لارڈ کلائيو سے لے کر 1947ء تک جتنے وائسرائے کا انتخاب ہوا وہ ہندوستان ميں سربراہ مملکت کی حيثيت سے آتے تھے ۔ ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلہ پر ذمہ داری قبول کرنے کی 3 شرائط پيش کيں ۔ 1 ۔ اپنی پسند کا اسٹاف ۔ 2 ۔ جی 130 کا وہ ہوائی جہاز جو جنگ کے دوران برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا ۔ 3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات ۔ کليمنٹ ايٹلی نے پہلی دونوں شرائط کو بے چوں و چرا منظور کرليا ليکن تيسری پر استعجاب سے کہا ”کیا یہ شہنشاہ معظم کے اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی؟(Would it not be an encroachment on H.M Government ?)” ماؤنٹ بيٹن نے کہا يہ ناگزير ہے، چونکہ مقصود يہ تھا کہ ماؤنٹ بيٹن ہندوستانی ليڈروں سے گفت و شنيد کرکے ہر فيصلے کے لئے برطانيہ آئے تو يہ مشکل مرحلہ ہوتا اس لئے کليمنٹ ايٹلی نے ايک سرد آہ بھری اور اسے بھی تسليم کرليا ۔
21مارچ 1947ء کو ماؤنٹ بيٹن بحيثيت آخری وائسرائے نئي دہلي پہنچا ۔ آئی سی ايس افسران ميں کرشنا مينن پہلا سول افسر تھا جسے ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے اپنا مشير مقرر کيا ۔ کرشنا مينن بڑا گھاگ، فطين اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل کرنے والا افسر تھا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھے جبکہ مہاراجہ جموں کشمير کے پاکستان سے الحاق کے بارے ميں بيان دے چکے تھے اور کرشنا مينن کے مشورے پر ہی کشمير ميں فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے دونوں کو تھی (یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کو)۔ کیونکہ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا ۔ ماؤنٹ بيٹن نے سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کي اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا ۔ جواہر لال نہرو نے کہا ”مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے ۔ لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتي ہے“۔ نہرو جب رخصت ہونے لگے تو ماؤنٹ بيٹن نے کہا ”پنڈت نہرو آپ مجھے برطانيہ کا وہ آخری وائسرائے نہ سمجھيں جو اقتدار کے خاتمے کے لئے آيا ہے بلکہ ہندوستان کی تعمير و ترقي کے علمبرداروں ميں ميرا شمار کيجئے“۔ پنڈت نہرو مسکرائے اور کہا ”لوگ جو کہتے ہيں کہ آپ کے پاس جادو ہے تو واقعی آج ثابت ہوگيا“۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ”آپ تو اُن سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے اُن کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی“۔
لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر ہم سے اکثر يہ سوال کرتے ہيں کہ آپ اور آپ کے بزرگوں نے يہ پاکستان کيوں بنايا تھا؟ اگر يہاں يہي سب کچھ ہونا تھا تو اس سے تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے ۔ اصل بات يہ ہے کہ لوگوں کو تاريخ کا علم نہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ قائد اعظم تو متحدہ ہندوستان کے لئے راضی ہوگئے تھے ۔ امپیرئل ہوٹل ميں کونسل مسلم ليگ کے اجلاس ميں مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم پر کھل کر نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کيبنٹ مشن نے ہندوستان کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے (1)بنگال آسام زون (2)پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد زون (3)باقيماندہ ہندوستان زون”۔
کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِیئٹ (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ عظیم تر پاکستان کی طرف قدم نہیں ؟ (Mr. Jinnah is it not a step forward for a greater Pakistan?) ۔ قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے ہیں (Exactly you have taken the point)“
آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا ”رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال آسام پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد”۔ صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی 1947ء کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف INDIA WINS FREEDOMکے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں ”اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے“۔ کيونکہ اُنہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک کہا ہے کہ ”دس سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا“۔ مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز عالم دين ہيں، صاحب نسبت بزرگ ہيں، علم و فضل ميں يکتائے روزگار ہيں ليکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو کانگريس کی تنگ نظری اور تعصب کو سمجھنے ميں غلطی کر بيٹھے
ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے يہ گل کھلائے کہ کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کيا ۔ لاہور کے ايک معروف وکيل نے جو تجزيہ کار بھی ہيں، ايک ٹی وی پروگرام ميں معروف تجزيہ نگار ڈاکٹر جميل جالبی سے پوچھا تھا ”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ پاکستان کيوں آئے؟“ ڈاکٹر جميل جالبی نے جواب ديا ”ہم نے پاکستان بنايا ۔ ہم تو اپنے گھر ميں آئے ہيں“۔
ميڈيا سے ميری درخواست ہے کہ تاريخ پاکستان کو زيادہ سے زيادہ روشناس کرائيں ۔ محرکات تحريک پاکستان استحکام پاکستان کا موجب بنيں گے
تحریر ۔ سعید صدیقی (جو پاکستان بننے سے قبل حکومت کے ایک عہدیدار تھے اور اعلٰی سطح کی میٹنگز میں شریک ہوتے تھے)