محبِ وطن جب وطن سے دُور ہوں تو اُن کی توجہ ہر لحظہ وطن طرف رہتی ہے ۔ ایک ایسے ہی دردمند پاکستانی جو اپنی روزی کے سلسلہ میں وطن سے دور ہیں اُنہوں نے کچھ سوالات مجھ سے پوچھ کر میری حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ہر چند کہ میں مفکر یا محقق نہیں ہوں لیکن جس ملک میں رہتا ہوں اس کی بہتری کیلئے فکر کرنا تو ایک فطری عمل ہے ۔ موصوف کی برقی چِٹھی کے مطابق اُن کے بہت سے ساتھی بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اسلئے جو کچھ میرے علم میں آیا ہے اُس کے مطابق جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ برقی چِٹھی کے ذریعہ جواب دینے کی بجائے یہاں اسلئے تحریر کر رہا ہوں کہ دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں
سوال ۔ 1 ۔ یہ پاکستانی طالبان کون ہیں؟ ان میں اور افغانستان کے حقیقی طالبان میں کیا ربط ضبط ہے؟
جواب ۔ 1 ۔ میں طالبان کے حوالے سے ایک تحریر پورے تاریخی پسِ منظر کے ساتھ لکھ چکا ہوں ۔ ابتداء میں نام نہاد پاکستانی طالبان کا نام بیت اللہ محسود سے منسوب ہوا تھا ۔ بیت اللہ محسود کون ہے ؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اس کے بارے میں سنا ہے اسے گونٹانامو بے میں امریکی قید میں ایک سال گذارنے کے بعد رہا کیا گیا اور یہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں پہنچ کر سرگرمِ عمل ہو گیا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا پاکستانی صحتمند حالت میں گونٹانامو بے سے رہا نہیں کیا گیا اور جو رہا کئے گئے وہ افغانستان یا پاکستان میں ابھی تک قید ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعہ طالبان کا نام دے کر سینکڑوں قبائلی ہلاک کئے ہیں لیکن بیت اللہ محسود کو نشانہ کیوں نہیں بنایا ؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ محسود اور اُس کے ساتھی امریکا کا لگایا ہوا زہریلا پودا ہے
آجکل نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک تو ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق کسی کو کچھ علم نہیں ۔ جولائی 2007ء میں پرویز مشرف کے حُکم سے جامعہ حفصہ میں داخل سینکڑوں بچیاں فاسفورس بموں سے جلا کر ہلاک کر دی گئیں تھیں سو طالبان کہلانے یا کہے جانے والوں میں کچھ وہ ہیں جن کی بہن یا بیٹی یا قریبی عزیزہ ان بچیوں میں شامل تھیں ۔ کوئی اس لئے طالبان بنا کہ اس کے اہلِ خانہ فوجی کاروائی میں ہلاک ہو گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت نے تحفظ نہ دیا تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچانے کیلئے نام نہاد طالبان کے حصار میں چلے گئے ۔ ان میں جو شرارت کی جڑ طالبان ہیں انہیں بنانے اور اسلحہ اور مالی امداد دینے والے ان تینوں میں سے ایک ۔ دو یا تینوں ہو سکتے ہیں ۔ بھارت ۔ امریکہ ۔ اسرائیل ۔ بقول فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ “پچھلی حکومت نے بھارت کی راء ۔ امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کو پاکستان میں کام کرنے کی کھُلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں اُنہوں نے قبائلی علاقوں میں اپنے لوگ لگا دیئے”
نام نہاد پاکستانی طالبان جو کوئی بھی ہیں ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کا مقصد وہ ہے جو افغانستان کے طالبان کا ہے ۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں روس یا امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے ہوں
سوال ۔ 2 ۔ ملا صوفی محمد کون ہیں؟ کیا ان کا رویہ یا انکی موجودہ تحریکات واقعی میں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہیں؟
جواب ۔ 2 ۔ صوفی محمد ایک گاؤں کی مسجد کا امام تھا ۔ ایک بار جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر کا انتخاب جیتا تھا لیکن چند ماہ بعد علیحدہ ہو گیا ۔ 1989ء میں اس نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی یا اس میں شامل ہوا تھا ۔ ہوا یوں تھا کہ 1974ء میں منظور ہونے والے 1973ء کے آئین کے نام پر 1975ء میں جو عدالتی نظام سوات میں قائم کیا گیا دراصل وہ نظامِ عدل نہیں بلکہ سوات پر مکمل گرفت کیلئے مجسٹریسی نظام تھا ۔ جب اس کے اثرات پوری طرح سامنے آئے تو وہاں کے عوام جو اسلامی طرز کے نظامِ عدل کے عادی تھے اس کے خلاف احتجاج کرنے لگ گئے اور 1989ء میں اس تحریک نے جنم لیا
میرا نہیں خیال کہ صوفی محمد قرآن شریف کی تفسیر ۔ حدیث اور فقہ سے کما حقہُ آگاہ ہے ۔ جس طرح کے صوفی محمد اب بیانات دے رہا ہے وہ 1989ء سے آج تک دیتا آیا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کسی نے توجہ نہیں دی ۔ صوفی محمد سیدھا سادھا روائتی دیہاتی ہے یعنی جو ذہن میں آیا کہہ دیا ۔ وہ قرآن و سنْت کا نفاذ تو چاہتا ہے لیکن اس کے رموز سے شاید پوری طرح واقف نہیں ہے ۔ صوفی محمد کے مطابق “عورت کا سوائے حج کے گھر سے باہر نکلنا حرام ہے” ۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شریعت کا کتنا علم رکھتا ہے ۔ ایک خوبی اُس میں ہے کہ وہ امن پسند ہے اور ایک بار قبل بھی امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر چکا ہے
سوال ۔ 3 ۔ پاکستانی طالبان کا سوات ڈیل سے یا سوات شریعت سے کیا تعلق ہے؟
جواب ۔ 3 ۔ سوات معاہدہ شریعت کے نفاذ کیلئے نہیں ہے بلکہ نظامِ عدل کا معاہدہ ہے جس کے تحت انصاف سستا اور جلد مہیا ہو سکتا ہے ۔ معاہدہ صوفی محمد سے ہوا کیونکہ وہ صُلح جُو آدمی ہے ۔ اُس کے پیروکار کافی ہیں لیکن نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایسے لوگ ہیں جو اُس کے تابع نہیں ہیں ۔ اور جہاں تک میرا قیاس ہے وہ لوگ کسی غیر ملکی ادارے کے ایجنٹ ہیں جو امن قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ پاکستان میں استحکام نہ آئے ۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کا براہِ راست فائدہ بھارت ۔ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے
سوال ۔ 4 ۔ سوات میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ لڑکی کو کوڑے مارنے کی جو ویڈیو مشہور کی گئی اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
جواب ۔ 4 ۔ دیر اور بونیر میں فوجی کاروائی کے بعد پاکستانی طالبان نے سوات میں کچھ مقامات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ چنانچہ سوات میں بھی فوجی کاروائی شروع کر دی گئی ہے ۔ ان علاقوں کے لوگ پھر سے پریشان ہیں اور اپنی جانیں بچانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں صرف سوات میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں
لڑکی کو کوڑے مارنے کا معاملہ عدالتِ عظمٰی میں ہے ۔ متعلقہ وڈیو جن لوگوں نے اُچھالی تھی وہ اس کی درستگی کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاہدہ سوات کے خلاف یہ ایک منظم غیرملکی سازش تھی تاکہ امن قائم نہ ہو سکے جو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے ذرائع ابلاغ اور نام نہاد سِول سوسائٹی نے بہت گھناؤنا کردار ادا کیا
5۔ پاکستان میں جاری یہ شورشیں آخر کب ختم ہوں گی؟
جواب ۔ 5 ۔ شورش کب ختم ہو گی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح پچھلے ایک سال سے اس سارے معاملے سے نبٹا جا رہا ہے اس سے شورش کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات ہیں ۔ مرکزی حکومت بہت بے دلی سے اس اہم معاملے کے لئے کوئی کاروائی کرتی ہے جس سے شُبہ ہوتا ہے کہ اُنہیں پاکستانیوں اور پاکستان کی بجائے اپنی کرسی اور مال اکٹھا کرنے سے غرض ہے جو امریکہ کے دم سے قائم ہے ۔ قبائلی علاقہ میں ان دگرگوں حالات کا اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہے جس نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے قوم اور مُلک کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔ جب موجودہ حکومت آئی تو چاہیئے تھا کہ فوری طور پر اس معاملہ کی طرف توجہ دے کر مناسب منصوبہ بندی کی جاتی لیکن اربابِ اختیار اپنی کرسیاں مضبوط کرنے اور دوسرے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے میں گُم رہے ۔ جب معاملہ مالاکنڈ جس میں سوات شامل ہے تک پہنچ گیا تو بھی بے دِلی سے کام کیا گیا ۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے
اُسے تو قتل کرنا اور تڑپانا ہی آتا ہے
گلا کس کا کٹا کیونکر کٹا تلوار کیا جانے
سُنا اور پڑھا تھا کہ کوئی علاقہ مُلک دُشمن لوگوں سے واگذار کرانا ہو تو زمینی کاروائی ہی بہترین ہوتی ہے جس میں خُفیہ والے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں ۔ جس طرح سے پچھلے چار سالوں سے قبائلی علاقہ میں اور اب سوات وغیرہ میں فوجی کاروائی ہو رہی ہے اس نے حکومت کی بجائے نام نہاد پاکستانی طالبان کے ہمدرد پیدا کئے ہیں ۔ اس کاروائی میں دُور مار توپوں کے استعمال سے دہشتگردوں کی بجائے عام شہری زیادہ مارے گئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ خُفیہ والوں کا کردار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا
اللہ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور درست راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements