Daily Archives: October 15, 2009

طالبان طالبان کی رَٹ ۔ حقائق سے چشم پوشی

میرے ہموطنوں کی اکثریت کو ٹی وی نشریات اور اخبارات نے اتنا محصور [hypnotise] کیا ہے کہ وہ بھی افسانوی راگ الاپنے لگ گئے ہیں ۔ میں نے پہلے 25 جولائی 2008ء کو طالبان کی پوری تاریخ لکھی پھر سوات کے حوالے سے 24 اور 25 فروری 2009ء کو لکھا ۔ 7 مئی 2009ء کو اسی سلسلہ میں قارئین کے سوالات کے جوابات لکھے ۔ میرے ہموطنوں کے عمومی رویہ سے متعلق میں اپنی 25 فروری 2009ء کی تحریر میں سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں

یہ واقعہ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”

دورِ حاضر کی جواں نسل [عمر 20 تا 40 سال] کی اکثریت کی پہچان ہے کہ ان کا پہلا فقرہ یا ردِ عمل ہوتا ہے “آپ نہیں جانتے” بلکہ درست فقرہ یہ ہے “آپ کو کچھ پتہ نہیں”۔ کوئی اور مزید آگے بڑھے گا اور کہہ دے گا “آپ اب اپنے مصنوعی خول سے نکلیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں”۔ پچھلے ماہ میں اپنے ایک ساتھی کے سامنے يہی بات کہہ رہا تھا تو ایک چونتیس پینتیس سالہ اعلٰی تعلیم يافتہ جوان بولا ” آجکل چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ”

حقیقت یہ ہے دورِ حاضر کے اکثر لوگوں کو سطحی معلومات تو بہت ہوتی ہیں ۔کسی معاملہ کی گہرائی میں جانے کی یا تو وہ کوشش نہیں کرتے یا زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنے کی وجہ سے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ملتا ۔ بعض اوقات صورتِ حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سچ سامنے رکھ دیا جائے تو اُسے کسی بہانے ٹالنے پر اصرار ہوتا ہے

مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ بے تکلّف احباب کی محفل میں بیٹھے اگر کوئی پوچھے “آجکل کیا ہو رہا ہے ؟” تو میں کہہ دیتا “اپنے تو دو ہی شوق ہیں ۔ کھانا اور سونا”۔ ایک دن جب میں نے ایسا کہا تو وہاں ایک پڑھا لکھا جوان جو مجھے نہیں جانتا تھا موجود تھا ۔ بعد میں اُس جوان کو کچھ عِلمی معلومات کی ضرورت پڑی تو اُس کے ایک بزرگ نے اُسے میرے پاس آنے کو کہا مگر وہ نہ آیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ معلومات اُسے حاصل نہ ہو سکیں ۔ اس پر اس بزرگ نے اسے کہا “کیا اجمل بھوپال صاحب کو بھی معلوم نہیں ؟” تو جوان بولا “جسے کھانے اور سونے سے فرصت نہیں وہ کیا بتائے گا”۔ اُس کے بزرگ نے اُسے صرف اتنا کہا ” تم لوگ بدقسمت ہو”

میں جب بچپن میں قرآن شریف میں پڑھتا تھا ” اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے”۔ تو سوچتا تھا کہ شاید اُس زمانہ کے لوگ بے علم تھے جب یہ آیت اُتری ۔ 1970ء کی دہائی کے عوامی دور میں معلوم ہوا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ کہلانے والوں کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ سو یہ وصف ہماری قوم کی اکثریت کا ہے کہ نجانے کس انجانے خوف کے زیرِ اثر حقائق کا خود سامنا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے کو غیرمصدقہ بات کو حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں

اس صورتِ حال کے نتیجہ میں قوم ایک غیر معیّن تیر [misguided missile] بن کے رہ گئی ہے ۔ شور شرابا بہت ہے سُدھار کیلئے عملی طور پر آگے کوئی نہیں بڑھتا ۔ سال سے زائد عرصہ گذرا کہ غریب پختون بچوں کو تعلیم میسر نہ ہونے کا بہت واویلا تھا ۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر وہ مدرسوں کی بجائے انگریزی سکولوں میں نہ گئے تو دہشتگرد بن جائیں گے ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بلاگ پر عملی تعاون کی درخواست کی ۔ دو تین جوانوں نے اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میری ہمت افزائی کی ۔ میں نے صورتِ حال کی وضاحت کی ۔ بڑا نہیں چھوٹا سا منصوبہ تھا ۔ درجن سے زیادہ بچوں کی ایک اچھے سکول میں تعلیم کی کفالت کی جا چکی تھی ۔ اس سے قبل یہ بچے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے تھے ۔ اس تعداد کو 24 تک لیجانا چاہ رہے تھے مگر مالی وسائل نہ تھے ۔ فی بچہ 600 روپیہ ماہانہ فیس ۔ اس کے علاوہ کتابیں کاپیاں پنسل وغیرہ اور روزانہ ایک وقت کا کھانا ۔ بس اتنا ہی کرنا تھا

ابھی پھر کوئی اسی طرح کا عنوان چھیڑ دیجئے ۔ اس پر لمبی لمبی تحاریر لکھی جائیں گی مگر جب باری عمل کی آئے گی تو شاید کوئی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے خواندہ گنے لوگوں میں سے نصف مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی جاہلیت کے متعلق پچھلے چند سالوں میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں سے درجنوں بلاگرز نے لکھے ہیں ۔ ان سب لکھنے والوں میں کتنے ہیں جنہوں نے دور نہیں اپنے علاقے کے مدرسہ کی ہی بہتری کیلئے عملی کام کیا ہے ؟ اسے بھی چھوڑیئے کیا کسی نے کبھی کسی مدرسہ کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ہے ؟ پوچھیئے تو محلے کی مسجد کے مدرسہ کی بات کریں گے جہاں بچوں کو طوطوں کی طرح قرآن شریف رٹایا جاتا ہے اور وہاں کا بھی مطالعاتی دورہ نہیں کیا ہو گا

بیت اللہ محسود جسے پاکستانی طالبان کا سربراہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق معروف ہے کہ گونٹانامو بے میں 11 ماہ قید کے بعد رہا کر ديا گیا بلکہ کھُلا چھوڑ دیا گیا جبکہ 80 سالہ بوڑھے بیگناہ پاکستانی کو بھی ڈھائی سال بعد اُس وقت چھوڑا گیا تھا جب وہ قریب مرگ تھا اور بات بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ باقی پاکستانی جو ڈھائی تین سال بعد وہاں سے چھوٹے وہ کسی اور جگہ قید ہیں ۔ اب شُنید ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کھیلے جانے والے ڈرامہ کا حصہ ہے اور وہ زندہ ہے مگر غائب ہے ۔ حقیقت جو میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں یہی ہے کہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے اور فوج کے خلاف لڑنے والے کرائے کے قاتل ہیں جن کے آقا غیر ملک یا ممالک کی حکومتیں ہیں ۔ ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے البتٰہ افغانستان کی کٹھپتلی حکومت کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے

جب تک غیرملکی مفاد کو چھوڑ کر ملکی مفاد کے تحت کام نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے رہیں گے اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنگجو حملہ آوروں کی تعداد پہلے سے کہیں زیاد ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور پہلے سے زیادہ بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ اسلام آباد اقوامِ متحدہ کے امدادی دفتر پر حملہ ۔ پھر پشاور میں اہم شہری علاقہ میں دھماکہ پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو کر حملہ اور آج لاہور شہر کے اہم علاقہ میں واقعہ ایف آئی اے کے دفتر مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز اور بیدیاں میں پولیس کمانڈو تربیتی مرکز پر حملے ہوئے ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملے کی پہلے سے اطلاع تھی

اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکہ بندیاں ہیں ۔ میرے اپنے گھر کے تین راستے مکمل بند کر کے ایک راستہ میں جگہ جگہ بلاک رکھے ہیں جن میں سے بالکل آہستہ ہی گذرا جا سکتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا امدادی دفتر میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اُس کی حفاظت کیوں نہ کی جا سکی ؟ آخر ان علاقوں کی درست حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزارتِ داخلہ کیا کر رہی ہے ؟ رحمٰن ملک صرف بیان داغنے کے کی بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کرتا ؟

آنکھوں [عقل] پر پردہ پڑنا اور کسے کہتے ہیں ؟ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو سیدھی راہ پر لگائے اور ہمارے ملک کو مزید تباہی سے بچائے