بعد اسباب فراہم ہوتے گئے اور بالآخر وہ دن آگیا جب لوگوں کی نظروں میں ناممکن کام ممکن بن گیا اور سوویت یونین کی مسلسل پیش قدمی نہ صرف رُک گئی بلکہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ روحانی طاقت کے مقابلے میں مادی طاقت چاہے کتنی بڑی کیوں نہ ہو بالآخر شکست کھا جائے ۔

اسامہ بن لادن نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے خاص طور پر 9 ستمبر 2001ء جسے عرف عام میں 9/11 کہتے ہیں کی ذمہ داری خود قبول کرنا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور مغربی دنیا کو جنگ چھیڑنے اور افغانستان اور پاکستان کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کرنے کا بہانہ بنا

9/11 سے قبل مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا پروپیگنڈہ بے اثر ہو رہا تھا۔ ساری دنیا کے انصاف پسند دانشور اسلام کو عالم انسانیت کے ایک روشن مستقبل کی نوید سمجھ رہے تھے۔ کمیونزم کی پسپائی کے بعد دنیا کے لوگ اسلام کو عدل و انصاف کے منبع کے طور پر اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن بم دھماکوں ، معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی وجہ سے دشمنوں کو موقع مل گیا کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیں ۔ نعوذ باللہ قرآن کریم کو دہشت گردی کی تعلیم کی کتاب ٹھہرا دیں اور غلیظ پروپیگنڈے کے گرد پیچھے امریکہ اور مغربی دنیا کا مکروہ چہرہ چھپا دیں جو پوری دنیا میں فساد پھیلا رہا ہے

اُمت مسلمہ اس گہری نیند سے بیدار ہو رہی ہے ۔ اُمت مسلمہ اسی عالمگیر دعوت کو لے کر اُٹھ رہی ہے۔ جو ساری انسانیت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر غیروں کے آلہٴ کار بن کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنا کر استعمار کے مکروہ چہرے کو چھپانے کا ذریعہ بن رہے ہیں

فلسطین ، کشمیر اور افغانستان میں استعماری طاقتیں جس قسم کے ظالمانہ ہتھیار استعمال کرتی ہیں، آزاد اور حریت پسند شہریوں کی جس طرح تذلیل کی جارہی ہے بجائے اس کے کہ وہ دنیا کے سامنے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں وہ اُلٹا مسلمانوں کو دہشت گردی کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اُسامہ اور ان کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر یہ صورتحال پیدا کی ہے لیکن مخالفین پاکستان کے اندر مساجد اور بازاروں میں معصوم شہریوں کے قتل کی ذمہ داری ان پریا ان کے ہم خیال لوگوں پر ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے اندر کے دھماکوں اور تخریب کاری کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جا سکتی

اگر وہ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری کے ذمہ دار تھے تو وہ پانچ سال تک کاکول کے فوجی گیریژن کی ایک حویلی میں کیسے ٹھہرے رہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کے علم کے بغیر وہ عین فوجی چھاؤنی کے اندر ایک ایسے مکان میں، رہائش پذیر ہوں جس کے دروازوں پر ہر وقت پہرا لگا ہوا ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچ سال تک اس گھر کے بارے میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو ؟ جو ادارے اتنے چوکنے ہوں کہ خود میرے جیسے بے ضرر شخص کے مکان کے ہر آنے جانے والے پر ان کی نظر ہو ان کی تیز نظروں سے چھاؤنی کے اندر وسیع وعریض قلعہ بند مکان کیسے اوجھل رہ سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں دل لگتا تجزیہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوباما ایڈمنسٹریشن افغان جنگ کے اقتصادی بوجھ سے تنگ آچکی ہے اور اس سے نکلنا چاہتی ہے لیکن یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا

میری معلومات کی حد تک افغانستان کے طالبان اور بعض دوسرے مجاہدین یہ شرط پوری کرنے کے لئے تیار ہیں اگرچہ ان کی دوسری شرط ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ افغانستان میں انہیں اڈے مہیا کئے جائیں ۔ امریکی افواج کے نکلنے کے لئے زمین تیار کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ میں اتفاق ہوچکا ہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف اور پاکستان کے سینئر فوجی اور سِول افسران کے بار بار افغانستان کے دورے اور وہاں امریکی فوجی افسروں سے ملاقاتیں بھی خالی از مصلحت نہیں تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس باہمی مشترکہ حکمت عملی میں طے ہوچکا ہو کہ اوباما کو رائے عامہ میں قبولیت حاصل کرنے کے لئے اہم ٹرافی پیش کی جائے ۔ اس کے بدلے میں پاکستان کیا حاصل کرسکتا ہے ؟ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھارت کی بجائے پاکستان کو افغانستان کی حساس اور اہم جگہوں پر فائز ہونے کے مواقع فراہم کرے تو پاکستان اس خطرے سے بچ سکتا ہے کہ مغربی سرحد اور مشرقی سرحد دونوں جگہ وہ بھارت کے درمیان محصور ہوجائے

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن پاکستان کے ساتھ تھا اور پاکستانی اداروں کو اس کا علم تھا تو انہوں نے کاکول جیسے حساس علاقے میں کیوں اسے رکھا اور اگر رکھا تو اسے اس علاقے میں امریکہ کے حوالے کیوں کیا ؟

اس علاقے میں امریکہ کی حالیہ کارروائی سے عوام اپنے ملک کے تحفظ اور خاص طور پر نیوکلیئر تنصیبات کے بارے میں شدید شکُوک و شُبہات کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اس بارے میں عوام سے حقائق کو چھپانے کی بجائے حقائق کو سامنے لانا زیادہ مفید ہوگا

ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت اسامہ بن لادن کو امریکی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتی ہے ۔ ان کو سمندر بُرد کرنے کو لوگ توہین آمیز سلوک سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح جان دی ہے اسے بھی لوگ بہادری کی علامت سمجھتے ہیں لیکن ان کی لاش کو چھپا کے کیوں رکھا گیا ؟ اس بارے میں لوگ شکُوک وشُبہات میں مبتلا ہیں ۔ کیا وہ پہلے شہید ہوچکے تھے اور یہ محض ڈرامہ تھا یا وہ ابھی زندہ ہیں ؟ اس طرح کی قیاس آرائیاں اب چلتی رہیں گی

قاضی حسین احمد کی مندرجہ بالا تحریر 2 اقساط میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی جو يہاں اور یہاں موجود ہیں