Daily Archives: February 25, 2009

نواز شریف اور شہباز شریف نااہل

آج سپریم کورٹ عمارت میں تین رکن بنچ نے جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں شریف برادارن کی انتخابی اہلیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ

شریف برادران اہلیت کیس میں چیف سیکرٹری اور اسپیکر پنجاب متاثر ہ فریق نہیں ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ تمام ججز نے آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عبوری آئین کا حلف غیر متعلقہ بات ہے ۔ نواز شریف کے تجویز و تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے ہیں جب عدالت انہیں اجازت دے ۔ تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں ۔ عدالتی بینچ کی دست برداری کا فیصلہ جج کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔ اسے کوئی دست بردار ہونے کی ہدایت نہیں دے سکتا

دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ دیا اور بعد میں شریف برادارن اہلیت کیس نمٹاتے ہوئے تین رکنی بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کونااہل قراردیا

اس فیصلے اور بالخصوص اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری قوم کو دھوکہ دیتا رہا ہے اور سب کو لے کر چلنے کی بات جھوٹ پر مبنی تھی

پہاڑوں پر لگی آگ

پہاڑوں پر لگی آگ تو اچھی لگتی ہے
اپنے گھر کی لگی کچھ اور ہوتی ہے

کم عقلی یہ ہے کہ اکثر ہموطن اپنے مُلک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے ۔ پچھلے ایک ہفتہ میں اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی مذاکرات میں ناقدوں کے مندرجہ ذیل خدشات کا اظہار کیا

1 ۔ طالبان کی بات مان کر اُنہیں شہ دی گئی ہے اب جو کوئی [غُنڈہ] اُٹھے گا اسی طرح اپنی بات منوا لے گا
2 ۔ وہ [طالبان] پورے پاکستان میں اپنی حکومت بنانے کے خواب دیکھیں گے
3 ۔ پورے پاکستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو گھروں میں بند کر دیا جائے گا یا غلام بنا لیا جائے گا
4 ۔ کونسی شریعت نافذ کریں گے ۔ ہر مسجد کی علیحدہ شریعت ہے
5 ۔ طالبان کا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے
6 ۔ ریاست کے اندر ریاست بنائی جا رہی ہے ۔ حکومت کی عملداری کو للکارا جا رہا ہے

سوات کے موجودہ حالات کا پس منظر میں کل بیان کر جکا ہوں ۔ اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکروں پر غور کرتے ہوئے مجھے دو پرانے واقعات یاد آ گئے

سوا 43 سال قبل جب بین الاقوامی پروازیں صرف کراچی آتی جاتی تھیں جرمنی جا تے ہوئے میں دو دن پی ای سی ایچ ایس کراچی میں اپنے ماموں کے ہاں ٹھہرا ۔ شام کو ماموں کچھ بڑے کاروباری لوگوں سے ملنے جا رہے تھے مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ وہاں تین چار بزرگان تھے جو خاصے پڑھے لکھے لگتے تھے ۔ ماموں نے میرا تعارف کرایا تو اُن میں سے ایک بولے “اچھا اُس فیکٹری میں کام کرتے ہو جہاں لِپ سٹِک [Lip stick] بنتی ہے”۔ اور پھر مُسکرا کر جُملہ کسا “اور کچھ تو بنا نہیں سکے”۔ اُس وقت صرف اُس فیکٹری میں جس میں میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا میں اور میرے ساتھی اللہ کے فضل سے رائفل جی تھری ڈویلوپ [develop] کر کے اُس کی ماس [mass] پروڈکشن شروع کروا چکے تھے اور مجھے کارکردگی کی بناء پر جرمن مشین گن کی پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ کیلئے چُنا گیا تھا اور میں اسی سلسلہ میں جرمنی جا رہا تھا ۔ چنانچہ سمجھتے ہوئے کہ موصوف پاکستان آرڈننس فیکٹری کی الف بے بھی نہیں جانتے اور ایسے ہی یاوا گوئی کر رہے ہیں میں خاموش رہا کیونکہ وہ بزرگ تھے اور ماموں کے جاننے والے تھے اور میں نوجوان ۔ دوسرے اُن دنوں میرا اپنی حیثیت اور کام بیان کرنا قرینِ محب الوطنی نہ تھا

دوسرا واقعہ ۔ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”۔

ہمارے اکثر ہموطنوں کا خاصہ ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا ہو اُس کے متعلق وہ کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن جو اُنہوں نے نہیں دیکھا اُس کے متعلق وہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ بقول شخصے بند لفافے کے اندر پڑے خط کا مضمون پڑھ لیتے ہیں ۔ سوات کے معاملہ میں بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ جو لوگ سوات میں رہتے ہیں اور وہاں کے حالات سے واقف ہیں اُن بیچاروں کی آواز بے بنیاد غُوغا میں گُم ہو کر رہ گئی ہے

متذکرہ بالا خدشات کی عمومی وضاحت یہ ہے

1 ۔ طالبان کی بات کسی نے نہیں مانی اور نہ شہ دی ہے جو کام سالوں پہلے ہو جانا چاہیئے تھا وہ ہونے کی اُمید ہے ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے اور ہمارا ملک خانہ جنگی سے بچ جائے ۔ مذاکرات تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ امن اور سوات میں اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کے متعلق ہوئے ہیں ۔ صوفی محمد کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے اُنہیں امن قائم کرنے پر آمادہ کریں ۔ اس کے عِوض سوات میں اسلامی نظامِ عدل کا نفاذ کر دیا جائے گا ۔ کام بہت دشوار ہے ۔ اللہ بہتری فرمائے ۔ “جو کوئی اُٹھے گا بات منوالے گا” کا جہاں تک تعلق ہے اُس کی اس سلسلہ میں تو کم اُمید ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کراچی ہو یا لاہور کوئٹہ ہو یا اسلام آباد بات اُسی کی مانی جا رہی ہے جو طاقتور ہے اور عوام پِس رہے ہیں ۔ پھر ایسا سوال صرف قبائلی علاقہ کیلئے کیوں اُٹھایا جاتا ہے ؟

2 ۔ قبائلی علاقہ سے باہر آنے کی طالبان کو ضرورت نہیں ۔ یہاں اُن جیسے لاکھوں کو چکر دینے والا ایک سے ایک بڑھ کر ہزاروں موجود ہیں

3 ۔ غُصہ اور ردِعمل یا انتقام میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے ۔ سکولوں کو تباہ کرنا غلط عمل ہے اس کی حمائت کوئی نہیں کرے گا ۔ اگر طالبان کا منصوبہ سکولوں کو تباہ کرنا ہوتا تو ایسا کیوں ہوا کہ ایک سال قبل تک مرکزی حکومت کے زیرِانتظام قبائلی علاقہ میں ایک بھی سکول تباہ نہیں ہوا تھا جبکہ وہ علاقہ پاکستانی طالبان کا منبع ہے اور طالبان کی تعداد بھی وہاں بہت زیادہ ہے اور وہاں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی 2004ء سے جاری ہے ۔ پچھلے ایک سال میں باجوڑ میں 34 اور مالا کنڈ میں 200 کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول تباہ ہوئے ہیں ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان جو طالبان کا گڑھ ہیں میں کوئی سکول تباہ نہیں ہوا ۔ طالبان کا دعوٰی ہے کہ وہ سکول تباہ کیا جاتا ہے جہاں سیکیورٹی فورسز اپنا مورچہ بناتی ہیں ۔ جہاں تک عورتوں کو بند کرنے کا تعلق ہے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور اس سے بڑھ کر سندھ میں کیا ہو رہا ہے ۔ لڑکیوں کی نعوذ باللہ قرآن سے شادی ۔ لڑکیوں کی مرضی کے خلاف شادی ۔ لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنا یا پرائمری سے زیادہ پڑھنے نہ دینا ۔ کیا یہ سب کچھ یہاں نہیں ہو رہا ؟ کیا اس کی وجہ اسلامی شریعت ہے ؟

4 ۔ اوّل تو اسلامی شریعت نافذ کرنے کی فریقین میں بات ہی نہیں ہوئی ۔ اسلامی نظامِ عدل مکمل اسلامی شریعت نہیں ہے گو کہ یہ اسلامی شریعت کے بنیادی خوائص میں سے ہے ۔ دیگر مجوزہ نظامِ عدل ریگولیشن مکمل اسلامی نہیں ہے ۔ بہت افسوس ہوتا ہے ایسے مفکّروں پر جنہوں نے شاید قرآن شریف کو بھی غور سے نہیں پڑھا اور ہر مسجد کی علیحدہ شریعت بناتے پھر رہے ہیں ۔ تفصیل میں جائے بغیر میں عرض کر دوں کہ اسلامی شریعت صرف ایک ہی ہے اور اس کی بنیاد ۔ اوّل قرآن ۔ دوم سُنت ۔ سوم اجماع اور آخر قیاس ہے جس پر تمام آئمہ کرام متفق ہیں ۔ یقین نہ ہو تو سُنی اور شیعہ دونوں مسالک کے مُستند عالِموں سے پوچھ لیجئے یا اس سلسلہ میں کسی جامع کتاب کا سے استفادہ حاصل کر لیجئے

5 ۔ غیر تو غیر ہوئے اپنوں کا بھی چارہ نہ ہوا ۔ میرے ہموطن اتنا شیطان کو بدنام نہیں کرتے جتنا خود اپنے دین اسلام کی دھجیاں بکھیرتے رہتے ہیں اور اس پر انواع و اقسام کے سرنامے [labels] لگاتے رہتے ہیں ۔ اسلام اللہ کا دین ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام اس دین کے تابع تھے ۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے اور قیامت تک کیلئے ہے ۔ اسلام کسی فرد کی ملکیت نہیں اور نہ کسی فرد کو اس میں تحریف کی اجازت ہے ۔ فرقہ بندی ذاتی اغراض کی بنا پر ہے دین میں اس کی گنجائش نہیں ۔ بہرکیف اسلامی سلطنت کے بنیادی اصولوں جن کی بنیاد اسلامی شریعت ہے میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ طالبان کا بنایا ہوا اسلام ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں

6 ۔ آئین کی شقات 246 اور 247 جو نیچے نقل کی گئی ہیں کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کی ضروریات اور امن قائم کرنے کی خاطر مُلک کے دوسرے علاقوں میں نافذ قوانین سے مختلف قوانین وضع اور نافذ کئے جا سکتے ہیں ۔ اسلئے ریاست کے اندر ریاست کا تصور کم عِلمی پر مبنی ہے

246. Tribal Areas.
In the Constitution,
(a) “Tribal Areas” means the areas in Pakistan which, immediately before the commencing day, were Tribal Areas, and includes:
(i) the Tribal Areas of Baluchistan and the North-West Frontier Province; and
(ii) the former States of Amb, Chitral, Dir and Swat;

247. Administration of Tribal Areas.

(4) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter within the legislative competence of Parliament, and the Governor of a Province, with the prior approval of the President, may, with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly make regulations for the peace and good government of a Provincially Administered Tribal Area or any part thereof, situated in the Province.

(5) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter, make regulations for the peace and good Government of a Federally Administered Tribal Area or any part thereof.

(7) Neither the Supreme Court nor a High Court shall exercise any jurisdiction under the Constitution in relation to a Tribal Area, unless Parliament by law otherwise provides

وزیراعظم پاکستان نے بھی وضاحت کی ہے کہ

سوات معاہدہ آئین کے مطابق ہے اور صدر آصف علی زرداری معاہدے کی توثیق کر دیں گے ۔ سوات میں ماضی میں بھی شریعت نافذ رہی ہے ۔ برطانوی دور میں بھی یہاں خصوصی ریگولیشنز رہے ہیں

جہاں تک حکومت کی عملداری [writ] کا تعلق ہے وہ تو پورے مُلک میں کہیں نظر نہیں آتی خواہ اجناس خوردنی [edibles] کی کمرتوڑ مہنگائی پر نظر ڈالیں یا قابلِ استفادہ خدمات [utility services] کے بحران پر یا امن و امان کی صورتِ حال پر ۔ سب جگہ ایک ہی اصول نظر آتا ہے “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس”۔ بلوچستان میں خواتین کو زندہ دفن کیا جائے ۔ سندھ میں کاری کہہ کر قتل کر دیا جائے ۔ جنوبی پنجاب یا صوبہ سرحد میں کم سِن بچیاں ونی یا سوارا کہہ کر اپنے جُرم کی بھینٹ چڑھا دی جائیں ۔ کراچی شہر میں کھُلے بندوں میدانِ جنگ بنیں اور لاشیں گریں ۔ پورے پاکستان میں برسرِعام موبائل فون ۔ نقدی یا گاڑی چھینی جائے ۔ دن دہاڑے گھروں دکانوں یا بنکوں پر ڈاکے ڈالے جائیں ۔ لڑکیوں یا عورتوں کی عزتیں لوٹی جائیں ۔ سب جگہ حکومت کی عملداری کی بجائے بے بسی ہی نظر آتی ہے

پاکستان کے آئین کی جن شقات کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اُن کے علاوہ نیچے درج شقات 2 اور 31 کے مطابق تو پورے مُلک میں دین اسلام مخالف تمام قوانین رد کر کے اُن کی جگہ اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہئیں یعنی دوسرے الفاظ میں پورے مُلک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہونا چاہیئے ۔ چلئے ابھی اتنا ہی غنیمت ہے کہ صرف اسلامی نظامِ عدل کا تجربہ مالاکنڈ اور کوہستان کے 8 اضلاع میں کر لیں ۔ تجربہ کامیاب ہو تو پورے پاکستان میں پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کریں اور پھر پوری اسلامی شریعت ۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے مُلک میں اسلامی نظامِ حکومت کے نفاذ کی صورتیں پیدا فرمائے

2 Islam shall be the State religion of Pakistan
2A The principles and provisions set out in the objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly

31.Islamic way of life.
(1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2) The state shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan:

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;
(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and
(c) to secure the proper organisation of zakat, ushr, auqaf and mosques.

مختصر حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد سوات کے عوام کو کچھ چین ملا ہے ۔ پچھلے پونے دو سال میں فوجی کاروائیوں نے نہ صرف اُن کے ذرائع روزگار تباہ کر دیئے بلکہ اُن کے عزیز و اقارب بھی ہلاک ہوئے اور جائیدادیں بھی تباہ ہوئیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوات کے زیادہ تر عوام کی مالی حالت پہلے ہی کمزور تھی اور اب ابتر ہو گئی ہے ۔ وہ نہ تو مُلک میں نافذ انگریزی قانون کے مطابق چلنے کیلئے وکیلوں کی فیسیں دے سکتے ہیں اور نہ دس پندرہ سال عدالتوں کی پیشیاں بھُگتنے کیلئے اپنی روزی پر لات مار سکتے ہیں

کسی ملک کے استحکام اور ترقی کیلئے امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں میں پہلے بلوچستان اور پھر صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں فوجی کاروئی کے نتیجہ میں افراطِ زر اور کساد بازاری انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔ مالی خسارہ کھربوں تک پہنچ چکا ہے اور عوام کا بال بال غیر مُلکی قرضوں میں جکڑا گیا ہے اور ملک عدمِ استحکام کا شکار ہونے کو ہے ۔ غیروں کی جنگ لڑتے لڑتے ہم نے اپنے قومی فرائض نظر انداز کر دیئے ۔ فوجی کاروائیوں کے نتیجہ میں امن قائم ہونے کی بجائے حالات اور بگڑتے گئے ۔ اب اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ ان جنگجوؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کی جائے ؟ آخر وہ اسی مُلک کے باشندے ہیں ۔ اگر کسی شریف آدمی کا بیٹا اوباش ہو جائے تو کیا وہ اُسے سمجھانے کی بجائے گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے ؟

پاکستان اور صوبہ سرحد میں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہے ۔ اے این پی اُن لوگوں کی جماعت ہے جو نظریہ پاکستان کے خلاف رہے ہیں اور اب بھی اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں ۔ اب اگر ایسی جماعت اسلام کے نام لیواؤں سے مذاکرات اور معاہدے کی بات کرتی ہے اور اس کی تائید مُلک کی ایک بڑی سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کر رہی ہے تو مجوزہ معاہدے کی بنیاد کوئی حِکمت اور افادیت ضرور ہو گی ۔ وہ لوگ جنہیں اندرونی حالات کا کوئی ادراک نہیں ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہیں ؟ کیا عورتوں کو زندہ دفن کر کے ہلاک کرنے والوں یا جوان عورت کو خونخوار کُتوں کے آگے ڈال کر ہلاک کرنے والوں یا ذاتی انا کے خلاف بات کرنے والی عورت کو کاری قرار دے کر ہلاک کرنے والوں کو گولی تو کیا کسی نے ایک تھپڑ بھی مارا ہے ؟ مُلک میں ہزاروں قاتل دنداتے پھر رہے ہیں ۔ اُن کے خلاف کوئی فوجی کاروائی ہوئی ہے ؟ اُن میں سے بعض کو تو انعام سے نوازہ جاتا ہے کسی کو گورنر اور کسی کو وزیر بنا دیا جاتا ہے

اصل مسئلہ امن قائم کرنے کا ہے جو طاقت کے ذریعہ قائم نہیں ہو سکا ۔ بلا شُبہ اس علاقہ میں شر پسند عناصر یا دشمن کے ایجنٹوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر حالات کو سنگین بنایا ہے ۔ اگر مذاکرات اور ایک محدود علاقہ میں جہاں ماضی میں کئی صدیاں اسلامی نظامِ عدل قائم رہنے سے کوئی گڑبڑ نہ ہوئی تھی وہاں دوبارہ اسلامی نظامِ عدل قائم کر دیا جائے تو پھر حکومتی اہلکاروں کو فتنہ پرور لوگوں سے نبٹنے کیلئے نہ صرف وقت بلکہ سہولت بھی میسّر ہو گی ۔ اس علاقہ میں امن کوششوں کیلئے صوفی محمد جسے قبل ازیں دو بار آزمایا جا چکا ہے سے زیادہ قابلِ اعتماد اور مؤثر اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا تھا ورنہ حکومت اُسے یہ کام نہ سونپتی ۔ صوفی محمد کا 23 فروری کو حکومت کی جانب سے شریعت کے عملی نفاذکے اعلان اورچیک پوسٹیں ختم کرنے پران کے شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت ۔ حکومتی اہلکاروں اورتحریک طالبان سوات سے اپیل کی

حکومت فوج کو اسکولوں ۔ مکانات ۔ اسپتالوں اور دیگر عمارتوں سے ہٹا کر محفوظ مقامات پرمنتقل کرے اورتمام رکاوٹیں ختم کرے تاکہ لوگوں کی تکالیف ختم ہوسکیں ۔ حکومت تمام پولیس ۔ ایف سی اور لیویز کے معزول اور قید اہلکاروں کوبحال کرے اور عوام کے تمام نقصانات کاازالہ کیاجائے

تحریک طالبان سوات کے قائدین اپنے ساتھیوں کو فی الفورحکم دیں کہ وہ ناکے ختم اورتلاشی کاسلسلہ بندکردیں اورمسلح چلنا پھرنا اور دیگرکارروائیاں فی الفورختم کردیں ۔ راشن لے جانے والی گاڑیوں اور فوج کے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں ۔ انتظامیہ اورپولیس کے امورمیں مداخلت نہ کریں ۔

تمام پولیس ۔ ایف سی اورلیویز اہلکار اپنے فرائض انجام دینے کیلئے ڈیوٹی پر حاضرہوجائیں ۔

انہوں نے کہا وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی کے اعلان کے مطابق کام شروع کیاجائے اوروزیراعلٰی خودسوات کادورہ کرکے اس نیک کام کاافتتاح کریں

میں یہ نہیں کہتا کہ صوفی محمد یا اُس کا داماد فضل اللہ عالِمِ دین ہیں یا متقی و پرہیزگار ہیں اور نہ ہی میں اس کا اُلٹ کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن بنیادی بات جو زیرِنظر رہنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ
ا ۔ اچھا عمل اچھا ہی ہوتا ہے چاہے اُسے کوئی بھی کرے ۔
ب ۔ دینی لحاظ سے کوئی بھی مسلمان شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتا ہے چاہے اُس کا اپنا عمل قرآن و سُنّت کے عین مطابق نہ ہو
ج ۔ پاکستان کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ غیر مُسلم ہی ہو پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرسکتا ہے

مجھے اس حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس جو اُن دنوں پاکستان کے چیف جسٹس تھے ایک بین الاقوامی چیف جیورسٹس کانفرنس میں شریک تھے تو ایک سوال پوچھا گیا کہ بہترین نظامِ عدل و انسانیت کونسا ہے ؟ سب چیف جسٹس صاحبان کچھ نہ کہہ سکے آخر میں جسٹس اے آر کارنیلیس کی باری آئی تو اُنہوں نے کہا “اسلام کا نظام” اور کسی کو اس کی نفی کی جراءت نہ ہوئی ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس مسلمان نہیں تھے

اگر حکومت آئین کے مطابق کام کرے تو خون خرابے اور کسی قسم کی بدامنی کی نوبت نہ آئے ۔ جب احتجاج کرنے والے عوام پر فوجی کاروائی کی جائے تو وہ ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال مُلک کیلئے سودمند نہیں ہوتی ۔ آئین کے بار بار توڑے جانے اور حکومت پر غاصبانہ قبضہ کے باوجود آئین کی جن بنیادی شقات کا میں نے اُوپر حوالہ دیا ہے ہمیشہ سے آئین میں موجود رہیں لیکن ان بنیادی شقات پر عمل کی کوشش نہیں کی گئی ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شقات پر عمل کرنے سے مُلک کے سیاست دانوں اور حُکمرانوں کی اکثریت میدان سے باہر ہو جائے گی

میرے اللہ آپ ربِ ارض و سماء و دیگر کُل مخلوقات ہو اور سارا نظام آپ کے حُکم کے تابع ہے ۔ ہماری بے راہ روی کی طرف نہ دیکھئے ۔ آپ رحیم و کریم ہو ۔ ہم پر فضل کیجئے ۔ ہمیں حق کو سمجھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائیے