Monthly Archives: June 2010

فاطمہ جناح پارک تو زندہ رہے

فاطمہ جناح پارک جو اسلام آباد ميں ہمارے گھر سے 5 منٹ کے پيدل راستہ پر ہے ۔ پرويز مشرف کے زمانہ ميں اسے بھی ماڈرن کرنے کی کوشش کے سلسلہ ميں وہاں ايسی تعميرات ہوئيں کہ باغ ايک بازار بننا شروع ہو گيا تھا ۔ مجبور ہو کر شہريوں نے عدالتِ عظمٰی کا رُخ کيا تھا

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ، فاطمہ جناح پارک میں تعمیرات کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے اس مقدمہ کی گزشتہ ماہ سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ عدالت نے پارک میں واقع غیرملکی چین کے ریستوراں [ميکڈانلڈ] اور تفریحی کلب [باؤلنگ] کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریستوران کے مالک امین لاکھانی کا سپریم کورٹ کے بارے میں ریمارکس سے متعلق معافی نامہ قبول کرتے فیصلے میں کہا ہے کہ ان دونوں عمارتوں کے مالکان اپنے خرچ پر انہیں تین ماہ میں گرائیں گے۔سپریم کورٹ نے پارک میں نظریہ پاکستان کونسل کو لائبریری کیلئے الاٹ کی جانے والی زمین کی لیز بھی ختم کرنے کا حکم دیا

عدالت نے ان تعمیرات کی اجازت دینے والے سابق چیئرمین سی ڈی اے اور موجودہ سیکریٹری پٹرولیم کامران لاشاری کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے

ميکڈانلڈ کھانے والے کيا کھائيں گے
باؤلنگ کرنے والے کدھر جائيں گے

امريکا خود اپنا دُشمن ہے

یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ اگر پاکستان نیوی کی طرف سے بین الاقوامی سمندری حدود میں کسی تجارتی یا امدادی بحری جہاز پر غلطی سے حملہ کردیا جاتا اور حملے میں دو تین مغربی باشندے مارے جاتے تو امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پاکستان کا کیا حشر کرتے؟

بدھ کی شب سینیٹر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر لو لاؤ ہوئی کے اعزاز میں الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ پاکستانی سیاستدان اور صحافی مغربی سفارتکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ” 31مئی کو فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر حملہ کرنے والے فوجیوں کا تعلق اسرائیل کی بجائے پاکستان ، ایران یا ترکی کے ساتھ ہوتا تو کیا مغربی ممالک کی حکومتیں صرف ہلکے پھلکے مذمتی بیانات تک محدود رہتیں یا اقوام متحدہ کے ذریعہ ذمہ دار ملک پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی ہوتیں؟”

اس عشائیے میں موجود فلسطین کے سفیر جناب ابو شناب بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ میں مغربی سفارت کاروں کو وہ آنکھوں دیکھے واقعات بتاؤں جب اسرائیلی نیوی نے غزہ کے ساحل پر فلسطینی مچھیروں کی کشتیوں پر بمباری کی۔ فلسطینی سفیر کے ا صرار پر میں نے کئی سفارت کاروں کو بتایا کہ پچھلے سال جنوری میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملے کئے تو میں مصر کے راستے سے غزہ میں داخل %D

اسرائيلی درندگی کے مزيد نمونے

ميں نے کل اسرائيل کی غزہ ميں دہشتگردی کے چند ثبوت پيش کئے تھے ۔ آج اسرائيليوں کی درندگی کے چند اور نمونے بوجھل دل کے ساتھ حاضر ہيں جن ميں بالخصوص ننھے بچوں کو درندگی کا نشانہ بنايا گيا ہے ۔ اسرائيل کے بہيمانہ قتل و غارت پر کبھی امريکا نے اسرائيل کی صرف مذمت بھی نہيں کی

اگر کسی مسلمان ملک ميں ايک غير مسلم بچہ مر جائے تو امريکا طوفان کھڑا کر ديتا ہے ۔ امريکا کے چہيتے پرويز مشرف کا دور تھا اسلام آباد کے سيکٹر ايف ۔ 7 ميں ايک کچی آبادی کے نام پر پکی آبادی ہے جو سرکاری زمين پر قبضہ کر کے غيرقانونی طور پر عيسائيوں نے بنائی ہوئی ہے ۔ يہ فرنچ کالونی کے نام سے مشہور ہے ۔ سڑک کی طرف اُنہوں نے ايک کچی ديوار بنائی ہوئی تھی ۔ ايک دن عيسائی بچے سڑک کے کنارے اُس ديوار کے ساتھ بيٹھے کھيل رہے تھے کہ طوفان آ گيا اور ديوار گر گئی ۔ اس کے نيچے آ کر ايک عيسائی بچہ مر گيا ۔ واشنگٹن کی ديواريں لرزنے لگيں اور پرويز مشرف کو ٹيليفون آيا ۔ چنانچہ وہاں اُس غيرقانونی کالونی کے ساتھ ری اِنفورسڈ کنکريٹ کی ديوار بنانے کے علاوہ اس کالونی کو قانونی قرار دے ديا گيا

غزہ ميں اسرائيلی دہشتگردی

نيچے غزہ ميں اسرائيل کی دہشتگردی کے چند نمونے ہيں جو بين الاقوامی تنظيموں کے ذريعہ وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتے رہے ۔ اسرائيل کی شايد يہی کاروائياں امريکا کو اسرائيل کی پُشت پناہی اور مدد کرنے پر مجبور کرتی ہيں کيونکہ امريکا کی زبان ميں يہ اسرائيل کا جمہوری حق ہے اور عراق اور افغانستان پر قابض امريکی فوج کے خلاف بولنا بھی دہشتگردی ہے . اسرائيلی فوج نے ہسپتال پر بھی ميزائل مارا

اسرائيلی درندگی کے نمونے اِن شاء اللہ دوسری قسط ميں ۔ اسرائيل نے غزہ ميں رہنے والے معصوم بچوں پر نہ صرف تشدد کيا بلکہ بے دردی سے شيرخوار بچوں کو ہلاک بھی کيا

آج کی تاريخ

آج سے 55 سال قبل يعنی 2 جون 1955ء کو ميرے دادا جان اچانک وفات پا گئے تھے ۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِليَہِ رَجِعُون ۔ اُن دنوں ہم مکان نمبر آر ۔ 166 جھنگی محلہ راولپنڈی ميں رہتے تھے ۔ اس طرح ميرا روزانہ کا تاريخی تربيتی اور معلوماتی پروگرام ختم ہو گيا جو دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد دادا جان کی ٹانگيں اور بازو سہلاتے ہوئے سالہا سال سے مجھے ميسّر تھا

غیرت

غیرت کا جو استعمال وطنِ عزیز میں ہے اُسے دیکھ کر بعض اوقات کہنا پڑتا ہے کہ ایسی غیرت سے ہم باز آئے ۔ دو مثالیں ذہن میں آئی ہیں ايک اَن پڑھ گھریلو ملازم کی اور دوسری پڑھے لکھے افسر کی

اَن پڑھ کی غيرت
واقعہ ہے 1980ء کی دہائی کا ۔ ایک عورت نے ميری بيگم کے سامنے اپنی مُفلسی بيان کر کے ملازمہ رکھنے کی درخواست کی ۔ اُسے گھر کا کام کرنے کيلئے اسے رکھ ليا گيا اور اس کے خاندان کو اپنی رہائشگاہ سے منسلک کوارٹر میں رہائش دی ۔ اُن کی حالت يہ تھی کہ گال پچکے ہوئے کپڑے خستہ ۔ ميری بيوی مدد کرتی رہی ۔ اللہ نے کرم کيا دوڈھائی سال میں سب صحتمند اور خوشحال ہو گئے ۔ ايک دن اس ملازمہ نے بدتميزی کی جس پر ميری بيوی نے صرف اتنا کہا “ميرے سامنے اس طرح بولتے ہوئے تمہيں شرم نہيں آتی”۔ کچھ دن بعد وہ لوگ کوارٹر خالی کر کے چلے گئے ۔ ڈيڑھ دو سال بعد اس ملازمہ کا خاوند مجھے سڑک پر ملا ۔ کپڑے ميلے کچلے ۔ قميض پھٹی ہوئی ۔ گال چار سال قبل کی طرح پچکے ہوئے ۔ حال احوال پوچھا تو جن کے ہاں کام کيلئے رہ رہے تھے اُن کے ظلم کی داستان سنائی
میں نے کہا کہ “واپس ہمارے پاس آ جاتے”
کہنے لگا “غيرُت آنی آئی [غیرت کی وجہ سے نہيں آيا]”

پڑھے لکھے کی غيرت
دو دہائيوں سے زيادہ عرصہ ہوا کہ ٹيکسلا میں ایک شخص قتل ہو گيا ۔ قصہ مختصر يوں تھا کہ ‘ب” نے “ج” کے گھر والوں کے ساتھ کوئی زيادتی کی جبکہ “ج” گھر پر موجود نہ تھا ۔ گھر آنے پر واقعہ کا عِلم ہوا تو “ج” نے “ب” کے گھر جا کر اُسے آواز دی ۔ جب “ب” باہر نہ نکلا تو “ج” نے “ب” کو بُرا بھلا کہا ۔ تھوڑی دير بعد “ب” ہاتھ میں پستول لئے نکلا اور آتے ہی “ج” کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹريز کی انتظاميہ میں ايک گریڈ 18 کے افسر جنہوں نے ماسٹر آف ایڈمن سائنس پاس کيا ہوا تھا ٹيکسلا میں رہتے تھے ۔ میں نے اُن سے قتل کی وجہ دريافت کی تو وہ يوں گويا ہوئے “دیکھيں نا جی ۔ غيرت بھی کوئی چيز ہوتی ہے ۔ “ج” نے “ب” کو گالياں ديں ۔ “ب” کو غيرت تو آنا تھی ۔ اُس نے جو کيا درست کيا ”