استفسارات کا جواب

میں نے حدیث اور سنت کی اہمیت بارے اظہارِ خیال کیا تو استفسارات کا سامنا ہوا ۔ جن میں نعمان اور افضل صاحبان کا استتفسار ہے کہ نماز کی اہمیت ۔ قرآن اور احادیث مبارکہ پڑھنے ۔ دین کے مطالعے کا طریقہ کار ۔ خصوصاً انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے ذریعے دین کا درست مطالعہ اور کس طرح کیا جائے اور یہ کہ کیسے اندازہ لگایا جائے کہ جو معلومات حاصل کررہے ہیں وہ مستند ہے یا نہیں ۔ کچھ دیگر حضرات شک میں ہیں کہ کونسی حدیث درست ہے اور کونسی نہیں ۔

میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میں تو صرف ایک طالبِ علم ہوں ۔ بہرحال میں ان حضرات کا ممنون ہوں کہ مجھے اس قابل سمجھا ۔ میں اپنی سے طرف دین کی ترویج کی پوری کوشش کروں گا ۔ یہ استفسارات طویل تشریح طلب ہیں جس کیلئے کئی نشستیں درکار ہیں ۔ سب سے اہم معاملہ درست اور نادرست یا مستند اور غیرمستند کا ہے ۔ اس کا سبب نفساتی بھی ہے اور غیر مستند کتب کی اشاعت بھی ۔ کسی بھی تحریر کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنے وسوسوں کو کچھ دیر کیلئے پکی نیند سُلا دے ورنہ ہر بات غلط محسوس ہو گی ۔ علم حاصل کرنے کیلئے دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ جو کچھ پڑھا جائے اسے اپنے نظریات یا مفروضات پر منطبق کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ مطالعہ سے حقائق کی شناخت کے بعد اپنے نظریات درست کئے جائیں ۔

اردو میں قرآن شریف اور اُردو ترجمہ پڑھنے اور تلاوت سننے کیلئے مندرجہ ذیل ربط پر جائیے ۔
http://www.asanquran.com/Quran.cfm
یہاں پر صرف قرآن شریف کا اردو ترجمہ پڑ سکتے ہیں ۔
http://www.quranweb.org/urdu/index.htm

یہاں پر آپ کو دین اسلام کے متعلق بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا
http://www.islamicity.com/mosque/quran

قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ مندرجہ ذیل ربط پر دیکھئے ۔ اسی ربط پر انگریزی میں حدیث بھی ملے گی اور تلاش کا بندوبست بھی ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی مفید معلومات اور مضامین اسلام کے متعلق ہیں
http://www.usc.edu/dept/MSA/quran

جہاں تک میرا تعلق ہے میرے پاس اللہ کے فضل سے کئی مفسرین کی تفاسیر ہیں اور حدیث کی کتاب صحیح بخاری ہے ۔ جامعہ اظہر کی کتاب الفقہ ہے ۔ سیرت النبی مولانا شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی ہے ۔ میرے پاس وڈیو آڈیو سی ڈیز بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ میں کئی ویب سائٹس سے بھی استفادہ کرتا ہوں ۔

انشاء اللہ یہ سلسلہ وقفہ کے ساتھ جاری رہے گا

مخدوم جاوید ہاشمی کی رہائی کا حُکم

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کام کرنے والے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کےسابقہ فیصلے کو ختم کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو پچاس ہزار روپے زر ضمانت کے مچلکے سپریم کورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرانے پر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے2006 میں جاوید ہاشمی کی ضمانت کی درخواست کو قبول نہیں کیا تھا۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی طرف سے سزا پانے کے بعد اپریل 2004 میں لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس کی آج تک ایک سماعت نہیں ہوئی۔

مخدوم جاوید ہاشمی کو تین سال دس ماہ قبل فوج پر تنقید کرنے کی پاداشت میں مجموعی طور پر تئیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن کسی ایک جرم میں ان کی زیادہ سے سزا سات سال تھی۔یہ تمام سزائیں بیک وقت چل رہی تھیں۔ فوج میں بغاوت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے سے پہلے جاوید ہاشمی کو نیب کے قانون کے تحت دو سال تک جیل میں رکھا گیا تھا۔

ضمانت کے بعد مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کی کوٹ لکھپت جیل لاہور سے رہائی کے لئے آج جمعہ کے باعث ضمانتی مچلکے داخل نہ کرائے جا سکے ، اب یہ مچلکے کل داخل کرائیں جائیں گے۔ اور امید ہے کل یعنی بروز ہفتہ 4 اگست سہ پہر تک مخدوم جاوید ہاشمی رہا ہو جائیں گے ۔

پاکستان میں کردار و معیار کا تنزل

دین اسلام ہو یا کوئی اور مذہب یا انسان کا اپنا بنایا ہوا قانون ۔ قتل ہر حال میں جُرم ہے اور قتل کرنے والا اور قتل کا حُکم دینے والا دونوں قتل کے مُجرم ہوتے ہیں ۔ میں کسی دینی کتاب سے کوئی آیت نقل نہیں کروں گا کہ اب ایسے مسلمان پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ 1400 سال پرانا قانونِ شریعت آج کے سائنسی دور میں نہیں چل سکتا ۔ میں ماضی قریب کے صرف تین واقعات لکھوں گا ۔ یہ تینوں واقعات وردی والوں کے متعلق ہیں ۔

Air Force ہوائی فوج ۔

پاکستان بننے سے پہلے پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا ۔ اس زمانہ میں سیّد صبغت اللہ راشدی [موجودہ پیر پگاڑہ کے والد] نے سندھ کے لوگوں کو حُریت [آزادی] کا سبق سکھایا اور انہوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف مہم شروع کی ۔ انگریز حکومت نے انہیں غدار قرار دے کر علاقہ پر بمباری کا حُکم دیا ۔ ایک ہندوستانی پائلٹ آفیسر محمد اصغر خان کو حکم دیا گیا کہ اپنا طیارہ اُڑا لیجائے اور اُن پر بمباری کرے ۔ محمد اصغر خان طیارہ اُڑا کر لے گیا اور بغیر بمباری کئے واپس آ کر طیارہ زمین پر اُتار دیا ۔ حُکم عدولی پر محمد اصغر خان کو معطل کر دیا گیا اور اُسکا کورٹ مارشل ہوا جس میں اس نے کہا کہ مجھے باغی مَردوں [حُروں] کو مارنے کا حُکم دیا گیا تھا جب میں نے دیکھا کہ بمباری سے بہت سے بیگناہ بچے اور عورتیں بھی مر جائیں گے تو میں واپس آ گیا ۔ محمد اصغر خان کو بحال کر دیا گیا ۔ یہ شخص میرے شہر کے محلہ پٹھاناں کا باسی اور پاکستان کی ہوائی فوج کا مایہ ناز سربراہ ایئر مارشل محمد اصغر خان ہے ۔

Police پولیس ۔

ذولفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف 1977 عیسوی میں جب سیاسی تحریک عروج پر پہنچی تو سول نافرمانی کی صورت اختیار کر گئی جو قانون اور آئین دونوں کی خلاف ورزی تھی ۔ لاہور میں لوگ احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر گولی چلا دی ۔ شائد سات آدمی ہلاک ہوئے ۔ ان پولیس والوں کا سربراہ تھانیدار جب گھر پہنچا تو اسکے چچا اس کے گھر کے دروازے پر کئی گھنٹوں سے اس کی انتظار میں بیٹھے تھے ۔ اسے دیکھتے ہی اس پر برس پڑے “تو نے اپنے مرے ہوئے باپ کا بھی خیال نہ کیا ؟ تو ہمارے خاندان میں پیدا ہی نہ ہوتا یا پیدا ہوتے ہی مر گیا ہوتا ۔ تجھے اسلئے پولیس میں بھرتی کرایا تھا کہ تو اپنے بھائی بیٹوں کو مروانا شروع کر دے ۔ تو یہاں کیا کرنے آیا ہے ؟ جا دفع ہو جا ۔ یہ اب تیرا گھر نہیں ہے”۔ تھانیدار بپھرا ہوا واپس مُڑا اور سیدھا سپرننڈنٹ پولیس کے دفتر میں جا کر اپنا استعفٰے پیش کر دیا ۔ اس کے بعد لاہور پولیس نے مزید کاروائی کرنے سے انکار کر دیا ۔

Army برّی فوج ۔

پولیس کے انکار کے بعد لاہور میں فوج طلب کر لی گئی ۔ ایک دن قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جلوس انارکلی میں سے ہوتا ہوا لاہوری دروازہ کی طرف جا رہا تھا ۔ حُکمِ حاکم ہوا کہ جلوس لاہوری دروازہ تک نہ پہنچ پائے ۔ مسلح فوجی انارکلی کے سرے پر کھڑے کر دئیے گئے ۔ انہوں نے اپنے سے شائد 10 میٹر دور سڑک پر لکیر لگا کر بندوقیں تان لیں ۔ جب جلوس قریب آیا تو حُکم دیا گیا کہ جو شخص یہ لکیر عبور کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ جلوس رُک گیا ۔ چند منٹ بعد ایک شخص آنکھیں بند کئے بلند آواز میں کلمہ طیّبہ پڑھتا ہوا لکیر عبور کر گیا ۔ گولی چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ چند منٹ بعد ایک اور شخص اسی طرح آنکھیں بند کئے اور کلمہ پڑھتے ہوئے لکیر عبور کر گیا ۔ مگر گولی کی آواز نہ آئی ۔ اور اللہ اکبر کی فلک شگاف آواز گونجی ۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ فوجی بھائی بندوقوں کا رُخ زمین کی طرف کر کے ایک طرف ہوگئے تھے اور جلوس نعرے لگاتا ہوا لوہاری دروازہ کی طرف چل پڑا تھا ۔ کمپنی کمانڈر کی طلبی ہوئی تو اس نے اپنے بِلّے اور پیٹی اُتار کر کور کمانڈر کی میز پر یہ کہہ کر رکھ دی کہ میں اپنے بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے فوج میں بھرتی ہوا تھا نہ کہ انہیں مارنے کیلئے ۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اقبال نے استعفٰے دے دیا تھا ۔

مندرجے بالا واقعات کے بر عکس لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر گوليوں اور جلادينے والے گولوں کی بوچھاڑ کر کے سينکڑوں مسلمان جن کی اکثريت نابالغ طالبات تھيں سنگدلی سے ہلاک کر دیيے گئے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے وزراء ۔ وزیراعظم ۔ جرنیل ۔ خانہ کعبہ اور روضۂ رسول میں بار بار داخل ہونے پر فخر کرنے والے صدر اور آپريشن ميں حصہ لينے والے فوجی اور غير فوجی وہ کردار اور معیار نہیں رکھتے جو آج سے تین دہائیاں پہلے پاکستانیوں کا طُرّۂ امتیاز تھا ۔

علامہ اقبال کے دو شعر

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے ۔ ۔ ۔ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

قوم گر مسلم کی ۔ مذہب پر مقدّم ہوگئی ۔ ۔ ۔ اُڑ گیا دنیا سے تُو ۔ مانندِ خاکِ راہگذر

اہلِ کتاب سے شادی

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صَدَقَ اللہُ العَظِیم

ترجمہ ۔ تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی جاننے والا حکمت والا ہے

میں نہ تو عالِمِ دین ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن اللہ کے فضل ہے کہ جو بات میری سمجھ میں آتی ہے اس کو لکھنے سے پہلے میں حتٰی الوسع تحقیق کرنے کا عادی ہوں ۔ اصولِ فقہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن شریف سے رجوع کیا جائے ۔ جو چیز قرآن شریف میں نہ ملے اسے سنّت میں تلاش کیا جائے ۔ جب کوئی چیز قرآن اور سنّت میں نہ ملے تو اصحابہ مقربین میں تلاش کیا جائے ۔ اگر اصحابہ مقربین کے قول و فعل سے بھی وہ چیز نہ ملے تو پھر علماء دین کا اجماع کیا جائے ۔ جو حُکم قرآن شریف سے مل جائے اسے پھر کہیں اور ڈھونڈنے کی حاجت نہیں رہتی اور جو حُکم قرآن شریف میں واضح ہو اس پر کسی انسان کی رائے مقدم نہیں ہو سکتی ۔ اختلاف رائے انسان کا حق صرور ہے لیکن اختلاف کی بنیاد علم کا حصول ہو تو صحتمند بحث ہوتی ہے ورنہ فضول تکرار ۔ ملاحظہ ہو کہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے کیا فرمایا ہے ۔

سُورة ۔ 2 ۔ الْبَقَرَة ۔ آیة ۔ 221

وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ  َلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَـئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

ترجمہ ۔ اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی [آزاد] مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور [مسلمان عورتوں کا] مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ [کافر اور مشرک] دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اﷲ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں

سُورة ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَة ۔ آیة ۔ 5

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ ۔ آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ جنہیں کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، [مگر شرط] یہ کہ تم [انہیں] قیدِ نکاح میں لانے والے بنو نہ کہ اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص َحکامِ الٰہی پرایمان [لانے] سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا

مندرجہ بالا پہلی آیت کے مطابق مسلمان مردوں کا نکاح مشرک عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے ممنوع قرار دے دیا گیا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں ۔ دوسری آیت کے مطابق صرف مردوں کو اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں لیکن پہلی آیت والی شرط بہرصورت موجود رہے گی یعنی وہ مشرک نہ ہوں اور اگر تھیں تو نکاح سے قبل مسلمان ہو جائیں ۔

حدیث اور سُنّت کی اہمیت

مسلمان ہونے کا دعویدار ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ وہ صرف قرآن شریف کو مانتے ہیں اور حدیث کو نہیں ۔ ایسے لوگوں نے یا تو قرآن شریف پڑھا ہی نہیں یا صرف طوطے کی طرح پڑھا ہے ۔ سوائے اس مسلمان کے جو پاگل یا بیہوش ہو نماز کسی صورت میں معاف نہیں ۔ قرآن شریف میں نماز پڑھنے کا طریقہ ۔ ہر نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں اور کیا پڑھا جائے کہیں بھی درج نہیں ۔ اسی طرح روزے کیسے رکھے جائیں ۔ زکوٰۃ کیسے دی جائے اور حج کیسے کیا جائے ۔ اس سب کی بھی تفصیل قرآن شریف میں نہیں ہے ۔ یہ سب ہمیں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زبان اور اپنے عمل سے بتایا اور اسی کو علٰی الترتیب حدیث اور سنّت کہتے ہیں جو پہلے تو مسلمانوں کو یاد تھیں مگر ان کے بھول جانے یا بدل جانے کے خدشہ کی وجہ سے انہیں بہت احتیاط اور چھانٹ پھٹک کے بعد کتابی شکل دی گئی ۔

سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرنے کے متعلق آیات ۔

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اسکے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے ۔

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 59 ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسول کی اور اُن کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں ۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی ایک طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔

سورت 8 الانفال آیت 1 ۔ تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے ۔ خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو

سورت 8 الانفال آیت 20 ۔ اے ایمان والو ۔ خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے رُو گردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو

سورت 8 الانفال آیت 46 ۔ اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ خدا صبر کرنے والوں کی مددگار ہے
سورت 24 النّور آیت 52 ۔ اور جو شخص خدا اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں

سورت 33 الاحزاب آیت 71 ۔ وہ تمہارے سب اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بیشک بڑی مراد پائے گا

سورت 48 الفتح آیت 17 ۔ نہ تو اندھے پر گناہ ہے (کہ سفر جنگ سے) پیچھے رہ جائے اور نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ بیمار پر گناہ ہے اور جو شخص خدا اور اسکے پیغمبر کے فرمان پر چلے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور جو روگردانی کرے گا اسے بڑے دکھ کی سزا دے گا

سورت 49 الحُجرات آیت 14 ۔ اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ) یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے

سورت 58 مجادلہ آیت 13 ۔ کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور خدا نے تمہیں معاف کر دیا تو نماز پڑھتے اور زکٰوۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے پیغبر کی فرمانبرداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے ‏

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

کچھ سالوں سے ایک مہم زوروں پر تھی کہ پاکستان کو لادینی [Secular] ریاست ہونا چاہئیے ۔ پھر ثبوت کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی صرف ایک تقریر کو جواز بنانا شروع کیا گیا جس میں قائداعظم نے پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کوئی ہندو ۔ سکھ ۔ عیسائی نہیں ۔ حقیقت میں یہ اسلامی ریاست کے اصول کی ترویج تھی ۔ پھر بغیر کسی ثبوت کے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان تو بنایا ہی لادینی ریاست کے طور پر تھا ۔ قائداعظم کی سب تقاریر اور لوگوں کی امنگوں کا اظہار گویا سب جھوٹ تھا ۔ یہ بحث چلتی رہی ۔ دین سے آزادی چاہنے والے اپنی ہر قسم کی اہلیت بروئے کار لاتے رہے ۔ ملکی ذرائع ابلاغ کی اکثریت میں بھی دین بیزار مضامین کی بھرمار رہی ۔ مگر اس تصوّر کو خاص ستائش پھر بھی نہ ملی ۔ پھر ان لوگوں نے مولویوں کی طرف منہ موڑا اور ان کی تضحیک و تمسخر میں انسانیت کی حدیں پھلانگ گئے ۔ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی امریکہ غلامی کے زیرِ سایہ ہوتا رہا ۔

پھر فوج کشی مکمل ہونے کے بعد ابھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ سُلگ رہے تھے کہ وسط جولائی میں جیو ٹی وی پر ایک مباحثہ دکھایا گیا جس میں ایک علامہ نقوی صاحب تھے ۔ ایک بالکل بے ضرر قسم کے غالباً سُنّی مولوی تھے اور ایک جدید زمانہ کی خاتون ۔ سب سے پہلے علامہ نقوی صاحب کو موقع دیا گیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام میں ریاست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اس میں تو صرف نبوّت کی بات کی گئی ہے اور یہ بھی کہا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر اب تک کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی ۔ شائد ان کا مسلک اس لحاظ سے ٹھیک ہو کہ وہ کسی خلیفہ کو مانتے ہی نہیں ۔ دوسرے مولوی صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھ کر کہا کہ صرف اسی سے ریاست کا تصور مل جاتا ہے لیکن ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ محترمہ کی تقریر شروع ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اسی لئے قرآن میں ریاست کے امور کا کوئی ذکر نہیں ۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ صلح حدیبیہ کے مضمون کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھا گیا بلکہ وہ لکھا گیا جو انگریزی میں اَو گاڈ ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق اس سے بھی ثابت ہوا کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ محترمہ نے اپنی تُند و تیز آواز کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور کسی کو بولنے نہ دیا ۔

صلح حدیبیہ کے وقت اور حالات کا تدارک کیا جائے تو سمجھ میں آ جاتا ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے یا اللہ کیوں لکھا گیا لیکن محترمہ اتنی ترقی کر گئی تھیں کہ ان کو “یا اللہ” تو معلوم نہ تھا “او گاڈ” معلوم تھا ۔ بہرحال یہ اوائل اسلام کا واقعہ ہے اس وقت یا اللہ لکھنا بھی بڑی بات تھی کیونکہ مکہ کے کافر مسلمانوں کی کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہ تھے ۔ باقی لگتا ہے کہ محترمہ نے قرآن شریف کبھی پڑھا ہی نہیں کیونکہ قرآن شریف میں سارے ریاستی امور کی حدود مقرر کی گئی ہیں جو میں انشاء اللہ پھر کبھی تحریر کروں گا [میں حدود آرڈیننس کی بات نہیں کر رہا ۔ حد کی کی جمع حدود کی بات کر رہا ہوں]

پی ٹی وی اور جیو ٹی وی پر چُن چُن کر ایسے لوگ بُلائے جاتے ہیں کہ دین اسلام کی تضحیک کی جا سکے یا اسے صیہونی رنگ میں پیش کیا جا سکے یا ثابت کیا جا سکے چودہ سو سال پرانا دین آج کے ترقی یافتہ دور میں نہیں چل سکتا ۔ یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ کسی نے شائد ان کے متعلق ہی کہا تھا “ہو دوست تم جسکے ۔ دشمن اسکا آسماں کیوں ہو”۔

جولائی ہی میں ایک فلم “خدا کیلئے” بہت زیادہ اشتہاربازی کے بعد ریلیز کی گئی ۔ خیال رہے کہ کوئی فلم حکومت کی منظوری کے بغیر ریلیز نہیں ہو سکتی ۔ سُنا گیا ہے کہ اس فلم میں ایک مسلم عالم دکھایا گیا ہے جس سے دو فقرے کہلوائے گئے ہیں ۔

ایک ۔ اسلام میں مسلم لڑکی کو عیسائی لڑکے سے شادی کی اجازت ہے
دوسرا ۔ اسلام میں موسیقی کی ممانعت نہیں

جہاں تک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے سے شادی کا تعلق ہے تو اسکی سورةت ة 2 ۔ البقرہ ة ۔ آیت 221 میں صریح ممانعت کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ سورت 5 ۔ المآئد ہ  ۔ آیت  51 ۔ سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیات 84 اور 113 ۔ ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست بنانے ۔ غیر مسلموں کا جنازہ پڑھنے اور خواہ وہ رشتہ دار ہوں ان کیلئے دعائے مغفرت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ [آیات کا ترجمہ نیچے نقل کیا ہے]

جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو ہر وہ چیز جو یادِ الٰہی سے غافل کر دے اس کی قرآن شریف میں ممانعت کی گئی ہے ۔ موسیقی کے علاوہ تاش کھیلنا اور دیگر کئی عمل بھی ایسے ہیں جو یادِ الٰہی سے غافل کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق متعدد آیات ہیں ۔ عدنان صاحب جو کسی زمانہ میں موسیقی کے رَسیا تھے اور یہ فلم بنانے والے شعیب منصور کے مداح بھی انہوں نے اپنے روزنامچہ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔

اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف ایک احساس اُبھرتا ہے کہ ہمارے ملک پر پرویز مشرف کی حکومت بھی نہیں بلکہ صیہونیوں اور انتہاء پسند عیسائیوں کی حکومت ہے ۔

سور ت 2 ۔ البقرہ  ۔ آیت 221
اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے،

سورت نمبر ة 5 ۔ المآئدةہ ۔ آیت 51 ۔
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ ان میں سے ہو گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا

سورة ت نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 84
اور آپ کبھی بھی ان میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے

سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 113
نبی اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں