کسی نے مجھے بیوقوف کہا کسی نے پاگل

Flag-1عمار ضیاء خان صاحب کی ایک تحریر نے مجھے میرے ماضی کے کچھ واقعات یاد دِلا دیئے ۔

بچپن میں ہمارا معمول ہوتا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں مجھ سے بڑی میری بہن اور میں سارے گھر کی فرش سے چھت تک اچھی طرح صفائی کرتے ۔ جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں تھا ہم اسی طرح صفائی کر رہے تھے کہ مہمان آ گئے ۔ امی نے کہا “بوتلیں لے آؤ”۔ میں نے سر پر لپیٹا ہوا کپڑا کھولا اور بوتلیں لینے بھاگ پڑا ۔ راستہ میں دو لڑکے کھڑے تھے ۔ انہوں نے انگریزی میں کہا “کیسا بیوقوف لگ رہا ہے”۔ جب میں نے ان سے انگریزی میں کہا “آئیندہ خیال رکھیئے گا کیونکہ پاکستان میں انگریزی سمجھنے والے بہت ہیں”۔ تو انہیں پریشانی ہوئی ۔

اگر راستہ میں چھلکا یا پتھر پڑا ہو تو میں اُٹھا کر ایک طرف کر دیتا ہوں یا اگر قریب کوڑا کرکٹ کا ڈبہ ہو تو اس میں ڈال دیتا ہوں ۔ ایک راہداری پر پڑے کیلے کے چھِلکے میں نے اُٹھا کر قریبی ڈبے میں ڈالے ۔ دو خوش پوش نوجوان راہگیروں نے مجھے نفرت سے گھورتے ہوئے انگریزی میں کہا “کتنا گندھا ہے”۔ میں نے تیزی سے قریب جاتے ہوئے کہا “میں یا چھلکے پھینکنے والے”۔ یہ چھلکے انہوں نے پھینکے تھے۔

میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایم آئی ایس کا سربراہ تھا ۔ اپنی سرکاری کوٹھی میں ایک اتوار باڑ کٹوانے کیلئے آدمی بلائے مگر نہ آئے ۔ میں تھوڑے سے حصہ میں باڑ کاٹ رہا تھا تاکہ اپنے ملازم کو سمجھا دوں کہ ان سے باڑ کی اتنی اُونچائی رکھوانا ۔ اسی دوران ایک شخص کوٹھی کے پھاٹک پر آیا ۔ میں نے پوچھا کس سے ملنا ہے تو میرا نام لیا ۔ میں نے کام پوچھا تو کہنے لگا “آپ اپنی باڑ خود کاٹ رہے ہیں؟” میں نے جواب میں کہا “اس میں کیا ہرج ہے”۔ تو وہ واپس چلا گیا ۔ بعد میں مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ اس نے اُسے بھیجا تھا اور واپس جا کر اس نے کہا “جو اپنی کوٹھی کی باڑ نہیں کٹوا سکتا وہ میرا کام کیا کرے گا”۔

وسط 1966ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ابھی رائفل جی تھری کا پروجیکٹ پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ سے گذر کر باقاعدہ پیداواری مرحلہ میں گیا ہی تھا کہ مجھے قائم مقام ورکس منیجر بنا کر مشین گن پلاننگ ۔ ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ بعد میں ایک سینئر جنرل منیجر صاحب کو میرا افسر بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ میرا افسر بننے کے چند ماہ بعد ایک دن وہ صاحب میرے دفتر میں آئے اور کہا “آپ کو اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے”۔ میں خاموش رہا تو اُنہوں نے یہ جملہ تین بار دہرایا ۔ میں نے عرض کیا “سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق ہر افسر پر لازم ہے کہ وہ صرف مُلک [پاکستان] کا وفادار ہو اور اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو کوئی ایسا حُکم دے جو مُلک کے مفاد میں نہ ہو تو وہ ایسا حُکم نہ مانے” ۔ اس پر میرے افسر نے کہا ” تم اپنی بات کرو”۔ تو میں نے کہا “میں چونکہ مسلمان ہوں اسلئے سب سے پہلے اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں اس کے بعد میں اپنے پیارے مُلک پاکستان کا وفادار ہوں ۔ اسکے بعد میں اس ادارے [پاکستان آرڈننس فیکٹریز} کا وفادار ہوں کہ اس ادارے کو اللہ نے میرے رزق کا ذریعہ بنایا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اسی میں پوری طرح شامل ہیں لیکن اگر نہیں ہیں تو میں قانون کا تابع دار ہوتے ہوئے آپ سے معذرت خواہ ہوں”۔ وہ صاحب اُس دن کے بعد میرے ساتھ ناراض ہی رہے گو وہ سارا کام مجھ ہی سے کرواتے رہے مع انکے اپنے دفتر کی ڈاک کے ۔ [تتمہ ۔ یہ قوائد و ضوابط ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے نافذ کردہ ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کی نذر ہوگے اور نااہلی کا فروغ شروع ہوا]

ملازمت کے دوران جو میرے قریبی ساتھی تھے وہ مجھے کہا کرتے تھے “تم میں ترقی کی نشانیاں نہیں ہیں” ۔ وجہ یہ تھی کہ میرے ماتحتوں میں جو دیانتداری اور محنت سے کام کرتے تھے میں ان کی سالانہ رپورٹس خراب نہیں ہونے دیتا تھا جس کے نتیجہ میں بعض اوقات میری اپنی رپورٹ گڑبڑ ہو جاتی تھی اور نہ میں اپنے سینئر افسر کو خوش کرنے کیلئے جھوٹ بولتا تھا ۔ میں حق کی خاطر کاغذی جنگ لڑتا رہتا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجھے بیوقوف اور کوئی پاگل کہتا تھا ۔

بھانڈا پھُوٹا بیچ چوراہے

شریف برادران اور حکومت کے مابین ایسی کوئی”ڈیل“موجود نہیں جس کے تحت شریف برادران پر کسی معینہ مدت تک سیاست میں حصہ لینے پرپابندی، ان کی واپسی کے ٹائم فریم یا انکو جلاوطن کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ایک چار صفحات کی دستاویز جس پر نوازشریف، شہباز شریف، عباس شریف اورحسین نواز شریف نے دستخط کئے تھے کے سوا ایسا کوئی کاغذ موجود نہیں جس پرشریف برادران نے دستخط کئے ہوں اور جس میں دونوں فریقوں کے مابین کسی معاہدے کی عکاسی ہوتی ہو، لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سعودی حکومت نے ایک ثالث سعیدالحریری، جو رفیق الحریری کے بھائی ہیں، کے توسط سے شریف برادران کو راضی کیا کہ وہ دستاویز پر دستخط کر دیں۔ تاہم اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس سلسلے میں جدّہ یا اسلام آباد کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہو۔ رفیق تارڑ جو جون 2001ء تک صدر تھے، سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ شریف خاندان کی جانب سے چارصفحات کی درخواست کے علاوہ حکومت کے پاس اورکوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ جدّہ اور اسلام آباد کے مابین کسی معاہدے پردستخط ہوئے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت کسی بیرونی ریاست سے معاہدے کیلئے ضروری ہے کہ صدر اس کی توثیق کرے اور انہوں نے ایسے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔

جب حکومتی ترجمان اور وزیراطلاعات محمدعلی درانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ان کے پاس اس سلسلے میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایک ممتاز وفاقی وزیر نے جو میڈیا میں ”ڈیل“ کا دفاع کرتے رہے ہیں، اس نمائندے کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے شریف خاندان اورحکومت اور اسلام آباد یاجدّہ کے مابین کوئی معاہدہ نہیں دیکھاحتیٰ کہ ان کوچار صفحات کی دستاویز کے مندرجات کا بھی کوئی علم نہیں۔

صدر کے نام تحریرکی گئی متذکرہ چارصفحات کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نمبر ایک (نوازشریف) پر چار دیگر افراد کے ہمراہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 109۔ 120 بی۔ 121 اے۔ 123۔ 212۔ 324۔ 365۔ 402 بی اور انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6/7 کے تحت انسدادِ دہشتگردی عدالت نمبر 1 ۔ کراچی میں مقدمہ چلایا گیا تھا، درخواست گزار نمبر ایک کے شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا لیکن درخواست گزار نمبر ایک کو دفعہ 402 بی کے تحت عمرقید بامشقت۔ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور تمام جائیداد کی ضبطی کی سزا دی گئی ۔ انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 7 کے تحت عمرقید بامشقت۔ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطی جس کی مالیت 50 کروڑ روپیہ تک ہو کی سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ نیشنل اکاؤنٹی بلیٹی بیورو نے اٹک قلعہ میں 14 سال قید با مشقت۔ 2 کروڑ روپے جرمانہ اور حکومت پاکستان کے کسی بھی سطح کے عہدے کیلئے 21 سال تک منتخب ہونے یا کام کرنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا، اوریہ کہ اب درخواست گزار نمبر ایک کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ لہٰذا درخواست گزار نمبر ایک کی مندرجہ بالا گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اوریہ کہ درخواست گزار کے خلاف ماضی کے کسی مبینہ طرز عمل پر عدالتی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

اس درخواست پر 9 دسمبر 2000ء کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ نے چیف ایگزیکٹو ۔ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے صدرکو ایک سفارش تحریرکی جس کا عنوان ’گرانٹ آف پارڈن‘ تھا اور صدر نے اس پر10 دسمبر 2000ء کو ’منظور‘ اور ‘سزائیں معاف کی جاتی ہیں’ تحریرکرنے کے بعد اپنے دستخط کئے۔ اور اُسی رات شریف خاندان سعودی عرب پرواز کرگیا۔

بشکریہ ۔ جنگ اور دی نیوز

تبصرہ

مجھے 12 اکتوبر 1999 کو شام 5:55 بجے جی 9 مرکز میں ایک شخص ملا جو پریشان لگ رہا تھا ۔ اُس نے بتایا “میں وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے آ رہا ہوں ۔ فوج وزیرِ اعظم ہاؤس کے اندر داخل ہو گئی ہے ۔ اللہ خیر کرے نواز شریف کی”۔ اُسے وزیرِاعظم ہاؤس سے وہاں پہنچنے اور کار پارک کرنے میں کم از کم 10 منٹ لگے ہوں گے ۔ نواز شریف ۔ شہباز شریف ۔ اُن کے قریبی ساتھیوں اور اسی دن بنائے گئے نئے چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرنے کے بعد شام 7 بجے پاکستان ریڈیو ۔ پی ٹی وی ۔ پی ٹی سی ایل کے ٹیلیفون اور سارے موبائل فون بند کر دئیے گئے اور اس کے بعد بجلی بھی بند کردی گئی تھی [کم از کم اسلام آباد اور راولپنڈی میں] ۔

جنرل پرویز مشرف جس ہوائی جہاز میں سری لنکا سے واپس آ رہا تھا وہ پاکستان کی فضا میں 7:55 پر داخل ہوا ۔ اور کراچی کی ایئرپورٹ کے اُوپر 8:15 پر پہنچا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کے ہوائی جہاز کو اُترنے سے نواز شریف یا اُس کے کسی آدمی نے نہیں روکا تھا کیونکہ وہ اور شہباز شریف 6:30 بجے گرفتار ہو چکے تھے اور 7 بجے تک پورے پاکستان پر فوج کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا ۔ چنانچہ متذکرہ بالا مقدمے اور ان کے نتیجہ میں دی جانے والی سزائیں سو فیصد غلط تھیں ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بغاوت کر کے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کیا اور اس دوران ملک سے باہر اسلئے چلا گیا تھا کہ اگر بغاوت ناکام ہو گئی تو وہ پاکستان واپس نہیں آئے گا

جب جاگ اُٹھے گا دیوانہ

طالبِ علم تو میں اب بھی ہوں لیکن باقاعدہ طالب علمی کے زمانہ میں ۔ ہپناٹزم کی کتابیں پڑیں اور ماہرینِ فن سے استفادہ بھی کیا ۔ ہوا یوں کہ سکول کے زمانہ میں معمول بنا مگر عامل مجھے سُلانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور اُس نے مجھے بعد میں ملنے کا کہا ۔ جب میں اُسے ملا تو اُسں نے کہا “تمہاری قوتِ ارادی بہت مضبوط ہے ۔ تم دوسرے کے زیرِ اثر آنے کی بجائے اپنی عقل سے فیصلہ کرتے ہو”۔ دراصل میں ٹھہرا “جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں” میں یقین رکھنے والا ۔ پھر میرے سوالات کے جواب میں اُنہوں نے بتایا “کچھ ایسے عمل ہوتے ہیں جو کسی کو بہت عزیز ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی عمل کے خلاف مطالبہ کیا جائے تو معمول پر ہپناٹزم کا اثر ایکدم ختم ہو جاتا ہے”۔ مثال یہ دی کہ اگر ایک آدمی ننگا ہونا بہت بُرا سمجھتا ہے ۔ اُسے ہپناٹئز کر کے سُلا دیا جائے اور شلوار یا پتلون اُتارنے کا کہا جائے تو وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو جائے گا”۔

لال مسجد ۔ جامعہ حفصہ اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی طرف سے ناجائز قتلِ عام کے نتیجہ میں لگتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کا بھی ہپناٹزم اُترنے لگا ہے ۔ کچھ حکومتی اہلکار پہلے اسمبلی سے باہر بول چکے ہیں اور اب ملاحظہ ہو اسمبلی کے اندر کی تازہ کاروائی ۔

خبر ۔ حکومتی رکن قومی اسمبلی اور دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری میجر [ریٹائرڈ] تنویر حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں مقیم چینی باشندوں کے قتل میں امریکا اور بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ تنویر حسین نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اختیارکی گئی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور امریکا کے ساتھ یہ جھوٹا ”معاشقہ“ ختم کیا جائے اور ایسی امداد جس سے ہم اپنی نظروں سے گر جائیں تھوک دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ساتھ برسر پیکار طالبان کی ہمارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ امریکہ کے دشمن ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی باشندوں کو کوئی پاکستانی نہیں مار سکتا۔ حکومتی رکن تنویر حسین سیّد نے مزید کہاکہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھارت اب امریکا کے ساتھ گٹھ جوڑ کررہا ہے تو ہمیں بھی جہادیوں کو کھُلی چھوٹ دینی چاہئے اور امریکا کو سبق سکھانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان ایران، چین اور روس سے روابط بڑھائے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے لہٰذا اس کی پالیسی کا منبع قرآن کو ہونا چاہئے اور وزیرستان سے لے کر کشمیر تک ایک ہی آواز ہے اور وقت کی بھی یہی آواز ہے ”الجہاد، الجہاد، الجہاد“

خبر بشکریہ جنگ

لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ ۔ چوتھی اور آخری قسط

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
آپریشن سے قبل بھی اور بعد میں بھی سرکار و حلیفان سرکار کی جانب سے بھانت بھانت کی وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، کہیں زمینوں پر قبضے کی بات ہے تو کہیں شریعت کے ازخود نفاذ کی بات یا پھر اندر اسلحہ و غیرملکیوں کی موجودگی کی، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ سچ کیا ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ ان معصوموں کی اموات کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے اور جن پر عملدرآمد اسی پالیسی کا حصہ ہے جو آج اقوام مغرب نے اسلام و مسلمان دشمنی کے تناظر میں ہر سمت جاری کر رکھی ہے۔ امریکا بہادر نے عراق پر ہاتھ ڈالنے کے لئے آخر یہی تو جواز تراشا تھا کہ وہاں بڑی مقدار میں کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک بڑی تباہی و بربادی کے بعد وہاں سے کیا برآمد کیا؟ یہ صرف مخالفین کو دبانے اور تباہ و برباد کر دینے کے ہتھکنڈے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ افسوس تو ان علماء پر بھی ہے جو اگر چاہتے تو شاید یہ نوبت نہ آنے پاتی لیکن آج اس خون ناحق پر بھی سیاست کی بساط بچھا لی گئی ہے، کہیں جوڈیشنل انکوائری کی بات ہو رہی ہے تو کہیں مذمت۔ اسلام نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں سے عمل کا مطالبہ کیا ہے اور اس خصوصی معاملے میں عمل وہی قبول تھا جس سے ان کی جانیں بچ سکتیں اگر یہ علماء اور یہاں کے مسلمان یہ نہیں کرسکے تو ہزار مذمتیں کریں، ہزار انکوائریوں کا مطالبہ کریں انہیں بھی اس خون ناحق کا حساب دینا ہوگا۔ بشری زندگی کا ہر موضوع اور ہر پہلو اسلام کی گرفت میں ہے اور سیاست و سیادت کا ایک واضح و نمایاں خاکہ بھی اس نے پیش کیا ہے۔

ان واضح و بیّن احکامات کی موجودگی میں کسی کج بحثی کی گنجائش نہیں اور نہ میں اس حوالے سے کسی لمبی بحث میں الجھنا چاہتا ہوں، وہ لوگ جو لال مسجد والوں کے مطالبات، نفاذ شریعت کورٹ کی آڑ میں غلط قرار دیتے ہیں اور اپنے مباحثوں میں یہ فرماتے ہیں کہ کسی فرد یا ٹولے کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جب چاہے ایسے مطالبات لے کر اٹھ کھڑا ہو اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرے انہیں دلوں میں خوف پیدا کرنا چاہئے اور اعمال میں اصلاح کی فکر بھی کیونکہ ان کا یہ ارشاد سراسر اسلامی سیاست و شریعت کے خلاف ہے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلامی تاریخ لاتعداد ایسی نظیریں پیش کرتی ہے جہاں فرد سے لے کر افراد تک اور افراد سے لے کر گروہوں تک نے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے لئے حاکموں، جابروں اور آمروں سے ٹکر بھی لی، خود واقعہ کربلا سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بہتّر افراد کے ٹولے نے محض شریعت کی سربلندی کے لئے بدترین آمر سے ٹکر لی اور خود تو دنیوی اعتبار سے ختم ہوگئے لیکن اپنی سنت پر چلنے کا ایک واضح اصول چھوڑ گئے۔ حکومت کی رِٹ کا فلسفہ گھڑنے والے اور اس کے خلاف ایسی آوازوں کو ناپسند کرنے والے کیا واقعہ کربلا کو بھی خاکم بدہن ایسا ہی کوئی واقعہ قرار دیں گے؟

سچ صرف ایک ہے کہ کھوٹ سارا ہمارے اپنے دلوں میں ہے، ہم نفس کے غلام، بے حمیّت اور ایمانی حوالوں سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں دشمنان اسلام اسلامی عقائد کے خلاف اپنی گندی زبانیں استعمال کر رہے ہیں، پیغمبر اسلام پر ہرزہ سرائی ہو رہی ہے، کفر و الحاد پرست انہیں زر و جواہر میں تول رہے ہیں جو ایسے رذیل و قابل گرفت کام انجام دے رہے ہیں اور ہم صرف زبانی کلامی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اب تو لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے اندوہناک سانحے نے ہمارے ایمان کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ہمیں اپنی ہی نظروں میں شرمندہ و نیچ ٹھہرا ڈالا ہے اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ دعویٰ ایمانی کے تناظر میں ہم کتنے پانی میں ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس کمرشل دور میں جبکہ لوگ محض دنیوی کامیابیوں اور فراوانی دولت کی خاطر تعلیم کے مختلف میدان اپنے بچوں کے لئے منتخب کر رہے ہیں ان بچوں سے یہ بدترین انتقام کیا معنی رکھتا ہے جو دین کی محبت میں ان مدرسوں کا رخ کر رہے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ سودا دنیوی کامیابی کا نہیں بلکہ آخری کامیابی و سرفرازی کا ہے۔ کاش کہ طوق غلامی گردنوں سے اتار کر حکام وقت یہ سوچ سکیں کہ وہ کتنے بدترین خساروں کا سودا کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں

تحریر ۔ شیخ محمد علی ۔ یہ مضمون دو قسطوں میں تھا جو میں نے قارئین کی سہولت کیلئے چار اقساط میں لکھا ۔ اصل مضمون کی پہلی قسط یہاں کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں اور دوسری قسط یہاں پر کلک کر کے

لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ ۔ تیسری قسط

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
اس مملکت خداداد پاکستان میں اگر لوگ شریعت کو پسند نہیں کرتے اور خواہشات نفس کی پیروی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے لیکن انہیں کیوں سزائیں دی جا رہی ہیں جو ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ وہ شخص جو ایمان کا دعویدار ہے یاد رکھئے وہ کمزور سے کمزور حیثیت میں بھی منکرات کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرے گا اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر سمجھ لیجئے کہ ایمان کا معاملہ گڑبڑ ہے اور دال میں کچھ کالا ہے۔ صحیحین کی اس حدیث کو ملاحظہ فرمایئے جس میں اسی طرف واضح اشارہ موجود ہے، ارشاد ہے:

”تم میں سے جو شخص کوئی بدی دیکھے، اس کو ہاتھ سے (نیکی سے) بدل دے، اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

آج لمحہ فکریہ بحیثیت مجموعی تمام امت مسلمہ کے تناظر میں اور بالخصوص ہم پاکستانی مسلمانوں کے حوالے سے یہی ہے کہ اگر اسی فارمولے کو سامنے رکھ کر جو مندرجہ بالا حدیث میں پیش کیا گیا ہے اہل ایمان الگ کئے جائیں تو شاید چند ہی افراد اپنا شمار کسی ایک درجے میں کرا سکیں گے باقی سب ہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہوگا اور وجہ وہی ہے جس کا مشاہدہ کھلی آنکھوں سے بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ شعر بھی اس کی خوب ترجمانی کر رہا ہے

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا ۔ ۔ ۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

یہ ہیں وہ تقاضے جو اسلام ہر مسلمان سے کرتا ہے اب اس صورتحال میں میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور اس بات کے دعویدار بھی کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور یہاں شریعت قائم ہونی چاہئے کیسے اس بدترین ظلم میں ایک حصہ دار بن بیٹھے اور کیسے انہوں نے حقائق و واقعات کو یکسر فراموش کردیا۔ سچ پوچھئے تو شریعت کا نام لینے والے یا بظاہر اس کا مطالبہ کرنے والے سب شریعت سے خوفزدہ ہیں اور اسے پسند نہیں کرتے کیونکہ بہرحال شریعت کے تمام مطالبات و تقاضے وہ ہیں جو انہیں مرغوباتِ نفس سے دور کردیں گے اور جبراً انہیں ان تمام باتوں سے اجتناب کرنا پڑے گا جن کے لئے یہ بے چین و مضطرب رہتے ہیں۔ عوام الناس کی سطح پر یہ ایک عمومی خیال اپنی جگہ موجود ہے کہ شریعت کا مطالبہ کرنے والے علماء کبھی نفاذ شریعت کے لئے کچھ نہیں کرسکتے اس لئے کہ عملاً یہ کچھ کرنے کے اہل ہی نہیں سو کبھی کسی نے ایسے کسی مطالبے پر نہ کان دھرا اور نہ ایسے مطالبات کرنے والوں سے خوفزدہ ہوئے۔ یہ خوف تو ایسے گروہوں نے پیدا کیا جن کے طور طریقوں سے نفاذ شریعت کے امکانات ہویدا ہونے لگے تھے یا کم از کم یہ اندیشے جنم لینے لگے تھے کہ اگر واقعی کبھی نفاذ شریعت ممکن ہو رہی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سُود کا لین دین، یہ فحاشی، یہ بدقماشیاں، یہ قحبہ گری اور آنکھوں کے یہ مزے جو ہمہ وقت مختلف پہلوؤں سے میسر ہیں کیسے مہیا و دستیاب ہوں گے؟ سو ایک بڑے جتھے نے یکسر اس گروہ کی آواز کو مسترد کردیا اور حکومت کی رِٹ ملکی قوانین اور حکمرانوں سے بغاوت کا نام لے کر حلیفانِ حکومت میں شامل ہوگئے۔

اختلاف کرنا ایک مستحب عمل ہے اور اس کی پوری گنجائش بعض معاملات میں موجود ہے اگر سرکاری و عوامی سطح پر اس گروہ کے مطالبات شریعت پر اختلاف تھا یا کچھ ابہام تھا تو پھر اس کے اظہار کا طریقہ بھی معروف و مستحب اور جائز ہونا چاہئے تھا اور وہ یہ کہ اس پر جید دینی حلقوں کے حوالے سے بحث و مباحثے ہوتے اور اسی پلیٹ فارم کی سطح پر گفتگو کے ذریعہ کسی منطقی انجام تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی۔ حکومت کا تو دعویٰ یہ ہے کہ اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حقیقت کیا ہے یہ ہم آپ خوب جانتے ہیں۔ جو علماء اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ ایسی مساعی کا حصہ بنے تھے وہ بھی خوب جانتے تھے کہ ان کا کردار حکومتی نکات پر اہل مسجد و مدرسہ کو قائل و آمادہ کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ مسائل کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حل ہوتے ہیں اگر ایسا بھی ہو جاتا تو شاید خون ناحق سے مسجد و مدرسہ کی زمین سرخ نہ ہوتی حالانکہ علماء خوب جانتے ہیں کہ شریعت کے معاملے میں کچھ لو اور کچھ دو والا اصول درست نہیں ہے۔ یہ تو سراسر ظلم و ناانصافی ہے کہ جو بات طبعیت کو گوارہ نہ ہو قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں تک درست ہے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور وہ بھی ایسے تشدد کا جس سے قتال وابستہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ ۔ دوسری قسط

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
حکومت نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ ریاست کی رٹ، قانون کی بالادستی اور حاکموں سے بغاوت کا معاملہ تھا اور حلیفان حکومت نے بھی جن میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں اسی اصول پر اتفاق کر لیا اور اتنے بڑے سانحے و ظلم کے لئے محض اسی کو وجہ بنا ڈالا اور یقیناً علماء و مدارس تک بھی اس وحشت انگیز کارروائی کے ذریعہ یہ پیغام کامیابی سے پہنچایا گیا کہ دیکھ لو یہ ہے انجام ان کا جو زمین پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے یا سیکولر، اس پر بحث کر کے میں اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا کیونکہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن یہی کہنے والے عملاً اپنے نظریات و افکار سے اس کی نفی بھی کرتے ہیں۔ اب تو مغربی تعلیم کے زیر اثر وہ گروہ بھی پیدا ہو چلے ہیں جو اس کے سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں اور اس بات کے خواہاں کہ یہاں کا طرز زندگی وہی ہو رہے جو کسی سیکولر اسٹیٹ کا ہوتا ہے تاکہ انہیں شہوات کے بہتے ہوئے دریا میں بے لباس ہو کر نہانے کے مواقع میسر آسکیں۔ میں خود بہت گنہگار مسلمان ہوں لیکن میرا ایمان ہے کہ گناہ تسلیم کر لینا اور گناہ کو گناہ نہ تصور کرنا بالکل دو مختلف چیزیں ہیں۔ اول الذکر میں خلاصی و نجات کے پورے راستے موجود ہیں جبکہ ثانی الذکر میں نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

سچ صرف اسلام ہے اور بقا صرف اسلام میں ہی ہے۔ وہ لوگ جو حکومت کی رِٹ کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں اور اس کے اختیارات و قوانین کی بات کرتے ہیں یا حکمرانوں سے بغاوت کی انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ حقیقی صورتحال اس ملک میں کیا ہے جو اسلامی نہ سہی مسلم تو ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسلامی ریاست یا مملکت کیا ہوتی ہے، ایک اولی الامر یا حاکم کی تعریف اور اس کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہیں کم از کم یہ تو دیکھئے کہ آپ مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں، آپ سے اللہ کی ذات کیا مطالبہ کرتی ہے بالخصوص ان علماؤں سے جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث قرار دینے میں آگے ہیں۔ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا آپ کی ذمہ داری ہے لیکن نہیں بنانا چاہتے تو یہ آپ جانیں اور اللہ لیکن اگر کوئی خوفِ خدا رکھنے والا شخص یا گروہ حاکم وقت کو اس کے فرائض و ذمہ داریاں یاد دلائے اور اس بات پر زور دے کہ اسے کیا کرنا ہے تو یہ کون سا گناہ ہے؟ حاکم کی اطاعت واجب ہے اور اس کا حکم بھی دوٹوک اللہ نے دیا ہے لیکن ذرا یہ بھی دیکھئے کہ وہ کون سے حاکم ہوتے ہیں جن کی اطاعت فرض و واجب کے کھاتے میں ڈالی گئی ہے۔ اطاعت کا حکم ملاحظہ فرمایئے :

”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں۔“ (النساء:59) [نوٹ ۔ اس آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے ۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر یقین رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقۂ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے]

لیکن یہ صاحب امر ہوں گے کیسے جن کی اطاعت کو لازمی ٹھہرایا گیا ہے یہ بھی دیکھئے :

”یہ وہ مسلمان ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحب اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے، ادائے زکوٰة میں سرگرم رہیں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار خدا کے ہاتھ میں ہے۔“ (الحج:41)

سو تو یہ طے ہے کہ حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری مسلمان کے لئے ضروری ٹھہرائی گئی ہے تاکہ نظام زندگی مستحسن بنیادوں پر رواں رہے، ریاست میں اللہ کا قانون اور اس کا حکم نافذ ہو رہے، بدنظمی و عدم توازن پیدا نہ ہو، لاقانونیت جنم نہ لے سکے اور امن و سلامتی کا دور دورہ ہو لیکن یہ بھی یاد رکھئے کہ اول و آخر چیز اللہ کا حکم اور اس کی شریعت ہی ہے اور یہ سارا نظام اسی کے نفاذ کے لئے راہیں ہموار کرتا ہے اگر کوئی حاکم ان راہوں کی ہمواری کے آگے رکاوٹ بن رہا ہو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پس پشت ڈالے جا رہے ہوں تو پھر ان مسلمانوں کو جنہیں اس کی اطاعت کا پابند کیا گیا ہے انہیں اس سے بری الذمہ بھی ٹھہرایا گیا ہے اور اس کی وضاحت اللہ کے رسول ﷺ نے یوں کی ہے، آپ کا ارشاد ہے:

”مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، تاوقتکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہئے اور نہ ماننا چاہئے۔“ (بخاری و مسلم) [نوٹ ۔ اُوپر سورة النساء کا جو حصہ نوٹ کے تحت نقل کیا گیا ہے وہ یہی حکم دیتا ہے]

اب اس سے زیادہ جو سخت بات آپ نے ارشاد فرمائی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے جس کا اطلاق ہر مسلمان پر ہوتا ہے، آپ کا ارشاد ہے:

”تم میں ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور بعض کو منکر، تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔“ (مسلم)

لاتعداد احادیث ایسی ہیں جن میں حکمرانوں کے احکامات معصیت اور اعمال معصیت کی تشریحات و وضاحتیں موجود ہیں اور ان پر انفرادی و اجتماعی سطح پر آوازِ حق بلند کرنے کی تلقین کی گئی ہے یہاں تک کہ ایسے حاکموں کو ان کے منصب سے اتار دینے تک کے احکامات بھی موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہ سہی لیکن اگر یہ مسلمان ریاست بھی ہے تب بھی ایک مسلمان کے اس حق کو کوئی نہیں چھین سکتا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اسے دیا ہے اور جو محض ان دو مندرجہ بالا احادیث سے بھی واضح ہے۔ کوئی حکومت محض رِٹ، ہینڈ میڈ قوانین اور حکمرانوں سے بغاوت کی بات کر کے اپنے آپ کو احتساب سے نہیں بچا سکتی اور نہ ہی کسی ایسے حق سے کسی مسلمان فرد یا گروہ کو محروم کرسکتی ہے جو اس کی بنیادی دینی تربیت کا حصہ اور ایک اہم ذمہ داری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے معاملے میں جو کچھ بھی صورت حال گزشتہ کئی ماہ سے ہویدا ہو رہی تھی اس کی تفصیلات میں جانا یقیناً اس اعتبار سے غیر ضروری ہے کہ تقریباً ہر شخص اس کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ ہے۔ حکومتی سطح پر اس معاملے میں جو رویہ اپنایا گیا اور اس خصوصی تناظر میں پروپیگنڈے کے لئے جو ہتھیار استعمال کئے گئے بلاشبہ صاحب علم و ظرف اس سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سارے معاملے کا سب سے المناک، دلگیر اور خون کے آنسو رلا دینے والا پہلو وہ آپریشن ہے جس کا اختتام 10 جولائی 2007ء کو سینکڑوں ہلاکتوں اور خود مسجد کے تقدس کی پامالی کی صورت میں سامنے آیا، وہ اپنوں کے مقابل اپنے، وہی مٹھی بھر مسلمانوں کی جماعت کے آگے صف آرا فوج، وہی پھول جیسے معصوم بچے، وہی پانی و تراسیل کی بندش اور وہی مقتل میں اذانیں، اللہ اکبر! یہ سب کچھ اس مملکت خداداد پاکستان میں ہوا جسے بقول شخصے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کے آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی کی قسم بھی کھائی گئی تھی۔

اس ٹولے نے تو انتہا کردی جسے اپنے سیاستداں ہونے پر فخر ہے اور جو صرف جی حضوری کی روٹی کھا رہا ہے اور جس کے نزدیک کسی کی عزت، کسی کا دکھ اور کسی کی موت کوئی معنی نہیں رکھتی سوائے وزارت و نیابت کے مزے لوٹنے کے۔ ان لوگوں نے اس قیامت کے ڈھائے جانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور کسی مرحلے پر بھی یہ گمان تک پیدا نہ ہونے دیا کہ انہیں اس بدترین خون خرابے پر دکھ، پریشانی اور اذیت ہے۔ ان کے سپاٹ چہروں کے پیچھے دوسروں کے خوف کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا کہ کہیں مدرسہ و مسجد والوں سے ذرا سی ہمدردی بھی بھاری نہ پڑ جائے اور کرسی سے محرومی کے ساتھ ساتھ عتاب بھی ان کا مقدر بن جائے انہوں نے صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی نظروں میں اعتبار کی خاطر اور اپنی دنیوی راحتوں کی خاطر مسلمانوں کے خون کی اتنی بڑی ہولی کھیلی۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کا کتنا درد ہے یہ بات بھی آج اس مرحلے پر ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

اس واقعہ کا دوسرا افسوسناک پہلو خود ہمارے علماء کرام کا کردار ہے جنہوں نے خدا معلوم مصلحتاً یا کسی اور لالچ و خوف میں اپنے آپ کو اس سارے معاملے سے دور رکھا اور شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنے منہ کو چھپا کر یہ سمجھ لیا کہ شاید ان کا یہ عمل انہیں اپنے ساتھ ہونے والی کسی ایسی ہی زیادتی سے بچا لے گا اور یہ اپنے اس کردار کے باعث امان پا جائیں گے۔ اخبارات گواہ ہیں کہ ماضی میں ان کی طرف سے جو بھی کوششیں ہوئی تھیں ان کے پس پشت بھی صرف سرکار کا ہاتھ تھا جو اپنے موقف پر اہل مسجد و مدرسہ کو جھکانا چاہتی تھی۔ یہ اگر کسی مصلحانہ کردار کی کوشش کرتے اور حکومت و فریقین کو کسی ایک یا چند نکات پر اکٹھا کر لیتے تو یقیناً حرمت دین و مسجد قائم رکھنے میں ان کے کردار کو سراہا جاتا اور یہ بدترین سانحہ شاید رونما نہ ہوتا لیکن انہیں تو صرف حکومتی ایجنڈے پر اہل مسجد و مدرسہ کی تائید درکار تھی اور ساری ہی گفت و شنید اسی ایک مرکز کے گرد گھوم رہی تھی۔ انہیں خوف تھا کہ اگر انہوں نے حق و سچائی اور واقعات کے حقیقی پہلو کے حوالے سے کوئی کردار ادا کیا تو شاید حکومت کا عتاب ان پر بھی نہ آ گرے سو انہوں نے خاموشی سے کنارہ کشی میں عافیت جانی اور ایک محفوظ مستقبل کی امید میں پردہ سیمیں سے غائب ہوگئے۔ حالات تیزی کے ساتھ خراب ہونا شروع ہوگئے حتٰی کہ قیامت صغریٰ نازل ہو رہی تب کہیں جا کر ان علماء کا سویا ضمیر جاگا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ مذاکرات، مصالحتوں اور ثالثی کا بھی ایک وقت اور حالات ہوتے ہیں، جس وقت اہل مسجد و مدرسہ محبوس و مقید تھے، فائرنگ و گولہ باری کی ایک یلغار تھی، پانی، بجلی، گیس، خوراک اور دیگر رسیدیں کاٹی جا چکی تھیں، وزراء و سیاستدانوں نے اعتماد کی فضا کو الگ تار تار کر چھوڑا تھا اور طرح طرح کے حیلے انہیں جائے پناہ سے باہر نکالنے کی خاطر برتے جا رہے تھے آپ ہی بتایئے ان حالات میں مثبت مذاکرات پر کوئی پیش رفت کیسے و کیونکر ممکن تھی؟ ایسا ہر دعویٰ عبث و لغو تھا سو اس بدترین مرحلے پر علماء کا یہ مذاکرات کردار ماسوائے مُردے کو دوا پلانے کے کچھ نہ تھا۔ اپنے آپ کو اس سارے قضیے سے جدا و الگ تھلگ رکھنے والے اور اپنے مدارس کی فکر میں پریشان ہونے والوں کے لئے یقیناً یہ خبر کوئی نوید نہ لائی ہوگی کہ حکومت نے بجائے ان کی پیٹھ تھپتھپانے کے ان کے مدارس کی طرف بھی نگاہیں کرنے کا عندیہ دے ہی ڈالا۔

کاش کہ ریت میں منہ دینے کے بجائے حقائق کے ادراک پر توجہ دی جاتی اور ان حالات کو سمجھا جاتا جو آج سے نہیں 11 ستمبر 2001 سے ہویدا ہیں اور بالخصوص جس کا شکار پاکستان ہے۔ مغربی پالیسیوں اور ان کی تمام تر حکمت عملیوں کا مرکز مساجد و مدارس ہی ہیں کیونکہ یہاں سے وہ مسلمان پیدا ہوتے ہیں جن کے دلوں میں صرف اللہ کا خوف اور نبی ﷺ کی اطاعت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور یہی دونوں چیزیں اہل مغرب کی سراسیمگی و وحشت کا باعث ہیں۔

وہ علماء جو سیاسی بساط کا مہرہ ہیں ۔ بقول شخصے سیاست جن کا اوڑھنا بچھونا ہے انہوں نے تو بے حسی کی انتہا کردی اور اپنی سیاسی سرگرمیوں پر وقت کے اس اہم و نازک مسئلے کو تج دیا اور آل پارٹی کانفرنس کے لئے لندن جا بیٹھے۔ غضب خدا کا ۔ اللہ اور اس کے رسول کے نام لیوا موت و زندگی کی کشاکش میں مبتلا تھے، کسی بھی لمحے یہ قیامت صغریٰ برپا ہونے جا رہی تھی، سینکڑوں معصوم بچوں اور بچیوں کی زندگی کا سوال تھا، اک عالم کرب و بلا کا سا منظر تھا، ہر دل آنے والے لمحوں کے تصور سے ہی لرزاں تھا اور یہ حسب روایت اپنی بے حسی کا مظاہرہ فرما رہے تھے اور بازار سیاست میں کرسی اقتدار کے سودے کی فکر میں غلطاں تھے۔ اس موقع پر یہ کانفرنس اور بعدہ، اس کا جاری رہنا ازخود سیاست دانوں کے لئے بے حسی کا مظہر تھا، حیرت ہے کہ یہ واقعہ رونما بھی ہوگیا، آپریشن کے نام پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جانے لگی، ہر حساس دل پاکستانی مضطرب و بے چین دکھائی دینے لگا، لوگ ٹی وی کے آگے بیٹھے بہتے آنسوؤں میں تفصیلات جانتے رہے اور ان کی سیاست کا بازار بدترین بے حسی کے ساتھ گرم رہا۔ ذرا خیال فرمایئے خدانخواستہ ان میں سے اگر کسی کا اپنا بچہ یا بچی اس عذاب میں مبتلا ہوتی تو کیا تب بھی ان کے یہی مشاغل جاری رہتے۔ انہیں تو قوم کے دکھ و درد کا دعویٰ ہے یہ اس خونچکاں سانحے پر کیونکر بے حس ہو رہے یہی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

جہاں تک مولانا و مولانا نما کی بات ہے تو میں اس تناظر میں بہت سخت جملے لکھنے سے اپنے آپ کو باز رکھ رہا ہوں لیکن سچ صرف یہی ہے کہ یہ مسلمانوں کے بہی خواہ، ان کے ہمدرد اور مخلص نہیں، ان کے دل سخت ہو چکے ہیں جنہیں کسی کے دکھ، درد اور وحشتوں کا ادراک نہیں حالانکہ یہ اپنے کو اس نبی کا وارث قرار دیتے ہیں جس کی ریش مبارک کو صحابہ کرام نے دوسروں کے دکھوں پر تر ہوتے دیکھا ہے اور مسلسل دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]