یہ واقعہ ہے اُس زمانے کا جب مجھے نویں جماعت [اپریل 1951ء] میں بیٹھے چند یوم ہوئے تھے ۔ ہمارے مُہتمم استاذ صاحب نے پوری جماعت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ بہت لائق ۔ لائق اور درمیانے درجے کے طالب علم ۔ نالائق ہماری جماعت میں کوئی نہیں تھا ۔ پھر ہر گروہ میں سے ایک ایک لڑکا لے کر تین تین کو اکٹھا بٹھا دیا ۔ میرے ساتھ “م” اور “ی” کو بٹھایا گیا جن سے میری خاص واقفیت نہ تھی ۔ میں نے تعارف کی غرض سے “م” سے جو میرے ساتھ بیٹھا تھا پوچھا “آپ کی تعریف ؟” جواب ملا “ہم Urdu Speaking ہیں”۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں لفظ “اُردو اِسپِیکِنگ” سے متعارف ہوا۔ میں نے “ی” سے وہی سوال دہرایا تو اس نے جواب دیا “ہم محلہ ۔ ۔ ۔ میں رہتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنگلورمیں رہتے تھے” ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ “م” اپنے خاندان کے ساتھ بہار سے ہجرت کر کے آئے تھے
اُردو نے پنجاب میں جنم لیا اور پنجاب کے علاوہ حیدرآباد دکن میں پروان چڑھی ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ وہ علاقہ جس کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا دہلی اور دہرہ دون وغیرہ اس میں شامل تھے اور اس کی سرحدیں مشرق میں سہارنپور ۔ مراد آباد اور علیگڑھ تک تھیں ۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی اور اس کے شمال اور مشرق کا علاقہ اس میں سے نکال دیا تھا ۔ میں تاریخی ثبوت کے ساتھ یہ بھی واضح کر چکا ہوں کہ اُنیسویں صدی تک اُردو میں اُن الفاظ کی کثرت تھی جنہیں پنجابی سمجھا جاتا ہے
میں اپنی زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں سے ملا ہوں کہ اُردو بولتے تھے مگر وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے ان کا تعلق بھی پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے اُن علاقوں سے تھا جہاں صرف اُردو بولی جاتی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد دکن جہاں اُردو کی افزائش ہوئی اور جہاں 1947ء سے قبل واحد اُردو یونیورسٹی تھی کے لوگ بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے
سکول کالج اور ملازمت کے شروع کے چند سالوں کے دوران مجھے کوئی دہلی سے آیا ہوا سمجھتا اور کوئی آگرہ سے کیونکہ میں اُردو بولتا تھا ۔ اس سے بھی آگے چلیں تو میرے تینوں بچے اُردو بولتے ہیں اور پنچابی نہیں جانتے ۔ اسلئے قاعدے کے لحاظ سے اُن کی مادری زبان اُردو ہوئی ۔ میرے تمام بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں اُردو بولتے ہیں اور پنجابی نہیں بول سکتے یا اچھی طرح نہیں بول سکتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتا ۔ مجھے فخر ہے کہ میرے خاندان کے سب بڑے اور چھوٹے درست اُردو بولتے ہیں
اُردو ہماری قومی زبان ہونے کے علاوہ بھارت ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔ افغانستان اور ایران کے بھی کئی باشندے اُردو سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل بھی اُردو پورے ہندوستان کی معتبر ترین زبان تھی ۔ اُردو کسی خاص قوم یا گروہ یا شہر کی زبان نہیں ہے ۔ یہ عجب بات ہے کہ ایک گروہ اپنے آپ کو ” Urdu Speaking ” کہتا ہے اور کہتے بھی انگریزی میں ہیں ۔ میں نے اس سلسلہ میں بہت سے لوگوں سے استفسار کیا اور کچھ سے براہِ راست کہا کہ وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کیوں نہیں کہتے ۔ عام تاءثر یہی تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کہتے ہیں
جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اجمل صاحب کہ آپکے تاثرات انتہائی متعصبانہ ہوتے ہیں !اور آپ جیسوں نے ہی اسلام اور پاکستان کا نام لے لے کر اسلام اور پاکستان دونوں کو اس حال کو پہنچادیا ہے مگر اب بھی عقل کے ناخن نہیں لیئے ہیں
عبداللہ صاحب
آپ اپنی کارگذاریاں دوسروں پر تھوپنے کا چال چلن رکھتے ہیں تو آپ سے اور توقع ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھائے
آپ جیسے متعصب لوگوں نے یوپی اور سی پی سے آئے لوگوں کو جب ہندوستانی اور ہندوستوڑے کہا تو انہیں اردو اسپیکنگ کہلوانا ہندوستانی کہلوانے سے ذیادہ بہتر محسوس ہوا، اس میں احساس برتری کہاں سے آگیا !اللہ ہی بہتر جانتا ہے
احساس برتری تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز پنجابی بنائے دے رہے ہیں اور پھر بھی کسی صورت تسلی ہوکر نہیں دے رہی،اردو مغلوں کی لشکری ذبان تھی اور ہندوستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کا مجموعہ تھی اسی لیئے ہر زبان کے کچھ نہ کچھ الفاظ اس میں شامل ہیں!
عبداللہ صاحب
آپ ہر اس شخص کو جسے آپ اپنے میں سے نہیں سمجھتے بلاجواز متعصب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ حقیقت میں آپ کی تحریر سے تعصب کا زہر ٹپک رہا ہوتا ہے ۔ آپ کا تاریخ جغرافیہ نہائت کمزور ہے جس کا ذمہ دار آپ دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔ میں کسی چیز کو کچھ قرار نہیں دیتا صرف حقائق اُجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو جھوٹے پروپیگنڈہ میں گم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ آپ کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ اُردو مغلوں کی لشکری زبان نہیں تھی ۔
عبداللہ شائد کوئی عورت ہے کیونکہ لڑنے میں بہت ہشیار ہے۔ ویسے اگر تم انتا چڑتے ہو تو کیا میںتمہیں “ابے بھئے” کہہ کر بلا سکتا ہوں؟ اجمل انکل نے دو باتیں بالکل درست لکھیںجو شائد ہر کوئی محسوس کر لیتا ہے کہ ایک یہ لوگ احساس برتری کے مارے ہوتے ہیں دوسرے عبداللہ اپنی کم علمی کا زمہ دار دوسروںکو ٹھہراتا ہے۔
اگر کوئی اپنے آپ کو اردو اسپیکنگ کہہ کر متعارف کرواتا ہے تو اس میں برائی کی کیا بات ہے؟ اپنی زبان پر فخر کرنے میں کیا عیب ہے؟
ہم مسلمان پتہ نہیں کیسے کیسے فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ کہیںمذہبی فرقے، کہیںذاتیں، کہیںپیشے، کہیں علاقے، کہیں محکمے وغیرہ وغیرہ اور اردو سپیکنگ بھی اسی تقسیم کا ایک حصہ ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا کہ قوموں کے پنپنے کی یہ باتیں نہیںہوتی ہیں۔
نعمان صاحب
آپ بہت سمجھدار ہیں ۔ تعارف کا یہ طریقہ کہاں تک درست ہے ؟ اور اس سے لگی لوازمات کو میں نے ذکر مناسب نہیں سمجھا ۔ جو تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنی اُردو سے محبت کا اظہار انگریزی میں ؟
دیگر احباب اگر اپنے آپ کو سندھی، بلوچی، پنجابی وغیرہ کہہ سکتے ہیں تو اردو بولنے والا اردوی تو بولنے سے رہا۔ خود کو اردو اسپیکنگ کہنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری مادری زبان اردو ہی ہے۔ یہ بات واقعی تعجب خیز ہے اردو سے تعلق کا اظھار کیا جائے اور وہ بھی انگریزی میں۔
محمد اسد صاحب
مسئلہ سندھی یا بلوچی کا نہیں ہے ۔ اُردو بولنے والے ہر صوبے میں ہیں جن میں صرف کچھ لوگ اپنے آپ کو اُردو اسپیکنگ کہتے ہیں
پاکستان میں یہ رواج ہے کہ لوگ اسی طرح ایک دوسرے سے تعارف کراتے ہیں کہ جی میرا تعلق فلاں علاقے سے ہے ہم سرائیکی زبان بولتے ہیں۔ اگر میں کسی سے کہوں کہ جی میرا تعلق کراچی سے ہے میرے اجداء بھارت کے شہر دلی سے ہجرت کرکے آئے تھے اور ہمارے گھر میں اردو بولی جاتی ہے۔ تو اس میں برائی کیا ہے؟ آپ اگر تفصیل سے سمجھائیں تومہربانی ہوگی۔
احساس برتری کی جہاں تک بات ہے تو میں بالکل متفق ہوں کہ اردو اسپیکنگ لوگ اردو اسپیکنگ کہلوانے میں خود کو برتر سمجھتے ہیں۔ اور ان کا یہ خیال ہے کہ وہ تہذیبی لحاظ سے باقی پاکستانیوں سے برتر ہیں۔ مگر ہر قوم اور گروہ کو اپنی خصوصیات پر فخر ہوتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر پشتون کلچر میں ہتھیار رکھنا فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور وہ خود کو باقی پاکستانیوں سے زیادہ دلیر اور دیندار سمجھتے ہیں۔ ان کا ہتھیاروں پر فخر کرنا شاید آپ کو اور مجھ کواچھا نہ لگے مگر یہ ان کی ثقافت ہے انہیں اس پر فخر کا حق ہے۔
غلط باتوں کو احساس برتری کی وجہ بنانا یقینا تنگ نظری ہے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے۔ مگر یہ الزام “اردو اسپیکنگ” پر ہی کیوں اس تنگ نظری کے جائزے کو ذرا وسیع کریں تو پاکستان کی سب ہی قومیں غلط توجیہات پر خود فریبی میں مبتلا ہیں۔
معاف کیجئے مگر مجھے شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ پاکستان کے اردو بولنے والے طبقے کی منافقت پر آپ بہت زیادہ وقت صرف کررہے ہیں۔ جس سے تعصب کا تاثر شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگر آپ مسلسل ایک مخصوص گروہ کو ہی تنقید کا نشانہ بنائیں ان عیبوں کے لئے جو پوری قوم کا ہی خاصہ ہیں تو یہ یقینا انصاف نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی مادری زبان اردو ہے تو وہ اپنی لسانی شناخت کے لیے کیا کہے گا؟ کیا یہی اعتراض آپ نے پاکستان کی دوسری لسانی اکائیوںپر اٹھایا ہے؟ جب کوئی یہ کہے کہ وہ پنجابی ہے یا سندھی ہے یا پشتون ہے تو کیا یہ زبان یا زمین سے وابستگی نہیںہے؟
اس سلسلے میں اپ کی پچھلی دو پوسٹس واقعتا اب اردو بولنے والوں سے آپ کے شدید تعصب کا مظہر ہیں۔
کیا میرا تبصرہ آپ نے مٹا دیا ہے؟
بھاگو رے یہاں تو بلوہ ہوریا ہے۔ ویسے ایک بولی ہے رہتک حصار کی کبھی کسی نے سُنا اُسے؟ سب سے پہلا اردو شاعر کون ہے بھلا؟ کیا وہ بھی “اردو سپیکنگ” کہلائیںگے؟ اجداد پر فخر کرنا بالکل بُری بات نہیں ہے اور آپ کا حق ہے۔ بس دھیان یہ رہے کہ آپ کسی کو کم تر نہ سمجھیں۔ ویسے بھی اردو سپیکنگ ہو کہ پنجابی سپیکنگ اگر ناٹ سپیکنگ انگلش تو فیر بالکل نہیں سپیکنگ۔
مولوی فیروز الدین کی مرتب کردہ مشہور زمانہ اردو لغت “جامع فیروز اللغات” میں اردو زبان کی ابتداء اور اس کی ارتقا کے حوالے سے ایک سیر حاصل مقالہ شامل ہے۔
کچھ اقتباسات یوں ہیں :
** ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اردو زبان کا بیج کہاں بویا گیا اور اس کے انکھوے کہاں پھوٹے۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زبان کی علاقائی تقسیم جو آج ہے وہ 800 ، 900 سال پیشتر نہ تھی۔ اُس وقت تک اکثر دیسی زبانوں نے کوئی واضح شکل بھی اختیار نہیں کی تھی۔
** ہندی کا علاقہ بہت وسیع تھا۔ یہ زبان ملتان سے پٹنہ تک بولی اور سمجھی جاتی تھی اور اس کی بہت سی مقامی بولیاں تھیں مثلاً برج بھاشا، کھڑی بولی، اودھی، بھوجپوری، قنوجی، ہریانی وغیرہ۔ اور یہ زبان راجستھانی اور پنجابی سے بہت قریب تھی۔ مماثلت اور ہمسائیگی کے باعث ہم ہندی (مغربی اور مشرقی) ، پنجابی ، راجستھانی اور سندھی وغیرہ کو آپس میں بہنیں کہہ سکتے ہیں۔
** حافظ محمود شیرانی صاحب نے ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ اگر اردو پنجاب میں پیدا ہوئی تو پھر وہ یہاں کے باشندوں کی مادری زبان کیوں نہیں بنی؟ یہاں کے عام لوگوں کی بولی پنجابی کیوں ہو گئی؟ حالانکہ یہ سارا علاقہ محمود غزنوی کے حملے سے اٹھارویں صدی عیسوی یعنی 800 برس تک مسلمانوں کے تسلط میں رہا۔ یہ خطہ اسلامی تہذیب کا نہایت اہم مرکز بھی تھا اور یہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت بھی آباد تھی۔ پھر اردو یہاں بول چال کی زبان کیوں نہ بنی جس طرح وہ گنگا جمنا کے دو آبے کی زبان بن گئی۔
** مختصر یہ کہ اردو کی ابتدا کے بارے میں ہم یقین سے فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مغربی ہندی میں فارسی کا پیوند لگا تو یہ زبان وجود میں آئی۔ مغربی ہندی سے مراد وہ زبان ہے جو دہلی اور میرٹھ کے علاقے میں بولی جاتی تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ غزنوی عہد میں لاہور اور ملتان وغیرہ میں بھی یہی زبان رائج تھی تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو کی داغ بیل اسی خطے میں پڑی۔
مزید اقتباسات میرے بلاگ پر یہاں پڑھے جا سکتے ہیں اور سارا مقالہ بھی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
راشد کامران صاحب
پاکستان بننے سے آج تک میرے حلقہ احباب میں ہندو پاکستان کے ہر ضلع سے تعلق رکھنے والے لوگ رہے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سے تعارف ہوا ہو تو اس نے کہا ہو میں پختون یا سندھی یا بلوچ یا کشمیری یا دہلوی یا حیدرآبادی یا بنارسی وغیرہ ہوں لیکن اردو بولنے والوں میں صرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو اُردو اسپیکنگ کہتے ہیں ۔ آپ نے میری تحاریر کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ یہ نہ لکھتے ۔
اگر میری نہیں تو میرے بچوں اور میرے بہن بھائیوں کے بچوں کی مادری زبان اُردو ہے۔ مادری زبان ہونا اور بات ہے اور اپنی الگ کوٹھری بنانا کچھ اور ۔ اور خاص کر جب کہا جائے آپ کی تعریف تو جواب ملے “ہم اُردو اِسپِیکِنگ ہیں”۔ یہ کس لحاظ سے درست ہے ؟ تعصب سے بھرے تو وہ لوگ ہیں جو جنہیں پاکستان میں رہتے 62 سال ہو گئے یا پاکستان میں پیدا ہوئے لیکن ابھی تک اپنے آپ کو ایک لسانی جداگانہ حیثیت میں رکھے ہوئے ہیں ۔
نعمان صاحب
کیا ہوا ؟ آپ کا تبصرہ موجود ہے اور اس کا جواب میں نے کل ہی لکھ دیا تھا ۔
خرم صاحب
آپ نے کیا یاد کرا دیا ۔ صرف رہتک حصار کیوں پانی بت کرنال دہرہ دون وغیرہ کیوں نہیں ۔ مجھے متعصب قرار دیا جا رہا ہے جبکہ میں اللہ کے فضل سے ان اُردو اسپیکنگ کہلانے والوں سے زیادہ خالص اُردو بولتا ہوں اور پچھلی کم از کم چھ دہائیوں سے بول اور لکھ رہا ہوں ۔ میری پہلی تحریر اس وقت اخبار میں چھپی تھی جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا [1951ء]
جناب آپ غور فرمائیں تھوڑے ٹھنڈے دل سے۔۔ تھوڑے کھلے دل سے۔۔۔ ابھی پچھلی پوسٹ میں آپ کو ایک خاص طبقے کی شناخت پر اعتراض تھا کہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کیوں کہلواتے ہیں حالانکہ یہ بات آپ بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ کمیونٹی پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں محض اپنے شناخت کے لیے لفظ مہاجر کا استعمال کرتی ہے اور کثیر تعداد محب وطن اور شریف لوگوں پر مشتمل ہے ۔۔ اب آپ کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ اردو بولنے والا اپنے آپ کو اردو بولنے والا کیوں کہتا ہے اس بات کی کیا تشریح کی جائے کہ اس کو سادہ لفظوں میں ایک کمیونٹی کے خلاف تعصب سمجھا جائے؟ یہ بات درست ہے اور کئی بلاگر دوست گواہ ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ اردو بولنے والے کئی لوگ احساس برتری جتاتے ہیں لیکن بہر حال پوری کمیونٹی کا یہ حال نہیں ۔۔ ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ آپ کسی سے اس کا نام پوچھیں اور وہ آپ کو یہ بتائے کہ وہ اردو اسپیکنگ ہے یا پنجابی اسپیکنگ الّا یہ کے اس کو سوال ہی سمجھ نہ آیا ہو یا محض آپ نے اپنے نویں جماعت کے ایک تجربے کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کے لیے نتیجہ اخذ کرلیا۔۔ اس پر کون ایمان لائے گا کہ آپ کسی مہذب آدمی میں سوال کریں کہ “آپ کی تعریف؟” اور جواب میں اکثریت آپ کو یہ کہے کہ وہ اردو اسپیکنگ ہے، یا سندھی اسپیکنگ ہے۔
پھر آپ کا یہ کہنا کہ آپ کے بچے اردو بولتے ہیں اور پنجابی نہیں جانتے اس سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ غالبا پنجابی آپ کی مادری زبان ہے جسے کم تر سمجھتے ہوئے اس پر آپ نے اردو کو فوقیت دی؟ یہ روش پاکستان کی علاقائی زبانیں اور اردو بولنے والوں میں عام ہے جو علاقائی زبانوں پر اردو کو اور پھر انگریزی کو فوقیت دیتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں جن پر کئی دوسرے بلاگز میں گفتگو ہوئی ہے۔کسی بھی زبان پر کسی خاص گروہ، یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی جو چاہے سیکھے اور جیسے چاہے استعمال کرے لیکن ہر زبان کسی نا کسی کی مادری زبان ہوتی ہے اور وہ اس کی لسانی پہچان رہتی ہے۔ میں اگر انگریزی یا ہسپانوی زبانیں سیکھ لوں تو میں انگریز کو اور ہسپانوی باشندے کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو انگریزی یا اسپینش اسپیکنگ باشندہ کیوں کہلواتا ہے۔
اب آپ ان جملوں پر غور فرمائیے اور بتائیے کہ کیا آپ ایک کمیونٹی کو ٹارگٹ نہیں کررہے؟۔۔
1۔ اُردو کسی خاص قوم یا گروہ یا شہر کی زبان نہیں ہے ۔ یہ عجب بات ہے کہ ایک گروہ اپنے آپ کو ” Urdu Speaking ” کہتا ہے اور کہتے بھی انگریزی میں ہیں۔
2۔ میں نے اس سلسلہ میں بہت سے لوگوں سے استفسار کیا اور کچھ سے براہِ راست کہا کہ وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کیوں نہیں کہتے ۔ عام تاءثر یہی تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کہتے ہیں
دنیا کا کوئی بھی شخص لائیے جس سے اسکی لسانی شناخت دریافت کیا جائے تو وہ یہی کہے گا کہ میں فلاں اسپینگ ہوں۔۔پاکستان میں ایک کمیونٹی شناخت کے حوالے سے بھی یہی رویہ اپناتی ہے جس کے سیاسی اور سماجی پس منظر سے آپ بخوبی واقف ہیں۔۔
امید ہے پورا تبصرہ پڑھ کر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے اور اپنے بلاگ میں اردو بولنے والے پاکستانیوں کے خلاف بلاوجہ کے نکات اٹھانے سے گریز کرتے ہوئے اختلافات کو وہاں تک محدود رکھیں گے جہاں تک اختلاف ہونا چاہیے۔۔
حيدرآبادی صاحب
شکریہ
راشد کامران صاحب
آپ کے سارے تبصرے کی بنياد یہ محسوس ہوتی ہے کہ میں متعصب ہوں ۔ ہمارے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ کل کی بات کو بھُلا دینا ہے جبکہ کوئی خاص بات کسی خاص مقصد کیلئے یاد بھی رکھی جاتی ہے ۔ میں نے اپنی انہی تحاریر میں لکھا ہے کہ واہ میں بھاری اکثریت پڑھی لکھی ہے ۔ اسی صفت کا اثر ہے کہ واہ میں جن کی مادری زبان کچھ اور ہے وہ بھی اُردو بولتے ہیں جس کے نتیجہ میں بچے اُردو بولنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح اُن کی مادری زبان اُردو بن جاتی ہے ۔ اور اردو ہماری قومی زبان ہونے کے ناطے ہر علاقائی زبان پر فضیلت رکھتی ہے ۔ تو اس میں مقامی زبان کے خلاف حقارت کہاں سے ٹپک پڑی ؟
دراصل ساری گڑبڑ سوچ کی ہوتی ہے نہ کہ حقیقت کی ۔ میں نے مہاجر اور اُردو اسپیکنگ کے عنوانات سے اس منافرت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو اس رویے سے جنم لے چکی ہے ۔ اگر آپ اسے تعصب سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان برائی کو ديکھتا جائے اور موج میلہ کرتا جائے جو ہو ہی رہا ہے ۔ میں آج ہوں کل نہیں ہوں گا لیکن آپ لکھ کر رکھ لیجئے کہ جب تک یہ لسانی رویہ اور چھ دہائیاں پرانی جغرافیائی شناخت کو چھوڑا نہیں جائے گا ۔ کراچی میں لاشیں گرتی رہیں گی اور نفرت بڑةتی رہے گی
چلیں میں ہار مان لیتا ہوں۔۔ یہ بتائیے کہ میری مادری زبان اردو ہے۔۔ تو مجھے اپنے اپ کو کیا کہلانا چاہیے؟
راشد کامران صاحب
مجھے جب بھی کسی نے پوچھا میں نے کہا “پاکستانی”۔ اگر اس نے کہا “میرا مطلب تھا کہ آپ پنجابی ہیں سندھی ہیں یا ۔ ۔ ۔ ” میں نے پھر بھی کہا “پاکستانی” حالانکہ قانونی مُوشگافیوں پر جائیں تو میں ابھی تک پاکستانی نہیں بلکہ 1962ء کے قانون کے مطابق مجھے پاکستانیوں والے حقوق حاصل ہیں ۔ ہمیں پاکستان میں 62 سال رہنے اور پاکستانی پاسپورٹ رکھنے کے باوجود ابھی پاکستان کی شہریت نہیں ملی ۔
اگر آپ سے کوئی سوال کرے کہ آپ زبان کونسی بولتے ہیں پھر آپ جو زبان زیادہ جانتے ہیں وہی بتایئے ۔
وہ لوگ جو پاکستان بننے کے بعد اُردو بولنے والے کہے جاتے تھے اُن کی بھاری تعداد مقامیوں کے ساتھ گھل مل چکی ہے اور اردو کے ساتھ ساتھ مقامی زبان بولتی ہے ۔ مسئلہ زیادہ تر کراچی حیدرآباد اور سکھر میں ہے کہ وہاں بسنے والے کچھ لوگ اپنے آپ کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں ۔ جیسا دیس ویسا بھیس کسی نے بلا وجہ نہیں کہا ۔
راشد، پاکستانی کہلوا لیں۔ ہر گروہ یا جماعت میں کچھ شدت پسند ہوتے ہیں کچھ نیوٹرل شدت پسند اپنی شناخت کا اظہار الگ طور پر یا اس سے یکسر انکاری ہو کر کرتے ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں تو انہی لوگوںکی کرتے ہیں۔ اور انہی کے روئیوںکو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ لسانی علاقائی گروہ بندی اور اس کو اپنی شناخت بنانا درست عمل نہیں
اب سمجھ میں آیا یہ پوسٹ نےاس لیئے تو نہیں لکھی گئی ہے کہ فرحان نے مصطفے کمال کا انٹرویو اپنے بلاگ پر لگایا ہوا ہے اور وہ بہت سی سچائیاں بیان کررہا ہے تو اس کا توڑ کرنے کے لیئے یہ کارگزاری دکھائی گئی ہے؟
عبداللہ صاحب
میں سمجھتا تھا کہ آپ کے سر میں بھوسا بھرا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کے دماغ مین انہائی بدبُودار گندگی بھری ہے
آپ نے جس کا حوالہ دیا ہے میں نے نہ پڑھا ہے اور نہ دیکھا ہے ۔
نہیں میں نے ایک اور تبصرہ کیا تھا وہ شاید اسپیم میں چلا گیا ہے۔
خیر میں دوبارہ ایک تبصرہ لکھ دیتا ہوں۔
قصہ مختصر بزرگوار چاہے آپ کی نیت صاف ہو مگر یہ بات اب آپ کو سمجھ لینا چاہئے کہ آپ مسلسل پاکستانیوں کے ایک مخصوص طبقے کو لسانیت اور تہذیب کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کو آپ کی اس عقلمندانہ گفتگو سے تعصب کا تاثر مل رہا ہے۔ آپ کی تحریر میں کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ لفظ اردو اسپیکنگ سے آپ کو چڑ ہے۔ تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ یا تو اپنی بات کو صحیح طرح لکھیں یا پھر لوگوں جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معذرت کریں؟
نعمان صاحب
پہلے آپ تبصرہ کہیں معلق رہا پھر میں راولپنڈی مسجد پر دہشتگروں کے حملے کی کاروائی دیکھتا رہا ۔ اب میں بلاگ کی طرف آیا ہوں تو اسے سپیم میں پا کر اُٹھایا
آپ کا پہلا بند قابلِ اعتراض نہیں ہے ۔ آپ میری تحریر میں دیکھیں میں نے ی کے تعارف پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا ۔
احساسِ برتری بھی بُری عادت ہے لیکن معاندانہ گروہ بندی اور فرقہ بندی ایک لعنت ہے جس کی وجہ سے مسلمان کمزور ہیں اور ملک تنزل کا شکار
اگر آپ میرا بلاگ پڑھتے رہے ہیں تو آپ کو یاد ہونا چاہیئے کہ میں ہمیشہ معاشرے کی اچھائیوں اور بُرائیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
پاکستان میں قومیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان ایک قوم ہے ۔ جو پاکستان کو ایک قوم نہیں سمجھتا وہ غلطی پر ہے یا شرارت پر
نعمان صاحب
حقیقت بیان کی جائے تو ایسا ممکن نہیں کہ سب خوش ہوں اور میرا مقصد بھی سب کو خوش کرنا نہیں کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ اگر میری تحریر تعصب ہے تو جو حقیقت میں نے بیان کی ہے وہ رویہ کیا ہے ؟ جب میں نے لکھا کہ پنجابی کوئی زبان نہیں ہے تو بجائے اسکے کہ کوئی پنجاب کا رہنے والا مجھے ٹوکتا مجھ پر حملہ ہوا تو اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے جو اپنے آپ کو دوسرے اُردو بولنے والوں سے بھی افضل سمجھتے ہیں ۔ جب اُن کے بارے میں لکھا جائے تو وہ گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے کس بات کی معذرت ۔ میرے احباب میں دہلی ۔ آگرہ ۔ بلند شہر ۔ مرادآباد ۔ رامپور ۔ کانپور ۔ بنگلور ۔ الٰہ آباد ۔ حیدرآباد دکن ۔ بھوپال سے ہجرت کر کے آئے ہوئے رہے ہیں اور اب بھی ہیں اور ان میں سے کچھ کراچی ہی میں رہائش پذیر ہیں ۔ انہوں نے کبھی وہ طریقہ اختیار نہیں کیا جو پاکستان میں پیدا ہونے والے معدودے چند لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے
یعنی انگریزی میں کہتے ہیں کہ اردو بولیے !!
اگر یہی بات کرنا تھی کہ ہمیں لسانی اور صوبائی شناخت پر زور نہیںدینا چاہیے تو اس کے لیے بات کو عمومی طور پر بیان کرنا چاہیے صرف ایک طبقے تک آپ اپنی بات محدود رکھیں گے تو اس سے یہی تاثر ابھرے گا کہ آپ لسانیت نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کی لسان تک محدود رہنا چاہتے ہیں اور اس کو ہدف تنقید بنانا چاہتے ہیں۔۔ اس پوسٹ میں یہ تاثر پوری طرح حاوی ہے۔۔۔ یہ بات پاکستان کی ہر قومیت کو مخاطب کرے کہیں تاکہ توازن پیدا ہو۔۔ اردو اسپیکنگ کہنا برتری کی علامت ہے تو پھر کسی کا یہ کہنا کہ وہ سندھی اسپیکنگ ہے، پنجابی اسپینگ ہے یہ بھی اسی زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔۔ امتیازی سلوک اسی چیز کا نام ہے جو آپ یہاں روا رکھ رہے ہیں۔ جس میںایک مخصوص کمیونٹی کو مسلسل ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔۔ بدتمیز نے لکھا ہے محض مخصوص لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔۔ تو اگر ایم کیو ایم کی سیاست اور شدت پسندی سے اختلاف ہے تو اس کو ہدف تنقید بنائیے اور شوق سے بنائیے۔۔ کوئی طالبان کی سیاسی مخالفت میں پوری پشتون کمیونٹی کی مخالفت پر اتر آتے تو اسے درست قرار نہیںدیا سکتا بلکہ امتیازی سلوک سمجھا جائے گا۔ فلسفیانہ طور پر یہ بات بڑی خوبصورت لگتی ہے کہ کسی کو پوچھا جائے کہ آپ کیا ہیں اور وہ کہے کہ پاکستانی۔۔ جناب پاکستان میں رہتے ہوئے سب کو معلوم ہے ایک دوسرے کی شہریت پاکستانی ہے یہ پوچھنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے آپ کی ثانوی یعنی صوبائی اور لسانی شناخت دریافت کی جائے۔۔ ملک سے باہر تو آپ جو بھی ہوں پاکستانی خود بخود بن جاتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہوں گا کہ احساس برتری کو لفظ احساس کمتری سے بدل دیں تو مناسب رہے گا بلکہ پرفیکٹ۔ اور انکل جی کا تبصرہ نمبر 16 کا دوسرا بند بالکل مناسب جواب ہے سارے تبصروں کا یا اعتراضات کا۔
يا تو زبانوں پر ڈسکشن اور اسکی بنا پر تعصب بند کر ديا جائے کوئی اردو سپيکنگ ہے تو اسکو اس پر فخر ہے کوئی پنجابی بولنے پر اتنا نازاں ہے کہ گردن اکڑا اکڑا کر درد نکلے جا رہے ہيں اور کوئی پشتو کو جنت کی زبان قرار دے کر خود کو سب سے برتر سمجھ رہا ہے جبکہ ان تمام ُفخريہ پيشکشوں` کو مشترکہ طور پر پاکستانی کہا جاتا ہے جن کے ملک کو باہر کی دنيا کرپٹ ترين ملکوں ميں شمار کرتی ہے يا تو جو کوئی جو کچھ بول رہا ہے بولنے ديں اس سے قبل کہ سب کی بولتی بند ہو جائے يا پھر کسی ايک پر اعتراض نہ کريں ہم خود تو پنجابی کہلوائيں مگر دوسروں کو اردو اسپيکنگ کہلوانے سے روکيں يا پختون خواہ کا نام سنتے ہی پھڈے ڈالنے لگ جائيں ايسا کرنے والے ہم کون ہوتے ہيں جن کا کام اسی کو ساجھے اجمل انکل نے بھلے ہی اچھی نيت سے يہ آرٹيکل لکھا ہو مگر نعان صاحب کی باتيں اور راشد کامران کی دليليں بالکل درست معلوم ہوتی ہيں
راشد کامران صاحب
آپ خواہ مخوا مادری زبان اُردو رکھنے والوں یا سب ہجرت کر کے آنے والوں کو ملوّث کر رہے ہیں ۔ میرے معالعہ کے مطابق ان کی اکثریت اپنے آپ کو اُردو سپیکنگ یا مہاجر نہیں کہتی ۔ بالکل واضح ہے کہ میں ان جند لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہیں اور ہیں غرض پرست ۔ جو سندھی اور پنجابی سپیکنگ کی بات آپ نے کی ہے میں نے آج تک کسی کے منہ سے سندھی سپیکنگ پنجابی سپیکنگ پشتو سپیکنگ یا بلوچی سپیکنگ نہیں سنا ۔ ويسے انتہاء پسند ہمارے ملک کے ہر طبقے میں موجود ہیں ۔اورمیں اس کی نشاندہی کرتا رہا ہوں ۔ میں کسی سے کہوں “آپ کی تعریف ؟” اور آپ جواب ملے “ہم اُردو اسپیکنگ ہیں”۔ کیا يہ جواب منافرت کا پسِ منظر نہیں رکھتا ؟ چلیئے آپ کا فلسفہ مان لیتے ہیں کہ پوچھنے کا مقصد ثانوی تشخیص ہے ۔ اس صورت میں جواب ہونا چاہے کہ “ہم فلاں صوبے ۔ فلاں ضلع یا فلاں شہر میں رہتے ہیں”۔ البتہ کوئی مادری زبان کا ہی پوچھے تو پھر لسانی جواب بنتا ہے
اسماء صاحبہ
اگر اول پاکستان ہو تو بعد میں جو کچھ بھی ہو اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ لیکن اگر کوئی گروہ اپنے آپ کو اتنا برتر سمجھے کہ دوسروں کو جاہل کہے اور انہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق نہ دے تو اس پر آپ کیا کہیں گی ؟
سادہ سی بات ہے بھائی ان باتوں پر ناں لڑئیں
کوئی “urdu spkeaking” ہے تو کیا اور کوئی پنجابی ہے تو کیا؟
ہمارا معیارِ برتری تو کچھ اور ہے- بس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے
لاہور والے عبداللہ صاحب
آپ نے درست کہا ۔ برتری کا معیار تعلیم ۔ سچائی ۔ خدمت ۔ دراصل تقوٰی ہے جس میں ان کے علاوہ اور بھی کئی اچھی خاصیات شامل ہیں
میرے نام پر اعتراض کرنے والے اپنے آپ کو کیوں نہیں بدلتے؟
http://newslinekarachi.blogspot.com/2014/11/blog-post_9.html
جن لوگوں کو مہاجر نام پر یا اردو اسپیکنگ نام پر اعتراض ہے وہ اوپر لنک میں دیا ہوا بلاگ پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں جناب اجمل صاحب کا تبصرہ بھی موجود ہے اور ان کے تبصرے کا جواب بھی موجود ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور تمام تعصبات کو ترک کرنے کی توفیق عطا فرمائے
السلا م و علیکم افتخآر صاحب،
انٹر نیٹ کی ورق گر دانی کرتے کرتے آپ کے بلاگ سے ملاقا ت ہوئی ۔ جو خاصی دلچسپ رہی۔آپ کے نظریات اور خیالات سے پچا نوے فیصد اتفا ق تھا اس لئے لطف زیادہ آیا اور تمام گذشتہ بلاگز پڑھ ڈا لے۔
خا ص کر اس بلاگ سے میں سو فیصد اتفا ق کرتی ہوں ۔
سب سے دلچسپ بات یہ کہ لوگو ں کی تھیوری کے حسا ب سے میں بھی اردو اسپیکنگ ہوں کہ میرے ماں اور باپ دونوں ہی یوپی انڈیا سے ہجرت کر کے لاہور اور وہاں سے کرا چی آءے۔ مگر میں کراچی میں ہی پیدا ہوئی اور ذاتی طور پر اس بات کو سخت ناپسند کرتی ہوں کہ جس ہندوستا ن کو میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں مجھے اس سے منسو ب کیا جائے ۔میں پاکستان سے محبت کر نے والی اور ٹیکس دینے والی ایک آزاد شہری ہوں۔
مجھے مہاجر یا ہندوستانی کہا، پکارا اور متعارف کر ایاجانا بالکل پسند نہیں۔
رہا اردو اسپیکنگ ہونے کا معاملہ ۔ تو ماس کمیونی کیشن اردو لٹرٰیچر کی ڈگر یوں کے باوجود میں خود کو
ان سے اچھا اردو اسپیکنگ نہیں کہہ سکتی :
اپنے علا مہ اقبال ، فیض احمد فیض، منیر نیازی ، اشفاق احمد، بانوآپا ، ممتاز مفتی ، اصغر ندیم سید
، منو بھائی۔
یہ سب اہل پنجاب ہیں مگر ان سب کی اردو مجھ سے ہزار گنا اچھی ہے تو اردو اسپیکنگ کا تمغہ میرے سینے پر کیوں سجا یا جا ئے ؟
بینائی صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ آپ نے درست فرمایا ۔ اول دین اور پھر وطن سے محبت انسان کی اچھائی کا ایک ثبوت ہے ۔آپ ماشاء اللہ بہت ہمت والی ہیں کہ میری خُشک تحاریر یکدم پڑھ گئیں ۔ میں تو اب اتنی ہمت نہیں رکھتا ۔ ہاں کبھی وقت تھا کہ اچھی کتاب ہاتھ لگ جائے تو ختم کئے بغیر نہ نیند آتی تھی نہ بھوک پیاس لگتی تھی ۔ مجھے افسانے اور فرضی کہانیاں پسند نہیں ۔ میں زندگی بھر حقائق کی تلاش میں رہا ہوں اور اللہ کریم نے ہمیشہ میری مدد فرمائی ہے گو میں شاید اس ستائش کے قابل نہیں ہوں لیکن اللہ بے نیاز ہے ۔ آپ نے اُردو کے سلسلہ میں شاید میری مندرجہ ذیل تحاریر پڑھ لیں ہوں ۔ اگر نہیں تو جب وقت ملے پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے مستفید فرمایئے گا
پنجابی قوم نہیں
https://theajmals.com/blog/2009/11/17/
پنجابی کوئی زبان نہیں
https://theajmals.com/blog/2009/11/05/
ڈرتے ڈرتے
https://theajmals.com/blog/2012/06/22/
اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء
https://theajmals.com/blog/2014/05/%D8%A7%D9%8F%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%A8%D8%AA%D8%AF%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B1%D8%AA%D9%82%D8%A7%D8%A1/
افتخار صا حب،
السلام و علیکم،
جواب دینے کا از حد شکر یہ۔ بندی نے کل ہی مذ کورہ تمام بلاگز پڑ ھ ڈا لے تھے۔ اور ان تما م ہی سے نئی اور
دلچسپ معلومات حا صل ہوئیں۔ اگر چہ میرا بھی ذ ریعہ معاش ایڈور ٹا ئز نگ کی کاپیاں اور سر خیاں لکھنا ٹھہرا، تا ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حقیقت فسا نے سے ز یادہ دلچسپ پوتی ہے۔
بندی پاکستان کی ایک معمولی سی شہر ی ہے مگر اس کو برا بھلا کہنے والوں اور اس کے ٹکڑے کر نے والی سوچ سے لڑ نے کا حو صلہ ر کھتی ہے۔
گذار ش یہ ہے کہ اپنا یہ معلوما ت سے بھر پور بلاگ جاری ر کھیں ۔
قا ئد اعظم محمد علی جنا ح کے بارے میں آج کل انگر یزی اخبار ڈا ن بڑ ھ چڑھ کر جھوٹ لکھ رہا ہے ۔
برا ہ مہر بانی ان کے نظر یات کے بارے میں بھی کچھ ٹھو س تحقیقی تحر یر ہوجائے۔
کیونکہ ڈا ن کا کہنا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے۔
میرا کہنا ہے اگر ایسا ہی تھا تو سارا جھگڑا کس بات کا تھا؟
ڈان اکثر میرے تبصرے اور کمنٹ ڈیلیٹ کر دیتا ہے ۔
مگر وہ قا ئد اعظم کی شخصیت اور دوقومی نظر یہ ڈیلیٹ نہیں کر سکتا ۔
اس معاملے پر برا ہ کر م روشنی ڈا لئے جیسے آپ نے قائد ملت کے بارے میں آگاہی فرا ہم کی ہے۔ میں شکر گذار ہوں گی۔
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ روزنامہ ڈا ن اپنے ماتھے (ماسٹ ہیڈ) پر فخریہ لکھتا ہے کہ ڈا ن کا اجرا قائد اعظم کے ہاتھوں انجام پایا۔ جو کہ ایک حقیقت ہے ۔ مگر آ ج کل ڈا ن صرف اور صرف قائد اعظم کا کرداراور نظر یات
مسخ کر نے کے مشن پر کمر بستہ ہے جو جانے کہاں سے دیا گیا ہے ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس مقصد کے لئے ایجنڈا اور لفا فہ کہاں سے وصول پاتے ہیں۔
بینائی صاحبہ
قائد اعظم ۔ پاکستان اور سیکولرزم کے متعلق مندرجہ ذیل تحاریر پہلے سے موجود ہیں
قائد اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے
https://theajmals.com/blog/2012/10/17/
تقسیمِ ہِند قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری
https://theajmals.com/blog/2012/10/07
کیا پاکستان ایک مُسلم ریاست ہے اسلامی نہیں
https://theajmals.com/blog/2012/11/01
قائد اعظم اور قرآن
https://theajmals.com/blog/2014/12/%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86/5
ہماری تاریخ کمزور ہے
https://theajmals.com/blog/2010/06/17
افتخار صا حب،
اتنی جامع اور مستند معلومات فرا ہم کر نے پر بہت بہت شکر یہ۔ عر صہ دراز سے روز نامہ ڈا ن کے بر قی ایڈ یشن پر تبصرے لکھ کر وہاں کے انتہا پسند لبر ل لکھا ریوں سے بحث میں اپنا موقف پیش کر نے اور اپنی کم علمی کے با وجود مقدور بھر کو شش کرتی رہی ہوں کہ قا ئد اعظم جیسی گرا نقدر عظیم ہستی کے نظر یات کا دفا ع کر سکوں ۔ تاہم میرا محدود علم ہمیشہ آڑ ے آتا رہا اور لبر ل جھوٹی دلٰیلوں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے ۔
جانے قا ئد اعظم کی شخصیت مسخ کر کے کس کو خوش کر رہے ہیں ۔
تاہم آپ کا بے حد شکر یہ کہ بندی کو کچھ ٹھو س دلائل اور ایسا گرا ؤنڈ فرا ہم کر دیا جس کی بنیاد پر میں ان لبر لز کے ساتھ بات کر سکتی ہوں اور اپنے مو قف کو بہتر طور پر بیان کر سکتی ہوں ۔
بے حد شکر یہ ۔