ایک بے مثال تبصرہ

میری 15 اکتوبر کی تحریر پر کیا گیا ایک تبصرہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں کیونکہ میں اس تبصرے کا محرک جاننے میں ناکام رہا ہوں ۔ ہرچند میری متذکرہ تحریر اس تبصرہ کی متحمل نہ تھی بایں ہمہ تبصرہ کے اُس حصہ سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے [جو میرا پاکستان اور مجھے مخاطب کر کے لکھا گیا ہے] میں مبصّر سے معذرت خواہ ہوں کہ میری تحریر پڑھ کر مبصّر پر جذباتی کیفیت طاری ہوئی

میرا پاکستان اور دیگر اس قسم کے بیانات پڑھ کر میں تو سوچتی ہوں کہ بھئی جس کا وقت لگے وہ اس ملک سے نکل جائے۔ یہاں تو اسلام کا بول بالا ہو کر رہے گا ۔ وہ نہیں ‌جو رسول اللہ لائے تھے بلکہ وہ جو ہمارے مظلوم، مسکین اور سورما قسم کے طالبان لائے ہیں اور انشاللہ [اِنشاء اللہ ہونا چايئے] لا کر رہیں گے۔ یہ الگ بات کہ میرا پاکستان جو اس وقت بھی امریکی حدوں کے اندر ہیں وہ اسوقت بھی امریکی شہری ہو جائیں گے اور اسی طرح اپنے جہادی مسلمان بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے۔

میں تو خود اس خیال سے متفق ہوں کہ ایک دفعہ ان جہادی طالبان کی حکومت کو قائم ہوجانا چاہئیے۔ لیکن ٹہر کر مجھے کہیں کی امیگریشن تو مل جائے۔ مجھے انکے ہاتھوں نہ ذبح ہونا پسند ہے اور نہ یہ کہ وہ میری دس سالہ بیٹی کی شادی کسی ساٹھ سال کے بڈھے سے کر دیں اور نہ یہ کہ وہ میری بیٹی کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین بنا کر اور جہادیوں کو اس دنیا میں لانے کا ذریعہ بنا دیں اور ہاں میرا غاروں میں جا کر رہنے کا بھی پلان نہیں اور نہ ہی یہ خواہش کہ میرے شوہر اور بیٹے ہر وقت تلوار سونت کر دنیا سے کافروں کا قلع قمع کرتے پھریں یا خود کو بارودی جیکٹوں سے اڑاتے پھریں۔

میں بھی اسی مدینے میں رہنا چاہتی ہوں جہاں تمام مذاہب کے لوگ رہتے تھے اور ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ جہاں اس عہد کے مسائل کو اسوقت کے ذرائع کے لحاظ سے حل کیا جاتا تھا اور جہاں ہر ایک کو جینے کے بنیادی حقوق حاصل تھے۔

لیکن اب ان تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کتنا تاریک ہے۔ اور اگر مجھے بیرون ممالک کا ویزہ حاصل کرنے میں تین مہینے لگ جاتے ہیں تو قصور دراصل کس کا ہے۔ خدا آپ سب پر رحم فرمائیں، یا اللہ آپ لوگوں کی آنکھوں کو کھول کر دیکھنے کی قوت دے، خدا ہمیں اس مرد دانا یا اس زن دانا کے وجود سے آشنائ دے جو آپ سب کے دلوں کو نرمی دے اور اسے انسانوں کے دل میں تبدیل کر دے۔

تب تک میں اپنے گھر والوں کے پیچھے پڑتی ہوں، خدا کے لئیے جب ہم اہلیت رکھتے ہیں تو کیوں اس ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ ملک تو طالبان اور انکے حامیوں کے لئیے بنایا گیا ہے۔ اس میں ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کا کیا کام جو ایک انسان کو ذبح نہیں کر سکتے، جو دوسروں کو اس عمل کے لئیے تیار نہیں کر سکتے کہ وہ مزید انسانوں کو مارنے کے لئے خود کو بم سے اڑادیں۔ جو ہر وقت ہر کسی پہ کفر کے فتوے نہیں لگا سکتے۔ آخر ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کو اس ملک کو کیا ضرورت۔

جن کی ضرورت ہے وہ ملک سے باہر بیٹھے ہیں تو میرا پاکستان صاحب تشریف لائیں اور ایک آدھ کو ذبح کرنے کی سعادت آپ بھی حاصل کریں اور اپنے بچوں کو اسلحے کی تربیت کہاں باہر بیٹھ کر دے پائیں گے۔ اسلحہ تو مسلمان کا زیور ہے ۔ انہیں بھی لائیے تاکہ وہ بھی صحیح سے مسلمان ہوں۔

یہی درخواست میں اجمل صاحب سے بھی کرونگی۔ اپنے تمام اہل خانہ کو پاکستان بلائیے ایک ایسے وقت میں جب عقبی اتنی سستی مل رہی ہو آپ نے کیوں انہیں کفار کی دنیا میں بھیجا ہوا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کاذ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی بقا سمجھتے ہیں انہیں عملی طور پر اپنے اہل عیال کے ساتھ اس میں شامل ہونا چاہئیے۔ یقین جانیں اگر آپ سب اکٹھا اس سر زمین پر ہونگے تو ہم جیسے بے عملوں کو ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم اس پاک سرزمین کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کریں۔ جیت تو ویسے بھی حق کی ہوتی ہے۔ اور باطل مٹ جانے کے لئے

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

15 thoughts on “ایک بے مثال تبصرہ

  1. ریحان

    سر اجمل الحمد اللہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔۔ پر اس بلاگ پوسٹ کو بپلش کرنے کہ وجہ کچھ سمجھ میں نہیں آئی ۔ اور نیچے مبصر کے تبصرہ پر کچھ کہنا چاہتا ہو ۔

    ” اسلحہ تو مسلمان کا زیور ہے ۔ ”

    معاشااللہ آنٹی جی کا بھی اپنا اسلام اور اس کی اپنی سی تشریح ہے ۔ بہت‌خوب

    آپی شاید اپنے بچوں کو بھی یہی بتا رہی ہوگی کہ اسلحہ مسلمانوں کا زیور ہے ۔۔ اس بات سے شاید بلکل بے‌آشنا کہ دنیا پوری میں گر کوئی امن پسند مزہب ہے تو وہ ہے اسلام ۔۔۔ ہاں البتہ اسلحہ مسلمانوں کا نہیں پٹھانوں کا زیور ضرور ہے ۔

    میں یہاں ساہیوال میں رہ رہا ہوں ۔۔ اکثریت میں سب یہاں مسلمان ہیں میرے سامنے تو کوئی گلا نہیں کٹا کبھی کسی کا یہاں نا میں نے یہاں کسی کو مزہب کے نام پر لڑتے دیکھا ہے ۔۔ البتہ بحث ضرور ہوتی ہے اور وہ کہا‌ نہیں ہوتی ۔

    میری والدہ یہاں مٍشن سکول میں ٹیچر ہیں ۔۔ جہاں عیسائی برادری اپنے بچے پڑھنے بھیجتی ہیں ۔۔ میں نے اپنی والدہ سے کبھی نہیں سنا کے کسی بچے نے یہ کہا ہو کہ آپ مسلمان تو بڑے ظالم ہو گلے کاٹتے ہو ۔

    میرے مطابق وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو باہر جا بیٹھے ہیں ۔۔ اس ملک سے دور ۔۔ مزہب کے اعتبار سے نہیں بلکے آسانیوں کے اعتبار سے ۔۔ پر یہ ایک طرح خوش فہمی ہے ان کے لیے کیوں کہ میرے مطابق بہت بدقسمت ہے وہ جو ہمارے ملک کو تھرڈ ورلڈ کنٹری گردان کر اس کے لیے کچھ کرنے بجائے جان چھڑانے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے ۔

    بے شک یہاں اردو بلاگرز کمپیونٹی جو ہے اس میں زیادہ تر اردو بلاگرز کا تعلق بیرون ممالک سے ہے ۔۔ اور وہ اپنے پاکستان کے لیے بہت فکر رکھتے ہیں ۔۔ پر ان سب کے لیے اتنا کہوں گا کہ ملک کی بات کر لیں ٹھیک ہے مزہب کی تشریح کرتے وقت تھوڑا خیال کریں ۔۔ اسلام کوئی اکیلا پاکستان کا مزہب نہیں ہے ۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ریحان صاحب
    سب لوگ وطن کو تھرڈ ورڈ سمجھ کر ملک سے باہر نہیں جاتے بلکہ نان و نفقہ کی خاطر جانے والے بہت ہیں اور وہ اپنے دل میں ملک اور قوم کا درد بھی رکھتے ہیں ۔ آپ سروے کریں تو معلوم ہو گا کہ مکل کو بُرا کہنے والوں کا تناسب ملک کے اندر رہنے والوں مین ان کی نسبت زیادہ ہے جو ملک سے باہر رہ رہے ہیں ۔

    رہی میری تحریر تو میں نے مثالوں کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ہماری قوم کی اکثریت صرف سطحی علم پر اکتفاء کر رہی ہے جبکہ ہمیں غور و فکر کی عادت ڈالنا چاہیئے اور حالات کی خرابی کی وخوہات گہرائی میں جا کر معلوم کرنا چاہئیں ۔ ساتھ ہی میں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ بیت اللہ محسود جسے طالبان کا چھاپہ لگا دیا گیا ہے وہ کسی غیر ملکی خُفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہو ۔سکتا ہے
    جنہیں پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے میں نے ان حمائت کبھی نہیں کی ۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ انہیں طالبان نہ کہیں بلکہ کرائے کے قاتل یا دُشمن کے ایجنٹ کہیں

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد سعد صاحب
    آپ نے درست کہا ہے ۔ میں اِِنْ شَاء اللہ ہی لکھتا ہوں ۔ اس تحریر میں اس طرح نہیں لکھا کیونکہ لوگ اس طرح لکھتے ہیں اور جو لکھا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے

  4. میرا پاکستان

    ہم لوگوں کیلیے ضروری ہے کہ بحث میں‌صبروتحمل اور بردباری سے حصہ لیا کریں تا کہ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے رہیں۔ اگر آپ لٹھ لیکر کسی کےپیچھے پڑ جائیں‌گے تو آپ اپنی صحت کا بھی بیڑہ غرق کر لیں گے اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچائیں‌گے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ سب اپنی اپنی سوچ سے قارئین کو آگاہ کریں اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دیں۔
    ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی اصطلاح اصل اسلام کو ختم کرنے کیلی گھڑی گئی ہے وگرنہ اجمل صاحب کے بقول ان دہشت گردوں کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا تھا جو اسلام دشمنی سے مسابقت نہ رکھتا ہو۔ میڈیا کی وجہ سے ہم اسلام دشمنوں کی اس چال میں‌پھنس چکے ہیں‌اور اب ہر داڑھی والا مسلمان ہمیں‌دہشت گرد اور تشدد پسند لگتا ہے۔ یہ حال یورپ میں‌ بھی ہے اگر آپ نے داڑھی رکھی ہوئی ہے چاہے وہ فیشنی ہی سہی اور آپ جنوبی ایشیائی ہیں‌تو پھر آپ کی چیکنگ زیادہ ہو گی۔

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضل صاحب
    ہمارے رویّوں نے ہمیں اس حال میں پہنچایا ہے اور ہم اپنے رویّے درست کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ کئی ایسے عنوان ہیں جن پر میں حقائق پر مبنی تحاریر لکھ سکتا تھا کہ جوان نسل کو سوچنے کا موقع ملے مگر اسی اشتعال سے ڈرتے نہیں لکھیں ۔ میرا خیال ہے میں نےغلط کیا ۔ مجھے لکھنا چاہیئے ۔

  6. Hasan

    “اپنی والدہ سے کبھی نہیں سنا کے کسی بچے نے یہ کہا ہو کہ آپ مسلمان تو بڑے ظالم ہو گلے کاٹتے ہو ۔”

    kisee nay apnee gardan kataanee hai yeah keh kar :)

  7. یاسر عمران مرزا

    ہر جگہ شدت پسند پائے جاتے ہیں۔ ہم اگر شمالی علاقوں والوں یا داڑھی والوں پر طالبان یا شدت پسند کی مہر لگا دیں گے تو ایسا صحیح نہیں‌ہو گا۔ اگر طالبان نے کسی خاتون کا گلا کاٹ تو ضروری نہیں‌کہ سارے طالبان ایسے ہی ہوں۔اغوا کے دوران طالبان کے سلوک سے متاثر ہو کر جو مغربی خاتون مسلمان ہوئی اس واقعہ کو بھی مد نظر رکھیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں لوگوں نے چند لٹیروں کو سڑک پر زندہ جلا دیا تھا جس کی وجہ کوئی بھی بنی ہو، لیکن ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کراچی میں رہنے والی سبھی شدت پسند ہیں یا وہاں کے تمام چوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔چند بے دین ڈالروں کی خاطر بک کر شمالی علاقوں کے لوگوں یا پٹھانوں کو بدنام کر رہے ہیں تو تمام سواتیوں، سرحدیوں یا پٹھانوں سے نفرت کرنے کی کیا تک ہے۔ محترمہ عنیقہ صاحبہ ان لوگوں کے لیے شدید نفرت رکھتی ہیں، پتہ نہیں ایسا رویہ کیوں کر پیدا ہوا۔
    اور میں نہ طالبان کو پسند کرتا ہوں نہ خود کش حملہ کرنے والوں تشدد پسندوں کو اور نہ زبردستی اسلام لاگو کرنے کے عمل کو جائز سمجھتا ہوں، ایسا اس لیے کہا کہ کہیں اگلے تبصرے میں میری کلاس نہ لگ جائے۔ :mrgreen:

  8. جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین

    واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ’این آر او‘ جاری کیا تھا جس کے تحت سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف گزشتہ آٹھ برسوں سے مختلف عدالتوں میں زیر التویٰ مقدمات ختم کیے گئے تھے۔

    ’این آر او‘ کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے بیسیوں کارکنوں کے خلاف درجنوں مقدمات بھی واپس کیے گئے تھے جبکہ کئی بیوروکریٹس بھی اس سے مستفید ہوئے تھے۔

    جمعہ کو جب وزیر مملکت برائے قانون و انصاف محمد افضل سندھو نے ’این آر او‘ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا تو حزب مخالف کے بعض اراکین نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔

    یاد رہے کہ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو آئین معطل کرکے ایمرجنسی لگانے سمیت ان کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت نے ’این آر او‘ سمیت پرویز مشرف کے جاری کردہ سینتیس آرڈیننسز جو خارج المدت ہوچکے تھے، انہیں تیس نومبر تک پارلیمان سے منظور کرانے کی مہلت دی تھی۔

    حکومت نے چھبیس آرڈیننس پارلیمان میں پیش کرچکی اور جمعہ کو انتہائی متنازعہ آرڈیننس ’این آر او‘ بھی پیش کردیا ہے۔ حزب مخالف کی بیشتر جماعتیں اس قانون کی منظوری کے خلاف ہیں۔ جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس قانون کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

    پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر بابر اعوان نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’این آر او‘ کا پارلیمان میں بھرپور دفاع کریں گے۔ ان کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو اٹھاون سے جاری ہونے والے ’این آر اوز‘ کی تاریخ پیش کریں گے کہ کس کس نے اس طرح کے قوانین سے فوائد حاصل کیے ہیں۔
    بشکریہ بی بی سی اردو نیوز

    بی بی!
    مانا کہ آپ کی باتیں آپ کے نزدیک درست ہیں مگر کچھ اس انتہاء پسندی کے بارے میں بھی آپ روشنی ڈالتیں ۔۔ جب تک پاکستان میں غربت کرپشن بے ایمانی اور اعلٰی سرکاری سطح پہ بدترین بدیانتی جاری ہے اور اسے ایوانوں میں چور لوگوں کے مفادات اکھٹے ہوجانے سے ایسے ایوانوں کا تقدس کیا ہوگا ۔ وہ تو چوروں کو ہر قسم کی پناہ دینے والے ادراے ہونگے ۔ جب پاکستان میں یہ بھونڈے تماشے ہو رہے اس دوران پاکستان کے کروڑوں عوام ایک وقت کی روٹی کے لئیے مجبور ہیں۔

    بی بی! آپ کے خیال میں دہشت گردی کو روکنے کے لئیے کیا یہی ہتیار باقی بچے ہیں ۔ جب تک بادشاہ لوگ پاکستان کے تقدس اور پاکستان کے قانون ساز اداروں کا مزاق اڑاتے رہیں گے ۔ لوگ بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے رہیں گے ۔ نانصافی کے ہاتھوں محرومی اور مایوسی بڑھتی رہے گی۔ پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کو ۔ اغیار کو پیٹ پہ بم باندھ کر اپنے آپ کو اڑانے والے ملتے رہیں گے ، اور یاد رکھیں اسمیں مذہب کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز نہیں۔ اسکا تعلق پاکستان کی عیاش اور بدیات ترین حکومتوں اور اشرافیہ کی اس خواہش سے ہے کہ وہ اپنے نوے فیصد عوام کو بنیادی سہولتیں دینا تو درکنار ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی اپنی رضا سے دینا اور نہ دینا چاہتے ہیں۔

    ایسے میں دہشت گردی کا الاؤ بھڑکتا رہے گا۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ پاکستان میں اسکا ایندھن این آر او ساختہ اور دوسرے ملتے جلتے طریقوں سے ملک اور غریب عوام کا خون نچوڑنے والوں نے خود اس ایندھن کا بندو بست کر رکھا ہے۔

  9. اسماءپيرس

    مجھے تو عنيقہ ناز کے تبصرے کی تمام باتيں درست لگ رہی ہيں پتہ نہيں آپ حضرات انکی مخالفت کيوں کرتے ہيں کبوتر کی طرح آنکھيں بند کر لينے سے حقيقت بدل نہيں جاتی ؛ مجھے تو خود ان لوگوں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں پر حيرت ہوتی ہے جو طالبان کی حمايت ميں ايسے ايسے پوائنٹس ڈھونڈھ لاتے ہيں جو خود طالبان کو بھی معلوم نہيں ہوتے،

  10. راشد کامران

    اقتباس
    ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی اصطلاح اصل اسلام کو ختم کرنے کیلی گھڑی گئی ہے وگرنہ اجمل صاحب کے بقول ان دہشت گردوں کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا تھا جو اسلام دشمنی سے مسابقت نہ رکھتا ہو
    ————-

    افضل صاحب جب دہشت گردوں نے اپنی اپنی تنظیموں یا گینگ کے لیے یہی نام چنے ہیں تو اس میں دوسرا کوئی کیا کرسکتا ہے۔۔ یہ تو آئی ایس آئی کو سوچنا چاہیے تھا کہ اگر طالبان ہاتھ سے گئے تو پھر اس سے اسلام کی کتنی بدنامی ہوگی اور انہیں کوئی دوسرا نام دیتے؛ یہ تو طالبان کے ہمدردوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے غیر اسلامی کام کا اسلام پر کتنا برا اثر پڑے گا۔۔ اب گر طالبان دہشت گردی کی منظم نیٹ ورک سے وابستہ پورے ملک میں قتل و غارت گری میں ملوث ہیں تو انہیں طالبان دہشت گر ہی کہا جائے گا اور کیا کہیں؟

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اسماء صاحبہ
    از راہِ کرم میری متعلقہ تحریر سے وہ فقرہ نقل کر دیجۓے جس میں میں نے بقول آپ کے ان نام نہاد پاکستانی طالبان کی حمائت کی ہے

  12. عنیقہ ناز

    Right now, I am not in a situation where I can say things in detail. My this ‘bemisaal’ comment was not only in response to your writing but also included a reaction to othercomments to your writing. I think its unfair to quote anything without all its context. From the day one, I have my point of veiw and it is against taliban and all protaliban forces .Certainly, I am not with the people who defend these animals. They are the symbol of catastrophe. And yes, I am against the use of religion to disgrace other peolpe.If you are practicing something , should I be obliged to you.I am not preaching anything here except tolerance, and a desire that this country is for all people living in its limits.
    Some comments are so immature that I feel very embarrassed to say these people that learn more and develop the habit of reading. It does not harm anyone’s belief but it surely helps you to understand other people’s thought. Some people referred my other comments and for these people I would like to say there are more on my blog go there and get a’fatwa’ for me.
    Now, if you have any difficulty in understanding what is talibanization and who are protaliban?Kindly go again to the motive to publish this ‘bemisaal comment’ here again on your blog? This is talibanization of one’s thought? I like to give my detail views on this topic on my blog, but as I am out of country for a longer period it will take time.

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنیقہ ناز صاحبہ
    آپ اُردو جانتی ہیں اور میری یہ برقیائی بیاض اُردو میں ہے چنانچہ آپ کا انگریزی میں تبصرہ جواب کا حق نہیں رکھتا
    آپ اپنے بلاگ پر جو چاہیں لکھیئے مگر دوسروں کے بلاگ پر تبصرہ کرنے کے کچھ اخلاقی اور کچھ سماجی لوازم ہوتے ہیں اور خاصکر میں نے متنبہ کیا ہوا ہے
    اہم اطلاع :- غیر متعلق اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔ مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے
    اس کے تحت آپ کا تبصرہ حذف کے قابل ہے
    آپ کا استدلال بے بنیاد ہے کہ بغیر حوالے کے آپ کا تبصرہ سرِ ورق نقل کیا گیا ہے ۔ جس تحریر پر آپ نے تبصرہ کیا تھا اس کا حوالہ دیا ہوا ہے ۔ اگر آپ نے میری متعدد تحاریر پر تبصرہ کیا تھا تو ان کا حوالہ اپنے تبصرہ میں آپ نے نہیں دیا اور اپنی غلطی کو کسی اور کے سر تھوپنا آپ کا حق ہے کیا ؟

    آپ کا نقطہ نظر اگر کسی کے خلاف ہے تو ہوتا رہے لیکن کیا یہ آپ کا حق ہے کہ آپ دوسرے کے اپنا نقطہ نظر بتانے پر تو برہم ہو جائیں اور اپنا نقطہ نظر دوسروں پر تھوپیں ؟

    میں نے پاکستان میں وارداتیں کرنے والے جنہیں پاکستانی طالبان کا نام دیا گیا ہے کی کبھی حمائت نہیں کی اگر آسان اُردو آپ کی سمجھ نہیں آتی تو میرا کیا قصور ؟
    آپ جب دوسرے انسانوں کو جانور یا وحشی اس بنا پر کہتی ہیں کہ وہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے ہیں تو آپ اپنی کمیونٹی کو حق پرست کیسے کہتی ہیں جو 1986ء سے بے قصور انسانوں کو قتل کرتے آ رہے ہیں اور جن کا نعرہ ہے ” قائد [الطاف حسین] کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے” ؟ اور اس پر باقاعدہ عمل ہوتا ہے ۔ قائد صاحب برطانوی شہریت لئے لندن میں بیٹھے ہیں اور برطانوی حکومت کا وظیفہ کھاتے رہے ہیں جبکہ برطانوی حکومت پاکستان کی کبھی دوست نہیں رہی ۔ اور وہ قائد جو بھارت میں جا کر بیان دیتا ہے “پاکستان بنانا ہی غلطی تھی”
    آپ نے کہا ہے کہ آپ برداشت کی پیامبر ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔ کیا برداشت ہے آپ کی ؟ جو آپ کی مرضی کے خلاف کچھ لکھ دے وہ خواہ حقیقت ہی ہو آپ اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں ۔ کیا لڑنے جھگڑنے کو آپ نے برداشت کا نام دے دیا ؟

    میں جو بھی عقیدہ رکھتا ہوں اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کیلئے ہے کسی انسان کی تسلی کیلئے نہیں۔ میں اللہ کے احکامات کی تبلیغ کی کوشش کرتا ہوں ۔ انسان ہوں مجھ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے ۔ اگر کسی کو میری بات پسند نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجھ پر کود پڑے ۔ میں نے سچائی کا دفاع کرنا بھی سیکھ رکھا ہے
    سُبحان اللہ ۔ آپ نے آپ کے تبصرہ کے میرے کچھ جوابات کو “کچا یا خام [امیچیور]” فرمایا ہے ۔ اگر آپ ان کی نشان دہی کر دیتیں تو میں آپ سے پکی باتیں سیکھنے آ جاتا
    آپ نے مشورہ دیا ہے کہ دوسرے لوگ [اشارہ میری طرف ہے] سیکھنے کیلئے مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔ شکریہ آپ کی نصیحت کا ۔ کاش آپ 80 سال قبل پیدا ہو جاتیں تو میں آپ کو اپنی اُستانی بنا لیتا ۔ ویسے اگر آپ پہلے دوسرے کی تحریر پڑھ کر تبصرہ کیا کریں تو آپ کی بات میں وزن آ سکتا ہے
    آپ کے مندرجہ ذیل اختتامی فقروں سے کیا واضح ہے ۔ آپ مجھے دھمکی دے رہی ہیں ؟
    Now, if you have any difficulty in understanding what is talibanization and who are protaliban?Kindly go again to the motive to publish this ‘bemisaal comment’ here again on your blog? This is talibanization of one’s thought?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.