Monthly Archives: June 2010

عقل ۔ کيا صرف انسان کو ہے ؟

انسان سمجھتا ہے کہ عقل صرف اسی ميں ہے مگر گرد و پيش کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے سب جانداروں کو عقل دے رکھی ہے خواہ انسان ہوں ۔ چرند ہوں يا پرند

سمجھدار پرندہ

ريچھ کا عقلمند اور بہادر بچہ
اِسے آواز کے ساتھ ديکھيئے

ريچھ کا “کُنگ فُو” بچہ

ہرن اور کُتے کا کھيل

پڑھيئے اور سوچئے

عزيز ہموطنوں
اللہ آپ کو سلامتی اور حق کی پہچان عطا فرمائے
آپا دھاپی چھوڑيئے اور ہوش سے کام ليجئے ۔ آج ہم سب کو جن آفتوں کا سامنا ہے يہ سب ہماری غلط سوچ اور بے عملی يا غلط عمل کا نتيجہ ہيں ۔ يہ وقت ہے اپنی دماغی اور عملی صلاحيّتوں کو بروئے کار لانے کا ۔ اپنے مصائب کا سدِ باب ہم نے خود ہی کرنا ہے ۔ ايئر کنڈيشنڈ کمروں ميں رہنے اور فائيو يا سِکس سٹار ہوٹلوں ميں کھانا کھانے والوں کو کيا معلوم کہ 80 سے 90 فيصد ہموطن جن کے ہاں بجلی گھنٹوں کے حساب سے غائب رہتی ہے اُن پر کيا گذرتی ہے

آنکھيں اور دماغ کی کھڑی کھول کر ديکھيئے کہ کيا واقعی وطنِ عزيز بجلی کی طلب [demand] کے مطابق پيداواری صلاحيت [Production Capacity] نہيں رکھتا

وطنِ عزيز ميں بجلی کی پيداوار کے 3 بڑے ذرائع ہيں
1 ۔ پن بجلی
2 ۔ تھرمل يعنی گيس يا بھاپ يا فرنس آئل سے
3 ۔ نيوکليئر

بجلی مہيا کرنے والے 4 بڑے ادارے ہيں ۔ واٹر اينڈ پاور ڈويلوپمنٹ اتھارٹی [WAPDA] ۔ کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی [KESC] ۔ پاکستان اٹامک انرجی کميشن [PAEC] اور انڈيپنڈنٹ پاور پروڈکشن پروجيکٹس [IPPs] ۔ ان اداروں کی نصب شدہ پيداواری صلاحيت [Installed Production Capacity] جون 2008ء ميں مندرجہ ذيل تھی

واپڈا پن بجلی

تربيلہ ۔ 3478 ميگا واٹ
وارسک ۔ 243 ميگا واٹ
درگئی ۔ 20 ميگا واٹ
منگلا ۔ 1000 ميگا واٹ
غازی بڑوتھا ۔ 1450 ميگا واٹ
چشمہ ۔ 184 ميگا واٹ
مونگ رسول ۔ 22 ميگا واٹ
شادی وال ۔ 18 ميگا واٹ
نندی پور ۔ 14 ميگا واٹ
کُرم گڑھی ۔ 4 ميگا واٹ
رينالہ ۔ 1 ميگا واٹ
چترال ۔ 1 ميگا واٹ
جگران آزاد جموں کشمير ۔ 30 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پن بجلی کی کُل پيداواری صلاحيت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6465 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واپڈا تھرمل بجلی

گيس ٹربائن پاور سٹيشن شاہدرہ ۔ 59 ميگا واٹ
سٹيم ٹربائن پاور سٹيشن فيصل آباد ۔ 132 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن فيصل آباد ۔ 244 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن ملتان ۔ 195 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن مظفر گڑھ ۔ 1350 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن گُدُو ۔ 1655 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن کوٹری ۔ 174 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن جام شورو ۔ 850 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن لاڑکانہ ۔ 150 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن کوئٹہ۔ 35 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن پسنی۔ 17 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن پنج گڑھ ۔ 39 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کل تھرمل پاور پيداواری صلاحيت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4900 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واپڈا کی کُل بجلی کی پيداواری صلاحيت ۔ ۔ 11365 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی

تھرمال پاور سٹيشن کورنگی ۔ 316 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن کورنگی۔ 80 ميگا واٹ
گيس ٹربائن پاور سٹيشن سائٹ۔ 100 ميگا واٹ
تھرمال پاور سٹيشن بِن قاسم ۔ 1260 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کی کُل بجلی کی پيداواری صلاحيت ۔ 1756 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان اٹامِک انرجی کميشن

کَينُوپ ۔ 137 ميگا واٹ
چَشنوپ ۔ 325 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نيوکليئر پاور کُل پيداواری صلاحيت ۔ 462 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آئی پی پيز

حب پاور پروجيکٹ ۔ 1292 ميگا واٹ
گُل احمد انرجی لميٹڈ کورنگی ۔ 136 ميگا واٹ
حبيب اللہ کوسٹل پاور لميٹڈ ۔ 140 ميگا واٹ
لبرٹی پاور لميٹڈ گوٹکی ۔ 232 ميگا واٹ
ٹپال انرجی لميٹڈ کراچی ۔ 126 ميگا واٹ
اينرگو انرجی لميٹڈ کراچی ۔ 217 ميگا واٹ
اے ای ايس لال پير لميٹڈ محمود کوٹ مظفر گڑھ ۔ 362 ميگا واٹ
اے ای ايس پاک جنريشن لميٹڈ ۔ محمود کوٹ مظفر گڑھ ۔ 365 ميگا واٹ
الترن انرجی لميٹڈ ۔ اٹک ۔ 29 ميگا واٹ
فوجی کبير والا پاور کمپنی خانيوال ۔ 157 ميگا واٹ
جاپان پاور جنريشن لاہور ۔ 120 ميگا واٹ
کوہِ کور انرجی لميٹڈ لاہور ۔ 131 ميگا واٹ
رؤش پاور خانيوال ۔ 412 ميگا واٹ
سبا پاور کمپنی شيخو پورہ ۔ 114 ميگا واٹ
سدرن اليکٹرک پاور کمپنی لميٹڈ رائے وِنڈ ۔ 135 ميگا واٹ
اٹک جنريشن لميٹڈ مورگاہ راولپنڈی ۔ 165 ميگا واٹ
اٹلس پاور شيخو پورہ ۔ 225 ميگا واٹ
کوٹ ادُو پاور لميٹڈ ۔ کوٹ ادُو [بينظير کے دور ميں بيچی گئی] ۔ 1638 ميگا واٹ
اُچ پاور لميٹڈ ڈيرا مُراد جمالی نصير آباد ۔ 586 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آئی پی پيز کی کُل پيداواری صلاحيت ۔ 6582 ميگا واٹ
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پانی کے بہاؤ ميں کمی بيشی کے ساتھ واپڈا کی پن بجلی کی پيداواری صلاحيت کم از کم 2414 ميگا واٹ اور زيادہ سے زيادہ 6465 ميگا واٹ ہوتی ہے يعنی ان دو حدود کے درميان اُوپر نيچے ہوتی رہتی ہے
اسطرح اگر پن بجلی کی کم سے کم پيداواری صلاحيت کو ہی گِنا جائے تو وطنِ عزيز ميں

بجلی کی کم از کم پيداواری صلاحيت 16339 ميگا واٹ ہے
اور جب درياؤں ميں مناسب پانی ہو تو 20165 ميگا واٹ ہوتی ہے

يہ ساری بجلی پيپکو حاصل کرتا ہے اور صارفين [consumers] کو مہيا [supply] کرتا ہے

پورے مُلک کی بجلی کی طلب جو 20 اپريل 2010ء کو ناپی گئی 14500 ميگا واٹ تھی
چنانچہ وطنِ عزيز ميں بجلی کی کم از کم پيداواری صلاحيت کُل موجودہ طلب يا کھپت سے 1839 ميگا واٹ زيادہ ہے
مگر پيپکو صرف 10000 ميگاواٹ بجلی مہيا کرتا ہے يعنی طلب سے 4500 ميگا واٹ کم

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس سے واضح ہوتا ہے کہ 8 سے 18 گھنٹے روزانہ کی بجلی کی بندش [load shedding] جو وطنِ عزيز ميں ہوتی آرہی ہے اس کا سبب پيداواری صلاحيت کا کم ہونا نہيں ہے جس کی بنياد پر مہنگے داموں رينٹل پاور سٹيشن لگائے جا رہے ہيں بلکہ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک سے جو آنکھيں بند کر کے قرضے لئے جا رہے ہيں اُن کے ساتھ شرائط کے زيرِ اثر کم بجلی پيدا کی جا رہی ہے ۔ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک کی شرائط ميں ايک کڑی شرط يہ ہے کہ خام تيل [crude oil] کی درآمد کم رکھی جائے

مزيد يہ کہ بجلی پيدا کرنے والی کمپنياں پی ايس او سے يہ کہہ کر فرنس آئل نہيں خريد رہيں کہ اُن کے پاس پيسے نہيں ہيں ۔ بجلی پيدا کرنے والی بڑی بڑی کمپنياں اپنی پيداواری صلاحيت کا صرف 40 فيصد بجلی پيدا کر رہی ہيں ۔ وجہ يہ کہ حکومت اُنہيں خريدی گئی بجلی کی ادائيگی نہيں کر رہی ۔ صورتِ حال يہ ہے کہ پنجاب کے سوا باقی تينوں صوبوں اور وفاقی حکومت کے ذمے اربوں روپے واجب الادا ہيں ۔ صرف سندھ ہی 22.8 ارب روپے ادا کرنے سے يہ کہہ کر انکاری ہے کہ يہ بجلی سندھ کی حکومت نے استعمال ہی نہيں کی ۔ ايک لحاظ سے وہ سچے ہيں کہ حکومت نے يہ بجلی استعمال نہيں کی مگر يہ بجلی سندھ ہی ميں چوری ہوئی ہے اور مزيد ہو رہی ہے ۔ حکومت سندھ بجلی کی چوری کا سدِباب نہيں کرتی ليکن اس کی قيمت ادا کرنے سے انکاری ہے ۔ صوبہ سرحد [خيبر پختونخواہ] اور بلوچستان کے ذمہ بھی بڑی بڑی رقميں واجب الادا ہيں چنانچہ پيپکو کے پاس بھی پيسہ نہيں ہے کہ آئی پی پيز کو ادائيگی کرے اور ضرورت کے مطابق فرنس آئل خريدے

متذکرہ بالا وجوہ کے نتيجہ ميں نہ صرف بجلی کی پيداوار کم ہو رہی ہے بلکہ وطنِ عزيز کی صنعت بھی تباہ ہو رہی ہے جس کے نتيجہ ميں مُلکی معيشت مزيد خسارے ميں جائے گی اور آئی ايم ايف اور ورڈ بنک سے مستقبل ميں مزيد قرضے لينا پڑيں گے ۔ اس طرح وطنِ عزيز کی معيشت مزيد برباد ہو گی اور مُلک ان قرضوں کے نيچے دب کر خدا نخواستہ ختم ہو جائے گا ۔ وفاقی حکومت کے مشير ماليات کے مطابق حکومت پر اس وقت 8160 ارب روپے قرض ہے ۔ اسے ہندسوں ميں لکھوں تو 8160000000000 روپے بنتا ہے

وفاقی حکمران اسلئے خاموش ہيں کہ وہ آئی ايم ايف اور ورڈ بنک کی برکتوں سے نوازے جا چکے ہيں اربوں روپيہ سالانہ حکمرانوں کی بود و باش اور عياشيوں پر خرچ کيا جا رہا ہے مگر ضروريات زندگی کا کوئی پُرسانِ حال نہيں

کيا ہموطن صرف سختياں سہتے اور آپس ميں دست و گريباں ہوتے رہيں گے اُس وقت تک کہ جب پانی سر سے گذر جائے گا اور سب ڈوب چکے ہوں گے ؟

اب جوش ميں آکر بسيں جلانے اور لوگوں کے گھروں اور گاڑيوں کے شيشے توڑنے کا وقت نہيں ہے بلکہ ان کی اور ان ميں موجود ہموطنوں کی زندگيوں کی حفاظت کيلئے کام کرنے کا وقت ہے

شايد کہ کسی کے دِل ميں اُتر جائے ميری بات

امريکا ميں آزادی اظہارِ رائے ؟؟؟

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور
يا
صريح منافقت

اور يہ بھی ديکھئے کہ واشنگٹن پوسٹ اس منافقت کو کس طرح جائز قرار ديتا ہے

وائٹ ہاوس کی سینئرترین رپورٹر 89 سالہ خاتون صحافی ہیلن تھامس جو امریکی صدرجان ایف کینیڈی کے دورِ صدارت سے وائٹ ہاؤس کی صحافتی ٹیم میں شامل تھيں کو اسرائیل مخالف بیان دینے پر سخت تنقید کے بعد اچانک ريٹائرڈ کر دیا گیا ۔ ہیلن نے غزہ جانے والے ترکی اور آئرلینڈ کے امدادی بحری بیڑوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اورسخت رویہ اختیارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فلسطین چھوڑدیں ۔ انہوں نے مشوردیا تھا کہ اسرائیلی ان ممالک کو لوٹ جائیں جہاں سے آئے تھے يعنی وہ جرمنی ، پولینڈ اور امریکا میں اپنے گھروں کو چلیں جائیں

ہیلن تھامس طویل عرصے تک وائٹ ہاؤس کے یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کی نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں اور آج کل ایک اخبار کے لئے کالم بھی لکھ رہی ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشیوں کا راز

چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی جو حاصل ہو ۔ اس کیلئے شکرگذار ہونا چاہیئے

جہاں کہیں بھی ہوں جو کچھ بھی کر سکیں جتنا بھی ہو سکے دوسرے کی مدد کرنا چاہيئے

جن اشیاء کو حق سمجھتے ہیں اُن کیلئے دراصل شکرگذار ہونا چاہیئے

آدمی کی اصل دولت یہ ہے کہ اُس نے آخرت کیلئے کیا کیا ہے ؟

اللہ بہترین نعمت اُسے دیتا ہے جو اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دیتا ہے

ہلاک شُدہ پاکستانی جنگجو ؟

فرضی جھڑپیں، حراستی گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں گذشتہ 20 برسوں سے کشمیر میں روز مرہ کا مشاہدہ گھر گھر کی کہانی اور گلی گلی کی داستان ہیں ۔ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بستی بستی لوگوں کو اس قسم کی شکایتیں ہیں لیکن شہر ناپرساں جسے کشمیر کہتے ہیں میں طوطی کی آواز پر کون کان دھرتا ہے ۔ البتہ 2007ء میں فرضی جھڑپوں اور ہلاکتوں کے سلسلے سے جس طرح ڈرامائی انداز میں نقاب سرک گئی اس نے ان بے بس گھرانوں اور بے نوا لواحقین کو ضرور یہ اُمید دلادی ہے کہ کسی دن وہ بھی اپنے ”گمشدہ” عزیزوں کی ”آرام گاہوں” تک پہنچیں گے

کوکرناگ کے عبدالرحمان پڈر کے اہل خانہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں پولیس تھانوں ، چوکیوں اور فوجی و نیم فوجی کیمپوں کی خاک چھاننے کے بعد اتفاقیہ طور پر 2007ء کے ابتدائی ایّام میں شادی پورہ (گاندربل) کی پولیس چوکی میں ایک ”ہلاک شدہ پاکستانی جنگجو” کی تصویر کو دیکھ کر چونک گئے ۔ تصویر کو دیکھ کر ہی 70 سالہ غلام رسول پڈر کو یقین ہوگیا کہ یہ ان کے بیٹے کی تصویر ہے۔ ”میں اندھا بھی ہوتا، تو بھی اپنے بچے کو پہچان لیتا”

غلام رسول پڈر نے اخباری نمائندوں کو بتایا۔ یہ نقطہ آغاز تھااور اب تک معاملے کی مزید چھان بین کے نتیجے میں ایسی نعشوں کو قبروں سے کھود نکالا گیا ہے، جنہیں گاندربل کی ٹاسک فورس نے فرضی جھڑپوں میں مار ڈالنے کے بعد پاکستانی جنگجو قرار دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کی قبروں پر کتبے بھی لگائے گئے تھے جن میں ان کے نام اور پاکستان میں ان کی جائے سکونت بھی درج تھی۔ مثلاً عبدالرحمان پڈر کی قبر پر لگائے گئے کتبے میں ان کی شناخت یہ درج کی گئی تھی: ابو حافظ ساکن ملتان پاکستان۔

فرضی جھڑپ ، فرضی نام اور فرضی سکونت لیکن زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ کشمیر یا اس سے باہر کسی بھی رجل رشید اور بھلے مانس نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب پاکستانی جنگجو جاں بحق ہوجاتے ہیں تو ان کے نام ا ور دیگر تفصیلات کہاں سے نازل ہوتی ہیں؟ کیا وہ اپنا بایوڈاٹا [Biodata] یا سی وی [Curriculm Vitae] جیبوں میں لئے پھرتے ہیں

اب تک گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں میں سے محض5 معاملات نے تفتیش اور تحقیق کی روشنی دیکھی ہے جبکہ گاندربل کے عوامی حلقوں کا اصرار ہے کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد سو سے بھی متجاوز ہے۔ صرف بٹ محلہ سمبل کے قبرستان میں 55 قبریں ہیں ان میں سے ایک عبدالرحمان پڈر آف لارنو کوکرنا گ (پولیس کے مطابق ابو حافظ آف ملتان) کی تھی، باقی54 قبروں میں کون مدفون ہیں، مقامی لوگ اس بارے میں اپنے شکوک اور تحفظات رکھتے ہیں۔ گاندربل کے ایک بزرگ شہری، عبدالعزیز صوفی نے کہا” گزشتہ 20سال میں پولیس نے جھڑپوں کے بعد سو سے زیادہ نوجوانوں کو پاکستانی جنگجو قرار دیا، عوام نے انہیں مذہبی رسوم کے مطابق دفن کیا لیکن کیا وہ واقعی پاکستانی تھے، اس پر کل بھی شک تھا، آج بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ واقعی جنگجو بھی تھے، یا عبدالرحمان پڈر ہی کی طرح نہتے شہری تھے جنہیں پیسے اور پرموشن کی لالچ میں پولیس والوں نے ان کو فرضی جھڑپوں کے ڈرامے رچا کر مارڈالا۔”

کیا وہ واقعی پاکستانی تھے یا پھر کیا وہ واقعی جنگجو تھے؟ سوال اتنا ہی نہیں ہے، ایک مقامی قانون دان کہتے ہیں ”اگر بالفرض کسی جنگجو کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے تو حراست میں لینے کے بعد اس کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر قتل کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے، جو سزا کا مستوجب ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں کہ جنگجوئوں کو گرفتار کرکے پولیس یا فوجی و نیم فوجی دستوں نے زیر تعذیب ہلاک کرڈالا، اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے”

معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو کچھ سامنے آیا ہے، یہ محض نمونہ مشتے از خروارے یا Tip of the Ice Berg کہا جاسکتا ہے۔یہ محض گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کی کارستانی ہے ،دیگر علاقوںسے ایسی شکایتیں روزمرہ موصول ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی ایک ہزار سے زائد افراد کی ”گمشدگی” کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ غیر کاری تنظیمیں اس تعداد کو10 ہزار کے آس پاس بتاتی ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، عوام کو اور گمشدہ افراد کے لواحقین کو اس بات کا حق ہے کہ انہیں صحیح صحیح صورت حال کی جانکاری دی جائے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ از مقبوضہ جموں کشمير

امريکا 71 سال قبل اور ہم

نيچے امريکا کے صرف 71 سال قبل کے

دور کی تصاوير ديکھنے کے بعد سوچيئے کہ ہميں کس عمل کی ضرورت ہے

ہم سجھتے ہيں کہ ہميں بُرا دور مِلا ہے اور مختلف قسم کی شکايات کرتے رہتے ہيں ۔ پٹرول مہنگا ہے ۔ بے روزگاری ہے ۔ يہ نہيں ہے وہ نہيں ہے ۔ ہم دورِ حاضر سے نالاں ہيں ۔ مہنگائی بے انصافی اور سب سے بڑھ کر بے حسی زوروں پر ہے

کيا يہ سب حالات ہمارے ہی پيدا کردہ نہيں ہيں ؟
ہمارا 71 سال قبل 71 سال قبل کے امريکا جيسا حال تو نہ تھا بلکہ 40 سال قبل بھی ہمارا ايسا حال نہ تھا

امريکا 71 سال ميں بلنديوں پر پہنچ گيا اور ساری دنيا پر قبضہ جمانا شروع کر ديا مگر ہم نے پچھلے 40 سال میں اپنا يہ حشر کر ليا ہے جسے ہم خود ہی کوس بھی رہے ہيں

ہم بجائے خود اُوپر چڑھنے کے دوسرے ہموطن کو نيچے گِرا کر سمجھتے ہيں کہ ہم اُونچے ہو گئے ہيں ۔ يہ تنزل ہے ترقی نہيں

ہميں باہمی گريبان پکڑنا اور باہمی تفگ بازی چھوڑ کر محنت سے صرف اپنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں يعنی اپنی قوم اور اپنے مُلک پاکستان کيلئے خلوصِ نيت سے محنت کرنا ہو گی

ورنہ اگر ہمارے لچھن يوں ہی رہے تو ہم پر آج سے بھی زيادہ بُرا وقت آ سکتا ہے

ہر حال ميں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہيئے اور ديانتداری سے محنت کرنا چاہيئے ۔ يہی ترقی کی مشعلِ راہ ہے