پاکستان کے عوام کے لئے یہ بات اب تک پردہ راز میں ہے کہ آصف علی زرداری نے انتخابات کے بعد تمام معزول ججوں کو کیوں بحال نہیں کیا تھا؟ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ معاہدے کیوں کئے؟ جبکہ وہ ان معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ بھی کہ انہوں نے اس بات کا احساس کیوں نہیں کیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کر کے ایک ایسی غلطی کر رہے ہیں جو انہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بہت زیادہ مقبول بنا دے گی۔ یہ تمام سوالات اگرچہ اب تک پردہ راز میں ہیں مگر بعض حقائق کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اس سے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں جو بیک وقت باعث صدمہ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی
فروری 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ہمدردی کی اس لہر کی وجہ سے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک وفات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کی پوزیشن میں تھے۔ انہیں اس موقع پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دو تحفے بھی ملے تھے ایک این آر او اور دوسرا انتہائی غیر محفوظ پی سی او جج عدلیہ کی بحالی کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرنے کو تیار تھے
فروری 2008ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے چالیس روز بعد آصف زرداری نے اول الذکر دونوں مواقع کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک جانب زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف این آر او کے تحت کرپشن کے تمام کیسز ختم ہوگئے دوسری جانب پی سی او ججز کا عدم تحفظ بھی ان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوا جسے استعمال کر کے آصف زرداری قتل اور جرائم کے کئی کیسز سے بری ہوگئے جو این آر او کے بغیر ایک ناممکن امر تھا
بے نظیر جب اپنے اور اپنے شوہر کے خلاف کرپشن کے تمام کیس واپس لینے کے لئے مذاکرات کر رہی تھیں اس وقت ان مذاکرات میں شامل افراد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف کرمنل کیسز واپس لینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا
انتخابات کے فوری بعد آصف زرداری رائے ونڈ گئے اور اس کے بعد نواز شریف اور زرداری نے نئے جذبوں اور گرم جوشی کا اظہار کیا۔ اب یہ دونوں ایک خاندان کی مانند تھے۔ ان دونوں نے عوام کے سامنے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری اور ان دیگر معزز جج صاحبان کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان رائے ونڈ، پھر مری، پھر دبئی، پھر لندن اور اس کے بعد اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں، مذاکرات اور معاہدے ہوئے۔ دو بار یہ وعدے دو باقاعدہ معاہدوں میں بھی تبدیل ہوئے مگر ان میں سے کسی پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا
18 فروری 2008ء سے 16 مارچ 2009ء کی رات گزرنے تک وکلاء اور معزول جج جو اپنے گھروں میں شرمندگی کے عالم میں بیٹھے تھے جبکہ صحافی اور درحقیقت ملک کا ہر حساس شخص حیران تھا کہ آصف زرداری نے ناپختہ وعدے کر کے اپنی پارٹی اور حکومت کو ایک بند گلی میں کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس اقدام کی وجہ سے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی پارٹی ایک غلط راہ پر چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس کا کوئی بنیادی موقف بھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچا اور پیپلزپارٹی کے حلقوں میں کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ عدلیہ کے مسئلے کو زرداری نے اس طرح کیوں استعمال کیا۔ اس وقت تک ان پر عوامی خواہشات کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے بھی زبردست دباؤ تھا
اب بھی سوال یہ ہے کہ آصف زرداری نے آخر عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو اس انداز میں کیوں حل کیا؟ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات سے صرف تین روز قبل 15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے پوری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اپنی ہر بازی پی سی او ججز پر لگا دی انہیں امید تھی کہ یہ جج اپنی ملازمتوں پر برقرار رہنے کے لئے ان کے تمام مطالبات مان لیں گے۔ زرداری نے اس سے قبل نواز شریف سے جتنی بھی ملاقاتیں کی تھیں اور معزز جج صاحبان کی بحالی کے لئے جو بھی وعدے کئے تھے ان کا مقصد ڈوگر اور دیگر پی سی او جج صاحبان کو آگے بڑھانا تھا تاکہ انہیں جو کام سونپا گیا ہے وہ اسے جلد از جلد مکمل کرلیں۔ چنانچہ 15 فروری 2008ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ کے چالیس روز بعد بظاہر ان کے غمزدہ شوہر نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اور انتخابات کے نتائج کا انتظار کئے بغیر انتخابات سے صرف تین روز قبل ایک آئینی پٹیشن (D-265/2008) سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی۔ اس پٹیشن میں انہوں نے وفاقی حکومت اور نیب سے اپنے خلاف جاری ان تمام مقدمات واپس لینے کے حوالے سے رائے طلب کی تھی جو برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ درخواست دہندہ نے جس جامع انداز میں درخواست تیار کی تھی اس کے مطالعے کے بعد کسی تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی
درخواست
درخواست ہے کہ یہ معزز عدالت براہ کرم (A) قرار دے کہ کلیم نمبر 2006 فولیو 156 کے تحت مدعا علیہ کی جانب سے استغاثہ کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن، یونائیٹڈ کنگڈم میں دائر کی جانے والی درخواست قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیار کے تحت معطل کی جائے یا واپس لی جائے
(B) اور یہ کہ مستغیث نمبر 1 کی جانب سے حکومت سوئٹزرلینڈ کو دی جانے والی مشترکہ درخواست جس کے تحت انویسٹی گیشن مجسٹریٹ جنیوا نے تحقیقات شروع کی ہے اور جیسا کہ مستغیث نمبر 1 سول پارٹی کی حیثیت سے اس میں شامل ہے تو اسے قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق واپس لیا جائے یا معطل کیا جائے۔
(C) اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ذیل میں پیش کئے جانے والے مقدمات اور ریفرنسز این آر او 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق ختم کئے جائیں اور واپس لئے جائیں گے
(i) ریفرنس نمبر 14/2001 (اثاثہ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(ii) ریفرنس نمبر 41/2001 (ایس بی ایس ریفرنس) جو اکاؤنٹس کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iii) ریفرنس نمبر 23/2000 (اے آر وائی گولڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iv) ریفرنس نمبر 59/2002 (بی ایم ڈبلیو کا ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ (III) راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(v) ریفرنس نمبر 35/2000 (کوٹیکناریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر III راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vi) ریفرنس نمبر 1/2001 (ریسورس ٹریکٹر ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vii) ریفرنس نمبر 6/2000 (پولوگراؤنڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے جسٹس ڈوگر جو اس وقت نام نہاد چیف جسٹس بھی تھے انہوں نے آصف زرداری کو نوازنے کے لئے اپنی اطاعت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی تمام ماتحت عدالتوں کو 27 فروری 2008ء کو آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 کی سماعت میں فوری طور پر بری کرنے کا مطالبہ کیا ان پٹیشنز میں درحقیقت این آر او کے قابل عمل ہونے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پی سی او ججز کی ایک پانچ رکنی بنچ نے تمام ماتحت عدالتوں کو مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں
سپریم کورٹ آف پاکستان میں حقیقی عدالتی دائرہ اختیار
برعدالت
مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر (ایچ سی جے)
مسٹر جسٹس محمد نواز عباسی
مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر
مسٹر جسٹس اعجازالحسن
مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز یوسف آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 عدالتیں اور متعلقہ حکام آرڈیننس کی دفعات کی روشنی میں کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر کہ یہ پٹیشنز تاخیر کا شکار ہوئی ہیں زیادہ تیزی کے ساتھ کارروائی کریں گی
اس کے اگلے روز سندھ ہائی کورٹ کے دو پی سی او ججوں خواجہ نوید اور علی سائیں ڈنو میٹلو نے آصف زرداری کی آئینی پٹیشن (D-265/2008) کی سماعت کرتے ہوئے فوری طور پر سپریم کورٹ کی مندرجہ بالا ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے نیب اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ عدالت میں ایک رپورٹ پیش کریں جس میں اس بات کی تصدیق ہوگئی ہو کہ انہوں نے این آر او کے تحت آصف زرداری کے خلاف تمام کرپشن کیسز واپس لے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کی تصدیق بھی کی جائے کہ ان کی جانب سے تمام غیرملکی استغاثہ حکام سے آصف زرداری کے خلاف تمام کیسوں میں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا حکم کی روشنی میں ہر قسم کا تعاون ختم کر دیا ہے
آصف زرداری کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں بار بار سماعت کے لئے پیش ہوتی رہی۔ ہر سماعت میں عدالت نیب اور وفاقی حکومت پر زور دیتی رہی کہ زرداری کے خلاف تمام کیس واپس لئے جائیں اور سندھ ہائی کورٹ میں ان کیسوں کے حوالے سے تعمیل حکم کی رپورٹ پیش کی جائے۔ جس آئینی پٹیشن کے تحت آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے تمام کیس بالآخر ختم کئے گئے ان کی تاریخیں مندرجہ ذیل تھیں۔ 15-2-2008، 29-2-2008، 4-3-2008، 28-3-2008، 21-4-2008، 6-5-2008، 15-5-2008، 29-8-2008، 17-9-2008۔
17 ستمبر 2008ء کو نیب اور وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلاء (جو آصف زرداری کے کنٹرول میں تھے) نے ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رضا نقوی اور نیب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالتی حکم کی تعمیل کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کی اس دو رکنی بنچ کو پیش کی جس نے مقدمات کی واپسی کی ہدایت کی تھی۔ ان دونوں ججوں میں خواجہ نوید او علی سائیں ڈنو میٹلو شامل تھے۔ جہاں تک سوئس عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا تعلق ہے اٹارنٹی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے سوئس عدالتوں میں عدالت کے ایک خط کی نقل پیش کی جس میں پٹیشنز کے خلاف عدالتی کارروائی ختم کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہی انویسٹی گیٹنگ مجسٹریٹ جنیوا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آصف زرداری کے خلاف کرمنل کانسپریسی کے حوالے سے عدالتی کارروائی ختم کردیں جس کے مطابق انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کے ساتھ فراڈ کیا تھا
جہاں تک برطانیہ کے مشہور سرے محل کیس کا تعلق ہے DAG نے سندھ ہائی کورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ روک ووڈ اسٹیٹ سرے (برطانیہ) میں جاری تمام کارروائی ختم کردی گئی ہے۔ بعد میں نیب ریفرنسز کے حوالے سے DAG نے اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف نیب کے تمام سات ریفرنسز جن میں اثاثوں کا ریفرنس، ایس جی ایس، کوٹیکنا ریفرنس URSUS ریفرنس اور پولو گراؤنڈ ریفرنس شامل تھے اور جو پٹیشنز کے خلاف راولپنڈی کی احتساب عدالت میں زیرسماعت تھے انہیں حکومت نے واپس لے لیا ہے
DAG کے متذکرہ بالا بیان کے بعد پٹیشنز کے وکلاء ابوبکر زرداری اور حیدر علی نے اپنی پٹیشن پیش نہیں کی اور جسٹس خواجہ نوید اور علی ڈنو میٹلو نے مندرجہ ذیل حکم کے ساتھ پٹیشن خارج کردی
آرڈر شیٹ
ہائی کورٹ آف سندھ۔ کراچی
سی پی نمبر D-265 آفس 2009
16-9-2008
فاضل DAG نے بیان کیا ہے کہ حکومت پاکستان کی وضاحت پر پٹیشنز کے خلاف لوئس عدالت میں زیر التواء کرمنل پروسیڈنگ ختم کردی گئی ہے اور ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن یوکے میں زیر التواء کارروائیاں معطل کردی گئی ہیں۔
فاضل DAG کے بیان کی روشنی میں پٹیشنز کے فاضل وکیل نے پٹیشن کی سماعت جاری رکھنے پر زور نہیں دیا۔ اسی سبب سے پٹیشن اور اس کے ساتھ موجود درخواستیں نمٹادی گئی ہیں کیوں کہ ان پر زور نہیں دیا گیا۔
جج
مندرجہ بالا ان تمام واقعات کی اسکیم ہے جنہیں ترتیب اور بیان کیا گیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف زرداری اور پی سی او ججز نے کس طرح ترتیب وار، بھرتی سے اور طریقے سے کام کیا جب کہ نواز شریف، وکلاء اور پوری قوم معزول ججوں کی بحالی کے بلند و بالا وعدوں کے مزے لے رہے تھے۔ (جاری ہے)
تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ