Daily Archives: November 5, 2009

پنجابی کوئی زبان نہیں

تیرہ چودہ سال گذرے میں سابق وائس چانسلر این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کسی کا ٹیلیفون آيا اور وہ بات کرنے لگ گئے ۔ ایک بات اُنہوں نے ایسی کہی کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ ٹیلیفون بند کرنے کے بعد سومرو صاحب بولے “آپ تو کہتے تھے کہ سندھی نہیں آتی ۔ میں سندھی میں بات کر رہا تھا اور آپ بالکل درست ہنسے”۔ میں نے کہا “آپ 70 فیصد پُرانی پنجابی بول رہے تھے”۔ سومرو صاحب تو حیران ہوئے ہی مجھ پر بھُوت سوار ہو گیا کہ پنجابی اور سندھی کا رشتہ معلوم کروں جس کیلئے ان کا ماخذ معلوم کرنا ضروری تھا

دورِ حاضر میں تو سب علاقوں کی زبانیں بدل چکی ہیں ۔ نہ اُردو اُردو رہی ہے اور نہ پنجابی پنجابی ۔ ان میں انگریزی ضرورت سے زیادہ شامل کر لی گئی ہے اور کچھ الفاظ تروڑ مروڑ اور غلط اِملا کا شکار ہو گئے ہیں [جس طرح طالب کی جمع طلباء ہے جسے طلبہ لکھا جا رہا ہے]۔ جواز بتایا جاتا ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لیتی ہیں ۔ بیان تو درست ہے مگر زندہ زبانیں اپنے اندر دوسری زبانوں کے وہ الفاظ داخل کرتی ہیں جو ان زبانوں میں موجود نہیں ہوتے ۔ ہماری قوم نے تو اچھے بھلے الفاظ کی موجودگی میں انگریزی کو فخریہ ترجیح دے رکھی ہے ۔ چچا ماموں خالو پھوپھا سب کو اَنکل [uncle] سڑک کو روڈ [road] غسلخانہ کو باتھ روم [Bathroom] باورچی خانہ کو کِچن [Kitchen] بستر کو بَیڈ [Bed] کہنے سے پنجابی یا اُردو میں میں کونسی خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے ؟ کتنا پیارا اور شیریں لفظ ہے امّی جس کو ممی [Mammy] مامی [Mommy] بنا دیا ۔ ممی [Mummy] مُردے کو بھی کہتے ہیں ۔ خیر اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں

پنجابی زبان کی ہئیت بدل جانے کے باوجود سندھ اور پوٹھوہار میں ابھی بھی کچھ قدرِ مشترک ہے جیسے سندھ میں پگاڑا کا پگاڑو اور کھوسہ کا کھوسو ہو جاتا ہے ایسے ہی پوٹھوہار میں ہے ۔ جس طرح ہند و پاکستان کے ہر ضلع میں فرق فرق اُردو بولی جاتی تھی اسی طرح پنجابی بھی پنجاب کے ہر ضلع میں فرق فرق تھی اور شاید ہے بھی ۔ لیکن اگر کسی نے چار دہائیاں قبل یا اُس سے بھی پہلے ایبٹ آباد بلکہ مانسہرہ سے تھٹہ تک کا سفر کیا ہوتا تو وہ کہتا کہ راستہ میں زبان پوٹھوہاری سے سندھی میں بتدریج اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ زیادہ محسوس نہیں ہوتا

پنجابی کے نام سے دورِ حاضر میں جو زبان بولی جاتی ہے دراصل یہ فارسی ۔ عربی ۔ انگریزی اورسنسکرت کا ملغوبہ ہے ۔ جس زبان کا نام انگریزوں نے پنجابی رکھا وہ اس سے قبل گورمُکھی کہلاتی تھی ۔ دراصل گورمُکھی بھی کوئی زبان نہ تھی ۔ گورمُکھی کا مطلب ہے گورو کے منہ سے نکلی بات ۔ کیونکہ اس زبان میں گورو کے ارشادات رقم کئے گئے تھے اسلئے اس کا نام گورمُکھی رکھ دیا گیا تھا ۔ یہ زبان حقیقت میں براہمی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ براہمی چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ براہمی سے سنسکرت نے بھی جنم لیا ۔ یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی ۔ یہی زبان جسے بعد میں پنجابی کا نام دیا گیا اُردو زبان کی بنیاد بھی بنی ۔ یہاں تک کہ اُنیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں جو اُردو یا ہندی بولی جاتی رہی وہ اُس زبان کے اکثر الفاظ پر مشتمل تھی جو پنجابی کہلائی ۔ اُردو چونکہ ہند کی زبان تھی اسلئے اسے ہندی بھی کہا جاتا تھا ۔ ہندوستان کا لفظ ہند کو اپنے سے منسوب کرنے کیلئے ہندوؤں نے ایجاد کیا تھا

مولوی محمد مسلم صاحب کا مجموعہ کلام “گلزارِ آدم” جو 1230ھ یعنی 1829ء میں لکھا گیا میں سے ایک اُردو کا شعر

اِک دِن دِل وِچ گُذریا ۔ میرے اِہ خیال
ہندی وِچ پیغمبراں دا کُجھ آکھاں میں حال

مندرجہ بالا شعر کو اگر دورِ حاضر کی اُردو میں لکھا جائے تو کچھ یوں ہو گا
ایک دن دل میں آیا ميرے یہ خیال
اُردو میں پیغمبروں کا کُچھ کہوں میں حال

پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو
ہَور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجُوں تک ۔ ۔۔ ۔ ابھی تک
بھار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ باہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کِدھن ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کس سمت میں
کُوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ دِستے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نظر آتے
کنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُنج ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ مجھ
نال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ساتھ

اُوپر دیئے گئے پرانی اُردو کے الفاظ اُن الفاظ میں سے چند ہیں جو کہ شمال مغربی ہند [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ سندھ ۔ پنجاب اور گرد و نواح] میں بولی جانے والی زبان سے اُردو میں شامل ہوئے ۔ اِن الفاظ میں سے اکثر اب بھی پنجابی میں بولے جاتے ہیں ۔ حیدر آبادی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُن کی وساطت سے مندرجہ بالا شعر اور الفاظ تک میری رسائی ہوئی